Features

افغانستان : گرین اکانومی کا مرکز

افغانستان : گرین اکانومی کا مرکز

ضیاء چترالی

پیٹرول کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اگلا دور ہے برقی توانائی کا۔ فضائی آلودگی اور ماحولیات کی تباہی اس وقت دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے۔ عالمی سطح پر نشستیں ہو رہی ہیں کہ ماحول کو مزید بگڑنے سے کیسے بچایا جائے۔ جس کا واحد حل متبادل ماحول دوست توانائی ہے۔ اس لئے اب دنیا تیزی سے برقی کاروں کی طرف جا رہی ہے۔

سن 2040 تک 26 کروڑ سے زائد برقی گاڑیاں سڑکوں پر ہوں گی

برطانیہ اور فرانس نے اعلان کیا ہے کہ 2040 تک پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ختم کی جائیں گی۔ متبادل کے طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں استعمال ہوں گی۔ تب تک ساڑھے چھبیس کروڑ سے زائد بجلی سے چلنے والی گاڑیاں سڑکوں پر ہوں گی۔

الیکٹرک گاڑیوں میں ایندھن ذخیرہ کرنے کا مسئلہ، بیٹری کی گنجائش بڑھانے پر کام جاری

دنیا میں گاڑیاں کرائے پر دینے والے سب سے بڑے ادارے Hertz نے ٹیسلہ سے ایک لاکھ برقی کاریں خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ بجلی کی کاروں میں سب سے بڑی آزمائش ایندھن کا ذخیرہ ہے۔ پیٹرول، گاڑی کی ٹنکی میں بھرلیا جاتا ہے۔ سی این جی کے سلنڈر رکھنا بھی کچھ مشکل نہیں، لیکن برقی توانائی بیٹریوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے اور اب ماہرین کی توجہ بیٹری کی گنجائش کو بڑھانے کی طرف ہے۔ یہ کاریں چلتی ہیں بیٹری سے اور بیٹری بنتی ہے لیتھیم سے۔ قدرت کی مہربانی دیکھئے کہ پیٹرول سے بھی مسلم خطوں کو نوازا اور لیتھیم کے ذخائر بھی انہی کو دیئے۔

بیٹری میں استعمال ہونے والی دھات لیتھیم کا سب سے بڑا ذخیرہ افغانستان میں ہے

الجزیرہ نے اس پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اور لکھا ہے کہ ماہرین کہتے ہیں کہ لیتھیم کا سب سے بڑا ذخیرہ افغانستان میں ہے۔ اگر نئی افغان حکومت اہل ثابت ہوئی تو بہت جلد افغانستان جنگوں اور افیون کی سرزمین سے دولت و ثروت کا مرکز بن جائے گا۔ امریکی جیولوجکل ماہرین کے مطابق 3 ٹریلین (تین ہزار ارب) ڈالر کا خزانہ افغان سرزمین میں مدفون ہے۔ امریکیوں نے صرف اسکین اور سروے پر 17 ملین ڈالر خرچ کئے تھے۔ قدرت نے اس ملک کو وافر مقدار میں Neodymium،cerium، lanthanum، cobalt اور copper سے بھی نوازا ہے۔

افغانستان میں دھاتوں تک رسائی آسان ، کان کنی کا عالمی مرکز بن سکتا ہے

اس دور میں سب سے زیادہ اہمیت لیتھیم کی ہے۔ جس کی مانگ میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے ممالک اس خزانے کی تلاش میں سرگردان ہیں۔ یہاں تک کہ تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب جیسے ممالک بھی۔ کیونکہ یہ ماحول دوست توانائی ہے۔ اس لئے اسے Green Economy کہا جانے لگا ہے۔ اب اگلا دور اسی کا ہے۔ US Geological Survey نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان سرزمین میں مدفون نادر اور قیمتی دھاتوں تک رسائی بھی بہت آسان ہے۔ اس کیلئے کوئی زیادہ محنت یا سرمایہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بہت جلد افغانستان مائننگ (کان کنی) کا عالمی مرکز بن جائے گا۔

موجودہ افغان حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ

اس وقت افغانستان کو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا درپیش ہے۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد دنیا کے ملکوں کے اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر طالبان حکومت سازی کر نے کے بعد ملک کیسے چلائیں گے؟ افغانستان کی اقتصادیات کا کیا ہوگا؟ کہاں سے آئے گا پیسہ جس سے ملکی ضروریات پوری ہوسکیں؟ یہ سوال اس لیے اٹھ رہے ہیں، کیونکہ امریکہ نے افغانستان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیئے ہیں اور ورلڈ بینک نے بھی تمام امدادی سہولیات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کسی ملک نے تا حال طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا

ابھی تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ تجارت، درآمدات اور برآمدات نہ ہوں تو معیشت کیسے چلے گی؟ ایسے میں اگر دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی، جس کے نتیجے میں عالمی فنڈ نہیں ملنے کے سبب افغانستان کی تعمیر نو کیسے ممکن ہوگی؟ یقیناً یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ایسے بہت سے سوالوں کی وجہ سے تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے بیچ افغانستان ایک بڑی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

دس کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر

برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کے مطابق اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جب دنیاوی اعتبار سے ہم افغانستان کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ قریب 4 دہائیوں سے جس طرح سے افغانستان کو مسلسل بیرونی و اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان آمدنی، تعلیم، صحت کے اعتبار سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر کے دو تین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہیں افغانستان کے ضمن میں اگر 2010 میں نیو یارک ٹائمز میں پینٹاگون کی رپورٹ کا تجزیہ کریں تو اس وقت افغانستان کم از کم دس کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔

موبائل فون،ٹیبلٹس،لیپ ٹاپ ،ڈرونز ودیگر اشیاء میں استعمال ہونے والی قیمتی دھات

اس ضمن میں امریکی محکمہ دفاع اور ارضیاتی سروے کے تعاون سے کیے جانے والے ایک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان ذخائر میں ایک ایسی دھات شامل ہے جو اگر آج ختم ہو جائے تو کل تک تمام دنیا کا کاروبار ٹھپ ہونے کا خدشہ ہے۔ دراصل اس دھات کو لیتھیم کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ دھات موبائل فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ، کیمروں، ڈرونز اور دوسری ڈیوائسز کی بیٹریز کے ساتھ ساتھ الیکٹرک کارز کی ری چارج ایبل بیٹریز میں بھی استعمال میں آتی ہے۔

سن 2017 میں ہونے والے ایک دوسرے سروے کے مطابق افغانستان کے معدنی وسائل کی مالیت 30 کھرب ڈالرز سے زائد ہے، لیکن اس سروے کو بھی حتمی نہیں کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ملک کے کشیدہ حالات کی وجہ اب تک وہاں کوئی جامع سروے نہیں ہو پایا ہے، جس سے معدنیات کے ذخائر کا صحیح طریقے سے پتا لگایا جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ 2001 میں جب امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کی تو اس وقت چین افغانستان کے صوبے لوگر میں ’’مس عینک‘‘ ( پشتو اور فارسی تانبے کو مس کہتے ہیں اور عینک عربی لفظ ’’عین‘‘ یعنی چشمے کی تخفیفی شکل ہے، جس کا مطلب ہے ماخذ) نامی تانبے کی ایک کان میں کان کنی کے منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ انٹرنیٹ کے اس عہد میں موبائل، ڈیوائسزاور الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کا رجحان فروغ پا رہا ہے تو ایسے میں لیتھیم کی مانگ بھی روزبروز بڑھ رہی ہے۔

افغانستان کی تقدیر بدلنے کے روشن امکانات

ماہرین کا خیال ہے کہ جیسے تیل سے مشرقِ وسطیٰ کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے یکسر بدل گئی تھی بالکل اسی طرح سے مذکورہ معدنیات سے مالامال افغانستان بھی ان ذخائر سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیر بدلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغانستان میں کس قدر لیتھیم موجود ہے تو اس ضمن میں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں افغانستان ’’لیتھیم کا سعودی عرب‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا تھا ’’یہاں حیران کن پوٹینشل موجود ہے۔‘‘ فرق صرف اتنا ہے کہ سعودی عرب یا مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں تیل پایا جاتا ہے، جسے آج کی ماحولیاتی تشویش سے دوچار دنیا میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ لیتھیم صاف ستھری اور قابلِ تجدید توانائی کا اہم حصہ ہے۔ لیتھیم افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز صوبوں میں موجود ہے۔

“لیتھیم کا سعودی عرب”

ماہرین کے مطابق لیتھیم کے علاوہ افغانستان میں تانبہ، سونا، لوہا اور کوبالٹ بھی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی وادیوں، چٹانوں اور پہاڑوں میں کم و بیش 30 کھرب ڈالر کی معدنیات چھپی ہیں، جو آج تک کسی کے ہاتھ نہیں لگیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان معدنیات کی وجہ سے افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب کہا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں نایاب دھاتوں کے بھی وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، جو آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دنیا کو کلین انرجی کے لیے بڑے پیمانے پر درکار ہیں۔ افغانستان کی چٹانیں بھی جیسے نایاب پتھروں کی کانیں ہیں، جہاں زمرد، یاقوت، لعل، سنگ تماری اور لاجورد جیسے قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔ ان کانوں سے کوئلہ، لوہا، کوبالٹ، سنگ مرمر اور ٹالک نکالا جاتا ہے۔

روس ،چین اور یورپ افغانستان میں مستحکم حکومت کیوں چاہتے ہیں ؟

افغانستان میں موجود مذکورہ معدنیات کے ہونے کی وجہ سے ہی چین، روس اور یورپ کے دیگر ممالک اب افغانستان میں ایک مستحکم سرکار دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں چین دنیا کا پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کے ساتھ ’’دوستانہ تعلقات‘‘ قائم کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کو اپنی تیزی سے پھلتی پھولتی ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کو مذکورہ معدنیات کی اشد ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 28 جولائی کو چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے طالبان کے وفد سے بیجنگ میں ملاقات کی اور کہا کہ ’’طالبان افغانستان کے امن، مصالحت اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کریں گے۔‘‘ اس موقعہ پر افغان وفد کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر نے امید ظاہر کی کہ چین افغانستان کی تعمیرنو اور معاشی ترقی میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے گا۔
آسٹریا کے انسٹی ٹیوٹ فار یورپین اینڈ سیکورٹی پالیسی کے سینئر فیلو مائیکل ٹینکم کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کا افغانستان پر قبضہ ایسے وقت ہوا ہے، جب مستقبل قریب میں دنیا میں معدنیات کی کمی واقع ہونے والی ہے اور چین کو ان کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین پہلے ہی سے اس حالت میں ہے کہ وہ ان معدنیات کو نکال سکے۔‘‘

یہ بھی پڑھیئے:

سفیر قرآن، شیخ عبد الباسطؒ عبدالصمد

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button