Parents Guides

تربیت اولاد میں ماں کا کردار اوراس کی ذمہ داریاں

تربیت اولاد میں ماں کا کردار اوراس کی ذمہ داریاں

بچے کی تربیت میں ماں کا کردار کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ ماں کی آغوش ہی بچے کیلئے پہلی درسگاہ اور پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ماں کے حقوق بھی بہت زیادہ رکھے گئے ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اس آرٹیکل میں تربیت اولاد میں ماں کے کردار اور اس کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ماں کا حق 75 فیصد کیوں؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، کہ ماں کے پاوں تلے جنت ہے۔ ایک اور حدیث میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کہ والدین میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا :ماں کا۔ اسی طرح سائل کے باربار پوچھنے پر آپﷺ نے تین بار ماں کے حق کا ہی ذکر فرمایا۔ اور چوتھی بار جب پوچھا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا باپ کابھی حق ہے۔

ان دونوں حدیثوں سے ماں کی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ پہلی حدیث میں انسان کی کامیابی اوراس کی جنت کو ماں کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے مشروط کیا  گیاہے۔ جس کے لئے تعبیر یہ اختیار فرمایا، کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔

جبکہ دوسری حدیث میں جب ماں اور باپ کے حقوق کا تقابل کیا گیا۔ تو تین بار ماں کے حق کا ذکر آیا۔ اور آخر میں صرف ایک بار باپ کے حق کا ذکر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ 75 فیصد حقوق ماں کے ہوگئے اور 25فیصد حقوق باپ کے ہوئے۔

ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کے حق کی اتنی زیادہ اہمیت پر ذرا غور کیا جائے،تو ایک بات بالکل واضح ہے ۔ کہ یہ اہمیت محض بچہ جن کر ماں کا منصب حاصل کرنے کی وجہ سے نہیں ۔ بلکہ ماں کی ان ذمہ داریوں اور تکالیف کی وجہ سے ہے جو اضافی طور پر اسے اٹھانی پڑتی ہیں۔

مثلا نوماہ تک بچے کو پیٹ میں پالنا، پھر اس کی پیدائش کے وقت کی تکالیف سے لے کر اس کی پرورش وپرداخت اور اچھی تربیت پراٹھائی جانے والی تکلیفوں کی وجہ سے ہے۔ اس مضمون میں ہم اولادکی پرورش اور تربیت میں ماں کے کردار اور ذمہ داریوں کا جائزہ لیں گے۔

مثالی والدین کی سات خصوصیات

والدین گاڑی کے دوپہییےہیں۔

اگرچہ اولاد کی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ماں او رباپ دونوں پرعائد ہے۔ یہ دونوں گاڑی کے دوپہیوں کا کردار اداکرتے ہیں۔ گاڑی کے دونوں پہیے جب سائزمیں یکساں ہوں۔ دونوں کا بیلنس ٹھیک ہو۔ دونوں میں ہواپوری ہو۔ اوردونوں اپنی اپنی جگہ درست کام کررہے ہوں۔ تو گاڑی اسپیڈ سے چل سکتی ہے۔

اگردونوں میں سے کسی ایک میں فالٹ ہو۔ سائز میں فرق ہوجائے۔ کسی ایک میں ہوا کم یا زیادہ ہو۔ یا کوئی ایک ٹائر پنکچر ہوا ہو۔ تو گاڑی کو جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ کوئی دوسرا نقصان ہوسکتا ہے۔ اور گاڑی کو خدانخواستہ حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔

بالکل اسی طرح خاندان کی گاڑی جس کی سواری خود اپنی اولاد ہو۔ اس کے دونوں طرف کے پہیوں یعنی ماں باپ کے کرداروں میں توازن ہونابہت ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ۔

لیکن اسلام نے ماں کو جو اضافی حیثیت دی ہے۔ او ر جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی ہے۔ اس اعزاز کی بنیادی وجہ تربیت اولاد کے حوالے سے ماں کی وہ خصوصی ذمہ داریاں ہیں جو شاید باپ پر عائد نہیں اور نہ وہ ان کا متحمل ہوسکتا ہے۔

ماں کی یہ ذمہ داریاں صبرآزما ضرور ہیں۔ کہ  اولاد کی پرورش اور تربیت میں ماں کوبہت زیادہ کردار اداکرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس کے حقوق بھی زیادہ ہیں۔ ذیل میں ہم ماں کی ان ذمہ داریوں کا تذکرہ کریں گے۔ ہرماں کو چاہیے کہ اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھے ۔ان کا احساس کرے ۔اور زندگی میں اپنے کردار کو واضح اور متعین طور پر سمجھ کر زندگی گزارے اور اپنے فرائض کی تکمیل کی پوری کوشش کرے۔

یہ بھی پڑھیں: والدینیت ( پیرنٹگ ) کے زعم میں والدین کی چند کوتاہیاں

:بچوں سے پہلے ماں کو اپنا خیال رکھناچاہیے

ایک ماں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت سے پہلے اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کا بھرپورخیال رکھے۔ جب تک آپ خود ذہنی اور جذباتی طور پر درست حال اور کیفیت کے ساتھ نہ ہوں ۔اس وقت تک  بحیثیت ماں اپنا درست کردار اداکرنا آپ کیلئے بہت مشکل ہوسکتا ہے۔ ذہنی طور درست ہونے کا مطلب یہ ہے۔ کہ آپ کے پاس بحیثیت ماں اپنے کرداراور بچوں کی تربیت کے حوالے سے درست اور نافع علم ہو۔

جب تک یہ علم موجود نہ ہو۔ اس وقت تک ایک ماں اپنے بچوں کے حوالے سے درست اقدام نہیں کرسکتی۔ اور جذباتی درستگی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے بعد ان کی ادائیگی کے لئے پرجوش اور پرعزم ہوں۔

تربیت کے لئے ذہنی آمادگی ضروری کیوں؟

اگرماں  اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ذہنی اور جذباتی طور پر آمادہ ہی نہ ہو۔ محض بیرونی اور معاشرتی  دباو کی وجہ  سے یہ کام کرنے پر مجبور ہو۔ تو اس میں کامیابی نہیں ملے گی۔ چونکہ ذہنی اور جذباتی طور پر آپ اس کام کے لئے آمادہ نہیں۔ یعنی آپ کا دل اس کام کرنا نہیں چاہتا ۔ محض کسی مجبوری یا دباوکی وجہ سے آپ اسے کررہی ہیں۔ توآپ کا یہ عمل مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔

لہذایہ بات ضروری ہے کہ پہلے اپنی ذہنی اور جذباتی حالت کو درست کرلیں۔ اپنے آپ کو اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت اور ان کی تربیت کے لئے دل سے آمادہ کریں۔ کہ یہ کام آپ پورے ذوق وشوق کے ساتھ اللہ کی رضا اور اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کرمستقل طور پرکریں گی۔ اللہ تعالی نے آپ کوزندگی کا اتنا بڑا منصب یعنی ماں کا منصب عطا کیا ہے ۔ جس منصب کے پیروں تلے جنت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے بڑا منصب دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ کہ آپ اپنی اولاد کی بہترین نشونما اور تربیت پرکام کریں۔

:بچوں کی جسمانی پرورش

اپنے بچے کی بہترین جسمانی پرورش وپرداخت بنیادی طور پر ماں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ پرورش کے روایتی انداز کو چھوڑ کر اپنے بچے کی معیاری پرورش کے حوالے سے باقاعدہ علم حاصل کرے۔ اس موضوع پرکتابیں پڑھے۔ ہوسکے تو کوئی پیرنٹنگ کی ورکشاپ یا کورس جوائن کرے۔ جس سے پیرنٹنگ کا درست علم حاصل ہوسکے۔ نیز اپنے مزاج اور طبیعت پر کام کرےاسے تربیت اولاد کے لئے موزوں بنانے کی کوشش کرتی رہے۔

درست معلومات کی بنیاد پر اپنے بچے کے لئے مناسب خوراک ،آرام اور جسمانی ورزش کا اہتما م کرے۔ اپنے بچے کی صحت و صفائی اور درست لباس کا خصوصی اہتمام کرے۔ بچوں کی اچھی پرورش کے لئے صحت مند خوراک ، مناسب آرام اور روزانہ کی جسمانی ورزش بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ماں کو پتہ ہونا چاہیے کہ صحت مند خوراک کیا ہوتی ہے؟ اور نقصان دہ کونسی ہے؟ بچے کی عمر کے حساب سے اس کی خوراک میں کیا مناسب تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ ان معلومات کی بنیاد پر ماں اپنے کچن کے لئے روزانہ یا ہفتہ وار مینیو بناسکتی ہے۔

سونے جاگنے کے اوقات بنائیے۔

اسی طرح چوبیس گھنٹوں میں کم سے کم آٹھ گھنٹے سونا ایک صحت انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کو اس کا پتہ ہونا چاہیے۔ اور اس کے مطابق گھرکے سونے جاگنےکے اوقات کی ترتیب بنانی چاہیے۔ ماں کو یہ بھی معلوم ہوناچاہیے ۔ کہ ورزش بچوں اور بڑوں سب کے لئے نہایت ضروری چیز ہے۔ اس سے انسانی صحت کو برقراررکھاجاسکتا ہے۔

ان تما م باتوں میں اپنا کردار اداکرنے کے لئے ماں کو اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر ماں کو خود صحت مند لائف اسٹائل اختیار کرنا چاہیے۔ اور بچوں کو اپنے کردار سے سبق دینا چاہیے ۔ کیونکہ بچے وہ کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے ماں باپ کو کرتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے۔ وہ نہیں کرتے جوا نہوں نے ماں باپ سے سنا ہوتا ہے۔

پیرنٹنگ ٹپس

:بچوں کی جذباتی اور سماجی تربیت

جذباتی توازن انسان کے کردار اور رویوں میں نکھار پیداکرتا ہے۔ انسان سماج میں اپنے کردار اوررویوں کے باعث ہی پہچانا جاتا ہے۔ بعد میں یہی رویے اور عادتیں اس کےکردار کو تشکیل دے کر اس کی شخصیت کی پہچان بنتے ہیں۔ جذباتی تربیت مناسب ہو،تو معاشرے میں اچھی میل جول کے ساتھ رہنا ،تعلقات میں خوب صورتی پیدا کرنا اور معاشرے کے لوگوں سے اچھا برتاو کرنا انسان کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

اور اگرخدانخواستہ جذباتی تربیت ونشونما میں کمی رہ گئی ہو، تو نفسیاتی پن کے شکارہونے کی وجہ سے انسان کے لئے اپنے  ہی معاشرے کے لوگوں سے معاملات کرنااور اچھے تعلقات کو فروغ دینا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔ انسان کی جذباتی نشونما میں پورے گھر کے ماحول کے علاوہ بنیادی طور پر ماں کا بہت بڑاکردار ہوتا ہے۔

 ماں کو چاہیے کہ شیرخوارگی کی حالت میں اسے اپنادودھ پلائے۔ اپنے بچے کو بھرپورمحبت دے، اس کو عزت دے، اسے گلے لگائے۔ اس سے خوب باتیں کرے۔ اس کو کسی حال میں نظرانداز بالکل نہ کرے۔ اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے گریز کرے۔ خاص کر کسی کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ بالکل نہ کرے۔ اگر بچہ غلطی کرے تو پیار سے اسے سمجھائے۔ بات کو سمجھانے کا طریقہ محض آرڈردینا نہ ہو،بلکہ اسے وجہ بھی بتا کر ذہنی طور پر اسے قائل کرنے کی کوشش کرے۔

:پیار سے ڈسپلن سکھائے

پیار بھی اورنظم وضبط بھی، بظاہر یہ دو متضاد چیزیں لگتی ہیں۔ کیونکہ عموما جو مائیں اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں۔ وہ انہیں  ڈسپلن اور نظم وضبط سکھانے سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ اور جو مائیں اپنے بچوں کو نظم وضبط اور ڈسپلن کرنا چاہتی ہیں ۔ان کوہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں سے اچھے تعلقات کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہوتاہے۔

لیکن اچھی ماں کا کردار یہ ہوناچاہیے، کہ وہ اپنے بچوں سے بھرپور پیار بھی کرے۔ اورساتھ ہی ان کو زندگی کے آداب ، ترتیب، جینے کا سلیقہ اور ڈسپلن بھی سکھائے۔

یہ ایک مشکل کا م ہے جو والدین کو خاص کر ماں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس کام کو کرنے کا مختصر طریقہ یہ ہے۔ کہ والدین پہلےبچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ کہ کس بات پر کتنا زورد ینا ہے؟ اور کس بات پر کس وقت سمجھوتہ بھی کیا جاسکتا ہے؟ اس کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کو نظم وضبط سکھانا شروع کریں ۔

اس کی بہترین شکل یہ ہے ۔ کہ ماں اپنے کردار وعمل سے بچوں کو ڈسپلن سکھائے۔ یعنی خود اپنی زندگی میں اپنے روزمرہ کے کاموں میں ڈسپلن اور سلیقہ پیدا کرے۔ بچوں کو اپنے عمل کے ذریعے سکھائے ۔ انشااللہ بچے خود بخود ڈسپلن کے عادی ہوجائیں گے۔ لیکن اگر ماں کو اپنے بچوں کو بتانا بھی پڑے اور بعض اوقات باربار تاکید کی ضرورت بھی پیش آئے۔ تب بھی اپنا لہجہ نرم رکھے۔ آواز دھیمی ہو۔ الفاظ مختصر نرم لیکن مضبوط اور پرعزم ہوں۔ اس انداز سے بچوں کی تربیت کی جائے تو انشااللہ بچے اچھی عادتوں کے حامل ہوجائیں گے۔

:بچوں کی دینی واخلاقی نشوونما

بچے جب دنیا میں آتے ہیں تو اللہ کی طرف سے وہ سلیم الفطرت پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی فطرت میں نیکی ، دین واخلاق اور حق کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ تاہم ان کی سرشت میں نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات اللہ کی طرف سے ڈال دئیے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  فالھمھا فجورھا وتقواھا(سورۃ الشمس:8) “پس انسان کو بدی کے کاموں کی صلاحیت دی اور اسے نیکی کے کاموں کی بھی صلاحیت دی۔

اس کیفیت کے ساتھ بچہ دنیا میں جب پید ا ہوتا ہے۔ تووالدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کے اندرپائی جانے والی نیکی کے رجحان کو پروان چڑھائیں ۔اور بدی کے رجحان کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو دین واخلاق سکھائیں ۔ بچپن سے ہی گھر کا ماحول دین واخلاق کے حوالے سے معیاری بنائیں ۔ خود والدین اپنے دین واخلاق کی درستگی کا خاص خیال رکھیں۔

بچے ماں سے زیادہ اثر کیوں لیتے ہیں؟

ماں کا خون بچے کا جزوبدن بنتا ہے۔ ماں کی غذا، سوچ، جذبات اور حرکات وسکنات کا براہ راست اثر پیٹ میں پرورش پانے والے بچے پر ہوتا ہے۔ اور پیدائش کے بعد بھی بچہ ہمیشہ ماں سے ہی چمٹا رہتا ہے۔ لہذا اس کی ہرحرکت اور  ہرادا سے وہ براہ راست اثر لیتا ہے ۔ ایسے میں ماں کو اپنے بچے کے دین واخلاق کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔

ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو اچھے بول ، اچھا لہجہ اور مہذب گفتگوکا سلیقہ سکھائے۔ اس کو دین کے آداب سکھائے ۔ نماز،دعا اورتلاوت کا عادی بنائے۔ اس کی ایمانی افزائش کے لئے انبیا کرام، صحابہ کرام اور اولیااللہ کی حکایتیں اور واقعات سنائے۔ قصص القرآن، قصص الانبیا اور حکایات صحابہ جیسی کتابیں اپنے گھرمیں رکھ کر مطالعہ کااہتما م کرے۔

یاد رکھیئے دین واخلاق کی تربیت صرف بتانے پر منحصر نہیں۔ بلکہ کرکے دکھانے پر منحصر ہے۔ والدین کو چاہیے کہ پہلے دین واخلاق کا خود مرقع بنیں۔ اوراپنے عمل سے بچوں کو دکھائیں ۔ کیونکہ بتانے سے بچے صرف دس فیصد سیکھتے ہیں۔ اور کرکے دکھانے سے سے نوے فیصد سیکھتے ہیں۔ لہذا موثر طریقہ یہی ہے، کہ والدین اور خاص کرماں اپنے عمل وکردار سے بچوں کو دین واخلاق کا درس دیں۔

:بچوں کی تعلیم میں ماں کا کردار

ماں کا یہ کردار بھی بہت اہم  ہوتاہے، کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم اور اسکلز سیکھنے میں اس کی مدد کرے۔ بچہ اسکول جانے سے پہلے ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر ماں پڑھی لکھی ہو۔ اورا پنے  بچے کو صحت مند چیزیں سکھانے کا ذوق رکھتی ہو۔ تو بچے کی اسکل ڈویلپمنٹ بہت اچھے انداز سے آگے بڑھتی رہتی ہے۔ بچے کوگلے لگا کر اسکول بھیجنے سے لے کر گلے لگاکر وصول کرنے اور اسکول سے متعلق کاموں میں اس کی مدد سے لے کر اچھے نمبروں اور گریڈ کے حصول تک ماں اپنے بچے کے ساتھ ساتھ رہتی ہے ۔ اس کوحوصلہ دیتی ہے۔ ہمت بندھاتی ہے۔ اور اس کو تعلیمی نصابی وہم نصابی سرگرمیوں میں آگے بڑھ کر کام کرنے اور اپنی صلاحیتں بڑھانے کی اسے ہمت اور ذوق عطاکرتی ہے۔

ان خصوصیات کی حامل ماں کی ہمارے معاشرےکو آج شدید ضرورت ہے۔ ایسی ہی ماں کے بارے میں نپولین ہل نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں دنیا میں بہترین قوم دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ انہی جیسی ماوں سے دنیا میں اچھی قومیں وجود میں آتی ہیں۔ اللہ تعالی اچھی ماں کو دنیا میں ہمیشہ زندہ سلامت رکھے۔آمین۔

تربیت اولاد میں باپ کا کردار

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button