ArticlesSelf developmentShariah Guidence

حسن اخلاق

اخلاق خلق کی جمع ہے۔ عربی زبان میں خلق خ کے زبر کے ساتھ اور خلق خ کے اوپر پیش کے ساتھ دونوں مستعمل ہیں۔ خلق چاہے زبر کے ساتھ ہو یا پیش کے ساتھ دونوں کے معنی پیدائیش کے آتے ہیں۔ البتہ خلق خ کے اوپر زبر کے ساتھ آجائے ہو تو اس کے معنی ظاہری پیدائش کے آتے ہیں۔ جبکہ خ کے اوپر پیش کے ساتھ مستعمل ہوتو اس کے معنی باطنی پیدائش، اخلاق حسنہ اور عمدہ اخلاق کے آتے ہیں۔

اخلاق حسنہ اورعمدہ اخلاق اللہ تعالی کی مختلف صفات کی مقتضیات ہیں۔ اورجو اعمال اللہ تعالی کی صفات کے اقتضا کے برعکس ہوں ان کو برے اخلاق، اخلاق سیئہ یا اخلاق رزیلہ کہاجاتاہے۔

انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت

انسانی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اگرانسان کے اخلاق اچھےہوں تو نہ صرف یہ کہ اس کی اپنی زندگی میں اطیمنان، سکون اور خوشگواری پیداہوگی۔ بلکہ اس کا وجود دوسروں کیلئے بھی چین، سکون، رحمت اور عافیت کا باعث ہوگا۔

اور اگر خدانخواستہ اس کے اخلاق برے ہیں تووہ خود بھی زندگی کے لطف ومسرت سے محروم رہے گا۔ بلکہ جن لوگوں کا اس سے واسطہ یا تعلق ہوگا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہونگی۔ گویا عمدہ اخلاق معاشرے کی فلاح وبہبود او ربھلائی کے ضامن ہیں اور برے اخلاق معاشرے کے بگاڑاور فساد کے موجب ہیں۔

 یہی وجہ ہے ک ہر معقول انسان اخلاقی قدروں کے بقا اور قیام کا حامی ہے۔ اور امر واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کا سارا وجود ہی اخلاقی قدروں پر منحصر ہے اور یہی ارتقائے آدمیت کی جان ہے۔ ہرقانون بے روح، ہرنظام معاشرہ بے نتیجہ او ر ہرنظام حکومت بے معنی ہے اگر اس کی بنیاد اقدار پر نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے اورا نسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتلایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاق حسنہ اختیار کرے اور برے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے۔

رسول اللہﷺ کی بعثت کا مقصد

آپ ﷺ کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن کریم میں ذکرکیا گیا ہے ان میں سے ایک مقصد انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے۔  اور تزکیہ کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے اخلاق کی اصلاح کی جائے۔ اچھے اخلاق کی نشوونما کی جائے جبکہ برے اخلاق کو ان سے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس مقصد کیلئے رسول اللہﷺ کی ذات گرامی کو لوگوں کیلئے رول ماڈل بنایا گیا۔ اور آپ ﷺ کی ذات اقدس میں قدرت کی طرف سے اعلی اخلاق   کے بہترین نمونے رکھے گئے۔ خو د قرآن نے اس کی گواہی یوں دی۔ وانک لعلی خلق عظیم (القلم ) اے نبی ! بے شک آپ اخلاق عظیمہ پر کاربند ہیں۔  رسول اللہ ﷺ نے  اپنی ذمہ داری یوں بیان فرمائی۔ بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ (الحدیث) مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کیلئے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یعنی اصلاح اخلاق کا کام میر ی بعثت کے اہم مقاصد میں سے ہے۔

عمدہ اخلاق کی ترویج اور ہماری ذمہ داری

رسول اللہ ﷺ خاتم البنین بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے بعد قیامت تک دنیا میں کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا۔  ختم نبوت کا پیغا م یہ ہے کہ نبی ﷺ کے بعد ان کی تمام ذمہ داریاں افراد امت کو منتقل ہوئیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب اس ذمہ داری کا احساس کریں۔ خود اپنے اخلاق کی درستگی کی فکر کریں۔ اور قرآ نی حکم  “وتواصو بالحق وتواصوا بالصبر”( العصر)  کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے گردوپیش میں اور معاشرے میں اچھے اخلاق کی ترویج کیلئے اپنی ذمہ داری اور فریضہ سمجھ کر کام کریں۔

حسن اخلاق

حسن اخلاق کی طرف جانے سے پہلے ہم خود اخلاق کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے۔  چنانچہ اخلاق خلق  کی جمع ہے۔ خلق زبر کے ساتھ ہو تو معنی پیدائش کے ہیں۔  اگر خ پر پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو خلق بمعنی فطرت ، عادت، خصلت، جبلت  یا سیرت کے ہیں۔  چنانچہ یہاں اخلاق پیش والے خلق کی جمع ہے۔ جس کے معنی عادت، خصلت، سیر ت اور جبلت کے ہیں۔ اخلاق بمعنی عادات اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی ہوسکتے ہیں۔  اگر اخلاق  کے ساتھ جب حسن کا لفظ لگ جائے تو معنی ہونگے اچھے اخلاق۔ اچھی عادتیں اور اچھی سیرت وکردار۔  جسے دوسرے لفظوں میں اخلاق حسنہ سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔ لیکن اگر اخلاق  وعادات،  سیرت وکردار برے ہوں تو اسے اخلاق سئیہ یعنی برے اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

چنانچہ اخلاق سے مراد انسان کی وہ پختہ عادتیں  یا سیرت وکردار  ہیں جن کے اظہار کیلئے اسے باربار سوچنا نہیں پڑتا۔  بلکہ وہ اس کے مزاج و مذاق اور طبیعت کا لاینفک جز یا اٹوٹ حصہ بن جاتےہیں۔ اور کسی بھی صورت حال میں ان کا اظہار  انسان کے وجود سے خود بخود ہونے لگتا ہے۔  جب یہ پختہ عادتیں ، سیرت وکردار او رمزاج ومذاق  شریعت  ، سماج اور عقل  وعرف کی نظر میں پسندیدہ ہوں تو انہیں حسن اخلاق سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یوں حسن اخلاق میں انسان کی پاکیزہ  سوچ، نفیس احساسات ، خوب صورت وجذبات کے علاوہ  اس کے وجو د سے ظاہر ہونے والے عمدہ  رویے بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ اور حسن اخلاق ان تمام چیزوں کے پیکیج کا نام ہے۔

 امام غزالیؒ کے مطابق اخلاق نفس کی خاص کیفیت کانام ہے جس کااظہار انسان اپنے اعضاو جوارح سے کرتاہے۔ چنانچہ اگر نفس میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو۔ جس سے اعضاو جوارح سے ایسے افعال ظاہر ہوں جو عقلی وشرعی طورپر ٹھیک اور پسندیدہ ہوں تو انہیں حسن اخلاق یا اچھے اخلاق سے تعبیر کیا جاتاہے۔ لیکن اگر نفس میں ایسی کیفیت موجود ہو جس سے شرعی وعقلی طور پر ناپسند افعال ظاہرہورہے ہوں تو ایسی کیفیت کو بداخلاقی کہا جائے گا۔

حسن اخلاق کی وسعت

ہمارے معاشرے میں حسن اخلاق کا لفظ بہت ہی محدود معنوں  پر محمول کیا جاتا ہے۔ سمجھا یہ جاتاہے کہ حسن اخلاق صرف خندہ پیشانی کے ساتھ کسی سے ملنے، کسی کو علیک سلیک کرنے، حال أحوال پوچھنے، یا کسی سے مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح   عاجزی، تواضع اور انکساری کا رویہ اختیار کرنا بھی حسن اخلاق کیلئے کاف سمجھا جاتا ہے۔ یہاں میں  عرض کرتا چلوں کہ یہ سب حسن اخلاق کے مختلف مظاہر ضرورت ہیں۔ تاہم حسن اخلاق کے معنی میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔

اس کے مظاہر میں مذکورہ اوصاف کے علاوہ  عفوودرگزر، عدل واحسان، ایثار وقربانی،  اکرام ومحبت، وسعت ظرفی وسخاوت، صلہ رحمی، والدین، بیوی بچوں اور ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاو، بہن بھائی، عزیزواقارب اور ملنے  جلنے والوں کے ساتھ اچھا اور پسندیدہ رویہ رکھنا وغیرہ رکھنا  یہ سب حسن اخلاق میں شامل ہیں۔

ایک اورنکتہ اس حوالے سے  سمجھنے کا ہے کہ حسن اخلاق کی  کیفیت یا اس کے مظاہر وقتی اور عارضی نہ  ہونے چاہییں ۔ بلکہ اس کیفیت کا مستقل اور دائمی استحضار ہونا ضروری ہے۔ یعنی یہ نہ ہو کہ کسی انسان  سے اچھے اخلاق کے ساتھ عارضی طورپر اس وجہ سے پیش آرہے ہو ں تاکہ اس سے کوئی مطلب نکالا جاسکے اس کو کسٹمر بنایا جاسکے۔ یا کسی خوف  یالالچ کی بنیاد پر ایسا رویہ رکھنا بھی اچھے اخلاق کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا۔

اچھے اخلاق کی دو بنیادی شرائط ہیں۔ پہلی شرط  یہ کہ حسن اخلاق ایک اچھی کیفیت یا مزاج کی شکل میں انسانی نفس، اس کے لاشعور، اس کے  دل وماغ اور اس کی طبیعت کامستقل حصہ بن جائے۔ دوسری شرط وہ عارضی مفاد، غرض، لالچ یا خوف کی وجہ سے نہ ہو۔ بلکہ مستقل ہو۔ اور کسی اعلی مقصد یعنی اللہ کی رضا اور انسانی شرافت کے تقاضے کی وجہ سے ہو۔ ان دوشرطوں کے ساتھ کسی اچھے اورپسندیدہ رویے کے اپنانے کو حسن اخلاق کہاجائے گا۔

حسن اخلاق کی اہمیت

اللھم انت احسنت خلقی فحسن خلقی۔ اے اللہ تونے  ظاہری طور پر مجھے حسین بنایا   اسی طرح میرے اخلاق کو بھی حسین بنادے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  اللہ تعالی سے حسن اخلاق مانگنے کیلئے  دعا  فرمایاکرتے تھے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبیﷺ فرماتے تھے : ( إن من خياركم أحسنكم أخلاقا). متفق علیہ۔ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔

حسن اخلاق انسانی فطرت کا تقاضہ اور انسانی عظمت وشرافت کی نشانی ہے۔ حسن اخلاق کسی بھی مسلک و مذہب، علاقہ وزبان اور رنگ ونسل سے ماورا ایک مطلوب اور مرغوب صفت کانام ہے۔ دنیا کا  ہرانسان حسن اخلاق کو نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ اسے اپنانے کی کوشش بھی کرتاہے۔ کیونکہ یہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے اور ہر انسا ن کی مرغوب صفت ہے۔ حسن اخلاق کے بغیر کوئی فرد بشر انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوتا۔

حسن اخلاق ہی وہ مطلوب صفت ہے جس کی بدولت معاشرے میں باہمی اتحاد واتفاق، محبت والفت، امن وسکون اوراچھے تعلقات پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن خدانخواستہ اس میں کمی واقع ہوجائے اور لوگوں میں بداخلاقی وبد سلوکی کا چلن عام ہوجائے تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کرتنزل کی طرف گامزن ہوجاتاہے۔

لوگوں میں رنجشیں پیداہوجاتی ہیں۔ ان کے آپس میں اختلاف وانتشار واقع ہوتاہے۔ پھر معاشرہ عداوت ودشمنی، بغض وکینہ اور ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی خسیس حرکتوں کا شکار ہوجاتاہے۔ وہ انسانی معاشرے سے گرکر ایک حیوانی معاشرے یامنڈی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس میں اخلاق، اصول اور قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں دھونس، دھمکی، طاقت اور جبر کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں حسن اخلاق

قرآن وسنت کی نظر میں حسن اخلاق کی بڑی قدر وقیمت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے رسول اللہ ﷺ کو اخلاق حسنہ کا عظیم پیکر بناکر بھیجا اورقرآن کریم نے آپ ﷺ کوخلق عظیم کا سب سے بڑا ٹائٹل عطاکرتے ہوئے فرمایا:    وانک لعلی خلق عظیم (القلم: 4) اور بے شک آپ اخلاق حسنہ کے اعلی پیمانے پرقائم ہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے بارے میں ارشادفرمایا:  انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (مسند احمد) مجھے اعلی اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجاگیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ آپﷺ کے اخلاق کیسے تھے تو آپ نے جواب میں فرمایا:  “کان خلقہ القرآن” آپ کا اخلاق عین قرآن تھا۔ یعنی قرآن کریم کی تعلیمات آپﷺ کے اخلاق اور آپ کے مزاج ومذاق کے جزولاینفک تھے۔ اور قرآن جن اعمال واخلاق کی تعلیم دیتاہے آپ ان سب کا عملی نمونہ تھے۔

غزوہ احد کا واقعہ

غزوہ احد کا واقعہ یاد کیجئے، جس میں رسول اللہﷺ نے اپنے چند مجاہد صحابہ کو جنگی نکتہ نظر سے ایک اہم ٹیلے پر کھڑا کردیا تھا۔ اور سختی سے ہدایت کی تھی کہ  میدان جہاد میں کچھ بھی ہوجائے ، مسلمانوں کی  جیت ہو یا شکست آپ  لوگ اگلے  حکم کے بغیر اس ٹیلے کو بالکل نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے  ٹیلے پر تعینات صحابہ میں سے بعض سے  غلطی سرزد ہوئی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ نیچے میدان جہاد میں مسلمان فتح یاب اور کفار مغلوب ہوچکے ہیں تو ٹیلے پر موجود بعض صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے بغیر اپنی پوزیشن چھوڑدی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار نے پلٹ کراس ٹیلے کے اوپر  سے حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوئی۔

اس معرکہ میں 70 جانثار صحابہ کرام شہید ہوئے اور خود رسول اللہﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ زخمی ہوئے۔  اس ہولناک واقعے کے نتیجے میں آپ ﷺ کو نہ صرف جسمانی تکلیف پہنچی   بلکہ   روحانی طور پر بھی شدید صدمہ ورنج پہنچا۔ یہ سب کچھ چند لوگوں کی لاپروائی یا  ان کی غلط فہمی کے نتیجے میں ہوا۔   تاہم  رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر انتہائی صبروتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ اپنے عفووکرم کی عادت اور اخلاق حسنہ کی وجہ سے نہ صرف کسی کو سزا نہ دی بلکہ کسی کی ملامت بھی نہیں فرمائی۔رسول اللہ ﷺ کے اس عظیم اخلاق کی ستائش قرآن کریم نے ان الفاظ میں فرمائی:

 فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ اْلقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِيْ الأَمْرِ (آل عمران:۱۵۹)

 ترجمہ : اللہ ہی کی رحمت سے آپ ان کے ساتھ نرم رہے، اوراگرآپ سخت زبان اور سخت دل ہوتے تویہ لوگ آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے۔ ان کو معاف کیجئے ،ان  کیلئے استغفار کیجئے اور اپنے اہم  کاموں میں ان سے مشاورت کرتے رہا کیجئے۔

دوسری جگہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے پیغمبر ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْن(الأعراف: ۱۹۹) ترجمہ: اے محمدﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیرلیجیے۔

سورۃ المائدہ میں فرمایا :

فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(المائدة: ۱۳) ترجمہ : تو  اے اللہ کے رسول آپ ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ بیشک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

سورۃ النور میں فرمایا:

وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلاَ تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ(النور:۲۱) ترجمہ : اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھاری مغفرت فرمائے۔

سورۃ آل عمران میں فرمایا:

 وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ الْنَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمِحْسِنِیْنَ(آل عمران:۱۳۴) ترجمہ : اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں ،  اوراللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اور حسن اخلاق

آپ ﷺ کی حیات طیبہ حقیقی معنوں میں حسن اخلاق کا مرقع تھی۔ آپ کی نظر میں حسن اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو ” انک لعلی خلق عظیم” ( القلم: 4) کا ٹائٹل دیا اورآپ پھر بھی حسن اخلاق کیلئے اللہ تعالی سے یہ دعا مانگ رہے ہیں:

”اللّٰہمّ أحسنت خلقي فأحسن خلقي“(رواہ احمد) ترجمہ: اے اللہ تو نے میری جسمانی بناوٹ کو سنواراہے، تو میرے اخلاق بھی سنوار دے۔

اور دوسری طرف بدخلقی سے بچنے کیلئے یہ دعا مانگ رہے ہیں: ”

اللّٰہم إني أعوذُ بِکَ مِنْ مُنْکَراتِ الأخلاقِ والأعمالِ والأہواء“(رواہ الترمذي) ترجمہ : اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے۔

بخاری شریف کی ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

 إنَّ مِنْ أَخْیَرِکُمْ أَحْسَنَکم خُلْقًا․( رواہ البخاري) تم میں سب سے بہترشخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

حسن اخلاق کیسے اختیار کریں؟

حسن اخلاق ایک کسبی صفت کا نام ہے، جسے انسا ن اپنے کسب اور اپنی کوشش وسعی کے ذریعے حاصل کرسکتاہے۔ اور یہی عمل انسان سے مطلوب بھی ہے۔ کہ وہ اپنی کوشش کے ذریعے حسن اخلاق  کی صفت کو حاصل کرے اور اسے اپنے رویوں کا حصہ بنائے۔  ذیل میں قارئین کی آسانی کی خاطر ہم ایسے چند طریقوں کی نشاندہی کررہے ہیں جن کو اپنا کر  حسن اخلاق کی صفت کو نہ صرف سیکھا جاسکتا ہے بلکہ   اس عظیم صفت کو  اپنا کر دائمی طورپر اپنے مزاج ومذاق کا حصہ بھی بنایا سکتاہے۔  طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ علم نافع:

حسن اخلاق اپنانے کی پہلی سیڑھی اس کی حقیقت  کے بارے میں اچھی طرح جاننا  اور علم نافع حاصل کرنا ہے ۔ پھر اسے اپنانے کے گر اور طریقے سیکھ کر انہیں اپنانے کی  مستقل کوشش کرنی چاہیے۔ اور  مستقل مزاجی کے ساتھ اس کوشش کو  اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے جب تک کہ وہ اچھی عادت انسان کے  اخلاق اور ریوں کا حصہ نہ بن جائے۔

2۔ اچھی صحبت اختیار کرنا

انسان کی نشست وبرخاست جن لوگوں  کے ساتھ ہو انہی کے  اثرات قبول کرتاہے۔ جب اچھے اور حسین اخلاق کے حامل  لوگوں سے ملنا جلنا اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگا  تو لازمی طور پر ان کے اثرات آئیں گے،  اور اچھے اخلاق کو اختیار کرنا آسان ہوجائے گا۔ ورنہ برے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے والے برے اخلاق ضرور سیکھتے ہیں۔

 صحبت صالح ترا صالح کند         صحبت طالع ترا طالع کند

3۔ حسن اخلاق کے فضائل کا مطالعہ کیجئے۔

قرآن وحدیث میں حسن اخلاق کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کا مقصد ہی دنیا حسن اخلاق کی تکمیل اور افزائش تھی۔ اس مختصر آرٹیکل میں کچھ آیات اور احادیث اوپر بیان کی گئی ہیں۔ اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں اور قرآن  کریم کی آیات اوراحادیث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔

4۔بداخلاقی کی برائیوں پر غوروفکر کیجئے۔

اسی طرح بداخلاقی کی برائیوں پر نظر ڈالنے اور ان کے انجام پر غور کرنے سے بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ بداخلاقی چھوٹ جائے گی ۔ اور حسن اخلاق کو اپنانے کا موقع مل جائے گا۔

5۔  حسن اخلاق کیلئے اللہ سے دعاکیجئے۔

ہرکام اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ حسن اخلاق اپنا نا ہو یا بد اخلاقی سے اجتناب کر نا دونوں کا بہترین طریقہ اللہ تعالی سے دعا مانگنا ہے۔  جب اللہ کی توفیق اورا س کی مدد ونصرت شامل ہوجاتی ہے تو کوئی کام مشکل نہیں رہتا۔

6۔ اپنے مزاج کو بہتربنانے پر کام کیجئے۔

حسن اخلاق درحقیقت مزاج  اور طبیعت  کی جھلک کا نام ہے۔جیسا مزاج ہوتاہے ویسے اخلاق سرزد ہونے لگتے ہیں۔لہذا حسن اخلاق اپنانے کی کوشش کا بنیادی حصہ اپنے مزاج کی کمزرویوں کو پہچاننا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مزاج کو پہلے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر مزاج کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔

7۔ غصہ پر کنٹرول کرنے کا طریقہ سیکھیے۔

غصہ  وہ کیفیت ہے جو ہمیں کسی کام کو چاہتے ہوئے بھی  کرنے  نہیں دیتا۔ فضائل  سن کر اور فوائد دیکھ کر حسن اخلاق اپنا نا اچھا لگتاہے۔ اور عزم بھی کیا جاتاہے کہ ہم حسن اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔تاکہ ہمارے تعلقات اچھے ہوں اور معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں ۔ لیکن پھر کم بخت غصہ ہے جو ہمیں اس کام کو کرنے نہیں دیتا ۔ ہر کام میں غصہ آڑے آجاتا ہے اور ہم چاہتے ہوئے بھی حسن اخلاق اپنانے کے قابل نہیں رہتے۔

لہذا حسن اخلاق اپنانے کیلئے ضروری ہے کہ اپنے غصہ پر کنٹرول کیا جائے۔ اپنے غصہ پر کیسے کنٹرول کیا جائے؟ اس کو کیسے چینلائز کیا جائے؟ اس عنوان کو پڑٖھنے کیلئے ہما را یہ آرٹیکل ضرور پڑھئے۔ شکریہ

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button