For TeachersFundamentalsParenting & Tarbiyah challengesقرآن کریم

زندگی میں مقصدیت کیسے پیداکریں؟

زندگی کو بامقصد کیسے بنائیں؟

دنیامیں ہرچیز کا اپنا ایک مقصد ہوتا ہے، جس کے تحت وہ چیز چلتی ہے۔ اسی کو  مقصد کا نام دیا جاتاہے۔ بے مقصد کوئی چیز نہیں بنائی جاتی۔ مثلاگاڑی یا جہاز کا مقصد یہ ہے۔ کہ انسان کو آرام دہ سفر کی سہولت بہم پہنچائیں۔ اور ٹرانسپورٹیشن کو آسان بنائیں۔ گھربنانے کا مقصد ہے کہ انسان کو دھوپ ،بارش، گرمی وسردی سے بچائے۔ اور اسے زندگی میں سکون فراہم کرے۔

لباس کا مقصد ہے کہ انسان کوگرمی سردی سے بچائے۔جسمانی پردے کے ساتھ خوب صورتی اور زیب وزینت سے نوازے۔ موبائل کا مقصد یہ ہے کہ موثر پیغام رسانی اور رابطہ کاری کو آسان بنائے۔اسی طرح تمام اپلائنسزکو اپنی اپنی ڈومین میں انسان کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے ایجاد کیا گیا ۔غرض دنیا کی کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی جاتی ۔

مقصد زندگی کے بارے میں مختلف آرا

جب یہ بات یقینی ہوگئی کہ ہرچیز کا کوئی نہ کوئی مقصدضرور ہوتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودانسان کی زندگی کا مقصد کیاہے؟ اس سوال کے جواب میں کئی ذیلی مقاصد بیان کئے جاتے ہیں۔ مثلا ایک مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد خود زندگی کی نعمت کا تحفظ کرنااور اسے صحت وتندرستی کے ساتھ برقراررکھنا ہے۔

ایک اور مقصد یہ بتایا جاتاہے کہ ضروریات زندگی کو حاصل کرنے کی تگ ودو اور کوشش کرنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زندگی میں مقصدیت پیداکرنے کی کوشش کرنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔بعض کے مطابق مخلو ق کی خدمت کرکے روحانی سکون کرنا، محبت وشکرگزاری اور احسان مندی کے ذریعے اپنی زندگی میں خوشی پیداکرنا۔ اپنی زندگی سے عمدہ وراثت چھوڑکرجانا۔

اپنی زندگی سے معاشرے میں کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی پیداکرنا۔ تعلیم حاصل کرنا۔ بزنس وملازمت میں خوب ترقی کرنا ۔ خوب صورت تعلقات استوار کرنا اورپھر ان تعلقات کو برقراررکھنا۔ معاشی استحکام حاصل کرنا اور اچھا معاشرتی مقام واسٹیٹس حاصل کرنے کی کوشش کرنا وغیرہ ۔ یہ سب زندگی کے ذیلی مقاصد میں شمار ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: کامیابی اور کامیاب شخصیت

زندگی کا حتمی مقصد کیا ہے؟

ان ذیلی مقاصد کےہوتے ہوئے زندگی کا ایک اعلی اور سپریم مقصدہے جو حتمی ، آخر ی اور اعلی ترین مقصد ہے۔ جسے وجہ تخلیق بھی کہا گیا ہے اور یہی وہ مقصدہے جسے قرآن کریم نے مقصد تخلیق کے طور پر بیان کیاہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے سورۃ الذرایات میں فرمایا: “میں نے انسان اور جنات کو محض اپنی بندگی کے لئے پیداکیا ہے(سورۃ الذاریات: 56)”۔

چونکہ انسان اور جنات ذی شعور مخلوق ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد خود خالق نے اپنی بندگی کوقراردیا ۔ لہذا زندگی کے تما م دیگر مقاصد ذیلی اور جزوی مقاصد قرار پائیں گے جبکہ اللہ تعالی کی بندگی حتمی اور سپریم مقصد قرار پائے گی۔ زندگی کے ذیلی و عارضی اور حتمی مقاصد میں فرق کو سمجھنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ان دونوں میں باہمی تعلق کو سمجھا جائے۔

جب تک ان دونوں میں واضح فرق کو نہ سمجھا جائے، انسان کنفیوژن کا شکار ہوسکتاہے ۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ کسی ذیلی اور عارضی مقصد کو حتمی مقصد سمجھ بیٹھے۔ جس سے زندگی غلط سمت پر گامزن ہو سکتی ہے۔ جزوی اور حتمی دونوں مقاصد میں فرق کو واضح طورپر سمجھنے کے بعدان مقاصد کا آپس میں باہمی تعلق اوران میں ترتیب کو سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے۔

کیونکہ جب تک زندگی کے عارضی اور حتمی مقاصد کو سمجھ کر ان کو ایک لائن میں نہ جوڑدیا جائے۔ اور ہرمقصد کو اس کے جائزمقام پرنہ رکھا جائے اس وقت تک زندگی کو درست سمت دینا بہت مشکل ہے۔

دورحاضراور زندگی میں مقصدیت کی پہچان۔

اور یہی صورت حال آج کے معاشرے کو درپیش ہے۔ کہ سب کے پاس زندگی کے الگ الگ مقاصد ہیں۔ اور ہرکوئی اپنے تناظر میں طے پانے والے مقصد کو ہی حتمی مقصد سمجھتا ہے ۔ جس سے زندگی کی سمت ہی الگ ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ذیلی اور حتمی مقاصد کو الگ الگ طورپر پہچان بھی لیتا ہے۔ لیکن ان کو ایک ساتھ رکھ کر ترتیب قائم نہ کرپانے کی وجہ سے وہ بھی غلطی کا شکارہوجاتاہے۔

اس تمام تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ بحیثیت انسان دنیا میں رہتے ہوئےہمیں کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں اپنی رہائش وخوراک کے انتظام کے علاوہ اچھی لائف اسٹائل کیلئے بھی کئی کوششیں کرنی پڑتی ہیں۔ ہمیں اپنے نسلی تسلسل کو برقرار رکھنے اور نسل کی تربیت کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔

ہمیں سکون قلب اور دلی اطمینان کے حصول کے لئے انسان اوردیگر مخلوق کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ ان تمام چیزوں کو بعض لوگ غلط فہمی سے زندگی کا حتمی مقصد قرار دینے لگتے ہیں۔

قرآن کریم اورزندگی میں مقصدیت

لیکن قرآن کریم نے ان چیزوں کو زندگی کی ضروریات میں شمار کرکے زندگی کا حتمی اور اعلی مقصد اللہ کی بندگی اور عبدیت کو قراردیا۔ تاہم ان چیزوں کو اگر مقصد کا درجہ دیا بھی جائے۔ پھر بھی یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ زندگی کے ذیلی، عارضی اور جزوی مقاصد ہوسکتے ہیں۔ حتمی مقصد بہرحال ایک ہی ہے اور وہ ہےاللہ کی بندگی۔

اب بحیثیت مسلمان اور بندہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی طرف سے متعین کردہ مقصد حیات کو اپنی زندگی کا اعلی مقصد قرار دے کر اپنی زندگی کے تمام ذیلی مقاصد، ضروریات یا دیگر سرگرمیوں کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں۔ یعنی ہماری زندگی کا ہرکام مقصد حیات کی تکیمل کا ذریعہ بنے نہ کہ اس سے دورہونے کا ذریعہ ہو۔

ماسٹرڈگری جب مقصد ہو۔

اس کی ایک آسان مثال یوں دی جاسکتی ہے۔ کہ مثلا ایک طالب علم کسی سبجیکٹ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس ڈگری کے تمام بنیادی لوازمات اور شرائط پوری کرے۔ وہ پہلے میٹرک پھر انٹر اور پھرگریجویشن کرے گا۔ ان سب مراحل کے تمام مضامین کو پاس کرنے کی وہ کوشش کرے گا ۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ہی ماسٹر کلاس میں ایڈمشن لے گا۔ اور پھر اس کاامتحان پاس کرے گا۔ جب اس کا مقصد ماسٹر کرنا تھا تو اس کی ریکوائرمنٹ پوری کرنے والا ہر قدم درحقیقیت ماسٹر ڈگری کی جانب بڑھنے والا ایک قدم تھا۔ اسی طرح جب زندگی کا حتمی مقصد اللہ کی رضا اور اس کی بندگی ہے۔ تو اس کی تعیین کے بعد زندگی میں ہراٹھنے والے قدم اورزندگی کے تمام ذیلی مقاصد کو حتمی اور آخری مقصد سے جوڑنا ہی کامیابی کی جانب سفر کرناہے۔

اوردنیا وآخرت کی کامیابی کی جانب سفر کرنا ہی مقصد تخلیق ہے۔ کیونکہ خالق نے انسان کو کامیاب بنانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے کہ انسان دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں کامیاب بنے۔

زندگی میں مقصدیت کو پہچاننے کے دوفوائد

مقصد تخلیق کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کے دو فوائدبہت اہم ہیں۔ پہلافائدہ یہ ہے کہ بامقصد اور بامعنی زندگی گزارنے والاانسان ہردم اپنے دل ودماغ، جسم وروح اور ظاہر وباطن کو سنوارتے ہوئے اس طرح فعال بناتا ہے۔ کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ شاندار نکلتاہے۔

اور دوسرافائدہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کو نقصان پہنچانے والی تمام جبلی برائیاں مثلا تعصب، حسد، مفادپرستی، گناہ، بداخلاقی ، حرام خوری غرض اس نوعیت کی تمام برائیاں اس کے اندر سے خودبخود ختم ہوجاتی ہیں۔ یوں بامقصد زندگی گزارنے والا انسان خود جنت کی شاہراہ پر محوسفر ہوتے ہوئے مخلوق خدا کے لئے بھی رحمت اور آسائیشوں کا باعث بنتا ہے۔

تاہم بامقصد زندگی گزارنے کے لئے انسان کے پاس احساس بندگی کے علاوہ درست وژن اور درست سمت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کے پاس ایسی دور بین کاہونا ضروری ہے۔ جس سے وہ زمانہ حال میں کھڑے ہوکر اپنے مستقبل کی درست اور روشن تصویر کو دیکھ سکے۔

وژن وہ خواب ہوتا ہے جو انسان کو جگاکر متحرک رکھتا ہے۔ اسے سونے اور سست ہونے نہیں دیتا۔اللہ تعالی ہم سب کو بامقصداور کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button