Character Building & TarbiyahTohfa-e-Walidain

بچوں میں خود اعتمادی کیسے پیدا کی جائے؟

بچوں میں خود اعتمادی 

خود اعتمادی کیا ہے؟خوداعتمادی یہ ہے کہ ہم اپنی ذات اور صلاحیتوں کے بارے میں اچھا اور مثبت گمان کرنے لگیں۔ اپنے بارے میں ہم یہ محسوس کرنے لگیں ۔کہ اللہ نے ہمیں بہترین صلاحیتوں کے امکانات سے نوازا ہے۔ چنانچہ ہم کسی دوسرے انسان سے کمتر نہیں ۔بلکہ دوسروں کی طرح بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

یعنی انسان اپنے بارے میں یہ مثبت گمان رکھےکہ خدا نے اس کے اندر صلاحتیوں اور امکانات کے جوبیج رکھے ہیں ۔ ان کوپروان چڑھا کر وہ ہرمیدان میں بہترین کارکردگی دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

خوداعتمادی اور عزت نفس

دو چیزیں الگ الگ ہیں ایک خوداعتمادی اور دوسری چیز عزت نفس۔ عزت نفس کو علامہ اقبال ؒ  نے تصورذات سے تعبیرکیاہے۔ یہ انسانی شخصیت کی  کلید ہے ۔ اسی بنیادپر خوداعتمادی کی عمارت کھڑی ہوجاتی ہے۔ لہذ ا کامیاب اور خود اعتماد زندگی کے لئے سب سے پہلے تصور ذات کو مضبوط بناناپڑتا ہے۔

عزت نفس  یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی دوسرے انسان کے سامنے کمتر خیال نہ کرے۔کیونکہ خود کو کمتر خیال کرنے سے ایک نقصان احساس کمتری کا ہوگا ۔کہ انسان کی خوبیاں اور صلاحیتیں اس کی اپنی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گی اور وہ خود کو کمتر تصورکرے گا۔

چنانچہ وہ کسی بھی کام کوکرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا ۔جبکہ دوسری طرف ایسا کرنے سے تخلیق خداوندی کی توہین بھی ہوسکتی ہے۔ کہ خدانے ہرانسا ن کو عزت وتکریم بخشی اور اس کو اپنا نائب اورخلیفہ قراردیا ۔لیکن وہ خو د خداکی دی ہوئی اس عزت کو کمترسمجھ رہا ہے۔

اورہاں اپنےآپ کو کسی دوسرے انسان سے برترسمجھنا بھی نہایت بری بات اور گناہ  کبیرہ ہے۔ جوتکبر کے دائرے میں آتا ہے۔اگر انسان خدانخواستہ اس کیفیت کا شکار ہوجائے تو وہ بھی خداکے بندوں کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔

مثبت تصور ذات

مثبت تصور ذات کے بارے میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک قول ہے۔ کہ جو شخص اپنی ذات کی قدرومنزلت نہیں پہنچانتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ اور جس شخص کی نظر میں خوداپنی ذات کی عزت وتکریم نہیں ہوگی، وہ اسے نفسانی خواہشات کے پیچھے لگالے گا۔

بہرحال عزت نفس اور توقیر ذات انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اسی کے ذریعے وہ اپنے آپ کو اہم اور قیمتی تصور کرتاہے۔ اور اسی تصورکی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو بامقصدبناسکتا ہے۔ انسان کا تصور ذات جتنا مضبوط ہوگا۔اوروہ اللہ تعالی کی ذات پر یقین کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں پر جتنا  بھروسہ کرےگا اتنا ہی   کامیاب ہوگا۔

خوداعتمادی ضروری  کیوں ہے؟

خوداعتمادی کے بغیر انسان زندگی میں آگے بڑھ سکتا  ہےاور نہ ہی وہ پرسکون رہ سکتا ہے۔ وہ   ہروقت   اپنی کمزوریوں پر ہی نظر رکھے گا ۔اور اپنے آپ کو کوستا  ہی رہے گا ۔کہ تجھ میں یہ بھی کمی ہے اور یہ بھی کمی ہے۔ اور دوسرے لوگ تم سے اچھے ہیں ۔

ان میں یہ بھی خوبی ہے اور یہ بھی خوبی ہے۔ اس طرح سے وہ ناشکری کا مرتکب ہوسکتاہے۔ جبکہ پراعتماد انسان اپنی ذات کوکوسنے اور اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے آگے بڑھ کردنیا کامقابلہ کرنے کو تیار ہوگا۔

خوداعتمادی سے بھرپور انسان پر دوسرے لوگ بھی اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ اور اسے پسند بھی کرتے ہیں۔ یاد رکھئے انبیا علیہم السلام کے علاوہ کوئی انسان بھی پرفیکٹ نہیں ہوسکتا۔ کہ اس میں ساری خوبیاں ایک ساتھ جمع ہوں۔ اور کوئی خامی اس میں نہ ہو۔

بس اتنی سی بات ہے کہ انسان اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اپنی ذات کو کیسا خیال کرتا ہے؟اسی سوال کے جواب پر اس کی کامیاب یا ناکام شخصیت کی تعمیرشروع ہوجاتی ہے۔

خوداعتماد شخص عزت نفس سے بھرپور، خوداری سے لبریزاورارادے کی پختگی سے معمور ہوتا ہے۔ وہ ایمان دار ، دیانتدار او ر بلندکردار ہوتاہے۔ زندگی کی مشکلات سے وہ گھبرانے والا نہیں ہوتا ۔بلکہ جس چیزکو وہ درست سمجھتاہے اللہ پرایمان اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کے ساتھ وہ اس کام کے لئے ڈٹ جاتا ہے۔

وہ کبھی ہار نہیں مانتا، وہ دوسروں سے بہت  جلد متاثر  بھی نہیں ہوتا۔یعنی خوداعتماد شخص معاشرے میں بہترین رویوں کا مظاہر ہ کرتاہے۔ جس سے اس کے اعتماد میں اور بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کا معاشرتی کردار مزید نکھرتاچلاجاتا ہے۔

خوداعتمادی کی پہچان کیا ہے؟

چندچیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر ہم پہچان سکتے ہیں کہ کسی انسان میں خوداعتمادی کی سطح کتنی بلند ہے؟ اپنا جائزہ لینے کے بعد اگرکسی کو ان میں کمی نظر آئے۔ تو معلوم ہونے کے بعد ان میں بہتری کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔

۔ خوداعتماد انسان اپنی کارکردگی پر مطمئن ہوتا ہے۔ اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے۔یعنی وہ سوچ سمجھ کر جب کوئی فیصلہ کرتا ہے،تو اپنے فیصلے پر اسے اطمینا ن ہوتا ہے۔ اور خوداعتمادی کے ساتھ اسے کسی کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

۔ نئے حالات وواقعات اور چیلنجز سے گھبرانے کے بجائے وہ ان کو خوش آمدیدکہتا ہے۔ خوشی سے ان کاسامنا کرتا ہے۔ کبھی کامیاب ہوجا تا ہے، جس سے اس کی خوداعتمادی میں مزیداضافہ ہوجاتا ہے۔ اور کبھی ناکام بھی ہوتا ہے لیکن اس سے دل برداشتہ نہیں ہوتا۔

۔ خوداعتماد شخص اپنی جسمانی ساخت اور حلیے سے کبھی پریشان نہیں ہوتا ۔وہ اس کے لئے مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔وہ پستہ قد ہے کالی رنگت والا ہےیا کوئی اور بات ہے۔ وہ اسے لے کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا۔ بلکہ آگے دیکھتا ہے اور اپنے ٹارگٹ پر توجہ دیتا ہے۔

۔ خوداعتماد شخص تنقید کو حوصلہ سے سنتاہے۔ اور اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔کسی کی تنقید یا اپنی کسی غلطی سے وہ پانی پانی نہیں ہوتا اورنہ ہی وہ ان چیزوں میں بہت زیادہ حساسیت دکھاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خوداعتمادی سے محروم شخص کی نشانیاں یہ ہیں۔

کہ وہ اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں رکھتاہے۔ وہ کسی کام کو کرنے سے صرف اس لئے گھبراتا ہے۔ کہ یہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔ وہ نئے حالات اور چیلنجز سے بھی کتراتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ ان کا سامنا بالکل نہیں کرسکتا۔

وہ دوسروں سے فورا متاثر ہوجاتا ہے۔ کسی کی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی وجہ لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی بعض کاموں کو صرف اس لئے نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ سماجی سرگرمیوں سے گریز اور بہت جلد جھنجھلاہٹ کا شکار ہونا بھی کمزور اعتمادی کی علامات میں سے ہیں۔

خوداعتمادی میں کیسے اضافہ کریں؟

خوداعتمادی بہت کم لوگوں میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ ورنہ یہ  ایک کسبی چیز ہےجسے کوشش ا ورمحنت سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ہم پہلے  یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ ایک  بالغ فرد اپنے اندر خوداعتمادی کیسے پیداکرسکتاہے۔

اس کے بعد بچوں کی خود اعتمادی پر بھی بات کریں گے۔چنانچہ ہم  یہاں پر خوداعتمادی میں اضافے کے لئے دس ایسی ٹپس بتانے جارہے ہیں۔ جن سے ہرانسان اپنے اندر خوداعتمادی کا جوہر پیدا کرسکتاہے۔

:علم

پہلی چیز علم ہے جس سے انسان میں خوداعتمادی آجاتی ہے ۔علم میں جتنا اضافہ ہوگا انسان میں اتنی ہی خوداعتمادی پیداہوجائے گی۔ جبکہ جہالت کی وجہ انسا ن میں خوف اور عدم اعتماد جنم لیتا ہے۔جو کام زندگی میں آپ کرنا چاہتے ہیں پہلے اس کو اچھی طرح سیکھیے۔اس علم کے ماہرین اور نامور لوگوں سے رابطہ رکھیے۔

اس سے آپ کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوگا ۔ آج کل ٹیکنالوجی کی بدولت سیکھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔بس اپنے اندر طلب پیدا کیجئے اور سیکھناشروع کیجئے۔جتنا علم بڑھتا چلاجائے گا اتنی ہی کانفیڈنس اور خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔اس کے لئے کتابیں پڑھیں ، مضامین کا مطالعہ کریں ۔ویڈیوز دیکھیں اور اہل علم سے دوستی رکھیں۔

:تجربہ

تجربہ علم سے اگلامرحلہ ہوتا ہے جوکسی ایک کام کو باربار کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اس سے انسان کو حق الیقین کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ تجربہ وہ چیز ہے جو انسان کو بے خوف کردیتا ہے ۔

اور اس کے اعتماد میں بھرپور اٖضافہ کردیتا ہے۔لہذا کسی بھی کام میں تجربہ کا موقع ہو اسے ضرورآزمائیے ۔اس سے آپ کی کانفیڈینس میں اضافہ ہوگا۔

:اپنے اندر کوئی نمایاں خوبی پیدا کیجئے

جب آپ کے اندر کوئی نمایاں خوبی ایسی آجاتی ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ تو آپ کے آس پاس کے لوگ خودبخود آپ کو اہمیت دینا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے آپ کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتاچلاجاتاہے۔ لہذا اپنے اندر کوئی نمایاں خوبی پیدا کیجئے۔

:اپنی کامیابیوں کو پیش نظر رکھیں

ہرانسان زندگی میں کوئی نہ کوئی کامیاب کا م ضرور انجام دیتاہے۔ خوداعتمادی کے حصول اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ان کامیابیوں کو اپنے سامنے رکھیں۔ جس سے اپنے اوپر آپ کا اعتماد بڑھ جائے گا۔ اور مزیدکام کی ہمت پید اہوجائے گی۔

اس کا آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ اپنی کامیابیوں کی ایک لسٹ بناکر اپنے سامنے رکھیں ۔ ان کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں۔

:جسمانی ورزش کو روزانہ کا معمول بنائیں

جسمانی ورزش وہ چیز ہے جو آپ کو صحت کے ساتھ خوشی اور توانائی بھی عطاکرتی ہے۔ اس سے جسم ہلکاہونے کے ساتھ ذہن بھی ہلکاہوجاتا ہے۔اور ڈپریشن ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی فٹنس کے ساتھ انسان میں بھرپور خوداعتمادی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے بے شمار واقعات سےہمیں اپنے جسم کو چاق وچوبند اور تندرست وتوانا رکھنے کا سبق ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی مومن قوی ( یعنی ایمانی قوت کے علاوہ جسمانی طور پر فٹ اور مضبوط اعصاب کے مالک مومن) کو زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ہمیں جسمانی ورزش کو اپنی روٹین کا حصہ بنانا چاہیے۔

:اعضا و اعصاب کو درست پوزیشن میں رکھیں

جب آپ چل رہے ہوں تو اپنے جسم کو اپنے کنٹرول میں رکھیں ۔کمرسیدھی ہو،نظریں اوپر ہوں۔ کندھے برابر ہونے کے ساتھ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ہو۔ جب آپ بیٹھے ہوں تب بھی کمرسیدھی ہواور کندھے جھکے ہوئے نہ ہوں۔کسی سے بات کریں تو اطمینان کی کیفیت ہو ۔نظریں ملا کربات کریں۔ بات کرتے ہوئے نظریں چرانا اور کسی اورطرف متوجہ ہونا عدم اعتمادی کی علامت ہوگی۔

:جسمانی  صفائی کے ساتھ مہذب لباس پہنیں

خوداعتمادی کے لئے ضروری ہے کہ آپ جسمانی طور پر صاف ستھرے رہتے ہوں۔ حلیہ مہذب ہو او ر لباس ایسا ہو کہ آپ کے جسم کو جچتا ہو۔نیز صاف ستھرا ہو۔ جسم کی صفائی اور مہذب لباس سے آپ کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوگی ورنہ اس میں کمی ہوگی۔

:لینگویج اور باڈی لینگویج کو بہترکریں

آپ کی زبان شستہ ہواور لہجہ نرم ہو، یہ آپ کی شخصیت کی پہچان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بولنے میں متانت اور باڈی لینگویج کا بھی  خوداعتمادی میں  بڑاعمل دخل ہے۔بولتے  وقت آپ کی آئی کنٹیکٹ اور اور مناسب باڈی لینگویج آپ کی خوداعتماد ی کی دلیل ہوگی۔

:تعریف پر اللہ کا شکراداکریں

کوئی آپ کی تعریف کرے تو اللہ کا شکرادا کریں ۔او ر اس کی تعریف کو قبول کریں۔ اور ساتھ ہی تعریف کرنے والے کے حسن ظن کا بھی شکریہ اداکریں۔کسی کی تعریف پر یہ کہنا کہ نہیں میں نےکوئی اہم کام نہیں کیا ۔یایہ تو تم بھی کرسکتے ہو۔ یا تعریف کرنے پر شرمانا یہ سب خوداعتمادی میں کمی کی نشانیاں ہیں ان سے اجتناب کریں۔

:اپنا تقابل کسی دوسرے سے بالکل نہ کریں

اپنی ذات اور صلاحیتوں کا تقابل کبھی کسی دوسرے انسان سے بالکل نہ کریں۔ بلکہ اپنے ہی ماضی سے کریں ۔کہ پہلے کے مقابلے میں مجھ میں اب کیا بہتری آئی ہے۔ دوسروں سے تقابل کے دونقصانات ہوسکتے ہیں ۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ آپ اپنی کمی کاتقابل کسی دوسرے کی خوبی کے ساتھ کریں گے تو نتیجے میں احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے۔

جوآپ کی شخصیت کے لئے تباہ کن ہے۔ اگر دوسرے کی برائیوں کے ساتھ اپنی اچھائیوں کا تقابل کریں  گےتو آپ احساس برتری کا شکار ہوجائیں گے۔ جو تکبر ہے۔جبکہ اپنی اچھائیوں کا دوسروں کی اچھائیوں کے ساتھ تقابل ہونہیں سکتا۔

کیونکہ ہرایک کےاپنے خاص قسم کے احوال وظروف ہوتے ہیں۔ لہذا اپنا تقابل کسی دوسرے انسان سے کرنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔

:سوشل ایکٹیوٹیز میں مصروف رہیں

دوسروں سے مل جل کررہنا اور دوسروں کی مدد کرنا آپ کی شخصیت کو بہتر بنانے میں بہت معاون ر ہے گا۔اس کا بھرپوراہتمام کریں اس سے معاشرتی حجاب دور ہوجائے گا ۔اللہ کی رضا اور لوگوں کی دعائیں مل جائیں گی ۔ اور خوداعتمادی کے ساتھ مزید کام کرنے کا موقع ملے گا۔

والدین اپنے بچوں میں خوداعتمادی کیسے پیداکریں؟

بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنا اور اس کو بڑھانا درحقیقت والدین کی ذمہ داری ہے۔بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ خوداعتمادی کیا چیز ہے؟ اس کے کیا فائدے ہیں؟ اوراگر یہ نہ ہو تو کیا نقصان ہوتاہے؟اس کے علاوہ بچہ جس گھر میں اور جن والدین کے پاس رہتا ہے۔

اس گھر کا ماحول یہ فیصلہ کرتا ہے کہ بچے کی خود اعتمادی کی سطح کیا ہوگی؟کیونکہ خود والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ رویہ بچوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔

لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ پہلے سے اپنے بچوں کی تربیت اور خاص کر ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے کے ذرائع معلوم کریں۔ اور پھران کے مطابق بچوں کی تربیت کریں۔

والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کے تصور ذات اور اس کی عزت نفس پر کام کریں۔اپنے بچے کو بھرپور محبت دیں اور  عزت واحترام دیں ۔ اس کو وہ عزت دیں جو ایک بڑے اور معزز آدمی کوعام طورپر دی جاتی ہے۔

بچےکے دل میں یہ تصور قائم کروائیں کہ اس کی شخصیت واقعی قابل احترام ہے۔اس کی رائے کا احترام کریں اسے گھرکے مشوروں میں شامل کریں ۔

اور بعض اوقات گھرکے کسی کام میں اس کو لیڈربنائیں، اس سے فیصلہ کروائیں۔ان تمام کاموں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بچے میں عزت نفس قائم ہوگی۔ وہ اپنی ذات کو کسی کام کا اہل سمجھے گا۔ یہی کیفیت خوداعتمادی کی بنیادبنتی ہے۔ذیل میں بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے او ر اسے پروان چڑھانے کے لئے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

:بچے سے مضبوط تعلق بنائیں

والدین کا بچوں سے مضبوط تعلق اچھی تربیت کی بنیاد ہے۔جب تک بچوں سے والدین کا تعلق مضبوط نہیں ہوگا۔ اور عزت واحترام پر مبنی نہیں ہوگا ۔اس وقت تک اچھی  تربیت ہوسکتی ہے اور نہ ہی بچے میں خوداعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔

اب بچے سے مضبوط تعلق کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ اس کے کئی راستے ہیں۔ مثلا والدین بچے کو وقت دیں۔ اسے اہمیت دیں اور اس کا احترام  اس طرح کریں۔ جس طرح کسی بڑے اور معزز انسان کااحترام کیا جاتا ہے۔

اپنے بچے کو اپنائیت اور محبت دیں۔اس کے ساتھ کھیلیں غلطی کرنے پر ایک دم آپے سے باہرنہ ہوں۔ بلکہ احساس دلا کر آگے بڑھنے دیں۔

گھر میں بچوں کے لئے کوالٹی ٹائم مختص ہونا چاہیے۔ جس میں فیملی کے تمام افراد موجود ہوں ۔ اس وقت میں ہرایک کو بات کرنے اور دوسرے کی بات کو آگے بڑھانے کا موقع دیا جائے۔بچوں کو بات کرنے کا خوب موقع دیا جائے۔ ان سے دن بھر کی کہانی سن لی جائے۔

خیال رہے کہ اس وقت  تما م اسکرین بند ہوں۔ اور بچے بڑے سارے مثبت بات چیت اور مکالمہ میں مصروف ہوں۔ اس کے علاوہ بچوں کوخاندان کے تمام بڑے چھوٹے افراد سے مانوس کرانا چاہیے۔ ان سے بات چیت کروانی چاہیے۔ چاہے فون کے ذریعے سے ہو یا بالمشافہہ بات چیت سے ہو۔

:بچوں سے غیر مشروط محبت کریں

غیرمشروط محبت سے بچوں میں عزت نفس قائم ہوگی۔ وہ اپنی ذات کواہم سمجھنے لگیں گے۔غیر مشروط محبت کا مطلب یہ ہے کہ اس محبت کو کسی بھی طرح تعلیمی کارکردگی،نمبراور گریڈ سے نہ جوڑیں۔ یہ نہ کہیں کہ اگرتمہارے نمبر اچھے آئیں گے تو ہم تم سے محبت کریں گے ورنہ نہیں۔

اس کا مطلب تو یہ ہوگاکہ محبت گریڈ اور نمبروں سے ہے نہ کہ اپنے بچے سے۔ غیر مشرو ط محبت سے آپ اپنے بچے کو اہمیت دے سکتے ہیں۔ ا س کو عزت واحترام دے سکتے ہیں۔ اس کو پیاردےسکتے ہیں اس کو گلے لگاسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ فارغ وقت میں کوئی گیم کھیل سکتے ہیں۔اور اس کو پیار بھرے لہجے میں پکارسکتے ہیں۔ یہ سب بچو ں سے غیر مشروط محبت کے مختلف مظاہر ہیں۔

:بچوں کی حوصلہ افزائی کریں

حوصلہ افزائی وہ بہترین ٹول ہے جس سے کسی بھی انسان کا دل جیتا جاسکتاہے .اور اسے بڑا کیا جاسکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ اس کام میں بخل بالکل نہ کریں۔جب بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تواس کا دل بڑاہوجاتا ہے ۔وہ اوربھی کام کرنے اوراپنے کاموں میں مزید بہتری لانے کی از خود کوشش کرنے لگتا ہے۔

اس کے مقابلہ میں ایک چیز ہوتی ہے حوصلہ شکنی اور  نکتہ چینی۔اس سے انسان کادل ٹوٹ جاتا ہے ۔ آپ کسی کی بھی حوصلہ شکنی کریں  وہ آگے بڑھ کرکام کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔

یہاں دوچیزیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی چیز تعریف اور دوسری چیز حوصلہ افزائی۔ تعریف کسی کی صلاحیتوں کی یاکسی کی ذات کی جاسکتی ہے۔ذات اور صلاحیتوں کی زیادہ تعریف کرنے سے خطرہ ہوتا ہے۔ کہ بچے ہمیشہ تعریف کا ہی عادی ہوجائے اوربعد میں وہ کسی بھی تنقید کو بالکل برداشت نہ کرسکے ۔

کیونکہ اس کو ہمیشہ تعریف سننے کی عادت پڑ گئی ہوگی۔مزیدخرابی یہ ہوگی کہ بچہ تکبریا عجب میں مبتلا ہوسکتاہے۔ویسے بھی غیر ضروری کسی انسان کی باربارتعریف کانتیجہ درست نہیں نکلتا ۔

حوصلہ افزائی بچے کی کوششوں کی کیجئے۔

ریسرچ نے یہ ثابت کردیا ہے۔ کہ بچے کی تعریف کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور حوصلہ افزائی بھی بچے کی کوششوں پر ہونی چاہیے۔جب بچے کی کوشش پر اس کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تو وہ مزید کوشش پر آمادہ ہوگا۔

مثلا بچہ اے گریڈ لے کرآیا ہے تو اس کی یوں تعریف مت کریں کہ میرا بیٹا بڑا جینئس ہے۔ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا ۔اس سے آپ نے بچے کی ذہانت کی تعریف کی۔اور ذہانت ویسے بھی غیر اختیاری چیز ہے۔

اس طرح کی تعریف سے بچے کا ذہن خراب ہونے کے چانسز زیادہ ہوسکتے ہیں ۔

اس کے مقابلے میں آپ اس کی کوششوں کی تعریف  کریں۔ آپ یہ کہیں کہ ماشا اللہ اس مرتبہ تم نے بہت محنت کی ہے، جس کا یہ شاندار صلہ ہے۔اس میں کسی ایک چیز جو زیادہ خاص ہے مثلا وہ میتھ میں بہت اچھا ہے تو اس کو خاص طور پر بیان کریں۔تم میتھ کے سوالات جس انداز سے حل کرتے ہو وہ بہت دلچسپ ہے۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ حوصلہ افزائی ہرحال میں کی جاسکتی ہے۔ چاہے بچہ فیل بھی ہوجائے۔مثلابچہ کسی وجہ سے فیل ہوکر گھر آیا۔  ایک ردعمل یہ ہوسکتا ہے کہ اس کوخوب ڈانٹ پلادی جائے۔ اس کو نالائق ، وقت ضائع کرنے والایا ان جیسے القابات سے نوازا جائے۔

حوصلہ شکنی کا نقصان

اس کا نقصان یہ ہوگا کہ یہ بچہ آئندہ کے لئے بھی اسی طرح کا زرلٹ لاسکتاہے۔ کیونکہ اس کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔اس حوصلہ شکنی سے وہ دل ہارکربیٹھ گیا ۔بعض بچے اتنے حساس ہوتے ہیں۔ کہ ایسی صورت حال میں وہ خودکشی پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ اس طرح کے کئی کیسز میڈیا کے ذریعے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ بچے کے فیل ہونے پر دوسرا ردعمل یہ ہوسکتا ہے ۔کہ گھر پہنچنے پروالدین بچے کو  پہلے گلے لگائیں اسے پیار کریں۔ اور اس سے کہیں کہ کوئی بات نہیں تم پاس ہو یا فیل تم ہمارے ہو۔ تم نے اپنی سی پوری کوشش کی تھی لیکن فیل ہوگئے تو کوئی بات نہیں۔

یہ کہنے پر بچے کا دل بہت بڑاہوجائے گا۔ اپنے والدین سے بھرپور تعلق میں آجائے گا۔ اب والدین کو چاہیے کہ اس کے فیل ہونے کی وجوہات پر اکیلے اس بچے کو لے کراس سے بات چیت کریں۔اس کی وجوہات تلاش کریں ۔ وجوہات بچے میں ہیں یا اسکول کے ماحول میں ہیں۔ یا کوئی اور وجہ ہے ۔

بچے سے پیار کے ساتھ نارمل ماحول میں بات چیت کریں ۔اور اسے احساس دلائیں کہ اس مرتبہ تم فیل ہوئے۔ لیکن آئندہ کے لئے پوری محنت کرنی ہوگی ۔ اس طرح کی حوصلہ افزائی سے بچہ سوچنے ، غور وفکر کرنے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے پرضرور آمادہ ہوگا۔

:خوداعتمادی پیداکرنے کے لئے بچوں سے مکالمہ کریں

مکالمہ بات چیت اور باہمی گفتگو کو کہتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں سے بھرپور بات چیت کریں۔ان کی دلچسپی کے ہر موضوع پر ان سے بات کریں۔ مکالمہ والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکیشن کا ذریعہ ہے۔ جس میں دونوں اپنے خیالات پیش کر سکتے ہیں ۔

اور باہمی دلچسپی کے موضوعات کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ مکالمہ سے بچوں کے خیالات ، افکاراور ان کی آرا سامنے آتی ہیں۔ جس سے والدین کو ان سے معاملہ کرنے اور ان کی تربیت کے لئے پالیسی بنانے میں آسانی ہوگی ۔

دوسری طرف اسی مکالمہ کے ذریعے بچوں سے مضبوط تعلق کی استواری کے ساتھ ان کو اپنی پچ پر کھلانے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ بچوں اور والدین کے درمیان اگر مکالمہ ہی بحال نہیں ہوگا ۔تو یہ سارے کام ممکن نہیں ہوسکیں گے ۔یہاں اہم بات سمجھنے کی یہ ہے۔

کہ مکالمہ والدین کی طرف سے یکطرفہ لیکچردینے کا نام قطعا نہیں ہے۔اگر والدین ایسا کریں گے تو بات پھر آگے نہیں بڑھے گی۔ بلکہ وہیں رک جائے گی۔ بچوں کی آرااور خیالات والدین کے سامنے نہیں آسکیں گے۔

بلکہ مکالمہ یہ ہے کہ بچوں کی دلچسپی کے موضوعات پر بات چیت ہو والدین زیادہ سنیں اور بچوں کو بولنے کا موقع دیں۔ اس طرح جب دوطرفہ بات چیت کا ماحو ل ہوگا۔ تو والدین کو اپنی بات سمجھانے میں آسانی ہوگی۔ اس سے بچوں کی خوداعتماد ی میں بھی اضافہ ہوگا۔

:بچوں کوفیصلہ سازی کاموقع دیں

فیصلہ سازی کی قوت ہرانسان کے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔ ہمیں روزمرہ زندگی میں ہروقت کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بغیر انسان کوئی کام ہی نہیں کرسکتا۔بچوں کی تربیت کا ایک اہم حصہ ان میں خوداعتمادی پیدا کرنا اور قوت فیصلہ کو بڑھانا ہے۔قوت فیصلہ کو بڑھانے سے بچے کی زندگی کامیاب او ر آسان ہوسکتی ہے۔

قوت فیصلہ بار بار چیزوں کے بارے میں فیصلہ کرنے سے بڑھتی ہے۔ مثلا بچے کو کپڑے لینے ہیں ۔جوتے لینے ہیں یا کسی رشتہ دار کے گھر جاناہے۔ یا دوستوں کی کسی پارٹی میں جانا ہے۔ ان تمام باتوں میں بچے اپنے اختیار سے جب باربار فیصلے کرتے ہیں۔

تو ان کی قوت فیصلہ میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ جب قوت فیصلہ میں اضافہ مضبوط ہوجائے تو خوداعتمادی میں بھی خودبخود اضافہ ہوجائے گا۔

اگروالدین بچوں کو فیصلہ سازی کاموقع بالکل نہیں دیں گے۔ ہروقت ان پر اپنی مرضی مسلط کریں گے۔ وہ کوئی رائے پیش کریں تو ان کی رائے کا احترام نہیں کریں گے۔ ان کی رائے اور فیصلے کوناقابل اعتنا سمجھ کر مسترد کریں گے۔ تو بچے میں خوداعتمادی کبھی پید ا نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوگی۔

بچہ اپنے دل میں یہی سمجھے گا کہ میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ ناقابل اعتبار ہے ۔ اگر میں فیصلہ کروں گا تو مجھ سے لازمی غلطی ہوجائے گی۔ لہذا بچوں کو فیصلہ کرنے دیجئے اور ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کیجئے۔

:یہ بھی پڑھئیے

بچے کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button