ColumnsKashmirPicnic Points

وادی نیلم کے جنت نما گاؤں اڑنگ کیل کی سیر

وادی نیلم کے جنت نما گاؤں اڑنگ کیل کی سیر

عبدالخالق ہمدرد

کیل وادی نیلم کا ایک خوبصورت گاؤں نما قصبہ ہے۔ یہ بالائی نیلم میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں فوجی چھاؤنی اور کئی انتظامی دفاتر کے علاوہ تعلیمی ادارے اور خاصا بڑا بازار بھی ہے۔ ہمیں گاؤں آتے جاتے یہاں سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک زمانے سے گزر رہے ہیں لیکن کبھی یہاں سیر سپاٹے کی نیت سے گھومنے گھامنے کا اتفاق نہیں ہو سکا۔ دو ہفتے قبل گاؤں جاتے ہوئے یہاں ایک بار پھر رکنا پڑا۔ اس بار قیام اس لئے کچھ طویل ہو گیا کہ عین سڑک میں ایک چھکڑا خراب ہو گیا تھا اور گزرنے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔

اس پر مستزاد یہ کہ موسم بھی خراب تھا اور اکتوبر کی سردی علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ جب مطلع کچھ صاف ہوا تو دور پہاڑوں پر تازہ برف بھی دکھائی دینے لگی لیکن ساتھ ہی ایک بار پھر بوندا باندی کا آغاز ہوا۔ ہمیں ایسا لگا کہ کچھ مزید وقت یہاں رکنا پڑے گا۔ اس لئے اس وقت کا مصرف یہ سوچا کہ چل کر اڑنگ کیل دیکھ لیتے ہیں کیونکہ اس کی خوبصورتی کے چرچے تو بہت سنے لیکن وہاں جانے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

گاؤں نما قصبے تک پہنچنے کےلئے دریائے نیلم کو عبور کرنا پڑتا ہے

کیل اور اڑنگ کیل کے درمیان دریائے نیلم کی موجیں حائل ہیں۔ اس کے بعد ایک ڈھلوانی جنگل ہے جس سے گزر کر اڑنگ کیل گاؤں پہنچتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے لئے پیدل رستہ خاصا لمبا ہے۔ کیل کی جانب سے یہ رستہ اترائی میں اترتا اور اڑنگ کیل کی جانب چڑھائی ہے جبکہ واپسی پر یہ معاملہ الٹ ہو جاتا ہے۔ دوسرا رستہ ’’اڑن کھٹولے‘‘ کا ہے کہ اس میں بیٹھ کر آپ ڈیڑھ منٹ میں پار چلے جاتے ہیں اور پھر جنگل سے گزر کر اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔

پت جھڑ کا موسم اور فطرت کی زر نگاری

میں پہلی بار اڑنگ کیل کے دو بدو کھڑا ہوا تو بہت مسرور ہوا۔ دریا کے پار جنگل ایک خوبصورت تصویر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جس میں سر بفلک سرسبزوشاداب درختوں کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ ایسے درخت ہیں جن کے پتے خزاں میں جھڑتے ہیں۔ پت جھڑ کے اس موسم میں یہاں کا منظر بڑا نرالا تھا کہ کہیں درختوں کے پتے ہرے ہیں تو کہیں زرد اور سرخ اور کہیں ایک ایک پیڑ پر یہ سارے رنگ یکجا ہو گئے ہیں۔ اس منظر سے محظوظ ہونے کے لئے کسی نے یہاں ایک دو منزلہ دکان بنا کر اس کی چھت پر جنگلہ لگا دیا ہے۔ ہم بھی وہاں چڑھے اور بوندا باندی، دور اڑتی دھند، سرد ہوا کے جھونکوں اور فطرت کی اس زرنگاری سے لطف اندوز ہوئے۔

پچاس روپے میں کرائے کی لاٹھیاں

یہاں اور بھی چند دکانیں ہیں جہاں سے لاٹھیاں کرائے پر ملتی ہیں اور ہر دکان والے نے اپنی لاٹھیوں پرنشانی کے لئے پلاسٹک کی پٹیاں چڑھا رکھی ہیں۔ لاٹھی کا کرایہ پچاس روپے بتایا گیا۔ ہم نے لاٹھی کی ضرورت نہیں سمجھی، اس لئے نہیں لی البتہ وقت بچانے کے لئے طویل رستے سے جانے کی بجائے اڑن کھٹولے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ انتظار کرنا پڑا مگر سواریاں پوری ہوتے ہی اڑن کھٹولا چل پڑا۔ اس موسم میں یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ اڑن کھٹولے کی تیز رفتار کی وجہ سے ہوا سویوں کی طرح جسم میں چبھتی محسوس ہو رہی تھی۔ ہمارے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے خواتین خاصی سہمی ہوئی تھیں۔

جنگل کا خوف ناک منظر

پار اترے تو جنگل کا منظر ہو بہو ایسا ہی تھا جیسا ہم اپنے بچپن کے زمانے میں گاؤں کے بالائی علاقے ’’ڈنہ‘‘ میں دیکھا کرتے تھے کہ ایسا گھنا جنگل کہ بچے دن کو بھی وہاں سے گزرنے سے ڈرتے تھے۔ سردیوں میں وہاں سے گزرتے ہوئے ہوا چلتی تو درختوں کی شاخوں سے برف گزرنے والوں پر گرا کرتی تھی مگر وہاں اب خاک اڑتی ہے۔ جنگل قصہء پارینہ ہو چکا۔ اس وقت بھی بوندا باندی جاری تھی مگر درختوں کی شاخیں ہمیں بھیگنے نہیں دے رہی تھیں۔

’’اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ رنگ طبیعت جاناں‘‘

جوں جوں ہم اوپر چڑھنے لگے، توں توں سانس بھی چڑھنے لگا۔ تب معلوم ہوا کہ ’’اب نہ وہ ہم ہیں نہ وہ رنگ طبیعت جاناں‘‘ کیونکہ شہری زندگی نے ہمارے اندر کے دیہاتی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اڑنگ کیل کے باشندے مزے مزے سے آ جا رہے تھے، ہم آہستہ آہستہ اور رک رک کر اوپر چڑھ رہے تھے جبکہ ہمارے ساتھ آنے والے چند لمحوں بعد ہی پیچھے کہیں رہ گئے۔ یہی زندگی کا اصول ہے کہ جس میں جتنا دم ہے، وہ اسی رفتار سے آگے جاتا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ہر انسان کو اپنی طاقت کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اپنی صلاحیتوں کو بھلا کر مقابلہ کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔

ایک گیدڑ کے شکار کا دل چسپ اور سبق آموز قصہ

اس پر ایک کہانی یاد آگئی۔ کہتے ہیں کہ ایک گیدڑ شیروں کے ساتھ مل گیا اور اس نے ان کے سردار سے درخواست کی کہ ماموں میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ آپ کا جوٹھا کھاؤں گا اور آپ کی خدمت کروں گا۔ مجھے اپنے ساتھ رہنے دیں۔ شیر نے اسے اجازت دے دی۔ گیدڑ کافی عرصہ شیروں کے ساتھ رہا اور ان کے شکار کے طریقہء کار کا بغور مشاہدہ کرتا رہا۔ آخر کار وہ واپس گیڈروں کے پاس آ گیا اور شیخیاں بھگارنے لگا کہ میں نے یوں اور یوں کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ آئندہ تمہیں تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے شیروں سے شکار کرنا سیکھ لیا ہے۔ میں شکار کروں گا اور سب مل کر کھائیں گے۔ یہ سن کر گیدڑوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

ہونی شدنی ایک دن ’’مہا گیدڑ‘‘ نے اپنے ہم جنسوں کو مرعوب کرنے کے لئے اپنے فن کے مظاہرے کا فیصلہ کر لیا اور سب کو ساتھ لے کر ایک ایسے رستے میں گھات لگا کر بیٹھ گیا جہاں سے ہرنوں کی ڈاریں پانی پینے جاتی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بھئی غور سے دیکھنا، جب میری آنکھیں سرخ اور دم بالکل سیدھی ہو جائے تو بتا دینا۔ اتنے میں ہرن بھی وہاں پہنچ گئے تو مہا گیدڑ نے پوچھا ہاں بھئی دم سیدھی ہو گئی؟ سب نے کہا ہو گئی۔ پھر پوچھا ہاں بھئی انکھیں سرخ ہو گئیں؟ سب نے کہا ہو گئیں۔ یہ سن کر اس نے شیر کی طرح ایک ہرن پر زقند لگائی مگر شومئی قسمت کہ ہرن نے سینگوں سے اسے ایسی پٹخنی دی کہ دور جا گرا۔

جب اس کے اوسان کچھ بحال ہوئے تو گرد جھاڑتے ہوئے واپس آگیا تو گیدڑوں نے کہا کہ آپ تو شکار کرنے چلے تھے، الٹے مار کھا کے آگئے تو مہا گیڈر نے کہا، غلطی میری نہیں تمہاری ہے کیونکہ دم سیدھی نہیں ہوئی تھی، تم نے کہا ہو گئی ہے۔ آنکھیں سرخ نہیں ہوئی تھیں، تم نے کہا ہو گئی ہیں، ورنہ دم سیدھی اور آنکھیں سرخ ہونے کے بعد شکار کا ہاتھ سے نکلنا محال ہے۔ یہ کہانی اپنی جگہ لیکن صحبت کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے اور انسان ایک دوسرے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کو شیخ سعدی نے یوں بیان فرمایا ہے:

گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دست محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلاویزے تو مستم
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولے روزے چند با گل نشستم
جمال ہم نشین بر من اثر کرد
وگرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم

چوکور ہرا تھال جیسا گاؤں

میرے ساتھ چھوٹا بھائی عبد القادر بھی تھا۔ اس کی رفتار مجھ سے تیز تھی لیکن وہ میرے لئے رک رک کر چل رہا تھا۔ اس طرح ہم سولہ منٹ میں جنگل سے گزر کر اڑنگ کیل گاؤں کے کنارے کھڑے تھے۔ سبحان اللہ، کیا لطیف منظر تھا۔ سامنے ایک کھلا میدان تھا، جس کے دوسرے کنارے ویسا ہی ایک اور جنگل والا پہاڑ تھا۔ مغرب کی جانب گاؤں پھر ڈھلان کی جانب جا رہا تھا اور مشرق کی سمت بھی جنگل تھا۔ مختصراً آپ اڑنگ کیل کو ایک چوکور ہرا تھال سمجھ سکتے ہیں جس کے تین طرف جنگل کی دیواریں اور چوتھی طرف ڈھلان ہے۔

بیچ میں واقع میدان میں مغرب کی جانب قدیم آبادی واقع ہے جہاں دو دو تین تین منزلہ چوبی مکان اور بیچ والے علاقے میں بے ہنگم تجارتی مہمان خانے ہیں۔ ان کے بے ہنگم ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہر آدمی نے اپنی زمین میں تعمیر کی ہے۔ اسی طرح کچھ زمین کو گھوڑے دوڑانے کے لئے بنجر بھی بنا دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ خزاں کا موسم تھا اور مال مویشی چراگاہوں سے واپس آ چکے ہیں اور فصلیں کٹ چکی ہیں، اس لئے جگہ جگہ ڈھور ڈنگر اور بھیڑ بکریاں چرتی اور گھومتی پھرتی نظر آئیں۔

جنت میں اور کیا ہوگا ؟

عبد القادر کے ایک دوست اعجاز صاحب نے بڑی محبت اور چاؤ سے ہمیں چائے پلائی۔ کچھ گپ شپ ہوئی اور اس کے بعد ہم واپس چلنے لگے تو ایک دو اور سیاح بھی پہنچ آئے۔ ان میں کوئٹہ کے دو ڈاکٹر صاحبان بھی تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگے کہ اڑنگ کیل کو دیکھ کر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں اس کے علاوہ اور کیا بنایا ہوگا؟ مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی وادیء نیلم میں اور بھی بہت سے مقامات قابل دید ہیں۔ ان میں پھولاوئی، سرداری اور تاؤبٹ جیسے مقامات شامل ہیں۔ ان لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اڑنگ کیل جیسا منظر کہیں اور بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

پیسوں کے لئے مناظر قدرت کی قربانی کب تک ؟

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے مقامی باشندوں کو کچھ مالی فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے لیکن اس کی قیمت کئی اور طریقوں سے چکائی جا رہی ہے۔ پیسوں کی لالچ میں لوگوں نے زمینیں بنجر کر دیں، آباد زمیںوں میں تجارتی مہمان خانے بنا لئے، ہوٹل کھول لئے اور اس قدرتی حسن کو تباہ کر دیا جو کبھی ہوتا تھا۔ یقین نہ آئے تو کیرن، نیلم اور شاردہ وغیرہ کی حالت دیکھ لی جائے۔

یہ تو بھلا ہو ڈوگرہ قانون کا کہ آزاد کشمیر میں ریاست سے باہر کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے، ورنہ ابھی تک نیلم کے باشندے ’’سرخ ہندیوں‘‘ (ریڈ انڈینز) کی طرح کب کے قصہء پارینہ بن چکے ہوتے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ تجارتی سرگرمیں کو بھی کسی قاعدے قانون کا پابند ہونا چاہئے تاکہ تجارت اور قدرتی ماحول میں توازن برقرار رکھا جا سکے۔

مستنصر حسین کے اتفاقات

اڑنگ کیل میں ڈیڑھ دو گھنٹے گزار کر جب ہم واپس روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ اڑن کھٹولے میں آنے والے لوگ ابھی اوپر نہیں پہنچے تھے۔ رستے میں اور لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں لاہور کے ایک دلچسپ آدمی بھی تھے۔ ان سے تعارف ہوا اور میں نے بتایا کہ میں سفرنامچے لکھتا ہوں تو پوچھنے لگے کہ آپ بھی مستنصر حسین تارڑ کی طرح اتفاقات لکھتے ہیں؟ میں نے کہا بھیا میں تو جو دیکھتا ہوں وہ لکھتا ہوں۔ میرے ساتھ اتفاقات نہیں ہوتے۔

“میں مشتاق احمد یوسفی ہوں ،مستنصرحسین تارڑ نہیں”

اس پر وہ کہنے لگے کہ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار ایک خوبصورت دوشیزہ مجھ سے ٹکرا گئی، تو میں نے اسے پیار سے گود میں اٹھایا اور کہا کہ ’’بہن میں مشتاق احمد یوسفی ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں۔‘‘ اس پر ایک ایسا قہقہہ بلند ہوا جس سے اڑنگ کیل کا جنگل گونج اٹھا۔

واپسی پر مطلع صاف ہونے لگا تو منظر اور بھی نکھر گیا اور اب اوپر چڑھنے والی کلفت بھی باقی نہ رہی۔ نہ پسینہ اور نہ شاں شاں کرتی سانس اور نہ تالو سے چپکتی زبان۔ اب تو میں بھی ہرن کی طرح قلانچیں بھر سکتا تھا۔

اونچائی تک جانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے ،نیچے گرنے کے لئے کچھ نہیں کرنا پڑتا

اس سے مجھے معاً یہ خیال آیا کہ بلند مقامات (خواہ وہ مادی ہوں یا روحانی) پر پہنچنے کے لئے تکالیف اور مصاعب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قربانی دینا پڑتی ہے جبکہ نیچے گرنے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ بہت بڑا سبق ہے۔ اس لئے بلندی پر چڑھتے ہوئے آدمی کو اپنی پستی اور کمزوری کبھی نہیں بھولنی چاہئے۔ اس پر ایک چینی کہاوت یاد آ گئی کہ جب پہاڑ پر چڑھو تو رستے میں ملنے والوں سے علیک سلیک کرتے جاؤ کیونکہ اگر آپ کو واپس آنا پڑا تو یہی لوگ آپ کو دوبارہ ملیں گے۔

جب اڑن کھٹولے کے پاس پہنچے تو وہاں لاہور کے کچھ لوگ ملے۔ وہ سب آئے تو اڑنگ کیل دیکھنے کے لئے تھے، لیکن چڑھائی کے خوف سے وہیں سے واپس جانے کے لئے اڑن کھٹولے کے منتظر تھے۔ اڑن کھٹولہ پہنچا تو ایک مقامی آدمی اس سے اترا۔ اس کے پاس کوئی بیس کلو کا بستہ پیٹھ پر، ایک چولہا ایک ہاتھ میں اور کچھ سامان دوسرے ہاتھ میں تھا۔ وہ اس بے نیازی سے وہاں سے اوپر روانہ ہوا جیسے بچے اٹھکھیلیاں کرتے ہیں۔ اب سیاحوں کے لئے یہاں سے اوپر جانے کے لئے پختہ زینہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اڑنگ کیل والے لوگ کسی زمانے میں دو چھکڑے اور ایک ٹریکٹر بھی پرزے کھول کر اوپر لے جا چکے ہیں مگر سنا اب ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

بہر حال اڑنگ کیل کی ہنگامی سیر کے بعد واپس کیل بازار پہنچے تو ایک طرف بارش شروع ہو گئی اور دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا کہ ابھی ابھی سڑک بھی کھل گئی ہے۔ اس سے خوشی ہوئی کہ چلو وقت سے فائدہ اٹھا لیا ورنہ ہمیں اڑنگ کیل جانے کا موقع کب ملتا۔ یعنی ؎

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی

اس کے بعد گاؤں کی راہ لی۔ کیل بازار سے شیرونگی پل تک رستے کی جو حالت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ہم نے اس سڑک کو اپنی یاد میں کبھی صاف اور خشک نہیں دیکھا کیونکہ اس کے بیچ سے پانی گزرتا ہے اور سڑک کو بھی کاٹتا رہتا ہے مگر آج تک کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ پہلے کیل بازار سے گزرنا بھی ایک عذاب ہوتا تھا مگر اب دوسرا سال ہے کہ وہاں کے حالات اچھے ہیں کیونکہ سڑک پختہ ہو گئی ہے۔

وادی نیلم میں سڑکوں کی پختگی کا خوش آئند کام

اس وقت وادیء نیلم میں مختلف مقامات پر سڑک کی توسیع اور پختگی کا کام جاری ہے۔ اسی ضمن میں شیرونگی پل سے آگے چند صد میٹر سڑک پختہ ہو چکی ہے۔ ہم جب اس پر چڑ ھے تو مزا آگیا اور دواریاں سے کیل تک سفر کی مشکل اور ہچکولوں کا مداوا ہوتا محسوس ہوا مگر یہ خوشی برقرار نہ رہ سکی کیونکہ چند ہی منٹ بعد ایک جگہ پہاڑ سڑک پر آ چکا تھا اور بلڈوزر سڑک کی صفائی میں مصروف تھا۔

دریا سے گزرنے کا پر خطر تجربہ

وہاں کھڑے ایک آدمی نے بتایا کہ یہاں سے تو رستہ شاید چار پانچ گھنٹے بعد ہی کھل سکے گا اگر دریا کے اندر سے جا سکتے ہیں تو چلے جائیں۔ ہم بھی بلا سوچے سمجھے دریا کی جانب مڑ گئے۔ یہاں دریا کا پاٹ چوڑا اور پانی کم تھا۔ اس لئے چل پڑے مگر آگے جا کے اندازہ ہوا کہ یہ تو ایک مہم جوئی ہے جس کا نتیجہ خدا نخواستہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اس موسم میں ویسے بھی دریاؤں میں پانی کم ہوتا ہے کیونکہ پرانی برف گل چکی ہوتی ہے جبکہ کشن گنگا ڈیم نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے اور اب نیلم ہر موسم میں جگہ جگہ سے پایاب ہوتا ہے۔

دریا کے گول پتھروں کے اوپر سے گاڑی گزری تو عجیب سا خوف ہونے لگا کیونکہ کبھی پتھر پہیوں کے نیچے سے نکل جاتے اور کبھی پہئے پتھروں سے پھسل جاتے۔ خدا خدا کر کے درمیان میں واقع خشک مقام پر پہنچے تو وہاں ایک بارات کی ایک گاڑی بھی کھڑی تھی۔ دولھا میاں فون کان سے لگائے کبھی ادھر اور کبھی ادھر جا رہے تھے۔ ان کی بے تابی اور بے چینی سے ان کی مشکل صاف چھلک رہی تھی اور اوپر سے ہلکی ہلکی بارش بھی جاری تھی۔ ہم نے ان سے علیک سلیک کی اور نئی زندگی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اس کے بعد کنارے کی جانب چلے تو پانی گہرا تھا۔ یہاں گاڑی کی چمنی سے گڑگڑ کی آواز آنے لگی کیونکہ وہ پانی میں ڈوبی تھی۔ یَہاں سے نکلے تو نئی مشکل یہ آن پڑی کہ اوپر کچھ کچی چڑھائی تھی۔ یہاں سے چاروں پہئے ایک ساتھ گھمانے والی گاڑیاں ہی آسانی سے گزر سکتی تھیں۔

میں نے بھی اوپر چڑھنے کی کوشش کی لیکن آخر میں جا کر ریت میں گاڑی کے پہئے گھوم گئے۔ اب آگے جانے کی کوئی صورت نہ تھی لیکن اللہ کا فضل اور ہماری خوش قسمتی کہ وہاں مزدور اور کئی اور لوگ بھی کھڑے تھے۔ گاڑی اسی جگہ اسٹارٹ چھوڑ کر نیچے اترا اور سامان سے گاڑی کھینچنے کا کنڈا اور پٹہ نکالا۔ اسے گاڑی سے لگایا۔ کچھ لوگوں نے اسے دھکا لگایا اور کچھ نے آگے سے کھینچا اور مہم سر ہو گئی۔ الحمد للہ۔ میں نے یہ پٹہ عبید اللہ کیہر صاحب کے “اونے پونے سٹور” سے خریدا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ گاڑی میں ہنگامی استعمال کی چیزیں ضرور ہونی چاہئیں۔

یہ مہم سر ہوئی تو جان میں جان آ گئی۔ یہاں سے آگے سڑک کچی مگر ہموار ہے۔ اس لئے سفر اچھا رہا۔ مچھل میں بھی کچھ سڑک پختہ ہو چکی ہے۔ اگلے سال کے آخر تک شاید ہمارے گاؤں تک سڑک پختہ ہو جائے گی۔ اس سے سفر میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔

ڈوگہ سے گزرتے ہوئے بڑا ڈر لگا کیونکہ سڑک کچی اور خوفناک تھی، جبکہ پھسلن اضافی۔ جانوئی پہنچے تو گاؤں کے بہت سے لوگوں سے ملاقات ہو گئی جو ایک جنازے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ اسی دوران محمد ندیم منہاس صاحب نے بڑی محبت سے ہماری خاطر تواضع کی اور وہاں سے پھولاوئی روانہ ہو گئے اور اللہ کے فضل وکرم سے اکتوبر 1993 میں گاؤں سے کھلی جیپ پر کوچ کرنے والا دیہاتی بچہ پہلی بار اپنی سواری پر 12 اکتوبر 2022 کو پھولاوئی بازار پہنچ گیا۔

یہ بھی پڑھیئے:

ایک استاد کامل کی ہم نشینی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button