For MothersFor TeachersFundamentalsParenting TipsTohfa-e-Walidain

تربیت کے لئے ذہنی آمادگی

تربیت کے لئے ذہنی آمادگی

پہلے ذہن پھر خارج میں

دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا منصوبہ پہلے ذہن میں بنتا ہے۔ پھر خارج میں وہ کام وجود میں آتاہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ذہن میں خاکہ بنے بغیر وہ شے خارجی دنیا میں وجود میں آئے۔ مثلا ہمیں کوئی بلڈنگ بنانی ہو تو پہلے ذہن میں اس کا خاکہ ہوتا ہے۔ کہ میرا گھر ایسا ہوناچاہیے، اس علاقے میں ہونا چاہیے اور اس معیار کا ہونا چاہیے۔ اس ذہنی خاکہ کو انجینئر کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔پھر انجینئر اپنے علم کے مطابق اس ذہنی خاکے کا ایک عملی نقشہ او ر ماڈل تیار کرتا ہے۔ جب نقشہ پاس ہوتاہے تبھی پلاٹ پر عملی کام شروع ہوجاتا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک خاص قسم کی بلڈنگ تیار ہوجاتی ہے۔

اولاد کی تربیت کا پروجیکٹ طویل دورانیے پر مشتمل دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ جو نہایت صبر آزما ہونے کے ساتھ بسااوقات غیر متوقع نتائج کا حامل بھی ہوتا ہے۔اس میں اگرچہ والدین کے علاوہ بھی کئی عناصر حصہ لیتے ہیں ۔اور بچے کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔ مثلا گھر، خاندان ، برادری اور محلہ وغیرہ۔ لیکن بنیادی طور پر اس کے انجینئر والدین ہی ہوتے ہیں۔ وہ ان عناصر میں سے جس کو جتنا موقع دیتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں وہ اتنا ہی اثر انداز ہوسکتا ہے۔  والدین  کی اجازت کے بغیر کوئی اورزیادہ  موثر کردار ادا نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیے

انجینئر کا باکمال ہونا ضروری کیوں؟ 

یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ انجینئر جس کمال کاہوتاہے، اس کی بنائی ہوئی بلڈنگ بھی اسی درجے کی پائیدار اور کمال کی ہوتی ہے۔اس لئے پہلے انجینئر کوباکمال بننا پڑتا ہے۔لہذا والدین کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے پہلے سے نہ صرف ذہنی طور آمادہ  ہوں۔ بلکہ اس کام کے لئے ان کو پرعزم بھی ہونا چاہیے۔ ورنہ تربیت کی یہ بلڈنگ نہ صرف ادھوری رہ جائے گی، بلکہ اپنے خاکہ ساز یعنی والدین کی غلط پلاننگ  کی رودار ہمیشہ سناتی رہے گی۔ انسان جب کسی کام کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ ہو تو اس کو انجام دینا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ذہنی طور پرآمادگی کے بغیر انسان اپنے وسائل اس کام پر لگانے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا ۔

بسااوقات انسان کے پاس بے شمار وسائل بھی موجود ہوتے ہیں ۔لیکن محض ذہنی آمادگی کے فقدان کی وجہ سے وہ کام پورا نہیں کرپاتا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت جیسے عظیم کام کے لئے والدین پہلے ذہنی طور پرخود آمادہ ہوں۔ پھر اس کی بھر پور تیاری کریں اور اس عظیم کام کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں۔

تربیت شروع کرنے کا مناسب وقت

یہاں یہ بات سمجھنا بھی اہم ہے کہ تربیت اولاد کے لئے ذہنی آمادگی اور تیاری کا  مناسب وقت کونسا ہے؟کئی ایسے والدین سے ملنے کا موقع ملا ۔جن کوتربیت اولاد کے حوالے سے ذہنی آمادگی  اورکوشش کا موقع اس وقت  میسرہوا۔ جب پانی پل کے نیچے سے بہہ کر کافی آگے نکل چکا تھا۔ ایسا ہونے سےعام طور پر افسوس کے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تربیت اولاد کیلئے ذہنی طور پر آمادگی اورعملی  تیاری  شادی سے بھی پہلے شروع ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اولاد شادی کا پھل ہوتی ہے۔ اچھے پھل کے لئے کام کی شروعات اچھی زمین اور اچھے بیج سے ہوتی ہے۔ چنانچہ شادی کے بعد ہونے والی اولاد کی تربیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پہلے سے ہی ایسے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جس کے ساتھ نباہ کے نتیجے میں اچھی اولاد کا حصول  اور اچھی تربیت ممکن ہوسکے۔

تربیت اولاد کیلئے ذہنی طور پر آمادگی اورعملی  تیاری  شادی سے بھی پہلے شروع ہونی چاہیے
تربیت اولاد کیلئے ذہنی طور پر آمادگی اورعملی  تیاری  شادی سے بھی پہلے شروع ہونی چاہیے

 

سیگمنڈ فرائیڈ اور عورت کا عجیب مکالمہ

سیگمنڈفرائید کے پاس ایک عورت اپنے دوسال کے بچے کو لیکر آئی اور پوچھنے لگی ۔کہ میرے اس بچے کی اچھی تربیت کا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے؟ سیگمنڈ فرائیڈ نے جواب دیا کہ بی بی تم  یہ سوال پوچھنے کے لئے تین سال لیٹ آئی ہو۔ عورت کو حیرت ہوئی کہ میرے بچے کی عمر ہی دوسال ہے۔ تو تین سال لیٹ آنے کا کیا مطلب ہے؟ سیگمنڈ نے بتایا کہ بچے کی تربیت پیدائش کے بعد نہیں بلکہ پیدائش سے بہت پہلے شروع ہوجاتی ہے۔

حدیث میں اچھے رشتےکا معیار

اچھی نسل پیداکرکے اس  کواچھی طرح پروان چڑھانے کا انحصاراچھے شریک حیات کے انتخاب پر ہے۔ ہمارے دین اسلام میں اچھے شریک حیات کے انتخاب کو بنیادی اہمیت حاصل  ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عام طور پر چار چیزوں کو پیش نظر رکھ کر لوگ اپنے لئے رشتہ ازدواج کا انتخاب کرتے ہیں۔

پہلی چیز خوبصورتی

دوسری چیز مال ودولت

 تیسری چیز خاندانی وجاہت

 چوتھی وجہ دین واخلاق

یہ بیان فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرۃؓ سے فرمایا ابوہریرۃ! تم رشتے کے انتخاب کے لئے لازمی طور پر دین واخلاق کو اپنی پہلی ترجیح بنالو۔

اس حدیث سے ہمیں یہ بات   معلوم ہوئی۔ کہ جس وقت رشتے کی تلاش کے لئے نکلتے ہو اسی وقت سے مستقبل میں ہونے والی اولاد کو ذہن میں رکھو۔ اور اس کی تربیت کو پیش نظر رکھ کر رشتہ ڈھونڈو۔ کیونکہ اولاد انسانی نسل کے تسلسل کا ذریعہ ہوتی ہے۔اگر رشتہ ازدواج کے بعد اچھی نسل تیار ہوئی۔ تو اچھے نسلی تسلسل کے ساتھ زندگی میں راحت اور نیک نامی کے علاوہ آخرت میں صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہوگی۔ لہذا رشتے کی تلاش کے وقت سے ہی آنے والی نسل کی اچھی تعلیم وتربیت کے لئے ذہنی طور پر نہ صرف آمادہ رہنا چاہیے ۔بلکہ اس کی پوری تیار ی کرنی چاہیے۔مزید پڑھیے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button