ColumnsNational

سیاست محبتوں کو کھا گئی

سیاست محبتوں کو کھا گئی

عابد محمود عزام

ہر انسان ہر سیاسی جماعت سے اتفاق نہیں کر سکتا

سیاست میں اختلافات ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے، مختلف جماعتوں کا نظریہ اور پالیسی مختلف ہوتی ہے۔ جماعت، رہنما اور کارکن اسی نظریے کے دفاع اور فروغ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو وقف کیے ہوتے ہیں، یہ ممکن نہیں کہ ہر انسان کو ہر سیاسی جماعت کی سوچ اور نظریے سے اتفاق ہو۔ اختلاف کرنا ہر انسان کا حق ہے اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننے اور جماعت کے مشن کے فروغ کے لیے مکمل آزاد ہے۔

موجودہ دور کے اہل سیاست کا المیہ

وہ جس بھی سیاسی جماعت کو بہتر سمجھتا ہے، اس کے ساتھ جڑ سکتا ہے، مگر معاشرے میں محبتوں کے خاتمے اور نفرتوں کو پھیلانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ ایسا کرنا معاشرے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ دور میں اہل سیاست نے یہی کام کیا ہے۔ سیاست نے آپس کی محبتوں کو ختم کرکے نفرتوں کو فروغ دیا ہے۔ تعلقات میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ برسوں کی دوستیوں کو لمحوں میں تباہ کر دیا اور بہت سی رشتہ داریاں بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

پہلے وقتوں اور موجودہ دور کے سیاسی رویوں کا فرق

پہلے لوگ سیاسی اختلافات رکھتے تھے، لیکن سیاسی چپقلش اور نفرتوں کو آپس کے تعلقات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد کی آپس میں دوستیاں بھی ہوتیں اور ان کی محبتیں بھی سلامت رہتی تھیں، وہ گھنٹوں سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے، ایک دوسرے کی جماعتوں پر تنقید بھی کرتے، لیکن کسی کے خلاف نازیبا زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے سامنے ان کے رہنماؤں کو برا بھلا نہ کہتے تھے۔
آپس میں لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہوتا تھا۔ تعلقات میں کوئی فرق نہ آتا تھا مگر رفتہ رفتہ یہ برداشت اور محبتیں ختم ہوتی گئیں اور اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا حامی دوسری سیاسی جماعت کے حامی کو اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے۔

سیاست نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا

دوست سیاسی اختلاف کی وجہ سے اپنے دوست کی بات سننا گوارا نہیں کرتا۔ ایک گھر کے اندر بھائی بھائی سے لڑنے پر تلا ہوا ہے۔ سیاسی مخالفت اور نفرت نے ساری قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاست کی اس چپقلش اور نفرت سے اب شاید ہی کوئی گھر اور کوئی فرد محفوظ رہا ہو۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تو بالکل بھی محفوظ نہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر سارا دن سیاست کو لے کر نفرتوں کا پرچار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے نفرتوں کے سوداگر

ان کے نزدیک ہر وہ شخص ان کا دشمن ہے جو ان کی جماعت اور ان کے رہنما کے علاوہ کسی کی تعریف کردے یا ان کی جماعت اور رہنما پر کوئی تنقید کردے۔ ان کے نزدیک ان کی جماعت کی حمایت کرنا فرض ہے اور کسی بھی دوسری جماعت اور رہنما کی حمایت کرنا ملک سے دشمنی کے مترادف ہے۔ لوگ سیاست کو لے کر سارا دن اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ اچھے خاصے سنجیدہ اور پڑھے لکھے افراد بھی صبح سے رات تک سوشل میڈیا پر نفرتوں کے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں، یہ ونگز سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

اختلاف رائے رکھنے کی سزا گالی بنا دی گئی

انھیں بدنام کرنے کے لیے کوئی غلط سے غلط الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، اگر کوئی باشعور انسان ان غلط پالیسیوں سے اختلاف کرے تو یہ سیاسی ونگز ان پر بھی گالیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں، کون کس وقت کسی دوسرے کی اشتعال انگیزی اور نفرت کاشکار ہوجائے، معلوم نہیں۔ ہمارا اجتماعی شعور عدم برداشت، نفرت اور پرتشدد محاذآرائی پر مبنی ہو چکا ہے۔

عدم برداشت کا بڑھتا مہلک رجحان

سیاست نے نفرت، شدت پسندی اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ دلیل کے بجائے گالی اورعدم برداشت کے رویہ نے سیاست کا رخ موڑ دیا اور سیاستدانوں کی حقیقت عیاں کردی ہے، جس سے معاشرے میں سیاست دانوں کے لیے احترام نہیں رہا۔ سیاستدانوں کی متعصبانہ اور نفرت انگیز سوچوں نے پوری قوم کوہیجان انگیز کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ سیاست میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان انتہائی افسوسناک ہے۔

نفرت کی سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی ؟

معلوم نہیں نفرت اوراشتعال کی یہ سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ جن سیاست دانوں کے لیے عوام سارا دن آپس میں لڑتے رہتے ہیں، وہ سیاست دان اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور معاشرے میں محبتوں کے فروغ کے بجائے نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ عوام کے مفادات کسی کو بھی عزیز نہیں، سب اپنے ہی مفادات کی خاطر عوام کو مرنے مارنے پر ابھارتے رہتے ہیں۔

جمہوریت کا حسن اختلاف رائے یا مخالفت اور دشمنی؟

سیاسیات کے اساتذہ سے لے کر عام آدمی تک سب یہ کہتے ہیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ آمریت میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن ہماری سیاست میں اختلاف رائے کے معنی مخالفت اور دشمنی کے لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر شرانگیز پراپیگنڈہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور آج ہر سیاسی کارکن مخالف کے خلاف شرانگیز پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔

سیاسی ورکر اپنے رہنماؤں سے سیکھتے ہیں

سیاسی رہنماؤں سے ان کے کارکنان اور عوام بہت کچھ سیکھتے ہیں، سیاسی رہنماؤں کو سیاسی مخالفت میں ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ ملکی سیاست میں جنگ و جدل کا ماحول ہمارے سیاست دانوں نے پیدا کر رکھا ہے۔اب سیاسی رہنماؤں کو خود ہی اس منفی رجحان کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔

کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ آخر ہمارے رویے اتنے معاندانہ کیوں ہیں؟ ہم اتنی نفرت کے ساتھ کیوں جی رہے ہیں؟ مل جل کر نفرتوں کو ختم کرکے محبتوں کو عام کرنا ہوگا۔ نفرت انسان کی سوچ کو مفلوج کرتی ہے۔ صرف ایک بیمار ذہن انسان ہی نفرت کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے۔

نفرت دوسروں کے بارے میں منفی جذبات پیدا کرتی ہے

نفرت وہ کیفیت ہے جس میں دوسروں کے بارے میں غیر حقیقی اور انتہا پسند جذبے فروغ پاتے ہیں۔ تمام مذاہب اور معاشرتی مکاتبِ فکر نے اس رجحان کی مذمت کی ہے اور انسان کو برداشت اور اعتدال پسندی کا درس دیا ہے۔
افسوس ہے کہ ہم لوگ برداشت اور اعتدال پسندی کو بھول چکے ہیں۔ سیاست نے ہماری سوچ اتنی منفی کردی ہے کہ ہم اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے کے لیے گھٹیا پن کی آخری حدوں کو چھونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہم ایک انتہا پسند معاشرے کا روپ دھارتے جا رہے ہیں۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے، جب تک ہم اپنی اخلاقیات کو درست نہیں کر لیتے اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں لاتے، تب تک ہم کبھی دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں جگہ بنانے کے اہل نہیں ہو سکتے۔

یہ بھی پڑھیئے:

ہمارے معاشرے کے تضادات ، ہم ایسے کیوں ہیں ؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button