Columns

دیسی رنگ میں ڈھلا عالمی ادبی میلہ

عالمی ادبی میلہ

ڈاکٹر صغریٰ صدف

لاہور پاکستان کا سب سے اہم اور متحرک ادبی مرکز ہے۔شاعری،موسیقی اور آرٹ اس کے درودیوار میں کھڑکیوں کی طرح آسودگی اور کشادگی کی علامت کے طور پر موجود ہیں۔لاہور کی فضا میں زندگی کے مثبت رنگ جلوہ گر ہیں تبھی اس کے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے پرندے محبت اور امن کے سُر بکھیرتے لوگوں کے دلوں میں حُسن اور خوشگواریت کا احساس اجاگر کرتے ہیں۔

عالمی ادبی میلہ

لاہور ہر روز کئی ادبی تقریبات کی میزبانی کرتا ہے

لاہور میں ہر دن کئی ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور ہر لمحے کسی نہ کسی تقریب کے انعقاد کے بارے میں سوچا اور منصوبہ بندی کی جا رہی ہوتی ہے۔یوں لاہور کی مجموعی فضا ادبی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ادب یہاں کے لوگوں کے مزاج میں سما چکاہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے لفظ کی حرمت کا پاس رکھنے والے اس شہر میں منعقد ہونے والے بڑے بڑے ادبی میلوں نے اسے مزید مالا مال کر دیا ہے۔تاہم یہ میلے زیادہ تر اردو،پنجابی اور دیگر پاکستانی زبانوں میں تحریر ہونے والے ادب کے عکاس رہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا۔ہماری نئی نسل کی ایک بڑی تعداد جو کل کی فیصلہ سازی میں شریک ہوگی کا مقامی ادب سے برائے نام سا تعلق رہ گیا ہے۔ ان کی ترجیحات اس لئے مختلف ہیں کہ وہ زیادہ عملی اور مادی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ انھیں ادبی سرگرمیوں سے جوڑ کر ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا بہت ضروری تھا۔انھیں یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ عالمی زبان میں ادب یہاں بھی تخلیق ہو رہا ہے اور تراجم بھی ہورہے ہیں۔

عالمی ادبی میلہ

لاہور لٹریچر فیسٹول کا خواب اور اس کی شرمندہ ہوتی تعبیر

اس مقصد کیلئے ایک اُجلے نوجوان رضی احمد نے لاہور لٹریچر فیسٹیول کا خواب دیکھا اور دلی لگن سے تعبیر بنا کر دکھائی۔ پچھلے کئی برسوں سے اس میلے میں شرکت کر رہی ہوں مگر اس بار یہ بہت مختلف لگا۔ ایک وجہ تو یہ کہ پہلے میلوں میں صرف ایک کلاس کی نمائندگی ہوتی تھی جبکہ اس بار جہاں ایک طرف اس میں عالمی سطح کے نامور ادیبوں کی نمائندگی تھی وہیں دیسی ٹچ اور خصوصاً لاہوری رنگ کا چھڑکاؤ بہت دلفریب تھا۔

عالمی ادبی میلہ

نوبل انعام یافتہ ادیب عبد الرزاق گھریا کی عالمانہ گفت گو

نوبل انعام یافتہ ادیب عبد الرزاق گُھریا کی آمد خوشبو کے جھونکے جیسی تھی جس نے مایوس ہوتی سوچ کو نئے حوصلے سے ہمکنار کیا۔ ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتی متانت اور دانش ہر کسی کو متاثر کرتی رہی۔ان کا ابتدائی خطبہ ادب سے محبت کرنے والوں اور ادب کے ذریعے دنیا میں تبدیلی لانے والوں کیلئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

عالمی ادبی میلہ

ادبی میلے میں اہم ملکی اور عالمی چیلنجز پر گفت گو

آج کے دور میں نسل انسانی کو درپیش تمام چیلنجز مختلف سیشنز میں زیر بحث آئے۔خصوصاً دہشت گردی،ماحولیاتی تبدیلیاں، استحصال،جنگی جنون اور بڑھتی ہوئی ذہنی غربت کا احاطہ کرتی ہوئی۔کتب کے حوالے سے تبصرے اہمیت کے حامل تھے۔عشروں سے ہمسایہ ملک افغانستان میں جاری کشمکش کے بارے میں عمدہ تحقیق اور گفتگو بھی بہت اہم تھی۔کتب کے اسٹالوںپر لوگوں کا رش بہت حوصلہ افزا تھا۔مستنصر حسین تارڑ، شاہد محمود ندیم، پروفیسر زبیر احمد،نین سُکھ کی پنجابی کتب پر بھرپور پذیرائی دیکھنے میں آئی۔امجد اسلام امجد کو یاد کرنے کی محفل کی نظامت سہیل وڑائچ نے کی جبکہ اصغر ندیم سید، ڈاکٹر ناصر عباس نئیر اور راقم نے انکی زندگی، شاعری، ڈرامے اور دیگر فنون پر اظہار کیا۔

عالمی ادبی میلہ

پنجابی مشاعرہ اور شرکاء کا جوش و خروش

معروف شاعر نبیل نجم نے پنجابی مشاعرے کی خوشگوار نظامت کرکے اس کی خوبصورتی کو بڑھایا۔ اس مشاعرے میں مزاحیہ اور سنجیدہ کلام پیش کیا گیا جسے حاضرین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ اس میں شرکت کرنے والوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ سیڑھیوں پر بھی کہیں جگہ خالی نہ تھی اس کے علاؤہ دروازوں کے پاس لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔
تفریح اور تہذیب کی محفلوں کا انعقاد معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔یوں تو لوگوں کی بڑی تعداد کی سنجیدہ ادبی سیشنز میں شرکت دیکھ کر خوشی ہوئی مگرمیرے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا باعث نوجوانوں کی متحرک شرکت اور ولولہ تھا۔جو دن بھر گفتگو سنتے اور شام کو باہر بھنگڑے اور دیگر علاقائی رقص کرتے شاداب نظر آئے۔

عالمی ادبی میلہ

نوجوانوں کو ادب سے جوڑنا بہت بڑی نیکی ہے

ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی آبادی کی اکثریت نوجوانوںپر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان کل کے پاکستانی معاشرے کے رہنما ہوں گے۔انھیں ادب سے جوڑنا اور ان کے من میں ادبی چاشنی اور رغبت پیدا کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ادب انسان کے وجود میں خیر کے چشمے جاری کرتا اور تخریب سے بچاؤ میں مدد کرتا ہے۔
رضی احمد بہت شکریہ تمہاری جدوجہد اور جذبے کو سلام۔تم نے ایک محب وطن اور دردمند پاکستانی کی طرح پاکستان کے روشن چہرے سے دنیا کو روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔دعا ہے میرے ملک کے ہر شہر میں اس طرح کے ادبی میلے منعقد ہوتے رہیں اور شرکت کرنے والوں کے دامن خوشبوؤں سے سرفراز ہوتے رہیں۔ امید ہے ۔دنیا کے مختلف ملکوں سے شریک ہونے والے عظیم مصنف اپنے اپنے ملکوں میں جا کر کسی نہ کسی سطح پر ہماری ادب پروری،امن پسندی اور روشن خیالی کا تذکرہ ضرور کریں گے۔ ایک صلاح جو میں ضرور سامنے رکھنا چاہتی ہوں کہ ہمارے صوفیا نے معاشرے میں شعور اور روشن خیالی کیلئے جو شہرہ آفاق ادب تخلیق کیا آئندہ انکے حوالے سے بھی ایک دو سیشنز ہونے چاہئیں۔
(بشکریہ روز نامہ جنگ)

عالمی ادبی میلہ

یہ بھی پڑھیں

گیارہ برس تک نہ بول سکنے والا سیاہ فام کیمبرج کا کم عمر ترین پروفیسر بن گیا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button