Columns

دنیاکاتباہ ہوتا ایکو سسٹم اور معدومیت کا شکار جنگلی حیات

دنیاکاتباہ ہوتا ایکو سسٹم اور معدومیت کا شکار جنگلی حیات

نوید نقوی

میں سیاست کی بات کیوں کروں ؟ کیا میرے لیے سب اچھا ہے اور کیا میری آنے والی نسلوں کے لیے سب اچھا ہے کہ میں سیاست جیسے دقیق موضوع پر بات کر کے اپنا اور اپنے قارئین کا وقت ضائع کروں ؟ نہیں میرے لیے اور میری آنے والی نسلوں کے لیے سب اچھا نہیں ہے ، میرے اردگرد کا ماحول تیزی سے خراب ہو رہا ہے، گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں میرے وطن کے موسم شدید ہوتے جا رہے ہیں، میرے وطن میں جنگلات کاٹنے والا مافیا آزاد گھوم رہا ہے اور ایک نہر کا کنارہ ایسا نہیں بچا جہاں درخت صحیح سلامت ہوں۔

بے وقت مون سون اور بارشیں

میرے وطن میں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، ہم نے ترقی کے نام پر اپنا صدیوں پرانا نظام بگاڑ ڈالا ہے اور اس کی ایک جھلک مون سون کا قبل ازوقت آنا اور پاکستان میں سیلاب کی شدید ترین تباہ کاریاں ہیں جس کی وجہ سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے اور سینکڑوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔

ہنگامی بنیادوں پر فضائی آلودگی کے خاتمے کےلئے اقدامات کی ضرورت

ہم بحیثیت ایک ذمہ دار قوم اس سب کا ذمہ دار ترقی یافتہ دنیا کو قرار نہیں دے سکتے کیونکہ انہوں نے جو کیا یا وہ دنیا کے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے کے لیے جو کر رہے ہیں ان کے عوام ان کا جلد حساب لیں گے ، ہمیں خود کی فکر کرنی چاہیئے اور ہنگامی بنیادوں پر فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، ورنہ ہم ہر سال یوں ہی موسموں کی شدت اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔

ایکو سسٹم کی بحالی کے لیے پاکستان کی حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز خاص حکمت اور اس دنیا کی ضرورت کے لیے بنائی ہے لیکن جب ہم درختوں اور ان کی خوبیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے یہ عظیم نعمت پیدا کی ہے جس کے بغیر انسانی زندگی ہی کیا شائد کسی بھی جاندار کی زندگی ممکن نہ ہو۔

ایکو سسٹم کیا ہے ؟

ایکو سسٹم ایک قدرتی ماحولیاتی نظام حیاتیات اور ماحول کے درمیان تعامل کا نتیجہ ہے۔ایکو سسٹم کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔قدرتی ماحولیاتی نظام کی تعریف یہ ہے کہ فطرت میں پایا جانے والا ایک ماحولیاتی نظام جہاں حیاتیات آزادانہ طور پر اس ماحول کے دوسرے اجزاء کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔اس ماحولیاتی نظام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک خود کفیل نظام ہے۔ مثال کے طور پر ایک جنگل میں سبزی خور اور گوشت خور دونوں ہوتے ہیں.تمام جاندار جیسے پودے، جانور، مائکروجنزم اور انسان ایک ایسے علاقے میں غیر جاندار جسمانی ماحول کے ساتھ تعامل کرتے ہیں جسے ماحولیاتی نظام کہا جاتا ہے۔ایک ماحولیاتی نظام جو حیاتیات اور ماحول کے مابین تعامل کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ قدرتی ماحولیاتی نظام ہے۔ ماحولیاتی نظام کی آسان الفاظ میں تعریف کریں تو ایک جغرافیائی علاقہ جہاں پودے، جانور اور دیگر حیاتیات موسم اور زمین کی تزئین کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک بلبلہ بنانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ ماحولیاتی نظام حیاتیاتی یا زندہ، حصوں کے ساتھ ساتھ ابیوٹک عوامل، یا غیر زندہ حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں،ابیوٹک عوامل میں چٹانیں، درجہ حرارت، اور نمی شامل ہیں۔

کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی خطرے کی گھنٹی

میں آپ کو یہاں صرف ایک ایسی مخلوق کی مثال دیتا ہوں جس کو ہم سب حقیر سمجھتے ہیں لیکن یہ پیاری ، معصوم مخلوق ہمیں کتنا نفع دے رہی ہے آپ حیران رہ جائیں گے بھنبھناتے ہوئے کیڑے مکوڑے جب کاٹتے ہیں یا کھانے میں گر جاتے ہیں تو یقیناً آپ کو غصہ آتا ہو گا ہم ہوں یا ہمارے بچے پہلی فرصت میں مار دیتے ہیں لیکن انھیں مارنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

کیڑے مکوڑوں کا ایکو سسٹم اور خوراک کی پیداوار میں کردار

یہ کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔ذرا سوچیے اگر ہمارے پاس فضلے کے خاتمے کے لیے کیڑے مکوڑے نہ ہوں، تو ماحول کتنا ناخوشگوار ہو گا۔ حشرات الارض کے بغیر ہم فضلے اور مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے اور بے بسی سے اپنی موت کا انتظار کریں گے۔کیڑے مکوڑے پرندوں، چمگادڑوں اور دودھ پلانے والے چھوٹے جانوروں کو بھی خوراک مہیا کرتے ہیں۔

دنیا کی 60 فیصد حیوانی حیات کا دارومدار کس پر ؟

دنیا میں تقریباً 60 فیصد جانوروں کی زندگیوں کا دارومدار کیڑے مکوڑوں پر ہے اس لیے پرندوں، چمگادڑوں، مینڈکوں اور تازہ پانی کی مچھلیوں کی متعدد اقسام غائب ہو رہی ہیں۔دوسرے جانداروں کے لیے خوراک کا ایک قیمتی ذریعہ اور ایکو سسٹم کے لیے فائدہ مند ہونے کے علاوہ کیڑے مکوڑے ایک اور اہم کام بھی انجام دیتے ہیں جو غذا پیدا کرنے میں بہت اہم ہے۔ یہ کام ہے پولینیشن۔ پھولوں والے زیادہ تر پودوں اور ہماری فصلوں کے 75 فیصد پودوں کے لیے کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہونے والی پولینیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

پولینیشن کا عمل کیڑے مکوڑوں کی مرہون منت

وہ عمل ہے جس میں کیڑے مکوڑوں کے ذریعے پودوں کے بیج ایک پھول سے دوسرے پھول تک پہنچتے ہیں اور نئے پھول وجود میں آتے ہیں۔لیکن اِس سب کے باوجود ہم کیڑے مکوڑوں کی اہمیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ ہمارے صحافیوں ، اساتذہ کو چاہیئے کہ ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

جنگلی پھولوں کی افزائش اور تتلیاں

ہمیں اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ کئی ممالک میں شہد کی جنگلی مکھیوں سمیت کئی اقسام کے کیڑوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔کیڑے مکوڑوں کی کئی مشہور اقسام جیسے مونارک تتلیوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ یہ تتلیاں جنگلی پھولوں کی افزائش کے لیے ضروری ہیں۔لیکن ہم اِس مسئلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور خطرہ یہ ہے کہ کہیں زیادہ دیر نہ ہو جائے۔ امریکہ، روس، چین ، انڈیا، یورپی یونین، ترکی ، برازیل، آسٹریلیا ، جاپان ، کینیڈا، ایران ، انڈونیشیا ، سعودی عرب جیسے بڑے اور طاقتور ممالک کچھ کریں یا نہ کریں ہمیں اپنے ملک کو ایک سر سبز ، ماحول دوست ، فضائی آلودگی سے پاک بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیئے۔

انسان دوست بے زبان مخلوقات معدومی کا شکار

ایک تحقیق کے مطابق کیڑے مکوڑے انسانوں کو پولینیشن جیسی مفت سروس فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسانوں کو 450 ارب ڈالرز کا فائدہ ہوتا ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی دنیا اتنی بڑی ہے کہ فی الحال ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ امریکہ کے سمتھسونیئن انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا بھر کے کیڑے مکوڑوں کا مجموعی وزن انسانوں کے مجموعی وزن سے 17 گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس وقت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہ سب انسان دوست بے زبان مخلوقات معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔

ایک ہوش ربا رپوٹ

فروری 2019 میں بایولوجیکل کنزرویشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کافی اندوہناک منظر کشی کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی، برطانیہ اور پورٹو ریکو میں کیڑے مکوڑوں کی تعداد ہر سال دو عشاریہ پانچ فیصد کم ہو رہی ہے۔ اِن تین ممالک میں گزشتہ 30 برسوں سے کیڑے مکوڑوں کی تعداد کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ایسے علاقوں میں جہاں تحقیق کی جا رہی ہے وہاں کیڑوں کی تقریباً 41 فیصد اقسام کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں 75 فیصد کمی

سنہ 2017 میں ہونے والی ایک دوسری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جرمنی میں گزشتہ 30 برسوں میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد میں 75 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ کمی اُن 60 علاقوں میں دیکھنے میں آئی جہاں کیڑوں پر تحقیق کی جا رہی تھی۔کیریبین جزیرے پورٹو ریکو میں ایک امریکی ریسرچر نے دریافت کیا کہ وہاں گزشتہ چالیس برسوں میں کیڑوں کی تعداد میں 98 فیصد کمی آئی ہے۔ تحقیق کے مطابق ماس ایکسٹنکشن یعنی وسیع پیمانے پر جانداروں کی معدومیت ہر دس کروڑ سال کے بعد ہوتی ہے، تاہم اس کے بارے میں صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔

گزشتہ نصف صدی میں 70 فیصد جنگلی حیات معدوم

یہاں ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کی 14اکتوبر 2022 کی ایک دل دہلا دینے والی رپورٹ بھی آپ سے شیئر کرتا چلوں تاکہ جن کی آنکھیں بند ہیں وہ کھل جائیں ، رپورٹ کے مطابق 5230 چرند پرند اور آبی نسلوں سے تعلق رکھنے والے 32000 ذی روحوں کی مسلسل نگرانی سے یہ بھیانک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں یعنی (1970 سے 2018 ) لگ بھگ 70 فیصد جنگلی حیات معدوم ہو چکی ہے۔ اگر دنیا کے مختلف براعظموں پر تقسیم کریں تو لاطینی امریکہ اور کیریبین کے خطے میں 94 فیصد جنگلی حیات آخری سانسیں لے رہی ہے، افریقہ کی 66 فیصد اور ایشیا کی 55 فیصد جنگلی حیات بقا کے آخری پائدان تک پہنچ چکی ہے اس طرح دنیا کے پھیپھڑے سمجھے جانے والے ایمیزون جنگلات کی بھی ابتر صورتحال ہے۔

تباہ ہوتا ایکو سسٹم بچانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟

یہ انسان دوست بے زبان کیڑے مکوڑے اور چرند پرند تیزی سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ یہ جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں بڑے پیمانے پر کاشتکاری کو اِن کی تعداد میں کمی کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہےاِس کے علاوہ کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور عالمی درجۂ حرارت جیسی وجوہات بھی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہی ہیں تیزی سے درختوں کا کاٹا جانا بھی ایک اہم وجہ ہےہم ایکو سسٹم کو بچانے کے لیے اگر کچھ اقدامات کر لیں تو شاید بہتری ہو سکتی ہے ایسے علاقے بحال کیے جائیں جہاں دور دور تک درخت، پودے اور پھول ہوں، بازاروں سے خطرناک قسم کی کیڑے مار ادویات ختم کر دی جائیں اور کاربن میں کمی کرنے والی پالسیوں پر عمل درآمد جیسے اقدامات سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ انفرادی طور پر اگر لوگ آرگینک خوراک کی طرف مائل ہو جائیں تو اِس سے بھی کیڑے مکوڑوں کی قسمت بدلنے میں مدد ملے گی۔اِس طرح کاشتکاروں کو اپنے کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کم استعمال کرنے کی ترغیب ملے گی اور ماحول میں ان زہریلی ادویات کا اثر کم ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیئے:

دنیا کا سب سے زیادہ صفائی پسند ملک سنگاپور

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button