PanjabPicnic Points

تین صوبوں کا سنگم سر سبز و شاداب ضلع رحیم یار خان

تین صوبوں کا سنگم سر سبز و شاداب ضلع رحیم یار خان

نوید نقوی

جنوبی پنجاب کا ضلع رحیم یار خان، تین صوبوں کے سنگم پر واقع دریائے سندھ کے کنارے ایک سر سبز و شاداب ضلع ہے صوبہ پنجاب میں رحیم یار خان رقبے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ضلع ہےجس کا کل رقبہ 11880 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ صوبے میں چھٹا بڑا ضلع ہےجس کی کل آبادی 2017کی مردم شماری کے مطابق4815000 نفوس پر مشتمل ہےجن میں 51 فیصد مرد اور 49 فیصد عورتیں ہیں جبکہ 230کے قریب ٹرانس جینڈر رجسٹرڈ ہیں، ضلع کی دیہی آبادی 78 فیصد کے قریب ہےجبکہ شہری آبادی 22 فیصد ہے۔

رحیم یار خان کی چار تحصیلیں ہیں جن کے نام یہ ہیں؛ تحصیل رحیم یار خان، تحصیل لیاقت پور، تحصیل خان پور اور تحصیل صادق آباد ۔
رحیم یار خان پنجاب کا اہم کاروباری، زرعی، صنعتی، تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے۔ اس کے مشرق میں ضلع بہاولپور، مغرب میں ضلع راجن پور،شمال میں ضلع مظفر گڑھ اور دریائے سندھ،جبکہ جنوب میں راجھستان کا ضلع جیسلمیر اور صوبہ سندھ کا ضلع گھوٹکی واقع ہے۔

ریاست بہاولپور کے ایک شہزادے کے نام منسوب شہر

رحیم یار خان کو گیٹ وے آف پنجاب بھی کہا جاتا ہے یہ دنیا کے ان چند شہروں میں شامل ہے جو ہزاروں سالوں سے اپنے اصل مقام پر آباد ہے۔اس کی وجہ تسمیہ بھی بڑی دلچسپ ہے رحیم یار خان ریاست بہاولپور کا شہزادہ تھا اور 1881 میں بارود خانے میں ایک ہولناک آگ لگنے سے شہزادے کی موت واقع ہوئی تو ان کی یاد میں نوشہرہ جدید سے رحیم یار خان رکھ دیا گیا۔

ایک چوتھائی حصہ ریگستان پر مشتمل ہے

اس ضلع کا ایک چوتھائی حصہ ریگستان پر مشتمل ہےجسے چولستان یا روہی بھی کہتے ہیں چولستان کی وجہ تسمیہ بھی بڑی دلچسپ ہےایک روایت کے مطابق یہاں عراق سےلوگ آتے جاتے تھے اوران عربوں نے اس صحرا کو تاچلستان کا نام دیا جو بگڑتے بگڑتے چولستان بن گیا ۔

ہزار سال قبل دریائے ہاکڑا خشک ہونے سے سرسبز علاقہ ریگستان میں بدل گیا

روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ چولستان ہمیشہ سے ہی صحرا نہیں تھا بلکہ آج سے ایک ہزار سال پہلے یہ خطہ انتہائی سر سبز و شاداب ہوا کرتا تھا اور یہاں عظیم الشان دریائے ہاکڑا بہتا تھا اور یہ بڑی دلچسپ تہذیب تھی یہ دریائے ہاکڑا کی عظیم ترین تہذیب اس زمانے میں ہند اور سندھ کی تجارت کا مرکز تھی لیکن اس تہذیب کو ایک آفت نے گھیر لیا کیونکہ دریائے ہاکڑا آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا اور یہ تہذیب بھی مٹ گئی۔ آپ اب بھی بارشوں کے موسم میں اگر روہی جائیں تو آپ کو دریائے ہاکڑا کے نشانات اب بھی ملیں گے اور آپ کو پانی بہتا ہوا نظر آئے گا اور ایسا لگے گا جیسے دریا کا پاٹ ہو۔

چولستان کی زندگی پراسراریت اور رومانویت سے بھرپور ہے

چولستان کی زندگی بہت پراسرار اور اگر دیکھا جائے تو صوفیانہ اور مسحورکن ہے, یہاں ایک عجیب رومانس ہے جسے صرف وہاں جا کر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس دلچسپ اور مسحور کن رومانس کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے، یہ صرف روہی میں جا کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

برساتی پانی کے ذخائر سے انسان اور حیوان گزر بسر کرتے ہیں

یہاں حد نگاہ ریت کے ٹیلے ہیں اور پانی کے وہ ٹوبے ہیں جہاں برساتی پانی اکٹھا ہوتا ہے۔ یہاں کم و بیش 1050 ٹوبے ہیں اور انہی ٹوبوں کے پانی سے انسان اور حیوان سارا سال بسر کرتے ہیں۔ چولستانی لوگ اپنی وضع قطع کے سبب دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں ان کا صحت مند جسم اور سانولا رنگ، لمبا کرتا، اونچی پگڑیاں ان کی خاص شناخت ہیں۔

چولستانی خواتین کی متانت کا تذکرہ خواجہ غلام فرید کے کلام میں ملتا ہے

چولستانی عورتیں گھاگھرا اور چوڑیاں پہنتی ہیں اور ناک میں نتھلی بھی لازمی پہنتی ہیں۔ چولستانی عورت کے وقار اور متانت کا تذکرہ یہاں کے عظیم صوفی بزرگ اور سرائیکی زبان کے شاعر حضرت خواجہ غلام فرید نے اپنی کافیوں میں کر رکھا ہے۔

سیاحتی مقامات

سیاحت کے حوالے سے یہاں کے کئی اہم مقامات شہرت رکھتے ہیں جن میں خاص طور پرقلعہ مئو مبارک، قلعہ تاج گڑھ، قلعہ ماچھکی، بھٹہ واہن ، چاچڑاں شریف، قیام گاہ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ، پتن منارہ ، قلعہ بجنوٹ ، قلعہ اسلام گڑھ، قصبہ ہیڈ ملکانی، بھونگ مسجد وغیرہ شامل ہیں۔یہاں کے قلعے اپنی عظمت رفتہ بیان کرتے ہیں، اپنے وقت کے ان عظیم الشان قلعوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

مسجد بھونگ شریف

یہ مسجد تحصیل صادق آباد میں موجود ہے، آپ رحیم یار خان آئیں اور اس عظیم الشان مسجد کی زیارت نہ کریں خود کے ساتھ زیادتی ہوگی، اس مسجد کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی موجود ہے، اس کی تعمیر 1925 میں شروع ہوئی اور 1966 میں مکمل ہوئی، اس کی بنیاد رکھنے والی شخصیت سردار رئیس غازی محمد ہیں۔ یہ مجسٹریٹ ہونے کے ساتھ بہاولپور اسمبلی کے ممبر بھی تھے، حکومت پاکستان نے اس مسجد کا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا، اس کی تعمیر و توسیع آج بھی جاری ہے۔

پتن منارہ

رحیم یار خان کو تاریخی شہر دراصل اس منارے نے بنایا ہے، یہ اس شہر کی سیاحتی دنیا کا عظیم عجوبہ ہے، اس منارے کی تعمیر کیسے ہوئی؟ کب ہوئی؟ کیسے دریافت ہوا؟ کس نے تعمیر کروایا اس حوالےسے تاریخ میں کوئی حتمی اعداد و شمار نہیں ہیں بس مختلف روایات موجود ہیں، اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ عجوبہ صدیوں پرانا ہے۔ یہ منارہ اپنے اندر ایک عجیب پراسراریت سموئے ہوئے ہے۔

ماچھکی قلعہ

یہ قلعہ بھی صحرائے چولستان کی وسعت اور قدیم رازوں میں سے ایک ہےیہ قلعہ رحیم یار خان شہر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔1717 میں اس قلعے کو لال خان نے تعمیر کروایا تھا، صحرا میں موجود باقی قلعوں کی طرح یہ بھی پرکشش اور پراسرار ہے۔اس کی مٹی کی خوشبو آج بھی سیاحوں کو مدہوش کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

شیخ محل

رحیم یار خان شیخ محل بھی دیکھنے کی جگہ ہےیہاں کی شان و شوکت ایسی ہے کہ دبئی کے محل بھی شرما جائیں، اس محل میں ایک وائلڈ لائف پارک بھی ہے یہاں ایسے جانور دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو ہم نے صرف فلموں میں دیکھ رکھا ہوتا ہے۔

شیخ خلیفہ اسٹیڈیم

شیخ خلیفہ اسٹیڈیم بھی اپنی خوبصورتی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا اس اسٹیڈیم کا لاہور کے قذافی اسٹیڈیم سے موازنہ کیا جاتا ہے یہاں بھی بین الاقوامی سطح کی سہولیات موجود ہیں۔

پلیزر لینڈ فیملی پارک

یہ رحیم یار خان کا مشہور پارک ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ فیملی پارک ہےاور سہولیات کے حساب سے اسلام آباد کے کسی پارک سے کم نہیں ہے۔

ہیڈ ملکانی

رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کا ایک اہم سرحدی خوبصورت قصبہ ہے، یہاں پنجند کینال بہتی ہے اور اس ہیڈ سے پھر کئی رابطہ نہریں بھی نکلتی ہیں جن میں حبیب کینال اور لنجی وار ہیڈ کے علاوہ موری عظمت اللہ کی طرف جانے والی نہر بھی اہم ہے، دریائے سندھ کو ملانے کے لیے بھی ایک اسکیپ تعمیر کی گئی ہے جس میں مچھلی کا شکار کرنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔یہاں تازہ اور دریائی مچھلی ہر وقت دستیاب ہوتی ہے۔
اس قصبے میں ایک تاریخی کینال ریسٹ بھی بنا ہوا ہے جس کو 1928 میں انگریزوں نے تعمیر کیا تھا یہ ایک خوبصورت پارک میں واقع ہے جہاں خوبصورت پرندے چہچہاتے رہتے ہیں۔انگریز دور کے بنے ہوئے پل یعنی برج بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔

اہم سوغات

رحیم یار خان کی اہم سوغاتوں میں خان پور کے پیڑے ، مٹن کڑاہی جو کوئلوں پر تیار ہوتی ہے، چاچڑاں شریف کا نمک گوشت، پیڑوں والی لسی، کیفے سجاول کی میٹھائی اور ججہ عباسیاں کی کھجور کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہاں کا آم بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔

یہ ایک خوبصورت اور ذرخیز ضلع ہے جہاں اعلیٰ میعار کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں، یہاں کی میعاری تعلیم پورے پاکستان میں مشہور ہے، یہاں کافی صنعتیں بھی قائم ہیں اور لوگ کافی خوشحال ہیں۔کاٹن کے حوالے سے اس ضلع کو بڑے پروڈیوسر کے طور پر مانا جاتا ہے یہاں کی چینی اور گڑ پورے پاکستان میں بھیجا جاتا ہے۔

روحانی مراکز

یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں جدید اور مادیت پرستی کے دور میں روحانیت بھی ملتی ہے، دادی کرم خاتون، بابا حمید الدین سرکار کے مزارات سے ہندو مسلم سب فیض حاصل کرتے ہیں۔ صاحب تحریر کے دادا سید رحم علی شاہ اور دادی سیدہ بہار خاتون کے مزارات بھی روحانیت کا مرکز ہیں۔دین پور شریف بھی اہم مذہبی درسگاہ اور روحانی مرکز کی حیثیت سے پورے ملک میں شہرت رکھتا ہے۔

مولانا سندھی سمیت دیگر مشاہیر کی سر زمین

اس ضلع کی زرخیز مٹی نے صرف فصلیں ہی پیدا نہیں کی ہیں بلکہ کئی مشاہیر بھی پیدا کیے ہیں۔جن میں سر فہرست مولانا عبیداللہ سندھی، چودھری عبد المالک مرحوم، ہارون الرشید مشہور تجزیہ کار، حکیم عبد الماجد چشتی مرحوم ، مخدوم سید احمد محمود، مخدوم احمد عالم انور، مخدوم سید مبین احمد، جہانگیر ترین، مخدوم شہاب الدین، نامور زاکر اہل بیت مخدوم سید فیاض حسین، مخدوم خسرو بختیار، مخدوم سید لال سائیں، شیخ فیاض الدین، ظفر اقبال وڑائچ، چودھری جعفر اقبال، جنرل عاصم سلیم باجوہ قابل ذکر قومی شخصیات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اسلام آباد , دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button