Columns

شیشے اور کانچ کی چوڑیوں کے شہر فیروز آباد کی افسانوی شہر ت

شیشے اور کانچ کی چوڑیوں کے شہر فیروز آباد کی افسانوی شہرت

 

نوید نقوی

قارئین! آج ہم ایک ایسے ملک کے دیو مالائی شہر کی سیر کریں گے جس ملک کی پالیسی میں ہمارے ساتھ دشمنی شامل ہے، یہ ملک ازل سے ہمارا دشمن ہے، اس ملک نے ہر میدان میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوششیں کی ہیں، اس ملک نے جموں و مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بہ زور قوت ظلم و ستم کے ذریعے دبا رکھا ہے لیکن ہم بحیثیت پاکستانی یہ عزم صمیم رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا اور مظلوم کشمیری عوام ایک دن اس ملک کی جابرانہ چالوں سے آزاد ہوں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس آزادی کا سورج بہت جلد طلوع ہوگا۔

اس ملک پر مسلمانوں نے صدیوں تک حکمرانی کی ہے اور آج بھی اس وسیع و عریض ملک میں قدم قدم پر مسلم حکمرانی کے آثار ملتے ہیں اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو ظاہر کرتے ہیں۔بھارت میں پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو رچنے بسنے کا موقع ملا، بھارت آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔

ایک ارب 40 کروڑ آبادی کا ملک

بھارت کے ایک ارب 40 کروڑ باشندے سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان اور جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا، مالدیپ سے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور انڈمان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے سمندری حدود سے جڑے ہوئے ہیں۔

سیاسی استحکام کی بدولت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت

اس ملک کی منافقانہ پالیسی اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ہمارے ساتھ ایک ہی وقت انگریزوں سے آزاد ہونے والا یہ ملک لگاتار سیاسی استحکام کی بدولت اب دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہےاور قوت خرید (پی پی پی) کے لحاظ سے تیسری بڑی معیشت ہے۔ یہ اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، اس کا رقبہ 3287263مربع کلومیٹر ہے۔نریندر مودی اس ملک کا موجودہ وزیراعظم ہے جو پوری دنیا میں اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔

فیروز آباد کی وجہ شہرت

یوں تو اس ملک میں ہزاروں تاریخی مقامات موجود ہیں لیکن اس کی ریاست اترپردیش کے معروف شہر فیروز آباد کو ’شیشے اور کانچ‘ کا دارالحکومت کہا جاتا ہے جو روایتی کانچ کی چوڑیاں تیار کرنے کے لیے سب سے مشہور ہے لیکن یہ شہر ایک اور خزانے کا منبع ہے جو انتہائی پوشیدہ ہے۔
یہاں کے ایک رہائشی نے جو فیروز آباد شہر میں رہتے تھے 30 سال قبل پیش آنے والے ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ نے ساڑھی کو جلایا اور اس میں سے خالص چاندی کا ایک پتلا ٹکڑا نکال کر ہمارے حوالے کیا۔

ساڑھیوں میں سونا ،چاندی کا استعمال

ان کی کہانی ایک دیو مالائی حیثیت رکھتی ہے جس میں ایک آدمی ایک جادوگر کی طرح سونا نکال لیتا ہے وہ کوئی حقیقی جادوگر نہیں تھا بلکہ پرانی ساڑھیوں سے سونے چاندی کے تار نکالنے والا ایک ہنر مند تھا۔
فیروز آباد شہر میں اس طرح کے بہت سے کاریگروں کی طرح وہ بھی گھر گھر جا کر پرانی ساڑھیاں جمع کرتا اور ان میں سے قیمتی دھاتوں کو نکالتا۔1990 کی دہائی تک وہاں کی بنی ساڑھیوں میں اکثر خالص چاندی اور سونے کا استعمال ہوتا تھا اور وہ شخص کہتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ میں اپنی ماں کی الماری میں ان کے زرق برق لباس کو تلاش کرتا جیسے میں کوئی خزانہ تلاش کر رہا ہوں لیکن جیسا کہ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ وہ کپڑوں میں اس سے بھی زیادہ قیمتی چیزیں تلاش کرتے تھے، وہ اس کوڑے کی تلاش میں ہوتے تھے جو اس شہر کا مخصوص کوڑا تھا۔

آج اگر آپ 2022 کے آخر میں اس تاریخی شہر کا سفر کریں تو اس تلاش کے کام میں کئی قسم کی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں یہ کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس کے لیے آپ کو اس تاریخی شہر کے بارے میں مکمل طور پر جاننا ہوگا۔ فیروز آباد شہر ، ایک اور تاریخی شہر جہاں محبت کی عظیم نشانی تاج محل ہر خاص و عام کو دعوت نظارہ دیتی ہے، تاج محل والے اس شہر آگرہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ اب قیمتی دھاتوں کے بجائے کانچ کی چوڑیوں کے لیے مشہور ہے۔لیکن اب کچھ محنتی کاریگروں کے لیے، یہ عظیم الشان تاریخی شہر سونے کی کان سے کم نہیں ، یہ ایک ایسا شہر تھا جہاں کبھی نالیوں میں قیمتی دھات بہا کرتی تھی۔اسے سنہ 1354 میں دلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق نے قائم کیا تھا۔ یہ ایک محل والے شہر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں فیروز شاہ کے درباری مورخ شمسِ سراج کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ یہ شاہ جہان آباد (آج کی پرانی دلی یا فصیل کے اندر والے شہر) سے دوگنا تھا۔واضح رہے کہ شاہ جہان آباد یا پرانی دلی کو اسی بادشاہ نے آباد کیا تھا جنھوں نے تاج محل کو تعمیر کروایا تھا۔بعد میں مغل دور کے قلعوں کے لیے ایک نمونے کے طور پر استعمال کیا گیا کیونکہ اس میں پہلی بار عوام کے لیے دیوان عام اور شرفا کے لیے دیوان خاص کے تصور پر مبنی ایوان متعارف کرائے گئے۔

چوڑیوں کا شہر فیروز آباد

اس پرانے شہر کے اب بہت کم آثار باقی ہیں لیکن آپ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ فیروز آباد کی آج بھی اپنی ایک الگ شان قائم ہے۔جوں ہی اس تاریخی شہر میں داخل ہوں تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ تقریباً ہر گلی میں ٹھیلوں اور ٹرکوں پر چوڑیوں کو لے جایا جا رہا ہوتا ہے۔ہندوستانی روایت میں کنگن اور چوڑیاں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، جو شادی شدہ خواتین اور نئی دلہنوں کے لیے خوشحالی اور خوش قسمتی کی علامت ہیں اور یہ تقریباً تمام خواتین کی کلائیوں میں نظر آتی ہیں جبکہ نئی نویلی دلہنیں تو بازو تک بھی چوڑیاں پہنتی ہیں۔

کانچ کی چوڑیوں کی ڈھائی سو سالہ تاریخ

آج یہاں کانچ کی چوڑیوں کے تقریباً 200 کے قریب کارخانے ہیں اور ایسے میں حیرت نہیں کہ اسے چوڑیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔اس ہنر کی تاریخ کم از کم 250 سال پیچھے کو جاتی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ فیروز شاہ کے حکم پر بہت سے لوگ راجستھان سے ہجرت کرکے وہاں پہنچے تھے جنھیں زیورات کی اس قسم کے بنانے میں مہارت حاصل تھی۔انھوں نے اپنے اس ہنر کو مقامی فنکاروں کو سکھایا اور وقت کے ساتھ اس صنعت میں ترقی ہوتی گئی اور یہاں شیشے کی بوتلیں اور فانوس بھی بننے لگے اور ان کی شاہی درباروں اور رئیسوں کی طرف سے بہت زیادہ مانگ ہونے لگی۔
جب پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد غیر ملکی درآمدات پر پابندیاں عائد ہو گئیں تو فیروز آباد کی شیشے کی صنعت میں زبردست ترقی ہوئی۔ سنہ 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد، یہ جلد ہی انڈیا کا شیشہ اور چوڑی کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا اور آج ملک کی شیشے کی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد حصہ یہاں سے وابستہ ہے۔شیشے کی صنعت سے وابستہ مقامی لوگ اور رہائشی یہ بات فخر سے بتاتے ہیں کہ فیروز آباد میں ایک اور قیمتی شے پیدا ہوتی ہے اور وہ سونا ہے۔روایتی طور پر شہر میں تیار کی جانے والی شیشے کی چوڑیاں خالص سونے کی پالش سے مزین ہوا کرتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس عمل کے دوران استعمال ہونے والی بہت سی دوسری اشیا بھی قیمتی دھات کے رابطے میں آئیں جن میں پولش سے بھری بوتلیں اور کنٹینر، بفنگ کے لیے استعمال ہونے والے کپڑے کے سکریپ، وہ ٹوکریاں جن میں تیار شدہ اور پالش شدہ چوڑیاں رکھی جاتی تھیں، اور یہاں تک کہ چوڑیوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی شامل تھے۔یہ کارخانوں، ورکشاپ اور کاریگروں کے گھروں سے نکل کر شہر کی سیوریج پائپ لائنوں میں پہنچ جاتے تھے جو کہ ممکنہ طور پر دولت کا ایک خفیہ سلسلہ تھے۔ جب انھیں جمع کرکے صاف کردیا جاتا تو پھر ان سے قیمتی دھات نکالنے کا کام کیا جاتا۔

کوڑا کرکٹ سے سونا نکالنے کا ہنر

فیروز آباد میں زیورات کی صنعت سے وابستہ سنار کہتے ہیں کہ اُن لوگوں کے لیے جو ان سے ناواقف ہیں یہ مواد کوڑے کرکٹ سے زیادہ کچھ نہیں لیکن جو لوگ دھات سے واقف ہیں وہ اس ’کوڑے‘ کی اصل قدر جانتے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوڑے سے دھات نکالنے کی تکنیک فی الحال صرف چند لوگ ہی جانتے ہیں۔ فیروز آباد کے اس نا معلوم سنار کے مطابق سونے کی پھینک دی جانے والی بوتلوں کو چند گھنٹوں کے لیے تارپین کی ایک بالٹی میں سونے کی باقیات کو نکالنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ دھات کے باقیات تھوڑی دیر میں سطح پر جم جاتے ہیں اور پھر اسے کپڑے کے ایک ٹکڑے میں رکھ کر صاف کیا جاتا ہے اور خشک ہونے دیا جاتا ہے اور آخر میں اسے جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اس راکھ کو چند کیمیکلز کے استعمال کے ساتھ، چولہے یا ہیٹر پر رکھی ریت کی ایک موٹی تہہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور اسے اس وقت تک گرم کیا جاتا ہے جب تک کہ راکھ مائع میں تبدیل نہ ہو جائے۔ مائع ٹھنڈا ہونے کے بعد یہ شیشے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سونے کی باقیات ریت میں رہ جاتی ہیں۔اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بہت صبر اور سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ یقینی طور پر ایسی چیز نہیں جو ایک ہفتے میں سیکھی جا سکے۔ایک بار سونا نکالنے کے بعد اسے جوہریوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے فیروز آباد میں اس ہنر نے کئی افراد کو کروڑ پتی بنایا ہے۔اگرچہ اس ہنر کی تاریخ کا کوئی دستاویزی ریکارڈ موجود نہیں لیکن مقامی لوگ جنھوں نے اسے اپنے والدین یا دادا دادی سے سیکھا، ان کا کا اندازہ ہے کہ سونا نکالنے کا یہ کام گذشتہ 100 سال یا اس سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔تاہم، حالیہ دنوں میں سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور پولش کو بہت حد تک کم مہنگے کیمیکلز سے بدل دیا گیا ہے، لہذا اگرچہ یہ ہنر نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے لیکن یہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔

فیروز آباد کی افسانوی شہرت

اگرچہ چوڑی بنانے کی صنعت میں سونے کا استعمال کافی حد تک کم ہو گیا ہے لیکن اب بھی کچھ اسے اپنے کنگن میں شامل کرواتے ہیں۔ فیروز آباد کی سیر کرنے کا اگر آپ کو بھی موقع ملے تو اس کی گلیوں اور بازاروں میں آپ کو چوڑیوں کو پولش کرتے ہوئے ہزاروں ہنر مند ملیں گے اور ان میں سے اب بھی کئی ایسے ہیں جو خالص سونا استعمال کرتے ہیں۔ آج بھی اس شہر میں آنے والے یورپی اور امریکی سیاح جب آتے ہیں تو ان کی نگاہیں ہمیشہ نیچے ہوتی ہیں اور یہ نیچی نگاہیں شرم یا حیا سے نہیں بلکہ یہ اس خزانے کو تلاش کر رہی ہوتی ہیں جس کے بارے میں سالوں سے کئی قصے مشہور ہیں۔ یہ انڈیا کا ایک ایسا شہر ہے جس کی شہرت کے افسانوں قصے یورپ اور امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

چین میں دنیا کا سب سے گہرا اور خوفناک قدرتی گڑھا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button