افریقی سرزمین پر یورپی شہر سوتا اور ملیلہ
تحریر ؛نوید نقوی
آئیے سلسلہ”رب کا جہاں” میں اس بار مراکش کی خوبصورت سرزمن کا رخ کرتے ہیں۔جہاں دو ایسے قدیم وجدید خوبصورت شہر موجود ہیں جن پر یورپی یونین کی عمل داری قائم ہے۔
سوتا اور ملیلہ براعظم افریقہ میں یورپی یونین کے واحد علاقے ہیں ۔ سوتا اور ملیلہ 500 سال سے زیادہ عرصے سے سپین کے پاس ہیں۔ اگر تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سپین پر بذات خود مسلمانوں نے صدیوں تک حکمرانی کی لیکن 1492 عیسوی میں سقوط غرناطہ کے بعد پھر کبھی مسلمانوں کے قدم ہسپانوی سرزمین پر نہ جم سکے ،بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے ایک ایک مسلمان کو واپس افریقی سرزمینوں پر دھکیل دیا۔
مراکش کا محل وقوع
مراکش شمالی افریقہ کا ملک ہے۔ بحر اوقیانوس کے ساتھ طویل ساحلی پٹی پر واقع اس ملک کی سرحدیں آبنائے جبرالٹر پر جاکر بحیرہ روم میں جاملتی ہیں۔ مشرق میں مراکش کی سرحد الجزائر، شمال میں بحیرہ روم اور اسپین سے منسلک آبی سرحد اور مغرب میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ جنوب میں اس کی سرحدیں متنازع ہیں۔ مراکش مغربی صحارا پر ملکیت کا دعویدار ہے اور 1975ء سے اس کے بیشتر رقبے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
طاقت ور افریقی ملک جو افریقی یونین کا رکن نہیں
ایک طاقتور افریقی مسلم ملک ہے جس کا رقبہ 710850مربع کلومیٹر ہے اور آبادی36029138نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالحکومت رباط ہے اور سب سے بڑا شہر کاسا بلانکا ہے۔مراکش افریقہ کا واحد ملک ہے جو افریقی یونین کا رکن نہیں۔مراکش کسی وقت افریقا میں سب سے دولت مند ملک تھا اور وہ بحیرہ روم میں داخلے کے راستے پر قائم ہونے اور اپنے بہترین محل وقوع کے باعث یورپی استعماری قوتوں کی نظر میں آ گیا۔
فرانس کی مراکش میں سیاسی مداخلت
فرانس نے 1830ء میں مراکش میں زبردست دلچسپی دکھائی۔ 1904ء میں مراکش میں فرانس کے اثر و رسوخ نے جرمنی میں زبردست ردعمل پیدا کیا، اس بحران کو 1906ء میں اسپین میں الجزیراس کانفرنس کے ذریعے حل کیا گیا جس کے ذریعے مراکش میں فرانس کی “خصوصی حیثیت” اور فرانس اور اسپین کے مشترکہ قبضے کو تسلیم کیا گیا۔
فرانس کے تسلط سے مراکش کی آزادی
یورپی قوتوں کے درمیان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ مراکش کا دوسرا بحران برلن نے پیدا کیا اور 30 مارچ 1912ء کو معاہدہ فاس کے تحت مراکش کو فرانس کی کالونی بنادیا گیا۔ معاہدے کے تحت اسی سال 27 نومبر کو اسپین کو شمالی و جنوبی علاقوں کا قبضہ دیا گیا۔ 19نومبر 1956کو مراکش نے فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل کی۔
مراکش کی آزادی میں پاکستان کا کردار
پاکستان نے مراکش کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت کی اور اس کے پہلے وزیراعظم احمد عبد السلام بلفرج کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے 1952 میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستانی چیئر سے خطاب کرنے اور مراکش کی آزادی کے لئے آواز اٹھانے میں کامیاب ہوئے تھے،احمد عبدالسلام بلفرج جب تک وزیراعظم رہے پاکستانی پاسپورٹ کی کاپی ان کے دفتر میں آویزاں رہی۔مراکش وہ واحد ملک تھا جس نے 1777کو امریکہ کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا۔سوتا اور ملیلہ 500 سال سے زیادہ عرصے سے سپین کے پاس ہیں لیکن مراکش سنہ 1956 میں اپنی آزادی کے بعد سے ان پر اپنا دعوی کر رہا ہے۔
بین الاقوامی قانون انہیں کالونیاں تسلیم نہیں کرتا اور اقوام متحدہ اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ یہ ہسپانوی صوبے ہیں۔سوتا اور ملیلہ ہسپانوی کیسے بن گئے؟
ملیلہ کا تعلق پندرہویں صدی سے سپین سے ہے جبکہ سوتا سترویں صدی سے سپین کا حصہ بن چکا ہے۔
ملیلہ کی تزویراتی حیثیت
سنہ 1415ء میں سوتا اسلامی دنیا کی اہم اقتصادی اور تزویراتی بندرگاہوں میں سے ایک تھی اور صدیوں تک اس پر مختلف بربر اور عرب خاندانوں کا کنٹرول رہا۔
ملیلہ پر پرتگال اور اسپین کا قبضہ
لیکن جب سپین پر سات صدیوں پر محیط مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو رہا تھا اور عیسائی حکمران جزیرہ نما آئبیریا پر دوبارہ قبضہ کر رہے تھے، پرتگال نے سوتا پر قبضہ جما لیا۔
ایک صدی بعد سنہ 1580 میں پرتگال اور سپن کے شاہی خاندانوں میں الحاق ہو گیا جسے آئبیرین یونین کہا جاتا ہے، اس طرح سوتا بھی ہسپانوی حکمرانی کا حصہ بن گیا۔ پرتگال اور سپین کی یونین کے تحلیل ہونے کے بعد سپین نے سوتا کو اپنے پاس رکھا.
سپین اور پرتگال کے کیتھولک شاہی خاندان میں اتحاد کے بعد سپین میں مسلمانوں کے سات سو سالہ دور کا اختتام ہو گیا۔
ملیلہ کو سنہ 1497ء میں کاسٹیلین بادشاہت نے فتح کیا تھا۔ غرناطہ میں آخری مسلمان حکمران کو شکست دینے اور سپین میں مسلمانوں کی حکمرانی کے مکمل خاتمے کے بعد اراگون فرڈینینڈ دوم اور ازابیلا اول کے حکم سے ایک بحری بیڑا ساحلی شہر ملیلہ بھیجا گیا۔
سپین کے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے سوتا اور ملیلہ پر قبضہ ضروری تھا ۔ سپین کے لیے آبنائے جبرالٹر کے ذریعے بحیرہ روم کے داخلی راستے کو کنٹرول کرنا ایک دفاعی ترجیح تھی۔جزیرہ نما سے قربت اور آبنائے جبرالٹر سے گزرنے والے راستے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے سپین کے لیے سوتا اور ملیلہ کی کافی اہمیت تھی۔سوتا آبنائے جبرالٹر کے بالکل دوسری طرف اور سپین کے ساحل سے صرف 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ ملیلہ بحری قزاقی کے خطرے سے نمٹے کے لیے بہت اہم ہے۔ بحری قزاقی سپین کی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔
سپین کی سوتا اور ملیلہ میں پانچ صدیوں سے لگا تار موجودگی کی وجہ سے سپین ان دونوں شہروں کو اپنے اٹوٹ حصے تصور کرتا ہے۔اب 2022 میں ایک مستحکم آبادی کے ساتھ، سوتا اور ملیلہ سپین کے کسی بھی دوسرے علاقے کی طرح ہسپانوی ہیں۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سنہ 1936 میں سپین میں خانہ جنگی کا آغاز ملیلہ میں فوجی بغاوت کے بعد ہوا تھا۔سوتا اور ملیلہ میں سپین کے بہترین فوجی تعینات کیے جاتے تھے جس نے گیریژنوں کو متاثر کیا۔ سپین کی سول وار کا اختتام سنہ 1939 میں ریپبلکن پارٹی پر فرانکو کے دستوں کی فتح کے ساتھ ہوا۔
ہسپانوی قبضے کا خاتمہ ،مراکش کا دیرینہ مطالبہ
شمالی افریقہ میں ہسپانوی محافظ ریاست سنہ 1956 تک قائم رہی جب مراکش نے اپنی آزادی حاصل کی اور ایک ایسی ریاست ابھری جسے آج ہم مراکش کے نام سے جانتے ہیں۔ سپین نے ایک علاقہ مراکش کو دیا لیکن سوتا اور ملیلہ سپین کے پاس ہی رہے۔ ۔آزادی کے حصول کے بعد سے، مراکش نے اکثر سوتا اور ملیلہ میں ہسپانوی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عظیم مراکش کا خواب
مراکش کا دعوی عظیم مراکش کے خیال پر مبنی ہے جس میں شمالی افریقہ کے دیگر علاقے بھی آتے ہیں جن میں مغربی صحارا بھی شامل ہیں جن پر مراکش اپنی حاکمیت کا دعوی کرتا ہے۔ لیکن جب مراکش نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا تو اقوام متحدہ نے مراکش کے دعوے کو رد کر دیا۔درحقیقت یہ دو شہروں کا مسئلہ ہی نہیں ہیں جن پر مراکش اور سپین کا جھگڑا ہے۔
سوتا اور ملیلہ کی مخصوص حیثیت
سپین مراکش کے ساحل کے قریب، ویلز ڈی لا گومیرا چٹان، الہوسیمس چٹان، چفاریناس جزائر اور پیریجیل کے جزیرے کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔سوتا اور ملیلہ کے برعکس ان علاقوں میں کوئی آبادی نہیں ہے۔ ویلز ڈی لا گومیرا میں ایک فوجی اڈہ ہے، لیکن کوئی شہری آبادی نہیں ہے۔سوتا اور ملیلہ کے پاس سپن کے خطے کاتالونیا، باسکی، اندلس کی طرح خود مختاری بھی ہے لیکن ان کی حکومت ایک مقامی کونسل اور ایک خود مختار کمیونٹی کے درمیان کی ایک ملی جلی چیز ہے۔ان دونوں شہروں کی ایک مخصوص حیثیت ہے جس کا کسی دوسرے علاقے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے پاس سٹی کونسل سے زیادہ اختیارات ہیں لیکن یہ خود مختاری اُس سطح تک نہیں پہنچ سکتی جو ایک خود مختار کمیونٹی کے پاس ہو سکتی ہے۔
ہسپانوی ریاست ان دو شہروں کے منفرد کردار کو تسلیم کرتی ہے اور انہیں مونسپلٹی سے کہیں زیادہ سیاسی وزن دیتی ہے۔۔ سوتا اور ملیلہ پر ہسپانوی قبضے کی وجہ سے ان کا رہن سہن یورپی شہروں جیسا ہے اور یہاں کئی قدیم عمارتیں اور ایک عظیم میوزیم کی وجہ سے تاریخی اعتبار سے ایک دلچسپ جگہ ہے۔ان شہروں میں قدم قدم پر تاریخ بکھری پڑی ہے۔
Be the first to comment