Education Mazameen

علم روشنی اور طاقت ہے

علم روشنی اور طاقت ہے

تحریر: قراۃالعین کامران

خدا کے دربار میں سراسیمگی پھیلی نظر آتی ہے ۔ فرشتہ محو حیرت ہیں۔ خدا کے فرمان “انی جاعل فی الارض خلیفہ” سننے کے بعد ہر ایک انگشت بدنداں ہے۔ سرگوشیاں سی ہیں : خلیفہ کا مطلب  خدا کا نائب  ، غالبا کوئی اختیار والی مخلوق بنائی جانے والی ہے۔اختیا ر ہو تو پھر فساد لازمی۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جارہے تھے۔

آخر کار اپنی الجھن رفع کرنے کو فرشتے دربار خدا میں  لب کشائی کی ہمت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰)

کیا آپ ایسے کو نائب بناتے ہیں جو زمین میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا۔ ہم ہیں نا آپ کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان کرنے کو۔ اور آپ کی تقدیس بیان کرنے کو۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے ۔

بیشک میں وہ جانتاہوں (اعلم)جو تم نہیں جانتے ۔

علم اور قیاس دو علیحدہ چیزیں ہیں ۔ فرشتوں نے قیاس لگایا  خدا نے علم پر مبنی جواب دیا۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ

اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام  کا علم سکھایا ۔پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔

آدم مسجود ملائک ٹھہرے علم کی بنا پر۔

جیسے ہی فرشتوں کی الجھن دور ہوئی  اور انہوں نے بالآخراپنی علمی کمی کا  اعتراف کیا کہنے لگے:” سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-

پھرخدا کے حکم پر  آدم کو سجدہ کیا۔ آدم کو تما م مخلوقات پر شرف علم کی بنیاد پر  حاصل ہوا۔ آدم کے لیے  تمام عالم کو مسخر  کردیا  گیا۔ جاؤ جاکر  اللہ کی زمین کو دئیے گئے علم کی بنیاد پر سنوارو۔اور چاند تاروں ، ہوا  ، پانی کو مسخر کرو۔آدم کو علم عطا کیا گیا۔ اندھیروں سے اجالوں کی طرف لایا گیا۔ہدایت سے نوازہ گیا ۔اسی علم کی بنیاد پر عمل کرنے اور نہ کرنے والے کے لیے جنت اور دوزخ تیار کی گئیں۔ اسی آدم کے لیے ابدی زندگی کا تصور دیا گیا۔یہی علم آدم کے لیے روشنی اور طاقت بنا۔

اسی علم کی روشنی اور طاقت سے پہاڑوں کی چوٹیا ں سر ہوئیں۔ اسی علم کی روشنی اور طاقت سے ہواؤں کو مسخر کر کر نے کے بعد دور دراز کا سفر آسان ،کم وقت میں ممکن بنایا گیا۔ اس علم کی  روشنی اور طاقت نے بھپرے  دریاؤں  کے آگے بند باندھنا سکھایا۔ اسی علم کی روشنی اور طاقت نے سسکتی خلقت پر اپنا دست شفقت رکھا۔

اور یہ سب ممکن ہوا   وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا کے ذریعے۔ دنیا میں آج تک جتنی ایجادات، تحقیقات،تجربات ہوئے ہیں وہ اسی رحمت خداوندی کی عطا ہے۔

لیکن سوال اٹھتا ہے اور اٹھنا بھی چاہیے کیوں کہ سوال آدھا علم ہے۔

اور وہ سوال یہ ہے کہ  علم ہے کیا ؟؟؟

علم   کی حقیقت کیا ہے؟

 علم کی بہت ساری تعریفیں ہمیں گوگل سے مل سکتی ہیں۔ ہر ایک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کی تشریح کی۔

لیکن اصل تعریف  یہ ہے کہ

“علم معرفت رب کا نام ہے”

خدا شناسی ، خود شناسی ، خلق شناسی  کا نام ہے۔

سورہ علق کی روشنی میں ہر تعلیمی عمل کی بنیاد   خدا سے متعلق ہو۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ: پڑھیے اپنے رب کےنام کےساتھ جس نے پیدا کیا

پڑھنا، علم حاصل کرنا اسکے ذرائع استعمال کرنا سب خدا کے نام کےساتھ ہونا ضروری ہیں  ۔کیوں؟ اس لیے کہ

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ”سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا۔

علم کی قسمیں

علم کی کئی قسمیں ہیں۔ ذیل میں ان تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔

 اکتسابی علم

وہ علم جو حواس ، عقل،  تجربات ، سعی و خطا  کے قانون کے تحت حاصل کرتے ہیں، جوکہ صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی( طب ، زراعت،  جراحت، ٹیکنالوجی، سائنس وغیرہ)

الہامی علم

وحی کے ذریعے حاصل ہونے والا علم(قرآن و حدیث)

علم نافع

وہ علوم ہیں جن سے خلق خدا کا فائدہ ہو او ر وہ وحی کے تابع ہو۔ ان میں سب سے اعلی علوم  قرآن، حدیث، فقہ  ہیں یہ فرض عین ہیں۔ اس کے علاوہ اکتسابی علوم بھی انسانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ بس ہر وقت  ذہن میں رہے کہ یہ علم اللہ کا دیا ہوا ہے ۔احسان شناسی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے اللہ کی رضا کے مطابق استعمال میں لانا چاہیے ۔ یہی علم علم نافع کہلائے گا۔

یہی علم روشنی اور طاقت کا ذریعہ ہوگا۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:

اس علم سے اللہ کی پناہ مانگو جو نفع نہ دے(ابن ماجہ)

علم اور عمل کا تعلق

اسی طرح وہی علم  نافع ہو گا جس پر عمل کیا جائے گا۔ اسلامیا ت کا پرچہ میں  حلال رزق کی افادیت یا خدا خوفی پر مضمون لکھ کر شاندار نمبر لے آئیں لیکن عملی زندگی میں اس سے الٹ ہو۔ تو ایسا علم ہماری کمزوری ہوگی نہ کہ طاقت۔ اس سے  زندگی پر ظلمت کے سائے  لہرائیں گے نہ کہ روشنی کے مینار تعمیر ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

قیامت کے دن بندے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے ان چیزوں کے بارے میں دریافت نہ کرلیا جائے۔

 (۱) جوانی کو کن کاموں میں کھپایا۔

 (۲) زندگی کن کاموں میں گزاردی۔

 (۳) مال کہاں سے کمایا۔

(۴) اور کن کاموں میں خرچ کیا۔

 (۵) جو کچھ علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ صحيح الترمذي

قیامت کی تیاری ہی ایک مسلمان  کا مقصود  ہونا چاہیے ۔ کیسے پاس ہوگا قیامت کا ٹیسٹ اگر صرف نماز کے فضائل و افادیت یاد ہو گی لیکن نامہ اعمال میں چند جمعہ کی نمازوں کے سوا کچھ نہ ہوگا۔یعنی ایسا علم ہی غیر نافع ہے جس میں عمل نہ ہو ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ بےکار علم وہ ہے جس پر عمل نہ کیا جائے ۔

علم نافع اورعلم غیر نافع  میں فرق

اکتسابی اور الہامی دونو ں  علم نافع ہوسکتے ہیں۔ روشنی اور طاقت کا منبع ثابت ہوسکتے ہیں ۔اگر یہ دونوں  وحی کے تابع ہوں، نیت درست ہواورعمل میں لائے گئے ہوں۔

اس بات کو ہم یوں سمجھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر دکھی انسانیت کی خدمت اپنی  خدمات کا معقول معاوضہ لے کر کرسکتا ہے۔ سرکاری اسپتال میں اپنے مریض کا ویسا ہی علاج کرتا ہے جیسے پرائیوٹ اسپتال میں لاکھوں   روپوں کے عوض کرے ۔ خداخوفی کو ملحوظ رکھے۔ رزق کو حلال کرے تو اس کا یہ عمل وحی کے تابع ہوگا ۔اور یہ علم روشنی اور طاقت کہلائے گا۔

ورنہ اسقاط حمل، گردہ مافیا، ڈرگ مافیاجیسے کام بھی اسپتالوں ،ڈاکٹرز  کے تعاون سے ہوں تو اس سے دنیا اور آخرت  میں  ظلمت اور اندھیروں  کی فصل کاٹے گا۔

استاد کا علم نافع بھی ہوسکتاہے غیر نافع بھی۔

اسی طرح ایک سرکاری اسکول کا استاد وہ تمام تدریسی مہارتیں اپنا سبق پڑھانے میں لگائے جیسے ایک پرائیوٹ اسکول کا استاد لگاتا ہے۔ طالب علم کو علم، مہارتیں اور کردار سکھائے گا تو یہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں روشنی اور طاقت کا ذریعہ ہوگا۔

 لیکن  پرچہ لیک کرنا ،معاوضہ لے کر  نمبرز دینا، نقل کے مواقع فراہم کرنا چند ٹکوں کے عوض اپنے پیشے کی تقدیس کو رہن رکھ دیا جائے تو  یہ علم دنیا میں ذلت ، ساکھ کی خرابی اور آخرت میں رسوائی کا باعث ہوگا۔

علم جنت اور جہنم دونوں کا سبب بن سکتاہے۔

بعینہ اسی طرح اعلی علوم بھی ظلمت اور اندھیروں کا باعث ہوسکتے ہیں،  اگر نیت  میں خرابی ہوجائے  ۔ مندرجہ ذیل حدیث میں  شہید، قاری ، اور سخی کو منہ کے بل جہنم ڈالنے کا فیصلہ ہوگا صرف اور صرف نیت کی خرابی کے باعث:

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ۔کہ قیامت کے دن جس کا سب سے پہلے جس شخص کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہوگا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جَتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟

 وہ کہے گا میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو، تو اس لیے لڑتا رہا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے سو ! تمہیں (دنیا میں) بہادر کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دو یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

 دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لیے قرآن مجید پڑھا۔

اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لیے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لیے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے سو تجھے ایسا (دُنیا میں) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تیسرا وہ شخص ہوگا جسے اللہ نے (دنیا میں) وسعتِ رزق سے نوازا ہوگا اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا ہوگا اسے بھی لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جَتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کو پاکر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے تیرے راستے میں جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو تیری رضا حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کیا۔

 اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا بلکہ تو نے ایسا اس لیے کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے پس ! تجھے (دنیا میں) ایسا کہا گیا، پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا(صحیح مسلم)

علم طاقت اور روشنی کب بن سکتاہے۔

اکتسابی علم  ہو یا الہامی علم ۔یہ علم حاصل کرتے ہوئے  یا علم سکھاتے ہوئے ، اخلاص،  خداخوفی ، احساس ذمہ داری ،جواب دہی کا احساس ، حلال رزق کمانے کی لگن  اپنی نئی نسل میں پروان چڑھانے کی   ازحد ضرورت ہے تا کہ  یہ علم  روشنی اور طاقت بن سکیں ۔

اسی علم کی روشنی اور طاقت کے ذریعے ہم دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا سکیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔صلاحیت اور صالحیت کے امتزاج سے دنیا میں اپنا سکہ منواسکیں۔

یہ بھی پڑھیئے:

اچھے استاد کی خصوصیات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button