Columns

ہمارے معاشرے کے تضادات ، ہم ایسے کیوں ہیں ؟

ہمارے معاشرے کے تضادات ، ہم ایسے کیوں ہیں ؟

عابد محمود عزام

(کالم نگار ایک پروفیشنل صحافی ہیں ، ملک کے کئی مؤقر روزناموں سے وابستہ رہےہیں ،روزنامہ ایکسپریس سمیت مختلف اخبارات کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں)

کبھی تنہائی میں سوچیں

کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی ہم لوگ دوغلے اور دہرے معیار کے لوگ ہیں، اگر تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں تو اپنے ہی کردار سے ہم شرمندہ ہو جائیں۔ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔

شریعت ہم بس دوسروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں

دینی احکامات اور تعلیمات کا اطلاق سب کی زندگی پر یکساں ہوتا ہے، لیکن ہم صرف دوسروں پر ہی مکمل شریعت کیوں نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ خود دینی تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہم دین کو اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیوں کرتے ہیں؟

بدعنوانی سے نفرت مگر خود بدعنوانی کرنے والے

ہم لوگ بد عنوانی سے سخت نفرت کرتے ہیں، لیکن جب موقع ملے تو خود بدعنوانی کیوں کرتے ہیں؟ ہر شخص، جس بھی مرتبہ اور عہدہ پر فائز ہو، وہ کسی کوتاہی کی ذمے داری لینے کو تیار کیوں نہیں ہوتا؟ معاشرے کے کسی عزت دار کردارکو غیر مہذب الفاظ کی بھینٹ چڑھا کر اسے گالی کیوں بنا دیتے ہیں؟

صرف دوسروں سے ذاتی زندگی میں عدم مداخلت کی امید کیوں ؟

ہم چلتے وقت سڑک، پہنتے وقت کپڑوں، بیٹھتے وقت بیٹھک اور بولتے وقت الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنے قول و فعل سے دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کیوں کرتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہماری زندگی میں مداخلت نہ کرے، لیکن خود دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کیوں کرتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگ اپنی خامیاں دورکریں، لیکن خود اپنے گریباں میں کیوں نہیں جھانکتے اور اپنی خامیاں دور کیوں نہیں کرتے؟

خواتین کے حوالے سے دوہرا معیار

ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہم پر بلاوجہ تنقید نہ کرے، لیکن ہم خود دوسروں پر بلاوجہ تنقید کیوں کرتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ پورا معاشرہ ہماری خواتین کو اپنی ماں بہن کی طرح عزت دے، لیکن خود دوسروں کی خواتین کو عزت کیوں نہیں دیتے؟ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کیوں کیا جاتا ہے؟ ہم لوگ یورپ امریکا کو خواتین کی عزت و احترام کا لیکچر دیتے نہیں تھکتے، لیکن خود ہمارے ہاں کاروکاری، وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر خواتین کا قتل جیسی روایات پر عمل کیوں کیا جاتا ہے؟

ہمیں مرضی کا سچ کیوں چاہیے ؟

ہم کیوں صرف اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتے ہیں؟ اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ ہم اپنے سیاسی لیڈر کو فرشتہ سمجھتے ہیں، لیکن دوسروں کے لیڈر کو دنیا کا سب سے برا انسان کیوں سمجھتے ہیں؟ مخالف جماعت کے رہنما کے خلاف طوفان بدتمیزی مچا دیتے ہیں، لیکن اپنی جماعت کا رہنما بالکل غلط کام کرے تو ہمیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ ہم اپنے رہنما کے غلط کاموں کی بھی تعریف کرتے ہیں، لیکن مخالف جماعت کے رہنما کے اچھے کاموں کی تعریف کے بجائے ان پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟

اپنے لئے سب جائز دوسروں کے لئے سب ناجائز کیوں ؟

مخالف جماعت کے لیڈر کے خلاف الزام تراشی کیوں کرتے ہیں؟ اپنی آنکھوں پر ہمیشہ دہرے معیار کی پٹی کیوں باندھے رکھتے ہیں؟ اپنے لیے ہر چیز جائز، جب کہ معاشرے کے دیگر افراد کے لیے ہر چیز ناجائز کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم پورے معاشرے کو سدھارنا چاہتے ہیں، لیکن خود میں سدھار لانے اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے معاشرے میں شعبہ ہائے زندگی کے ہر معاملے میں خودغرضی اور مفاد پرستی کا عنصر غالب کیوں ہے؟

حقیقت پسندی اور خود احتسابی سے چڑ

ہر معاملے میں ہمارے رویے انتہائی منافقانہ کیوں ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راستہ حقیقت پسندی، خود احتسابی اور اعلیٰ اخلاقی معیار سے وابستہ ہوتا ہے، لیکن ہم حقیقت پسندی، خود احتسابی اور اعلیٰ اخلاقی معیار سے کوسوں دور کیوں ہیں؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ دہرے معیار رکھنے والے معاشرے محض دائروں میں ہی گھومتے رہتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہم لوگ کیوں ہمیشہ دہرے معیار اپناتے ہیں؟ ہم لوگ کیوں صرف دوسروں کی خامیاں دور کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، اپنی خامیاں دورکرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

ایمان داری کا تقاضا صرف دوسروں سے

ہم لوگ ملک کی تعمیر و ترقی کے خواہاں ہیں، لیکن خود ملک و قوم کی ترقی کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ ہم بحیثیت شہری اپنا فرض ادا نہیں کرتے، لیکن پھر بھی کیوں بہتری کی امید لگائے رکھتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ ہر معاملہ ایمانداری کے ساتھ کریں، ہمیں دھوکا نہ دیں، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے، ہم دوسروں کو دھوکا کیوں دیتے ہیں؟

ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا عادل حکمران ملے، لیکن ہم خود کو معاشرے کا بدعنوان شہری کیوں ثابت کرتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں کوئی برائی نہ ہو، ہر مجرم کو سزا ملے، لیکن یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہم جو مرضی کریں، ہمیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو؟

سیاست دانوں کا دوغلا پن

ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ عوام ہر قانون پر عمل کریں۔ملک کو مضبوط بنانے میں ان کا ساتھ دیں، لیکن خود حکمران بے تحاشا کرپشن کیوں کرتے اور قوانین کیوں توڑتے ہیں؟
ہم سیاست دانوں کو جی بھرکے برا بھلا کہتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ تصویریں بنوا کر خوش کیوں ہوتے ہیں؟ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر گھنٹوں ملکی مسائل کا رونا رہتے ہیں، لیکن عملی طور پر اپنی گلی یا محلے کا بھی کوئی کام کرنے کے لیے آگے کیوں نہیں آتے؟ حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کریں، لیکن ہمیں جہاں بھی ضرورت پڑے تو اپنا اثر و رسوخ استعمال کیوں کرتے ہیں؟

یورپ کو عریانی کا طعنہ خود انٹرنیٹ پر جنسی سرچ میں آگے

نجی محفلوں سے لے کر میڈیا تک یورپ اور امریکا کو جی بھر کے کوستے ہیں، لیکن انھی ممالک کے ویزے کے لیے مرے کیوں جاتے ہیں؟ دنیا میں امریکا و یورپ کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ پر جنسی سرچ کے حوالے سے ہم آگے آگے کیوں ہیں؟

دوسرے قطار نہ توڑیں بھلے ہم توڑیں

ہم تمام دوسرے مذاہب کی قوموں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن خود ساری دنیا سے پیار محبت اور برابری کی امید کیوں رکھتے ہیں؟ کوئی دوسرا ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرے تو ہمیں برا لگتا ہے، لیکن ہم خود قانون کی پاسداری کیوں نہیں کرتے، کیوں ٹریفک سگنل توڑ کر سینہ پھلاتے ہیں؟ ہم لوگ ٹریفک کے قوانین پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
کوئی دوسرا قطار توڑے تو ہمیں برا لگتا ہے، لیکن خود ہم قطار کیوں توڑتے ہیں؟

اپنے ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کے عمل میں ہم سب کیوں شریک ہوتے ہیں؟ہم لوگ اپنے ملک و قوم کے ساتھ مخلص کیوں نہیں ہیں؟ ہم لوگ صفائی کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟ کیوں اپنے گھر، علاقے، شہر اور ملک کی صفائی پر توجہ نہیں دیتے؟ ہم لوگ کیوں جگہ جگہ گندگی پھیلاتے ہیں؟

صرف اپنی بات منوانے کی عادت

ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ ادب سے پیش آئیں اور ہماری ہر بات پر سر تسلیم خم کریں، لیکن کسی دوسرے کی بات تسلیم کرتے ہوئے ہماری عزت پر حرف کیوں آتا ہے؟ جگہ جگہ ہم اخلاقیات کا درس دیتے ہیں، لیکن خود ہماری زندگی میں اخلاق کا دْہرا معیار کیوں ہوتا ہے؟ ہم اخلاقیات کے معاملے میں اتنے پست کیوں ہیں؟ ہم ان منافقانہ رویوں میں کیوں گھرے ہوئے ہیں؟ ہمارے معاشرے کی عمارت منافقت، تضادات، جھوٹ اور دوغلے پن پر کیوں کھڑی ہے؟ ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟ ہم ایسے کیوں ہیں؟

یہ بھی پڑھیئے:

شیخ قرضاوی کی دینی اور علمی خدمات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button