Character Building & TarbiyahFundamentalsParents GuidesTohfa-e-Walidain

جامع تربیت کی 8 بنیادی باتیں

جامع تربیت کے ایریاز


جامع تربیت کی اصطلاح کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے جس سے ان کی شخصیت کے تمام پہلو ایک ساتھ پروان چڑھیں۔ زندگی کے  کسی ایک گوشے پر تو جہ دے کر دوسرے گوشوں کو نظرانداز کردینے والا رویہ نہ ہو۔جوعام طور پر تربیت کے دوران سامنے آتا ہے۔ تربیت اولاد کے قابل توجہ ایریاز مندرجہ ذیل ہیں۔   

جسمانی تربیت

دینی /روحانی تربیت

ذہنی وشعوری تربیت 

 جذباتی ونفسیاتی تربیت

 سماجی ومعاشرتی تربیت

یہ ایریاز اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ تربیت کے میدان کا حصہ  ہیں ۔ لیکن یہاں اس حوالے سے چند بنیادی باتوں سے آگاہ ہونا والدین کے لئے  ضروری ہے۔

پہلی بات

۔پہلی بات یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہربچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اوربچوں کی تربیت کے دوران مختلف مراحل میں ہربچے کی  ضروریات بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔ والدین تربیت کے معاملے میں ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کے بجائے اپنے ہربچے کے لئے الگ حکمت عملی بنائیں۔

دوسری بات

۔ والدین کو یہ بات بھی پیشگی سمجھناچاہیے۔ کہ جامع تربیت اولاد کے لئے بنیادی طور پر پانچ پہلووں پر کام کرنا پڑتاہے۔ اور وہ یہ ہیں۔ جسمانی تربیت، ذہنی تربیت ، دینی تربیت ، جذباتی تربیت اور معاشرتی تربیت ۔ان سب پربیک وقت کام کرنا ضروری ہے۔

اور یہ پانچوں پہلو اپنی نشوونما اور افزائش کے لئے ایک دوسرے پر منحصر ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں ۔ ان میں سےکسی ایک پہلو پربھی کام کریں گے تواس کے مثبت اثر ات دیگر پہلووں پربھی ضرور پڑیں گے ۔

اس کے برعکس اگر چارپہلووں پربھرپور کام کے باوجود کسی ایک پہلوکو نظر انداز کریں گے۔ تو اس ایک پہلو کی کمی کا منفی اثر باقی چاروں پر بھی پڑے گا۔لہذا تمام پہلووں کو ساتھ لے کر چلنا اور ہرایک کے لئے الگ حکمت عملی بنانانہایت ضروری ہے۔

تیسری بات

 ۔اگر آپ کا بچہ کوئی نامانوس یا  تربیت کے خلاف غیر معمولی رویہ اختیار کرتا ہے۔ تو اس کے رویے کو سطحی نظر سے دیکھ کر نظرانداز کرنےیا طیش میں آنےاور   پریشان ہونے کے بجائے اس رویے کی تہہ تک پہنچنے کو شش کیجئے۔ اس رویے کے بنیادی اسباب وعوامل کو تلاش کیجئے۔

اور چیزوں کی تہہ تک پہنچ کر ان کو ذرا بڑی تصویر میں دیکھنے کی کوشش کیجئے۔ کہ بچے کے اندر یہ سوچ یا رویہ کس راستے سے آیا ہے؟ تاکہ بچے کے رویوں کا پورا منظرنامہ ان کے اسباب کے ساتھ سمجھ میں آسکے۔

چوتھی بات

۔ آپ کویہ بھی سمجھنا ہوگاکہ پیرنٹنگ اورتربیت اولادصرف وظائف پڑھنے، دم کرنے، چند جزوی ٹیکنیکس اپنانےیاوقتی ٹوٹکوں پرگزارا کرنے کا نام نہیں۔بلکہ یہ دن کے چوبیس گھنٹے ، ہفتے کے ساتوں دن اور عمر بھر کی مستقل سرگرمی ہے۔

جسے نہایت مستقل مزاجی ، صبروتحمل اور حکمت ودانائی کے ساتھ سرانجام دینا پڑتا ہے۔جس سے تربیت اور تعمیرشخصیت کی ایک پوری تصویر ابھرکرسامنے آتی ہے۔

پانچویں بات

۔ والدین کو یہ بھی سمجھناچاہیے کہ تربیت اولاد کی جامع تصویر میں رنگ بھرنے کےلئے والدین کے پاس دوبنیادی چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور وہ دوچیزیں علم نافع اور مزاج موزوں کا ہونا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی مفقود ہو تو یہ تصویر ادھوری رہ جائے گی۔ اور جامع تربیت ممکن نہ ہوسکے گی۔

چھٹی بات

۔ والدین کے لئے یہ سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ اصولی طورپر اولاد کی تربیت انہی کا فریضہ ہے۔ یہ فریضہ نہ اسکول ادا کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹیچر اس کا متحمل ہوسکتاہے۔ اگر وہ اس حوالے سے کچھ اقدامات کریں ۔تو والدین کو ان کے ساتھ بھر پور تعاون کرنا چاہیے اور ان کا شکریہ بھی اداکرنا چاہیے ۔

تاہم پھر بھی اولاد کی تربیت کے حوالے سے اسکولز، مدارس یا کسی اور تعلیمی ادارے پر انحصارکرکے بیٹھ جانا عقل مندی نہیں۔ بلکہ بحیثیت والدین اپنے حصہ کا کام ضرووکرنا چاہیے۔

ساتویں بات

۔ والدین کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت اچھی رول ماڈلنگ سے ہی کرسکتے ہیں۔ بچے والدین کی تقریر یا ڈانٹ سے قطعانہیں سیکھتے۔ بلکہ وہ ان کے کردار اورعمل سے سیکھتے ہیں۔

لہذا والدین کو اچھی پیرنٹنگ کے لئے رول ماڈلنگ کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ایک ریسرچ کے مطابق بچے والدین کی رول ماڈلنگ اور کردار سے نوے فیصد سیکھتے ہیں۔ جبکہ ان کی تقریر اور سمجھانے سے صرف دس فیصد ہی سیکھتے ہیں۔

آٹھویں بات

۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے بچوں کے اندر خوش مزاجی، باہمی تعاون اور اعلی کردار کو فروغ دیں۔ یہ سب خصوصیا ت انسانی شخصیت کو چارچاند لگانے والی ہیں۔ ا ن کو فروغ دینے کا طریقہ تقریر کرنا قطعا نہیں۔ بلکہ والدین یہ سب کچھ عملی طور پر کرکے دکھا ئیں ۔بچے ان کو دیکھ کر خود بخودسیکھ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

بچوں کی تربیت کے عملی طریقے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button