Self development

لیڈرشپ کے اوصاف

لیڈرشپ کے اوصاف

ڈاکٹر محمد یونس خالد

لیڈرشپ کے اوصاف کیا ہیں؟ یہاں پر ہم ان اوصاف کو بیان کریں گے، ان اوصاف کی تعیین میں دنیا کے سب سے بڑے قائد، لیڈر اورعظیم رہنما اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمدمصطفی ﷺکی سیرت وکردارکو بطور اسوہ حسنہ سامنے رکھیں گے۔جس نے صرف 23سال کے مختصر عرصے میں اللہ کی مددونصرت اور اپنی بہترین قائدا نہ صلاحیتوں کے ذریعے دنیا میں عظیم انقلاب برپاکیا اور لیڈرشپ کے عظیم معیارات اور اسٹینڈرڈز قائم کئے۔ یہ انقلاب اتنا جامع اورہمہ گیر تھا کہ انسان کے ایمان واعمال، انفرادی اخلاق و کردار سے لےکراجتماعی نظام سیاست ومعیشت، معاشرت اور جہانبانی کے عالمی اصولوں پر محیط تھا آپ کی قیادت میں دنیا بدل گئی اور دنیا کے تمام معیارات بدل گئے۔ آپ کے ماننے والوں کا تو آپ ﷺ کی اس طرح قیادت پر ایمان تھا اور ہے ، لیکن ایمان نہ لانے والوں نے بھی دنیا کے عظیم لیڈروں کی فہرست میں آپ ﷺ کی قیادت کو ٹاپ لسٹ پر رکھا۔جس کی ایک مثال مائیکل ایچ ہارٹ کی کتابThe 100 یعنی سو عظیم شخصیات ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی ذات کو دنیا کے عظیم لیڈروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا۔رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کے علاوہ دیگر انبیا علیہم السلام کی سیرت ، خلفاراشدین اور دنیا کے عظیم اور کامیاب ترین لوگوں کی زندگی سے بھی ہم قیادت کے اصول اخذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ ایک اچھے لیڈر میں مندرجہ ذیل اوصاف کا ہونا نہایت ضروری ہے۔

دلوں کوفتح کرنا

ایک عظیم لیڈر کی پہلی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے کردار واخلاق او ر قائدانہ صلاحیتوں سے لوگوں کے دل جیتے۔ لوگ اس کے گرویدہ ہوجائیں اور اپنے لیڈر کے اشاروں پر کام کرنا شروع کریں۔ اس کی عظیم مثال ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ سے ملتی ہےآپ ﷺ کے عظیم اخلاق اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کے متبعین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ پر جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے۔سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے مطابق مختلف غزوات میں صحابہ کرام آپ کے سامنے کھڑے ہوتے اور آپ کی طرف آنے والے تیر اپنے سینوں اور ہاتھوں سے روکتے تھے۔ آپ ﷺ جو حکم ارشاد فرماتے پلک جھپکنے نہ دیتے کہ اس کی تعمیل کردیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے ان واقعات سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ کی ہستی اور آپ کا حکم آپ کے پیروکاروں اور صحابہ کرام کے لئے کتنا اہم تھا؟ آپ ﷺ نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔

اچھی گفتگو کا ہنر

اگر آپ ایک اچھا قائد یا لیڈر بننا چاہتے ہیں تو اچھی گفتگو کا فن سیکھنا پڑے گا ۔ ظاہر ہے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو کسی اہم مقصد کے لئے لوگوں کوقائل کرنا ،مائل کرنا اور ان کو حرکت میں لانا جانتا ہو۔ان کو ترغیب کے ذریعے ابھارنا جانتا ہواور حالات کے تقاضوں کے مطابق ان کو ٹھنڈا کرنا بھی جانتا ہو۔اس مقصد کے لئے اس کے پاس اچھی گفت گو کا فن ہونا ضروری ہےاور اچھی گفت گو معیاری علم کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔لہذا مثالی لیڈر بننے کے لئے مضبوط علم کے ساتھ اچھی گفت گو کا فن جاننا بہت ضروری ہے۔

اولوالعزم ہونا

اولوالعزم کا مطلب اپنے مقصد کے حصول کے لئے عزم مصمم اختیارکرنا اور عظیم مقصدکےحصول کے لئے استقامت کے ساتھ ہرطرح کی قربانی کے جذبے سے سرشار ہونا ہے۔یعنی جب اہداف متعین ہوں تو ان کے حصول کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونا اور اس سلسلے میں کسی بھی سمجھوتے سے بالاتر ہوکر جدوجہد کرنا اولوالعزمی کہلاتا ہے۔سیدناحضر ت نوح، سیدناحضرت ابراہیم،سیدنا حضرت موسی ، سیدناحضرت عیسی علیہم السلام اور نبی آخرالزماں خاتم النبین سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ کی زندگی اولوالعزمی کی اعلی مثالیں ہیں۔ایک لیڈراور قائد کو ان پیغمبروں کی زندگی سے اولوالعزمی کا سبق سیکھناچاہیے۔اولوالعزمی کا ایک مطلب بلند فکری بھی ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے متاثر ہوکر اپنا مشن اور ایجنڈ ا چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے۔ یا بڑی اورا ہم چیزوں کو چھوڑکر چھوٹی چھوٹی اور عارضی چیزوں کے حصول میں لگ جائے۔

احساس ذمہ داری

احساس ذمہ داری ہر انسان کی کامیابی کے لئے ضروری ہے اور ہرکامیاب انسان کی پہچان بھی ہے۔ جتنا انسان کا عہدہ بڑھتا چلاجاتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھنے والا انسان ہردل عزیز ہوتا ہے اور لوگوں کی قیادت کا اہل ہوتا ہے۔سب سے بڑی ذمہ داری اللہ کی بندگی کا احساس ہونا چاہیے جو انسان کا مقصد تخلیق ہے، پھر وہ اپنے ہم جنس انسانوں میں رہتے ہوئے مختلف کردار اپناتا ہے جس میں ایک کردار لیڈرشپ کا ہے۔ اگر اس میں یہ احسا س زندہ ہوجائے کہ قائداور لیڈر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ ان ذمہ داریوں کے احساس کے بعد تکمیل کی کوششوں میں لگا رہے یقینا کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ احساس ذمہ داری کا بھر پور عکاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ جملہ ہے جس میں انہوں نے فرمایاکہ دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو عمر اس کا ذمہ دار ہےاور قیامت کے دن اللہ اس سے پوچھیں گے۔کیونکہ وہ قائد تھے اور لیڈرشپ کی ذمہ داریوں کا ان کو احساس تھا۔

امانت و دیانت

امانت ودیانت وہ اوصاف ہیں جو دنیوی ، اخروی غرض ہر کامیابی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیڈر چونکہ اپنے پیروکاروں اور متبعین کا نہ صرف رول ماڈل ہوتا ہے بلکہ ان کے معاملات کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ لہذا بحیثیت لیڈر امانت دار اور دیانت دار ہونا نہایت ضرور ی ہے۔

حس مزاح

ایک لیڈر کے اندر حس مزاح کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے درمیان نہایت سخت اور کشیدہ ماحول کو ایک دم کنٹرول کرکے نارمل کیا جاسکتا ہے۔ اور حس مزاح کے ذریعے سے دل کی کدورتوں کو بھی دور کرکے مزاحم لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لایاجاسکتا ہے۔حس مزاح کی خوب صورت جھلک ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی ملتی ہے، لہذا حس مزاح اور ظرافت طبع ایک لیڈر کےلئے زیور کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر سیکھے۔

ڈسپلن اور نظم وضبط

ڈسپلن اور نظم وضبط کسی بھی ادارے، تنظیم اور جماعت کو منظم کرکے منزل کی جانب گامزن کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ڈسپلن کے بغیر اداروں یا تنظیموں کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ ہمارے دین نے ہمیں ہر ہرلمحہ میں ڈسپلن سکھایا ہے ۔ دنیا میں کامیاب لوگوں، کامیاب اداروں اور کامیاب قوموں کی سب بڑی پہچان اور علامت نظم وضبط اور ڈسپلن ہی ہے۔ ایک لیڈر کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی ذات کو ، اپنے کاموں کو اور اپنی قیادت کو منظم کرے۔ پہلے خود کونظم و ضبط اور ڈسپلن کا پابند کرے اور پھر اپنے ماتحت لوگوں یا اداروں میں نظم وضبط اور ڈسپلن پیداکرے۔

شجاعت وبہادری اور قوت فیصلہ

ایک لیڈر پر دنیا میں مختلف حالات آتے ہیں بسا اوقا ت نہایت مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں چونکہ لیڈر اپنے پیروکاروں کے معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے،ہر مشکل وقت میں پیروکار فیصلہ سازی کے لئے اپنے لیڈر کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں اورمشکل وقت میں اہم فیصلے اور اقدامات کرنے پڑتے ہیں ۔ لہذا لیڈر کے پاس شجاعت وبہادری کے ساتھ قوت فیصلہ کا ہونا نہایت ضروری ہےتاکہ وہ بروقت درست فیصلہ کرسکے ۔ اور یہ کامیاب لیڈر کی بنیادی صفت ہوتی ہے کہ وہ بروقت درست فیصلہ کرنے کا اہل ہو۔

سخاوت اورایفائے عہد

یہ دونوں الگ الگ اوصاف ہیں لیکن ایک لیڈر میں دونوں کا پایاجانا نہایت ضروری ہے۔لیڈر وہ ہوتا ہے جس میں چیزوں کو شئیرکرنے اور اپنے پیروکاروں تک ان کے فوائد پہنچانے کی صفت موجودہو۔ جب تک لیڈرکھلے دل کامالک نہ ہواوراپنے فالورز سے چیزوں کو روک لیتا ہو وہ کامیاب لیڈر نہیں بن سکتا۔ اسی طرح ایفائے عہد بھی ایک اہم وصف ہے کہ جو وعدہ اپنے متبعین اور پیروکاروں سے کرے وہ اسےپورا بھی کرے،اگر وعدہ کرکے اس کی تکمیل نہ کرتا ہو وہ انسان کامیاب لیڈرنہیں بن سکتا۔

یقین واعتماد

یقین واعتماد وہ سوغات ہیں جن سے انسان اندر سے مضبوط ہوتا ہے ۔ یقین و اعتماد والا شخص اللہ پر ایمان ویقین کے ساتھ اپنی ذات اور اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتاہے۔ اسے اپنی ذات پر اعتماد ہوتا ہے کہ جو کام لیڈرشپ کی ذمہ داریوں میں سے مجھ پر عائد ہوا ہے میں اسے کرنے کا اہل ہوں اور اللہ کی مدد سے بہت اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کے احساس کمتری کا شکارنہ ہو ، اپنے اندر خوداعتماد ی کی روح پیدا کرے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے بعد اپنے فیصلوں پر یقین واعتماد کرے۔

نصب العین

ایک اچھے لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نصب العین واضح کرے۔یعنی زندگی کے بڑے نصب العین کے علاوہ اپنی لیڈرشپ کا نصب العین یعنی اپنی سرگرمیوں کی آخری منزل کو واضح کرکے لوگوں کے سامنے رکھے اور خود بھی اس سے ہردم ہم آہنگ رہے۔مطلب یہ کہ اپنی سرگرمیوں کا نصب العین اور حقیقی مقاصد اچھی طرح واضح اور متعین کرے اور تمام سرگرمیوں کو اس سے ہم آہنگ بنائے۔نصب العین کی تعیین سے انسان اور اس کی تمام سرگرمیوں کی سمت متعین ہوجاتی ہے جو انسانی کوششوں اور کاوشوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

لیڈرشپ کے کچھ دیگر اوصاف

اچھی اور کامیاب لیڈرشپ کی کئی اور خصوصیات بھی ہیں طوالت سے بچنے کے لئے ہم یہاں صرف ان کی نشاندہی پر اکتفا کررہے ہیں۔ مثلا لیڈر کو سوشل جینئس یا ملنسار ہو نا چاہئے یعنی لیڈر انسان دوست یا انسانوں سے پیار کرنے والا ہو، انسانوں سے نفرت کرنے والابندہ حقیقی لیڈرنہیں بن سکتا۔ اسی طرح لیڈرکوعقل وشعور اور حکمت وبصیرت والا انسان ہوناچاہیے تاکہ اس کے فیصلے اورکام حکمت ومصلحت پر مبنی ہوں۔

لیڈر میدان عمل کا آدمی ہوتا ہےکسی کام کے لئے پہلے خود میدان میں اترتا ہے بعد میں لوگوں کوآگے آنے کی دعوت دیتا ہے۔ خود ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر لوگوں کو میدان میں اتارنے والا حقیقی لیڈر نہیں کہلاسکتا۔حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جواپنے پیروکاروں کی طرف سے عطاکردہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے اور لوگوں کے آگےجوابدہ سمجھتا ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے اعلی اخلاق وکردار کی وجہ سے لوگوں کے لئے رول ماڈل ہو۔ نیز لیڈر ایک وژنری انسان ہوتا ہےجواپنے اونچے قد اور وژن کی وجہ سے دور تک دیکھ سکتا ہے۔

ایک لیڈر وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ اپنے آپ کو طالبعلم سمجھتا ہےکتاب سے مضبوط رشتہ رکھتا ہے اور سیکھنے میں ہمیشہ دلچسپی لیتا ہے۔وہ اپنے علم اور لوگوں کی ضروریات کی بنیاد پر اپنی قیادت اور سرگرمیوں کا بنیادی مقصد متعین کرتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے جامع منصوبہ بندی کرتاہے او رٹیم ورکنگ سے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ اس میں فیصلہ سازی کی بھرپور قوت ہوتی ہے عزم وحوصلہ ہوتاہے۔

ایک اچھا لیڈر نرم مزاج اورخوش اخلاق ہوتا ہے جو لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کررکھنے کی اہلیت رکھتا ہے، تندخو اور بدمزاج انسان لیڈرنہیں بن سکتا۔قائد اجتماعی کاموں میں اپنے متعلقہ لوگوں سے مشاورت کرتا ہے تاکہ لوگوں کی مختلف آراسامنے آنے پر فیصلہ کرنا آسان ہو نیز لوگوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوسکے۔

ایک لیڈر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ لیڈرشپ کی صلاحیتوں کو اپنی حد تک محدود کرکے اور روک کر نہیں رکھتا کہ کہیں دوسرے لیڈرز تیار ہوکر اس کی سیٹ کے لئے خطرہ نہ بنیں ۔بلکہ آگے مزیدلیڈرز تیار کرتا ہے یوں لیڈرز کی ایک کھیپ تیارہوجاتی ہے تاکہ منصوبہ بڑی تیزی سے اپنی تکمیل کو پہنچ سکے اور خدانخواستہ کسی ایک لیڈرکے جانے یا انتقال کرنے کے بعد بھی منصوبہ کسی قسم کے التوا اورتعطل کا شکار نہ ہوبلکہ پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے اپناسفرجاری رکھ سکے ۔ اس کی بہترین مثال ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے ملتی ہے آپؑ نے لیڈرز کی بڑی تعداد تیار کی جن میں خلفا راشدین، صوبوں کے گورنرز، جہادی تحریک کے کمانڈرز اور بڑے بڑے اہل علم وفضل صحابہ کرام تیارہوئے ۔ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے بعد نہایت خوش اسلوبی سے آپ کے مشن کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیئے:

لیڈرشپ کی اہمیت ،اقسام اور خصوصیات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button