اسلامی معلومات

عشرۂ ذوالحجہ کے اعمال

عشرۂ ذوالحجہ کے اعمال

(مفتی فرحان فاروق، متخصص جامعہ دارالعلوم کراچی)

بال اور ناخن نہ کاٹنا

ذوالحجۃ کا چاند دیکھنے کے بعد سب سے پہلا عمل یہ ہے کہ جن لوگوں پر قربانی واجب ہے، یاجن لوگوں کا نفلی قربانی کرنے کا ارادہ ہے، وہ لوگ چاند دیکھنے کے بعدسے لے کر اپنی قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹیں، ایسا کرنا مستحب ہے۔ چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلِمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جب <ذوالحجۃ کا مہینہ شروع ہو جائے، اور تم میں سے کسی کا قربانی کر نے کا ارادہ ہو، تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم)
علماء نے لکھا ہے کہ اس حکم کی حکمت یہ ہے کہ حاجی صاحبان ان دنوں میں اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ان کی طرف متوجہ ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کی اس رحمت اور توجہ میں ان لوگوں کو شریک کرنے کیلئے یہ عمل بتلادیا کہ جس طرح حجاج احرام کی پابندی کی وجہ سے اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹ سکتے، تم بھی مت کاٹو۔اس طرح اللہ کی اس رحمت میں تم بھی مشابہت کی وجہ سے شریک ہوجاؤگے۔

ذکر اﷲکی کثرت

اس بابرکت عشرہ کادوسرا عمل کثرت سے ذکر کرناہے، چنانچہ:حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ا للہ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجۃ کے عشرہ سے زیادہ عظمت والا کوئی دن نہیں، اور نہ ان دِنوں کے عمل سے کسی اور دن کا عمل زیادہ محبوب ہے۔ لہٰذا تم ان دِنوں میں تسبیح و تہلیل اور تکبیر و تحمید کثرت سے کیا کرو۔

اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے درجِ ذیل کلمات بھی پڑھے جاسکتے ہیں:
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ

روزے رکھنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے، جس میں عبادت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجۃ کے عشرہ سے زیادہ پسند یدہ ہو، (کیونکہ) اس عشرہ میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے، اور اس کی ہر رات کی عبادت شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جنہیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔

1.عاشوراء کا روزہ۔ 2.ذوالحجہ کے عشرہ کے روزے۔ 3. ہر مہینہ کے تین روزے۔ 4. فجر سے پہلے کی دو رکعتیں۔

ذوالحجۃ کے عشرے کے روزوں سے مراد یکم تاریخ سے لے کر ۹ تاریخ تک کے روزہ ہیں،کیونکہ عید کے دن تو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔

یومِ عرفہ کا روزہ

نو ذوالحجۃ عرفہ کا دن ہے، جس میں حجاج ‘‘حج’’ کاعظیم الشان رکن یعنی وقوف عرفہ اداکرتے ہیں، اور جو لوگ حج پر نہیں گئے ہوئے، ان کے لیے اس نویں تاریخ کے روزہ کو مقرر فرمادیا ہے، چنانچہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں کہ: میں اﷲ پاک سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے، اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ فرمادیں گے۔ (مسلم)

واضح رہے کہ یہاں صغیرہ گناہ مراد ہیں، کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے، اور حقوق العباد سے متعلق گناہوں میں متعلقہ لوگوں سے بھی معافی مانگنی ضروری ہے۔

شب بیداری

عشرۂ ذوالحجۃ کے اعمال میں سے پانچواں عمل یہ ہے کہ آٹھ ذوالحجۃ کی رات، عرفہ کی رات، بقرعید کی رات کو عبادت کے لیے شب بیداری کا اہتمام کرے۔ حضرت ابو امامہ I سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الا ضحیٰ)کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہو ئے زندہ رکھا، تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے(ذکر و عبادت کے ذریعہ ) پانچ راتیں زندہ رکھیں اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ وہ پانچ راتیں یہ ہیں: آٹھ< کی رات، عرفہ کی رات، بقر عید کی رات، عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات۔

تکبیرِ تشریق

اس عشرہ کا ایک اہم عمل تکبیر تشریق کا پڑھنا ہے، عرفہ کے دن یعنی نو (۹) تاریخ کی فجر سے تیرہ (۱۳) ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعدیہ تکبیر پڑھی جاتی ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ولِلّٰہِ الْحَمْدُُ

عید الاضحیٰ کی نماز اور قربانی

یہ اس عشرہ کا ایک اجتماعی عمل ہے جو کہ دسویں تاریخ کو جس کو یوم النحراور یوم الاضحی بھی کہا جاتا ہے، ادا کیا جاتا ہے۔ اس دن تمام مسلمان مل کر عید کی نماز ادا کرتے ہیں، اور اس کے بعد صاحبِ استطاعت لوگ االلہ کی راہ میں قربانی کرتے ہیں۔

عید الاضحی کے دن کے اعمال

1 ۔ عید کے روز جلدی جاگنا، اور صبح کی نماز اپنے محلہ کی مسجد میں پڑھنا۔
2 ۔ شریعت کے موافق اپنی تزئین کرنا۔
3 ۔ غسل کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔ (ابنِ ماجہ)
4۔ عیدالاضحی کے موقعہ پر نماز سے پہلے بال اور ناخن کاٹنے کے بجائے قربانی کے بعد بال کاٹنا، جبکہ عیدالفطرکے موقعہ پر نماز سے پہلے بال اور ناخن کاٹنا سنت ہے۔
5۔ مسواک کرنا۔ (یہ مسواک کرنا نمازِ عید کے لیے ہے، وضو میں مسواک کرنا اس کے علاوہ ہے)
6۔ جو بہتر کپڑے اپنے پاس موجود ہوں وہ پہننا۔
7۔ خوشبو لگانا۔
8۔ عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر مستحب یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائے، بلکہ اپنی قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتداء کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لہٰذا آج کل لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں، اور کتنی ہی دیر ہوجائے کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں، اور اس میں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہیں، اور بعض اوقات جلدی سے گوشت یاکلیجی تیار کرنے کے لیے اپنے گھر والوں کو تکلیف میں ڈالتے ہیں، اس کو روزہ کی طرح ضروری سمجھتے ہیں، اور کلیجی یا گوشت سے ابتداء کرنے کو روزہ کھولنے سے تعبیر کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے۔
9 عید گاہ میں سویرے پہنچنا۔
10. سواری کے بغیر پیدل عید گاہ جانا۔ (اگر عید گا ہ زیادہ دور ہو، یا کمزوری کے باعث عذر ہو تو سواری میں مضائقہ نہیں )
11. عید گاہ کی طرف اطمینان اور وقار سے جانا، اور نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے، اور نیچے دیکھتے ہوئے جانا۔
12. عید کی نماز مسجد کے بجائے عید گاہ یا کھلے میدان میں پڑھنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی عیدین کی نماز مدینہ منورہ کی عیدگاہ میں ادا فرماتے تھے۔ (بخاری)
13. عید الاضحیٰ کے دن عید گا ہ جاتے ہوئے راستہ میں بآوازِ بلند یہ تکبیر پڑھتے ہوئے جانا:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ولِلّٰہِ الْحَمْدُ
14. ایک راستہ سے عیدگاہ میں جانا، اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عید کا روز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستوں میں فرق کرتے (یعنی عید گاہ ایک راستہ سے تشریف لے جاتے، اور دوسرے راستہ سے واپس آتے )

عید کی نماز کا طریقہ

عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ یہ نیت کریں کہ میں دو رکعت واجب نمازِ عید مع چھ زائد واجب تکبیروں کے ساتھ ادا کرتا ہوں، اور مقتدی حضرات امام کی اقتداء کی بھی نیت کریں۔ پھر اَللّٰہُ اَکْبَرْکہہ کر ہاتھ باندھ لیں، اور ثناء پڑھیں، اس کے بعد امام تین زائد تکبیریں کہیں گے، اس میں پہلی دو تکبیروں میں تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، اور تیسری تکبیر میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں، پھر امام تعوّذ اور تسمیہ پڑھ کر قرائت کریں گے، اور عام طریقہ سے پہلی رکعت پوری کریں گے۔

دوسری رکعت پڑھنے کا طریقہ

اس کے بعد دوسری رکعت شروع ہوگی، دوسری رکعت میں جب امام قرائت سے فارغ ہوں گے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُْکہہ کر رکوع میں نہیں جائیں گے،بلکہ تین زائد تکبیریں کہیں گے، ان تینوں تکبیروں میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، اس کے بعد امام چوتھی مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہیں گے، اس تکبیر پر رکوع میں چلے جائیں، اور باقی نماز عام طریقہ سے پوری کی جائے گی۔

تکبیریں یا رکعتیں رہ جائیں توکیا کریں؟

اگر عید کی نماز میں ایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام صاحب زائد تکبیریں کہہ چکے ہیں، یا قرائت شروع کر چکے ہیں، تو تکبیر کہہ کر نماز شروع کردیں اور ہاتھ باندھ لیں، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، اس طرح کہ پہلی دو میں تواَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، اور تیسری تکبیر میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں۔

اگر پہلی رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہوں

اور اگر ایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام پہلی رکعت کے رکوع میں جاچکے ہیں، تو اگر غالب گمان یہ ہو کہ اگر اوپر ذکر کردہ طریقہ کے مطابق تکبیریں کہنے بعد بھی امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائیں گے، تو اسی طریقہ سے تکبیریں کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائیں۔

رکوع میں تسبیحات کی جگہ تکبیرات پڑھی جا سکتی ہیں

اگر غالب گمان یہ ہو کہ تکبیریں کہنے کی صورت میں امام کے ساتھ رکوع میں شامل نہیں ہو سکیں گے، تو اَللّٰہُ اَکْبَرُکہہ کر نیت باندھ لیں، پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر رکوع میں شامل ہوجائیں، اور رکوع میں تسبیح پڑھنے کے بجائے تین مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہیں، اس میں کانوں تک ہاتھ نہیں اٹھانے۔

مقتدی کے لئےکبیریں کب معاف ہیں؟

اگر اس طرح کرنے میں رکوع میں تین تکبیریں کہنے کا موقعہ نہیں ملا، بلکہ امام تین تکبیریں کہنے سے پہلے ہی کھڑے ہوگئے، تواس صورت میں امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوجائیں، جو تکبیریں رہ گئیں وہ معاف ہیں۔

پہلی رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہونے کا حکم

اور اگر امام کے پہلی رکعت کے رکوع سے کھڑے ہو نے کے بعد نماز میں شامل ہوئے، تو اس صورت میں تکبیرِ تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائیں، اور زائد تکبیریں نہ کہیں، بلکہ امام کے ساتھ اپنی نماز پوری کریں، اور جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی باقی رہ جانے والی ایک رکعت پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوں تو پہلے تلاوت کریں، اور اس کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہیں، اور تینوں میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں، اور پھر چوتھی مرتبہاَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر رکوع میں چلے جائیں، اور باقی رکعت عام طریقہ سے پوری کریں۔

دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہونے والے کا حکم

اور اگر امام کے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہو نے کے بعد نماز میں شامل ہوئے، تو اس صورت میں امام کے ساتھ نماز پوری کریں، اور امام کے سلام پھیرنے کے بعدکھڑے ہوجائیں، اوراپنی فوت شدہ دو رکعتیں ادا کریں، اور اس میں پہلی اور دوسری رکعت میں زائد تکبیریں اسی موقعہ پرادا کریں جس طرح اما م کرتا ہے۔

تشہد کے بعد نماز میں شامل ہوئے تو کیا کریں؟

اگر عید کی نماز میں ایسے وقت میں شامل ہوئے کہ امام تشہد پڑھ چکے ہیں، لیکن ابھی تک سلام نہیں پھیرا، تو نماز میں شامل ہوجائیں، اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی فوت شدہ دو رکعتیں پوری کریں، اور اس میں اپنے مقام پر زائد تکبیریں کہیں۔ (ماخوذ از عمدۃ الفقہ)

اگر امام تکبیریں کہنا بھول جائے

اگر پہلی رکعت میں ہی امام تکبیریں کہنا بھول جائے اور قرائت شروع کردے تواگرامام کو قرائت ختم کرنے سے پہلے تکبیریں یاد آگئیں اور اس نے قرائت کے بعد تکبیریں کہیں، اس صورت میں مقتدی امام کے ساتھ تکبیریں کہہ لیں۔

امام تکبیرات کہے بغیر رکوع میں جائے

اور اگر امام کو اس وقت بھی یاد نہ آیا اور وہ رکوع میں چلا گیا تو مقتدی اس کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں بلکہ رکوع میں چلے جائیں۔ اب اگر امام کو رکوع میں یاد آگیا تو اور اس نے وہاں تکبیریں کہہ لیں تو بھی تکبیریں ادا ہوگئیں اگر وہاں بھی بھول گیا یا رہ گئیں تو بھی کوئی حرج نہیں، نماز سب کی ہوجائے گی، اور سجدہ سہو بھی معاف ہے ۔

امام دوسری رکعت کی تکبیریں بھول جائے

اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام بھول گیا، اور رکوع میں چلا گیا، تو مقتدی بھی اس کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔ اس صورت میں اب سجدہ سہو سے تکبیرات کی کمی پوری ہوسکتی ہے، لیکن عید کی نماز میں سجدہ سہو معاف ہے لہٰذا، اگر امام نے سجدہ سہو نہیں کیا تو بھی نماز ہوجائے گی، اور اس میں کوئی نقص نہیں ہوگا۔

تکبیرِ تشریق کے احکام

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.
عرفہ کے دن یعنی نو (۹) تاریخ کی فجر سے تیرہ کی عصر تک(یعنی کل 23نمازوں میں) ہر فرض نماز کے بعد فوراً متوسط بلند آواز سے ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب ہے۔ اوریہ پانچ دن کہ جن میں یہ تکبیریں کہی
جاتی ہیں، انہیں ”ایامِ تشریق”کہتے ہیں ـ

مرد اور عورت کی تکبیرات تشریق میں فرق

مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے کہنا ضروری ہے جبکہ عورتیں آہستہ آواز سے کہیں گی۔تکبیر ِتشریق ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھیں، زیادہ مرتبہ کہنا خلافِ سنت ہے ۔بقرہ عید کی نماز کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھنی ہے۔اگر کسی شخص کی ایام تشریق کی کوئی نماز فوت ہوجائے، اور اسی سال کے ایامِ تشریق میں اس نماز کی قضاء کر ے تو وہ بھی نماز کے بعد تکبیر کہے گا۔

اگر نمازی تکبیرات تشریق بھول جائے

تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد فوراً کہنی چاہیے، اگر کوئی شخص اس وقت کہنا بھول جائے تو یاد آنے پر کہنا واجب ہے، لیکن اگر نماز کے بعدمسجد سے باہر نکل جائے تو تکبیر ساقط ہوگئی، اگر مسجد سے باہر نہیں نکلا تو یاد آنے پر تکبیر کہہ لے، اور اگر مسجد سے تو باہر نہیں نکلا، لیکن بھولے سے یا جان بوجھ کر بات کرلی، یا جان بوجھ کر وضوء توڑدیاتو بھی تکبیر ساقط ہوگئی۔

امام تکبیرات بھول گیا تو کیا کرے

اگر کسی نماز کے بعد امام تکبیر تشریق کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فوراً تکبیر کہہ دیں یہ انتظار نہ کریں کہ جب امام کہے تب وہ کہیں۔ (درّ  مختار)

قربانی کے احکام ومسائل پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button