Character Building & TarbiyahTeenage ParentingTohfa-e-Walidain

ٹین ایجرز کو ڈسپلن کیسے سکھائیں؟

ٹین ایجرز کو ڈسپلن سکھانے طریقہ


بچوں کو ڈسپلن سکھانا ویسے بھی کافی مشکل کام ہے۔ لیکن جب بچے ٹین ایج کو پہنچ چکے ہوں، تو ان کو ڈسپلن کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ ٹین ایجرز کو ڈسپلن سکھانے کے لئے والدین کو بہت زیادہ پابندیاں نہیں لگانی چاہییں۔ بلکہ کسی حد تک ڈسپلن کرنے کے بعد ان بچوں کو خودانحصاری کا موقع دینا چاہیے۔

وہ  خود تجربات کریں۔ اپنے تجربات کے نتائج کا سامنا کریں۔ اور پھر خود ہی زندگی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں۔ والدین کو اس مرحلے میں بچوں کو کتنا خود ڈسپلن کرنا چاہیے؟ اور کتنا نتائج سے سیکھنے کا موقع دینا چاہیے؟ اس فائن لائن کو مندرجہ ذیل باتوں سے جان سکتے ہیں۔

:زیادہ سخت ردعمل نہ دیں

جذباتی ریکشن، سخت ردعمل اور زیادہ غصے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اس سے بچے پرکوئی اچھا تاثرقائم ہوتا ہے۔ ہاں اس سے نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ توجہ اصل مسئلے سے ہٹ کرکسی اورجانب منتقل ہو جاتی ہے۔ مثلا اگربچہ کوئی غیر مناسب انداز، حرکات یا فیشن اختیار کرتا ہے۔ تو اس پر ایک دم چیخنے سے نقصان ہی ہوگا۔

اس کے برعکس اپنے دماغ کو ٹھنڈارکھتے ہوئے اپنا پیغام شریک حیات کے ذریعے سے بچے کو دیا جائے۔ یہ زیادہ موثر رہے گا۔ یا بچے کو الگ کرکےمناسب لہجے میں اسے یہ پیغام دیا جائے۔ کہ تمہارا یہ فیشن یا اندازغیرمناسب محسوس ہوتا ہے۔ یہ زیادہ موثررہے گا۔

ٹین ایجرز کو تعلیمی ذمہ داریاں دینا

:ڈسپلن رولز واضح ہونے چاہییں

گھر کے لئے واضح ڈسپلن رولز بنانا اچھی پیرنٹنگ کی علامت ہے۔ اگر گھرکے لئے ایسے واضح ڈسپلن رولز بنائے جاتے ہیں۔ جو گھر کے تمام افراد کو معلوم بھی ہوں۔ اور سب کا ان پر اتفاق بھی ہو۔ تو ڈسپلن کے عمل میں بڑی آسانی ہوجائے گی۔ ایسی صورت حال میں ٹین ایجر بچے بھی فیملی رولز کو توڑکر اپنی بدنامی کی کوشش نہیں کریں گے۔

اس میں ایک چیز اوربھی دھیان میں رکھنے کی ہے۔ کہ ڈسپلن رولز تمام افرادخانہ کی موجودگی میں ان کی مشاورت سے بنائے جائیں ۔خاص کر وہ رولز جو ٹین ایجربچوں سے متعلق ہوں۔ انہی سے بنوائے جائیں۔

کہ دن میں اتنے وقت تک گھرمیں رہنا اور فلاں فلاں کام کرنا ہوگا ۔ دوستوں کے پاس اتنے وقت کے لئے جانے کی اجازت ہوگی۔ اس طرح ٹین ایجر بچے خود کو ذمہ دار اور ڈسپلنڈ محسوس کریں گے۔

:ردعمل سے پہلے غور سے بچے کو سنیں

کسی بھی  قسم کے ردعمل سے پہلے بچے کی بات پوری طرح سے سنیں۔ اور بین السطور کو  بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ کہتا ہے کہ میں اسلئے لیٹ ہوگیا ہوں۔ کیونکہ میرا ٹائیر پنکچر ہوگیا تھا۔ یا گاڑی بہت لیٹ ملی تھی۔ تو اسکی بات مان لینی چاہیے۔ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ واقعی یہ معاملہ پیش آیا ہو ۔

اگر فوری ردعمل دے کر لیٹ آنے پربچےکو سزا دی جائے۔ تو آئندہ وہ جھوٹ بولنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اور پھرباربار کی ایسی صورت حال پیش آنے پر وہ باربارغلط روش اپنانے کاعادی ہوسکتاہے۔

لہذا والدین کے لئے ضروری ہے کہ پہلے بچے کو بغور سنیں۔ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ اور پھر طے شدہ حکمت عملی کے مطابق اس کے لئے مناسب سزا تجویز کریں۔

ٹین ایجرز کو ڈسپلن سکھانے کے لئے ان کی بات غور سے سن لیں

:سزاجرم کے مطابق ہونا چاہیے

ٹین ایجر بچے کے لئے موثرترین سزا اسکی غلطی کے نتائج سے اسے دوچار کرنا ہے۔ جیسی غلطی ہوگی اسی جیسا نتیجہ اس کامنتظر ہونا چاہیے۔ بعض بچوں کے لئے غلطی کے نتیجے میں امتحانی نمبر کم آناا ور گریڈ کا گرنا بھی کافی موثرسزا بن جاتا ہے۔ جس کا سامنا کرنے کے بعد وہ اپنے آپ کو بہتربنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور بعض بچوں پر فائن اورجرمانہ لگانا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو بہتربنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوربعض بچوں کو ان کے شوق کے کاموں مثلا فٹ بال ، کرکٹ یا کسی اور گیم سےروکنا ان کے لئے بہت بڑی سزا ہوسکتی ہے۔

:مستقل مزاجی اپنائیے

گھراورافرادخانہ کے لئے واضح رولز اور شیڈول بنانے کے بعد ان پر مستقل مزاجی سے عمل کیجئے۔ کبھی بلاوجہ یا سستی کی بناپر اپنے اصولوں کو مت توڑئے۔ ہاں خاندانی اموراورمصروفیات کی بنا پر اگر ان میں وقتی لچک کی ضرورت ہوتوایسا کرسکتے ہیں ۔

تاہم غیر ضروری طورپر، سستی کی وجہ سے یا حالات سے مایوس ہوکر ان اصولوں کو اپنے ہاتھ سے کبھی مت توڑیے۔ مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

بلوغت کے دوران تربیت کے مسائل

:ٹین ایجرز کے لئے حدود متعین کرنا

 ٹین ایجرز کو کام کرنے کے لئے حدود کا ڈھانچہ درکار ہوتا ہے۔ جوروٹین کے تمام کاموں کے لئے رولزریگولیشنز تیار کرکے بنایاجا سکتا ہے۔ مثلا انہیں کب سونا ہے اور کب اٹھنا ہے؟ کس وقت لازمی گھر پرہونا چاہیے؟ اور کب وہ گھرسے باہربھی  جاسکتے ہیں؟ اسکول میں کیاکارکردگی دکھانی ہے؟ گھر کے کاموں میں ان کی کیا کنٹربیوشن ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

ان حدود کو بناتے وقت دوباتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ حدود کی تعیین کرتےہوئے اپنے ٹین ایجرز کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ جس سے ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہواوروہ تعاون پرآمادہ بھی ہوں۔

اوردوسری بات یہ کہ یہ رولز بالکل واضح اورغیرمبہم ہونے چاہییں۔ اوراہم بات یہ ہے کہ اپنے ٹین ایجرز کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں۔ کہ ہم تمہیں بلوغت کے بعد کس مقام پر دیکھناچاہتے ہیں؟

ٹین ایجرز کی فطرت ۔

ٹین ایجرز کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیرنٹس سے الگ دکھنا چاہتے ہیں۔ اوربسااوقات وہ ان کوتنگ کرنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ یہ بچے اس کے لئے مختلف حربے استعمال کرسکتے ہیں۔ مثلا کوئی تقریب ہے اس میں جانا ہے۔ اب بچہ ضد کرتا ہے کہ میں بالکل نہیں جاوں گا ۔

یا اس تقریب کی مناسبت سے وہ لباس پہننے کو تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ کوئی دوسرالباس پہنناچاہتاہے۔یا اپنے بال اور حلیہ اس انداز کا بناسکتا ہے جو والدین کو پسندنہ ہو۔اس طرح کی صورت حال کا سامنا والدین کو کرنا پڑسکتا ہے۔

اب والدین کے پاس دوآپشن ہوسکتے ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ اس پر بچے سے جھگڑاشروع کیا جائے۔ اور اس پر اپنے مطلب کاکام کروانے کے لئے دباوڈالاجائے۔ جس کا نتیجہ ماں باپ اور بچے کے درمیان اختلاف اور تعلقات کی خرابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ جو آئندہ کے لئے بھی تربیت اولاد کے حوالے سے نقصان دہ بات ہے۔

اور دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہےکہ والدین اس صورت حال کو عارضی کیفیت تصورکرکے نظرانداز کردیں۔ بچے سے اپنے تعلقات کو خراب نہ کریں۔ اور یہ ذہن میں رکھیں کہ ٹین ایج میں ایسی کیفیت کاعارضہ آسکتا ہے۔ اورکچھ ہی عرصے کے بعد وہ اس کیفیت سے خودہی باہر آجائے گا۔

فی الحال والدین اس معاملہ کونظرانداز کرکے دوسری مثبت چیزوں کوبہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اس کو تعلیمی کارکردگی بہتربنانے کی تلقین کریں۔ اخلاقیات اور دوسروں سے تعاون میں بہتری لانے کی تلقین کریں۔ دین کی ذمہ داریوں کی طرف اس کی توجہ مبذول کریں وغیرہ وغیرہ

یہ بھی پڑھئیے:

ٹین ایجر اور ماں باپ کا جھگڑاکیسے ختم کیاجائے؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button