Parents GuidesShariah Guidence

بچوں کے حقوق اسلام کی نظرمیں (حصہ دوم)

اسلام میں بچوں کے حقوق

ڈاکٹرمحمدیونس خالد

بچوں کے حقوق اسلام کی نظرمیں اس مضمون  کا  یہ دوسرا حصہ  ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ مضمون کے اس حصےمیں  یپدائش کے فورا بعد کے مراحل سے لے کر بچے کی پرورش اورتعلیم وتربیت پر بات کی گئی ہے۔ نیزنکاح اور والدین کی طرف سے ملنے والی میراث وغیرہ پربھی  سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔

پہلاحصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے۔

: بچوں کاحق پر ورش 

بچوں کے حقوق اسلام کی نظر میں  کے عنوان سےجب گفتگو کی جائے، توبچوں کے حقوق میں سے   ایک اہم حق ان کی اچھی پرورش وپرداخت کا ہے۔ بچہ پیدائش کے وقت نہایت معصوم ہوتا ہے۔ اس وقت وہ سو فیصد والدین کے رحم وکرم پر ہوتاہے۔ وہ خود سے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔  دودھ پینے، آرام کرنے، لباس بدلنے اور سردی وگرمی نیز ہر طرح کی بیماریوں سے بچنے کے لئےوہ  والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسے میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچے کو تمام جسمانی ضروریات مہیاکریں۔

نیزجذباتی ونفسیاتی ضروریات مثلا محبت وشفقت اور روحانی ضروریات کی تشفی کابھی  انتظام کریں۔ بچے کے یہ تما م حقوق والدین کے ذمہ آئینی اور قانونی طور پر ہیں۔ نہ کہ محض اخلاقی طور پر۔ بچہ جیسے ہی پیدا ہوتا ہے۔اس کی جان کی حفاظت کے بعد سب سے پہلا کام اس کو دودھ پلانے کا ہے۔ جس سے اس کی پرورش شروع ہوجاتی ہے۔

:بچے کو دودھ پلانا

 بچے کو دودھ پلانا والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:  والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین( البقرہ: 233) ”اورمائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل ہونے تک دودھ پلائیں۔“ اسی کوشریعت میں مدت رضاعت(دودھ پلانے کے ایام) کہا جاتا ہے۔ اس حکم کی رو سے ماں کو کوئی عذر نہ ہو توبچے کو اپنا دودھ پلانا ہی ضروری ہے۔ ماں کے دودھ کے اندر اللہ تعالی نے بچے کے لئے پوری غذائی ضروریات کا انتظام رکھا ہے۔

بعض مائیں اسمارٹ بننے کے چکر میں بچے کو دودھ پلانے سے کتراتی ہیں۔ آج میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے۔ کہ ایسا کرنا بچے کے لئے نقصان دہ ہونے کے  علاوہ خود ماں کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔  جو بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے۔جبکہ ماں کا دودھ نہ پینے سے بچے میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے اس کی نشوونما متاثر ہوجاتی ہے۔ مدت رضاعت کے دوران باپ کی ذمہ داری ہے، کہ وہ بچے کو دودھ پلانے والی ماں کی ضروریات کا پورا خیال رکھے ۔اس کی صحت وخوراک، لباس اور جذباتی ونفسیاتی ضروریات کی تکمیل کا پورا انتظام کرے۔ تاکہ عورت سکون اور خوش دلی سے بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ اس کی اچھی پرورش کی طرف متوجہ ہوسکے۔

 :حلال وطیب مال سے غذا کا انتظام کریں

بچہ جب تھوڑاسا بڑا ہوجائے تو اس کو ٹھوس غذا کی ضرورت بھی شروع ہوجاتی ہے۔ نیز اس کی پرورش ونگہداشت کی تمام ضروریات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسے میں والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حلال اور طیب مال سے بچے کی غذائی ضروریات کاانتظام کرے۔شروع کے سات سال بچے کی نشوونما کے لئے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران بچہ جسمانی طور پر نشوونما پانے کے ساتھ ساتھ جذباتی ونفسیاتی طور پر بھی پرورش پارہاہوتا ہے۔ نیزروحانی طور پربھی وہ ارتقائی مراحل سے گزررہا ہوتا ہے۔ اس لئے والدین ابتدائی سات سالوں میں ان تمام چیزوں کا بھرپور  خیال رکھیں۔

جسمانی طور پربہتر نشوونما کے لئے اسے اچھی اور متوازن غذا حلال وطیب مال سے فراہم کریں۔ اسکے لباس وآرام اور اس کی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔ جذباتی ونفسیاتی طور پر اس کو متوازن رکھنے کے لئے اس پر بھرپور توجہ دیں۔ اس کے ساتھ پیار محبت کا برتاؤ کریں ۔اس کے ساتھ اچھی گفتگو کریں، اسے نظرانداز بالکل نہ کریں۔ والدین اپنے بچےکے سامنے ایک دوسرے کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور لڑائی جھگڑاکرنے سے اجتناب کریں۔غرض اس کو بھرپور پیار اور محبت بھرا ماحول فراہم کریں۔ اس سے وہ جذباتی طور پرمتوازن ہوگا۔

 :ابتدائی سات سال اورشخصیت کا خاکہ 

ابتدائی سات سالوں میں بچے کی تمام عادات واطوار، رویے اور جذبات تشکیل پارہے ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ زمانہ بچے کی پرورش کا اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ نیز اسی دوران اسکے روحانی تقاضے بھی پرورش پارہے ہوتے ہیں۔ اس لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کا ماحول دیندار بنائیں،  جہاں نمازیں، تلاوت اور دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہو۔

جھوٹ اور گناہوں سے اجتناب کیا جاتاہو ، بڑے اور چھوٹے کی تمیز ہو گھرکے ماحول میں ادب آداب کا خیال رکھا جاتا ہو۔ ان تمام چیزوں کو بچپن سے ہی دیکھنے کا اسے موقع ملے گا تو بچے کی پرورش متوازن طریقے سے ہوگی۔

یہاں والدین کے لئے ایک اور بات اہم ہے کہ بچوں کے درمیان امتیازی سلو ک سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے چاہے وہ کسی بھی بنیادپر ہو۔ زمانہ جاہلیت میں یہ رواج عام تھا اور اب بھی بعض علاقوں اور خاندانوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ کہ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے یا خوب صورت ،صحت مند اور باصلاحیت اولاد کو دیگر پر فوقیت دی جاتی ہے۔

جس سے دوسری اولاد میں بے چینی پیداہوتی ہے، حسد اور نفرت جنم لیتی ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں بچے جذباتی طور پر بکھرجاتے ہیں۔ پھر یہ رجحان زندگی بھر ان کوچھوڑتا نہیں اوربعد میں جب ان بچوں کی اپنی اولادیں ہو تی ہیں، تو یہ بھی وہی تجربہ اپنی اولاد کے ساتھ دہراتے ہیں جس کا سامنا ان کوبچپن میں ہواتھا۔ یوں ایک خراب رویہ نسل درنسل چلتا رہتا ہے۔

:بچوں کے حقوق اسلام کی نظرمیں 

اسلام نے بچوں میں امتیازی سلوک کو سختی سے منع کیا ہے۔ اور بچوں میں برابری کا حکم دیاہے، تاکہ جذباتی طور پر صحت مند نسل وجود میں آسکے۔ لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح نہ دینے کاحکم رسول اللہ ﷺ نے دیا اورفرمایا: سووا بین اولادکم فی العطیۃ فلوکنت مفضلااحدا لفضلت النساء (ترمذی)۔ ”حضرت ابن عبا س ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:  تم اپنی اولاد کو عطیہ دینے میں برابری کیا کرو، اگر میں اولاد کے درمیان کسی کو ترجیح دینا چاہتاتو بچیوں کو ترجیح دیتا۔“

خلاصہ یہ کہ بچوں کی پرورش کے ابتدائی ایام ان کی زندگی کا نقشہ اور خاکہ بنانے کے حوالے سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اس لئے والدین اپنے بچوں کی پرورش بھر پور طریقے سے کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے اللہ تعالی سے رجوع کریں دعاکریں۔ اور اچھی پرورش کے گر سیکھنے کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔

:حق تعلیم وتربیت

بچے کی پرورش کے ساتھ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرنا بھی والدین پر فرض ہے اور یہ بچے کا بنیادی حق ہے۔ اگر والدین اس میں کوتاہی کریں گے تو اللہ کے سامنے مجرم ٹھہریں گے۔اس میں کوتاہی کرنا قیامت میں اللہ کے سامنے قابل مواخذہ جرم ہے۔

قرآن کریم کی سورۃ الاحزا ب میں قیامت کے دن کفار کی ندامت اور اپنے بڑوں کو مجرم ٹھہرانے کا منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:   وقالوا ربنا انا اطعنا سادتنا وکبراء نا فاضلونا السبیلا۔ ربناآتہم ضعفین من العذاب والعنھم لعنا کبیرا ( سورۃ الاحزاب 67،68)۔”اور(کفار) اس روز کہیں گے اے ہمارے پروردگار!ہم(دنیا میں) اپنے معززین اور بڑوں کی اطاعت کرتے رہے انہوں نے ہمیں صحیح راہ سے بھٹکایا۔ اے پروردگار!آج کے دن انہیں دوگنا عذاب دیجئے اور ان پر ڈھیر ساری لعنت کیجئے۔

سورۃ الاحزاب کی ان دوآیات میں روزمحشر کی منظر کشی میں اپنے مقتداؤں یا بڑوں کے خلاف چھو ٹوں اور پیروکاروں کی برات اور گواہی کو بیان کیا گیا ہے۔یعنی آخرت کے اس لمحے کفار اپنی ساری ناکامی کی وجہ اپنے بڑوں کو قرار دیں گے۔ اور ان کو جہنم میں ڈالنے کی عرضی پیش کریں گے۔

اگرہم اس منظرنامے کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ تربیت کی  اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے والدین کے خلاف قیامت کے دن ان کے بچے اگر کھڑے ہوگئے، تو یقینا جوابدہی کا یہ منظر بھی بہت زیادہ ہولناک ہوگا۔جہاں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا حتی کہ بچے ماں باپ کے کام بھی نہیں آئیں گے۔ اور والدین اپنے بچوں کے کام نہیں آئیں گے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے دونوں ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔

:والدین اپنی ذمہ داری پوری کریں

اس خطرناک صورت حال سے  سبکدوشی کے لئے ضروری ہے کہ والدین دنیا میں اپنی ذمہ داریا ں پوری کریں۔ اپنی اولادکی تعلیم وتربیت کے فریضے کو نہایت خوش اسلوبی اور تربیت کے اصولوں کے مطابق انجام دیں۔ تو امید ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اولاد دنیا میں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک، باعث سکون و راحت اور آخرت کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے گی۔ یعنی یہی اولاوالد ین کو جنت کے درجات پار کرانے کا سبب بن جائے گی۔

لیکن اگرخدانخواستہ اس ذمہ داری میں کوتاہی برتی گئی تو یہی اولاد کل قیامت کے دن ماں باپ کے خلاف کھڑی ہوسکتی ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ اولاد اپنی ناکامی کی وجہ والدین کو قراردیں کہ انہوں نے ہماری ٹھیک طرح سے تربیت نہیں کی تھی۔ اور والدین کو اس فریضے میں کوتاہی کے سبب عذاب میں مبتلاکیا جائے۔ باقی دنیا میں اس کا خمیازہ بھگتنا تو بہرحال یقینی ہے کہ بے تربیت اولاددنیا میں ہی  انسان کے لئے باعث شرمندگی اورباعث اذیت بن جاتی ہے۔

:سیدنا عمرفاروق نے باپ کا کیس خارج کردیا

  ایک شخص امیرالمومنین سیدنا عمرفاروقؓ کے پاس آیا اور اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کی،اور ساتھ ہی اسے سزا دینے کا  بھی مطالبہ کیا ۔ امیرالمومنین نے اس کے بیٹے کوبلایااور دریافت کیا کہ تمہارے والد تمہارے خلاف شکایت کررہے ہیں کہ تم ان کی نافرمانی کرتے ہو۔اس پر بیٹے نےجواب دیاکہ میرے باپ نے زندگی میں میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ نیز میری تعلیم وتربیت کا  بھی کوئی انتظام نہیں کیا۔ کیونکہ اس نے ایک غیرمسلم مجوسیہ باندی سے شادی کی جو میری ماں بنی۔

جب میں پیدا ہوا تو جعل میرا نام رکھا تو گندگی کے ایک کیڑے کو کہاجاتا ہے اور اسی وجہ سے لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ پھر میری تعلیم وتربیت کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا، لہذا ان حالات میں مجھے جو بننا تھا  سومیں بن گیا،اب ان کو شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ لڑکے کا جواب  سن کرسیدنا عمرفاروق ؓ نے کیس ہی  خارج کردیاتھا۔ اور شکایت کرنے والے باپ سے فرمایا کہ تم نے اپنے ذمہ داری پوری نہیں کی اب حق مانگنے کا  جوازبھی نہیں۔

 :بچوں کے حقوق میں تعلیم و تربیت 

یہاں دو الفاظ تعلیم اور تربیت استعمال ہوئے ہیں۔ تعلیم سے مراد بچے کی شعوری سطح کو بلند کرنے کی کوشش ہے اس میں دین کی تعلیم کے ساتھ عصر حاضر میں رائج تعلیم اورزمانے کی مہارتیں بھی شامل ہے۔ چنانچہ بچے کا یہ حق ہے کہ اس کو اس طرح کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے زمانے سے پیچھے نہ رہے۔

اپنے دین پر قائم رہنے  کے ساتھ زمانے کے حالات اور چیلنجز کا خوش اسلوبی سے مقابلے پر قادر ہوسکے۔ اورتربیت سے مراد جو بھی تعلیم بچے کو دیں اسے بچے کے مزاج کا حصہ بنانے کی کوشش ہے۔ نیز تربیت بچوں کو آداب زندگی سکھانا اور ان آداب کو زندگی کے شب وروز میں عملی طور پر شامل کرنے کا نام ہے۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  اپنے بچوں کی درست تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔ کیونکہ ان تمام چیزوں کی فطری صلاحیت اگرچہ بچوں میں موجود ہوتی ہے لیکن عملی طور پر ان کوسیکھنااور زندگی کا حصہ بنانا والدین کی مدد سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ اویمجسانہ( صحیح بخاری)۔ ہربچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی بناتے ہیں ،نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں۔

:بچہ کی فطرت سلیمہ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے میں حق پر قائم رہنے کی فطری استعداد موجود ہوتی ہے۔ لیکن جب ماں باپ اسے خاص قسم کا ماحول اور خاص کی قسم کی تربیت کرتے ہیں ،تو وہ اسی کے مطابق ڈھل جاتاہے یوں وہ  ماں باپ کے مذہب کے مطابق یہودی، مجوسی یا نصرانی ہوجاتا ہے۔اس طرح ماں باپ کی تربیت کا بڑا عمل دخل ہے۔

ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:  اکرموااولادکم واحسنو ادبھم۔ ”اپنی اولاد کی عزت کرواور ان کو بہترین ادب سکھاؤ۔“  جو والدین اپنی اولاد کو ادب سکھائیں اس عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لان یوء دب احدکم ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع۔ تم میں سے کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھا ئے یہ عمل ایک صاع کی مقدار صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

:دورجدید میں تربیہ چیلنجز

اپنے بچوں کو ادب سکھانا موجودہ دورمیں اور بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ کیونکہ آج مغرب نے ہرانسان کے لئے آزادی کا جونعرہ لگایا ہے اس سے نئی نسل بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ آج کی نسل اسلامی تہذیب اور اخلاق وادب سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ او ر اسی کو جدیدیت اور کمال کا نام دیا جارہا ہے۔آج مغرب کی طرف سے نئی نسل کو یہ سبق دیا جارہا ہے کہ تم بس اپنا خیال رکھو باقی دنیا کی تمہیں کوئی پرواکرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی سبق دیا جارہا ہے کہ تم کانفیڈنٹ بن جاؤ ،چھوٹے بڑے کی تمیز، ماں باپ، اساتذہ اور بڑوں کا احترام تم پرکوئی لازم نہیں بس اپنا خیال رکھو۔ اورمزید یہ کہ جدید ٹیکنالوجی جس میں موبائل انٹرنیٹ وغیرہ نے تھوڑے ہی عرصے میں وہ کام کیا جو شیطان ابلیس صدیوں میں نہ کرسکاتھا۔

:آداب واخلاق سکھانا 

مذکورہ تمام چیلنجز کے ہوتے ہوئے کیا اپنے بچوں کو آداب و اخلاق سکھانا ماں باپ پر فرض نہیں؟ یقینا بنیادی فریضہ  ہے۔ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ “الدین کلہ ادب” ۔ یعنی دین سراسر ادب کا نام ہے، جہاں ادب نہیں وہاں دین واخلاق کا کوئی گزر نہیں۔ اس میں بڑوں کو حکم ہے کہ وہ بچوں سے شفقت ومحبت سے پیش آئیں ۔ان کا اکرام کریں ان کی توہین نہ کریں ۔اور دوسری طرف چھوٹوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ بڑوں کی عزت کریں۔ ان کا ادب واحترام کریں ان کے ساتھ بد تمیزی اور بد اخلاقی سے گریز کریں۔

حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ جو شخص بڑوں کا ادب واحترام اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی ایسے شخص سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہی وہ آداب ہیں جنہیں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اپنے بچوں کو سکھا نے کی ضرورت ہے۔

:تربیت یافتہ نسل سے تربیت یافتہ معاشرہ

بچے کی تعلیم وتربیت اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہی تربیت یافتہ بچوں سے تربیت یافتہ معاشرہ وجود میں آئے گا ۔ لیکن اگر خدانخواستہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑدیں تو غیرتربیت یافتہ نسل خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیوں کی طرح وجود میں آئے گی۔ اور نتیجے میں غیر تربیت یافتہ اور غیر مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا۔

جس کا خمیازہ والدین کے علاوہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑے گا اور یہی کیفیت اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی جائے گی۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کو اچھی طرح سے سیکھ کر انجام دیں۔

تعلیم وتربیت نہایت حساس اور وقت طلب کام ہے جس وقت یہ عمل انجام دیا جارہاہوتا ہے اس وقت اس کے اثرات محسوس نہیں ہوتے۔ یوں سمجھئے کہ یہ 20سالہ کمیٹی ہے جس کی قسطیں ابھی والدین کو صبروتحمل سے بھرتے رہنا ہے لیکن 20 سال کے بعد جب کمیٹی کھلے گی تو اندازہ ہوگا کہ کتنی بڑی سرمایہ کاری آپ نے کی تھی ۔ اللہ تعالی تمام والدین کو بہترین طریقے سے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت انجام دینے کی توفیق عطافرمائے۔

حق نکاح

:نکاح انسان کی فطری ضرورت

نکاح شریعت کا اہم حکم ہےجس کے لئے واضح تفصیلی احکامات قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ اور بالغ ہونے کے بعدبچے کا مناسب جگہ پر نکاح کرانا والدین کی ذمہ داری ہے ،جبکہ یہ بچے کاحق ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کی اچھی پرورش اور اچھی تعلیم وتربیت کے بعد جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کے نکاح کے لئے انتظامات کریں۔انتظامات میں مناسب جگہ رشتہ کی تلاش اور نکاح وولیمہ کے اخراجات کا انتظام شامل ہے۔

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔    من ولد لہ مولود فلیحسن ادبہ واسمہ فاذا بلغ فلیزوجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثما باء باثمہ۔فرمایا: جن والدین کے ہاں بچہ پیدا ہو ان کو چاہیے کہ بچے کواچھا ادب سکھائیں اوراس کا اچھا نام رکھیں۔  جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کرادیں۔ اگر بچہ بالغ ہوگیا اور باپ نے پھر بھی اس کا نکاح نہیں کرایا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گنا ہ باپ کے سر ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں جو عمربن خطاب ؓ سے مروی ہے اور شعب الایمان میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توراۃ میں لکھا ہے کہ جس شخص کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے، اس نے اس کی شادی نہیں کرائی اور وہ گناہ میں مبتلا ہوگئی تو اس کا گناہ باپ کے سر ہے۔

:پاکدامنی کاذریعہ نکاح

اسلام نے نکاح کے عمل کو بہت زیادہ آسان بنایا ہے۔  اور نوجوانوں کی بلوغت کے بعد جلد از جلدنکاح کرانے کی ترغیب دی ہے۔ تاکہ معاشر ہ میں حیا اور پاک دامنی کو فروغ مل سکے۔ لیکن مغربی معاشرے نے اس کے برعکس نکاح کے عمل پر کئی قسم کی پابندیاں لگا کر اس کو مشکل تر بنایا ہے۔ اور آزادی و جنسی بے راہ روی کو آسان بناکر فروغ دیا ہے۔

مغرب کے اس طرزعمل نے جنسی اختلا ط کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اس کو اپنے ہاں کی معاشرتی قدر کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ یہی چیز ہمارے معاشرے میں بھی سرایت کرتی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے معاشرے سے حیا اور پاک دامنی ختم ہوتی جارہی ہے۔

:بلوغت کے بعد نکاح

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بلوغت کے بعد غیر ضروری تاخیرکئے بغیر بچے کا نکاح کرادینا چاہیے۔  اور والدین کو چاہیے کہ وہ شریک حیات تلاش کرنے میں اپنی اولاد کی مدد کریں۔ اسلام میں بالغ مرد وعورت پر نکاح کے معاملے میں جبر کا کوئی تصور نہیں  یہ اختیار انہی کو حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن شریک حیات کے انتخاب کے وقت ان کے ساتھ معاونت بہت ضروری ہے۔

کیونکہ تازہ بلوغت کا دور شعوری طور پر کم پختگی اور جذبا تی ہیجان کا دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں اپنے لئے شریک حیات کے انتخاب کرتے ہوئے بچے سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے عقل وشعور کی سطح پر یہ اہم فیصلہ کرسکے گا۔

اس لئے اس فیصلے کے وقت والدین کی رہنمائی اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ نکاح کے بعد کی زندگی مضبوط بنیادوں پر لمبی مدت تک کے لئے استوار رہ سکے۔اس سلسلے میں بچوں کو بالکل آزاد چھوڑنے کے بھیانک نتائج کا تلخ تجربہ معاشرے کو بارہا کرنا پڑا ہے۔  لہذا شریک حیات کے انتخاب اور نکاح کے عمل میں والدین کا براہ راست کردار ہونا ضروری ہے۔

البتہ فیصلے کا حتمی اختیاربچے کے پاس ہی رہے گا، کیونکہ ہونے والے شریک حیات کے ساتھ زندگی بھر نباہ اسی کو کرنا ہے۔ اگر والدین اس اختیار کو اپنے پاس رکھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ کہیں ایسافیصلہ نہ کربیٹھیں جو حقیقی فریقین یعنی میاں بیوی کے لئے قابل قبول نہ ہو۔

:حق میراث

بچے کے آئینی حقوق میں سے ایک بنیادی حق میراث کاحق بھی ہے

بچے کے آئینی حقوق میں سے ایک بنیادی حق میراث کاحق بھی ہے۔ شریعت نے باپ کے مال میں اولادیعنی بیٹا بیٹی دونوں کے لئے نہ صرف حصہ رکھا ہے بلکہ قرآن کریم نے براہ راست ان کے حصوں کو متعین بھی کیا ہے۔  اور ماں باپ کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اولاد کو حق میراث سے بلاوجہ محروم کرسکیں۔ شریعت نے حق میراث اس لئے متعین کیا۔ تا کہ میراث اور مال کے حوالے سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔

قدیم معاشروں میں میراث کا حق صرف ایسے بیٹے کو دیا جاتا تھا جو جنگجو ہوتا یا جنگوں میں حصہ لینے کے قابل ہوتا تھا۔ کم عمر لڑکوں کو بھی اس حق سے بسا اوقات محروم رکھا جاتا تھا۔اور بیٹیوں کو میراث کے مال میں حصہ دینے کا تو تصورہی نہیں تھا۔

قرآن کریم نے بلاتفریق بیٹا اور بیٹی دونوں کا حق میراث متعین کرتے ہوئے فرمایا: یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین (سورۃ النسا : 11 )۔   اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تمہاری اولاد میں سے لڑکے کاحصہ دولڑکیوں کے حصے کے برابرہے۔

میراث میں لڑکا ولڑکی کا فرق کیوں؟

اب کوئی یہ  سکتاہے کہ لڑ کے کو دوگنا حصہ اور لڑکی کو اکہرا حصہ کیوں دیاگیا؟پہلی بات یہ ہے کہ یہ خالق کائنات کی مشیت ہے۔ وہ اپنی حکمت بالغہ کے مطابق جس کو جتنادینا چاہے،ہم کون ہوتے ہیں اس سےپوچھنے والے؟ دوسری بات یہ کہ عورت کے لئے مال وراثت حاصل کرنے کے او ر بھی کئی مواقع ہیں۔ مثلا بیٹی کی حیثیت سے، بیوی کی حیثیت سے اور ماں کی حیثیت سے بھی وہ وراثت کی حقدار ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف اس پر کوئی مالی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں اس کو جتنا بھی حصہ ملے وہ بچت ہی بچت ہے۔

جب عورت بیٹی کی حیثیت سے ہو تو باپ اس کی کفالت کا ذمہ دارہوتا ہے۔ جب شادی کے بعد کسی کی بیوی بن جائے تو شوہر کفالت کا ذمہ دار بنتاہے۔ خود عورت پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں لیکن اگر وہ کمانا چاہے اور کاروبار کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو یہ   واضح ہوجاتا ہے کہ مرد کو جتنا بھی حصہ ملے اور وہ جتنا بھی کمائے اس پر مالی اخراجات کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں عورت کا حصہ تھوڑا ہی کیوں نہ  ہو اور وہ کم کمائےتب بھی اس پر مالی ذمہ داری کوئی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بچت ہوجاتی ہے۔

:میراث اور گفٹ میں فرق

اگر کوئی باپ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کرنا چاہے تو اسے ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ باپ کے اس عمل کو تقسیم میراث نہیں کہا جائے گاکیونکہ یہ ترکہ نہیں ہے۔ ترکہ مرنے والے کا متروکہ مال ہوتا ہے جبکہ زندگی میں یہ خود باپ کی ملکیت مال ہے۔ باپ اپنی زندگی میں اپنا مال بچوں کو دینا چاہے تو اسے ہبہ یا گفٹ کہا جائے گا ۔

اس پر میرا ث کے احکام لاگو نہیں ہونگے۔ اس صورت میں باپ کو پورااختیار ہوگاکہ وہ کس کو کیا دینا چاہتا ہے؟البتہ اس صورت میں شریعت کا تقاضا اور حکم  یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں بلاتفریق مال برابر تقسیم کیا جائے۔ کسی کو محروم نہ کیا جائے۔بلکہ حدیث میں بعض اولاد کو مال کا عطیہ (گفٹ) دیکر بعض کو محروم کردینے کو ظلم قراردیا  گیاہے۔

:اولاد میں برابری پرزور

ایک مرتبہ حضرت نعمان بن بشیرؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک گھوڑا تحفہ میں دیا ۔اور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر آپ ؑکو اس عطیے پر گواہ بنانا چاہا۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی دوسری اولاد کو بھی اسی طرح کا کوئی تحفہ (گفٹ) دیا ہے؟ تو حضرت نعمان بن بشیر نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہﷺ۔ اس وقت آپ نے فرمایا:

  کہ میں اس ظلم پر گواہ نہیں بننا چاہتا۔یعنی آپ ﷺ نے والد کی طرف سے بعض اولاد کو نواز کر بعض کو محروم کردینے کے عمل کو ظلم قراردیا۔ اور آپ نے اس ڈیل پر گواہ بنناپسند نہیں فرمایا۔

Related Articles

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button