Character Building & TarbiyahEmotions & BehaviorSelf developmentYounug Writers

خود اعتمادی مضبوط شخصیت کی ضمانت

خود اعتمادی کیا ہے؟

خود اعتمادی یہ ہے کہ ہم اپنی ذات اور صلاحیتوں کے بارے میں اچھا اور مثبت گمان کرنے لگیں اپنے بارے میں ہم یہ محسوس کرنے لگیں کہ اللہ نے ہمیں بہترین صلاحیتوں اور امکانات سے نوازا ہے چنانچہ ہم کسی دوسرے انسان سے کمتر نہیں ہیں بلکہ دوسروں کی طرح بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔یعنی انسان اپنے بارے میں یہ مثبت گمان رکھےکہ خدا نے اس کے اندر صلاحیتوں اور امکانات کے جوبیج رکھے ہیں ان کوپروان چڑھا کر وہ ہر میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اسی سوچ اور کیفیت کا نام خوداعتمادی ہے۔

عزت نفس خود اعتمادی کی بنیاد

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ایک ہوتی ہے خوداعتمادی جسے انگریزی میں (Self Confidence) کہتے ہیں جبکہ دوسری چیز عزت نفس ہے جسے انگریزی میں (Self Esteem) کہتے ہیں۔ عزت نفس جس کو علامہ اقبال ؒ تصورذات سے تعبیرکرتے ہیں یہ انسانی شخصیت کی کامیابی کی بنیاداور کلیدہوتی ہے اسی بنیاد کے اوپر خوداعتمادی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔لہذ ا کامیاب اور خود اعتماد زندگی کے لئے سب سے پہلے تصور ذات کو مضبوط بنانا ضروری ہوتا ہے۔

عزت نفس یا تصور ذات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان کے سامنے کمتر خیال نہ کرے۔کیونکہ خود کو کمتر خیال کرنے سے ایک نقصان احساس کمتری کا ہوگا کہ اس انسان کی بہت ساری خوبیاں اور صلاحیتیں اس کی اپنی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گی اور وہ خود کو کمتر تصورکرے گا،چنانچہ وہ کسی بھی کام کوکرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ جبکہ دوسری طرف یہ تخلیق خداوندی کی توہین کا کیس بھی ہے۔ کہ خدانے ہر انسا ن کو عزت و تکریم بخشی اور فرمایا “بے شک ہم نے انسان کو عزت وتکریم سے نوازا اور بحر و بر میں ہم نے اسے سواری عطاکی۔” جبکہ سورہ بقرہ میں اسے اپنا نائب اورخلیفہ قراردیا ۔لیکن وہ خو د خدا کی دی ہوئی اس عزت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی ذات کو کمترسمجھ رہا ہے۔

احساس برتری اور تکبر

البتہ اپنےآپ کو کسی دوسرے انسان سے برترسمجھنااور اسے خود سے کمتر سمجھنا بھی شریعت کی نظر میں گناہ ہے جو تکبر کے دائرے میں آتا ہے، اگر انسان خدانخواستہ اس کیفیت کا شکار ہوجائے تو وہ بھی خداکے بندوں کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ خود اعتمادی حقیقت میں احساس برتری اور احساس کم تری کے بیچ کی کیفیت کا نام ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول

مثبت تصور ذات کے بارے میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک قول ہے کہ جو شخص اپنی ذات کی قدرومنزلت نہیں پہنچانتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔اور جس شخص کی نظر میں خوداپنی ذات کی عزت وتکریم نہیں ہوگی وہ اسے نفسانی خواہشات کے پیچھے لگالے گا۔ بہرحال عزت نفس اور توقیر ذات انسان کی بنیادی نفسیاتی ضرورت ہے۔اسی کے ذریعے وہ اپنے آپ کو اہم، کارآمد اور قیمتی سمجھنے لگتا ہے اور اسی تصورکی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو بامقصدبناسکتا ہے۔ انسان کا تصور ذات جتنا مضبوط ہوگااوروہ اللہ تعالی کی ذات پر یقین کے ساتھ اپنی ذات میں موجود اس کی طرف سے عطاکرہ صلاحیتوں پر جتنا زیادہ بھروسہ کرےگا اتنا ہی زیادہ وہ کامیاب ہوگا۔

خود اعتمادی کے انسانی شخصیت پر مثبت اثرات

مقابلے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے

خود اعتمادی کے بغیر انسان زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی وہ پرسکون رہ سکتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے گا اور اپنے آپ کو کوستا رہے گا کہ تجھ میں یہ بھی کمی ہے اور یہ بھی خامی ہے اور دوسرے لوگ تم سے اچھے ہیں ان میں یہ بھی خوبی ہے اور وہ بھی خوبی ہے۔ جبکہ پراعتماد انسان اپنی ذات کوکوسنے اور اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے آگے بڑھ کردنیا کامقابلہ کرنے کو تیار ہوگا۔

پر اعتماد شخص پر دوسرے بھی اعتماد کرتے ہیں

خوداعتمادی سے بھرپور انسان پر دوسرے لوگ بھی اعتماد کرنے لگتے ہیں اور اسے پسند بھی کرتے ہیں۔ یاد رکھئے انبیا علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی انسان بھی پرفیکٹ یا کامل نہیں ہوسکتا کہ اس کی ذات میں ساری خوبیاں ایک ساتھ جمع ہوں اور کوئی خامی اس میں نہ ہو۔ بس اتنی سی بات ہے کہ انسان اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے اپنی ذات کو کیسا خیال کرتا ہے؟اسی سوال کے جواب پر اس کی کامیاب یا ناکام شخصیت کی تعمیرشروع ہوجاتی ہے۔

معاشرتی کردار نکھر جاتا ہے

خوداعتماد شخص عزت نفس سے بھرپور، خوداری سے لبریز، ارادے کی پختگی سے معمور،ایمان دار ، دیانتدار اور بلندکردار ہوتاہے۔ وہ مفید اور مثبت شخصیت کاحامل ہوتاہے۔زندگی کی مشکلات سے وہ گھبرانے والا نہیں ہوتا بلکہ جس چیزکو وہ درست سمجھتاہے اللہ پرایمان اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کے ساتھ وہ اس کام کے لئے ڈٹ جاتا ہے،وہ حق کے لئے ڈٹ جاتا ہے کبھی ہار نہیں مانتا وہ دوسروں سے جلدی متاثر نہیں ہوتا۔یعنی خوداعتماد شخص معاشرے میں بہترین رویوں کا مظاہر ہ کرتاہے جس سے اس کے اعتماد میں اور بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کا معاشرتی کردار مزید نکھرتاچلاجاتا ہے۔

خود اعتمادی کی پہچان کیا ہے؟

چندچیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ پہچان سکتے ہیں کہ ہم میں یا کسی دوسرے انسان میں خوداعتمادی کی سطح کتنی بلند ہے۔ اپنا جائزہ لینے کے بعد اگرکسی کو اپنی ذات میں خوداعتمادی کی کمی نظر آئے تو معلوم ہونے کے بعد وہ اس میں بہتری کی کوششیں کرسکتاہے۔

خوداعتمادی کی یہ علامات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ خوداعتماد انسان اپنی کارکردگی پر مطمئن دکھائی دیتا ہے اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے۔یعنی وہ سوچ سمجھ کر جب کوئی فیصلہ کرتا ہےتو اس پر اسے اطمینان ہوتا ہے اور خوداعتمادی کے ساتھ اسے کسی کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

2۔ نئے حالات وواقعات اور چیلنجز سے گھبرانے کے بجائے وہ ان کو خوش آمدیدکہتا ہے۔ خوشی سے ان کاسامنا کرتا ہے کبھی کامیاب ہوجا تا ہے جس سے اس کی خوداعتمادی میں مزیداضافہ ہوتا ہے اور کبھی وہ ناکام بھی ہوتا ہے لیکن اس سے دل برداشتہ نہیں ہوتا۔

3۔ خوداعتماد شخص اپنی جسمانی ساخت اور حلیے کی وجہ سے کبھی پریشان نہیں ہوتا ۔ مثلا وہ یہ سوچتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا کہ وہ پستہ قد ہے کالی رنگت والا ہےیا کوئی اور بات ہے۔ یعنی خوداعتما د شخص ان قدرتی باتوں کو لے کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے ہے اس کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے ۔بلکہ وہ شکرگزاری کے ساتھ آگے دیکھتا ہے اور اپنے ٹارگٹ پر توجہ دیتا ہے۔

4۔ خوداعتماد شخص تنقید کو حوصلے سے سنتا ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔کسی کی تنقید یا اپنی کسی غلطی سے وہ پانی پانی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان چیزوں میں بہت زیادہ حساسیت دکھاتا ہے۔

خوداعتمادی سے محروم شخص کی نشانیاں

اس کے مقابلے میں خوداعتمادی سے محروم شخص کی نشانیاں یہ ہیں کہ وہ اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ کسی کام کو کرنے سے یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر گھبراتا ہے کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکے گا یعنی میرے اندر اس کی اہلیت موجود نہیں ہے۔ وہ نئے حالات اور چیلنجز سے بھی کتراتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ ان کا سامنا بالکل نہیں کرسکتا۔ اس کے دل میں ایک انجانا خوف ہوتا ہے جو اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔وہ دوسروں سے فورا متاثر ہوجاتا ہے کسی کی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی وجہ لوگ ہوتے ہیں کوئی اہم مقصد نہیں۔ یعنی بعض کاموں کو صرف اس لئے کرنے سے کتراتا ہے کہ ان کو کرنے سے لوگ کیا کہیں گے؟ حالانکہ وہ زندگی کے اہم کام ہوتے ہیں۔ سماجی تعلقات اور سرگرمیوں سے گریز اور بہت جلد جھنجھلاہٹ کا شکار ہونا بھی کم اعتمادی کی علامات میں سے ہیں۔

خوداعتمادی میں کیسے اضافہ کریں؟

خوداعتمادی بہت کم لوگوں میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے ورنہ یہ بھی ایک کسبی چیز ہے یعنی اپنی محنت اور کسب سے اپنے اندر خوداعتماد ی پیدا کی جاسکتی ہے۔ہم یہاں یہ گر بتانے کی کوشش گے کہ کمزور اعتماد والا انسان اپنے اندر خوداعتمادی کیسے پیداکرسکتاہے تاکہ وہ زندگی میں کامیاب ہوسکے۔ چنانچہ یہاں دس ایسی ٹپس بتائی جارہی ہیں جن سے ہرانسان اپنے اندر خوداعتمادی کا جوہر پیدا کرسکتاہے۔

• علم اور معلومات میں اضافہ کیجئے!

علم ایک روشنی ہے جس سے انسان کو زندگی کا راستہ صاف دکھائی دینے لگتاہے اور اس میں اضافے کی وجہ سے انسان میں خوداعتمادی پیداہوتی چلی جاتی ہے جبکہ جہالت یا علم کی کمی کی وجہ سے خوف اور عدم اعتماد پیدا ہونے لگتا ہے۔جو کام زندگی میں آپ کرنا چاہتے ہیں پہلے اس کو اچھی طرح سیکھیے۔اس علم کے نامور لوگوں سے رابطہ رکھیے ،اپنے علم ، شعور اور مہارتوں میں اضافہ کرتے رہیے اور ان کو اپڈیٹ کرتے رہیے۔ اس سے آپ میں خوداعتمادی خود بخود پیدا ہوناشروع ہوجائے گی کیونکہ علم بے خوفی کی علامت ہے۔

آج کل ٹیکنالوجی کی بدولت کسی چیز کو بھی سیکھنا بہت آسان ہوچکا ہے۔بس اپنے اندر طلب پیدا کیجئے اور سیکھناشروع کیجئے، جتنا علم بڑھتا چلاجائے گا اتناہی کانفیڈنس اور خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اس کے لئے خوب کتابیں پڑھیں ، مضامین کا مطالعہ کریں ،ویڈیوز دیکھیں، کورسزاور ورکشاپ جوائن کریں۔اپنے علم کو بڑھانے اور اپڈیٹ کرنے کے لئے باقاعدہ بجٹ بنائیے، سفر کیجئے کیونکہ سفر سے خوب علم ملتا ہے علاوہ ازیں اہل علم سے دوستی رکھنے کی کوشش کیجئے۔

• تجربہ

تجربہ علم سے اگلامرحلہ ہوتا ہے جوکسی ایک کام کو بار بار کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے اور اس سے انسان کو حق الیقین کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔یعنی علم حقیقی معنوں میں تجربے کے بعد ہی حاصل ہوتاہے۔ایک بڑے ماہرتعلیم اور ماہرنفسیات و فلسفہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: کہ جب میں علم کی بات کو سنتا ہوں تو بھول جاتا ہوں ، جب اسے کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ بات مجھے یاد رہتی ہے، لیکن جب میں اپنے ہاتھ سے اسے تجربہ کرتا ہوں تو حقیقی معنوں میں سمجھ جاتا ہوں۔
تجربہ وہ چیز ہے جو انسان کو بے خوف کردیتا ہے اور اس کے اعتماد میں اٖضافہ کردیتا ہے۔لہذا کسی بھی کام میں تجربہ کا موقع ہو اسے ضرورآزمائیے اس سے آپ کے کانفیڈینس میں اضافہ ہوگا۔

• اپنے اندر کوئی نمایاں خوبی پیدا کیجئے۔

جب آپ کے اندر کوئی نمایاں خوبی ایسی آجاتی ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو اس سے آپ کے آس پاس کے لوگ آپ کو اہمیت دینا شروع کردیتے ہیں جس سے آپ کی خوداعتمادی میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتاہے۔ مثلا کوئی فن کوئی ہنر ایسا ضرور سیکھ لیجئے جو ہرایک کے پاس نہ ہو اور اس ہنر سے آپ لوگوں کا کوئی مسئلہ حل کرسکتے ہوں ۔جب آپ اپنے مخصو ص فن یا ہنر سے لوگوں کے مسائل کو حل کرنا شروع کریں گےتو لوگ خودبخود آپ کو اہمیت دینا شروع کریں گے اور آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔لہذا اپنے اندرضرور کوئی نمایاں خوبی پیدا کیجئے۔

• اپنی کامیابیوں کو پیش نظر رکھیں

ہرانسان زندگی میں کئی کامیاب کام اور پروجیکٹ کرچکا ہوتاہے خوداعتمادی کے حصول اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کامیابیوں کو پیش نظر رکھیں۔ جس سے اپنے اوپر آپ کا اعتماد بڑھ جائے گا اور مزید کام کی ہمت پید اہوجائے گی۔اس کا آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ اپنی کامیابیوں کی ایک لسٹ بناکر اپنے سامنے رکھیں ، ان کامیابیوں کو باربار دیکھئےاور ان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں۔ اپنی کامیوں کو باربار دیکھنے سے آپ کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

• جسمانی ورزش کو روزانہ کا معمول بنائیں۔

جسمانی ورزش وہ چیز ہے جو آپ کو صحت کے ساتھ خوشی اور توانائی بھی عطاکرتی ہے۔ اس سے جسم ہلکاہونے کے ساتھ ذہن بھی ہلکا پھلکا محوس ہونے لگتا ہےاور ڈپریشن ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی فٹنس کے ساتھ انسان میں بھرپور خوداعتمادی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے بے شمار واقعات سے بھی ہمیں اپنے جسم کو چاق وچوبند اور تندرست وتوانا رکھنے کا سبق ملتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی مومن قوی کو پسند کرتے ہیں یعنی ایمانی قوت کے علاوہ جسمانی طور پر فٹ اور مضبوط اعصاب کے مالک مومن کو اللہ تعالیٰ زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ہمیں جسمانی ورزش کو اپنی روٹین کا حصہ بنانا چاہیے۔

• جسمانی اعضا اور اعصاب کو درست پوزیشن میں رکھیں۔

جب آپ چل رہے ہوں تو اپنے جسم کے اعضا کو اپنے کنٹرول میں رکھیں کمرسیدھی ہو نظریں اوپر ہوں، کندھے برابر ہوں،ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ہو۔ جب آپ بیٹھے ہوں تب بھی کمرسیدھی ہواور کندھے جھکے ہوئے نہ ہوں۔کسی سے بات کریں تو اطمینان کی کیفیت ہو نظریں ملا کربات کریں۔ بات کرتے ہوئے نظریں چرانا اور کسی اور چیز سے کھیلنا یا کسی دوسری چیز میں مشغول ہونا عدم اعتمادی کی علامت ہوگی۔

• جسم کی صفائی کے ساتھ مہذب لباس پہنیں!

خود اعتمادی کے لئے ضروری ہے کہ آپ جسمانی طور پر صاف ستھرے رہتے ہوں حلیہ مہذب ہو او ر لباس ایسا ہو کہ آپ کے جسم کو جچتا ہو ، نیز صاف ستھرا ہو۔ جسم کی صفائی اور مہذب لباس پہننے سے آپ کے اندر خوداعتمادی خود بخود پیدا ہوگی ورنہ اس میں کمی ہوگی۔

• لینگویج اور باڈی لینگویج کو بہترکریں

آپ کی زبان شستہ ہو، لہجہ نرم ہو اوربات کرنے یا سمجھانے کا انداز مہذب ہو یہ آپ کی شخصیت کی پہچان ہے اس کے ساتھ ساتھ بولنے میں متانت اور باڈی لینگویج کا بھی اس میں بڑاعمل دخل ہے۔بولتے وقت آپ کی آئی کنٹیکٹ اور باڈی لینگویج میں توازن اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آپ کی خوداعتماد ی میں مزید اضافہ کردے گی۔

• کسی کی تعریف پر اللہ کا شکراداکریں

کوئی آپ کی تعریف کرے تو اللہ کا شکرادا کریں او ر اس کی تعریف کو قبول کریں۔ اور ساتھ ہی تعریف کرنے والے کے حسن ظن کا بھی شکریہ اداکریں۔کسی کی تعریف پر یہ کہنا کہ نہیں میں نے توکوئی اہم کام نہیں کیا یا یہ تو تم بھی کرسکتے ہو یا تعریف کرنے پر شرمانا یہ سب خوداعتمادی میں کمی کی نشانیاں ہیں ان سے اجتناب کریں۔

• اپنا تقابل کسی دوسرے انسان سے بالکل نہ کریں!

اپنی ذات اور صلاحیتوں کا تقابل کبھی کسی دوسرے انسان سے بالکل نہ کریں بلکہ اپنے حال کا تقابل اپنے ہی ماضی سے کریں۔یعنی یہ دیکھیں کہ پہلے کے مقابلے میں مجھ میں اب کیا بہتری آئی ہے۔ دوسروں سے تقابل کے دونقصانات ہوسکتے ہیں ۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ آپ اپنی کمی کا تقابل کسی دوسرے کی خوبی کے ساتھ کریں گے تو نتیجے میں احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے جوآپ کی شخصیت کے لئے تباہ کن ہے۔ اگر دوسرے کی برائیوں کے ساتھ اپنی اچھائیوں کا تقابل کریں تو آپ احساس برتری کا شکار ہوجائیں گے جو تکبر ہے۔جبکہ اپنی اچھائیوں کا دوسروں کی اچھائیوں کے ساتھ تقابل ہونہیں سکتا کیونکہ ہرانسان کےاپنے خاص قسم کے احوال وظروف ہوتے ہیں لہذا اپنا تقابل کسی دوسرے انسان سے کرنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔

• سوشل ایکٹیوٹیز میں مصروف رہیں!

دوسروں سے مل جل کر رہنا اور دوسروں کی مدد کرنا آپ کی شخصیت کو بہتر بنانے اور خوداعتمادی پیداکر نے میں بہت معاون ومددگار ہے گا۔اس کا بھرپوراہتمام کریں اس سے معاشرتی حجاب دور ہوجائے گا اللہ کی رضا اور لوگوں کی دعائیں مل جائیں گی ۔ اور خوداعتمادی کے ساتھ مزید کام کرنے کا موقع ملے گا۔

یہ بھی پڑھیئے:

کردار کی اہمیت اور کردار سازی کے رہنما اصول

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button