Columns

امارات میں ساڑھے سات دن

امارات کا سفر

امارات کا سفر

(چودہویں اور آخری قسط)

عبد الخالق ہمدرد

بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ دبئی میں آخری دن کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ فجر کے بعد دل کھول کر آرام کیا کیونکہ پرواز دوپہر کے بعد تھی۔ پھر اٹھ کر سامان ترتیب سے رکھا۔ اس بارے میں بھی ایک اصول ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنا سامان خود اکٹھا کریں اور خود باندھیں یا اپنی آنکھوں کے سامنے بندھوائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو معلوم ہوتا ہے۔

کہ کونسی چیز کہاں رکھی ہے۔ کوئی اور سامان باندھے گا تو آپ یہ نہیں جان سکتے۔ اسی طرح آپ خود رخت سفر باندھیں گے تو سفر کی ضرورت کے مطابق چیزوں کو ترتیب سے رکھیں گے جبکہ دوسرے کو آپ کی ضرورت کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

دس بجے کے بعد حقانی صاحب کے ہمراہ ایک قریبی ’’مال‘‘ سے کچھ خریداری کی۔ واپس آئے تو حقانی صاحب نے کتابوں والی پیٹی پر پلاسٹک چڑھایا اور پر تکلف کھانا بھی منگوایا لیکن ’’ہم کھانے کا حق ادا نہ کر سکے‘‘ کیونکہ ناشتہ بہت دیر سے کیا تھا۔ بارہ بجے کے بعد دعا کے ساتھ محفل برخاست کی اور ہوائی اڈے کا رخ کیا۔ جیسے کہ شروع میں بتایا جا چکا کہ دبئی کا ہوائی اڈہ بہت مصروف اور بہت بڑا ہے۔

اس لئے پروازوں کے لئے جگہیں مقرر ہوتی ہیں۔ ہماری پرواز ٹرمینل ون سے تھی۔ حقانی صاحب نے مجھے وہاں پہنچایا اور گلے لگا کر اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ الوداع کر دیا۔

امارات کا سفر

ہماری پرواز مسافروں کا استقبال شروع کر چکی تھی۔ سامان کا وزن کرانے کے بعد جہاز پر چڑھنے کا کارڈ مل گیا۔ میں نے کھڑکی والی نشست کا کہا تو وہ بھی مل گئی اور اس کے بعد جہاز کی جانب سفر شروع ہوا۔ پہلے پیدل چلے۔ اس کے بعد ریل پر سفر کر کے آگے پہنچے تو ابھی پرواز میں کوئی گھنٹہ بھر وقت باقی تھا۔ بیٹھنے کے لئے بڑی اچھی انتظار گاہ بنی تھی اور اس کے ارد گرد بازار بھی تھا۔

مختلف ممالک اور پروازوں کے مسافر اکٹھے تھے۔ کوئی لیٹا ہوا ہے، کوئی سویا ہوا ہے، کوئی موبائل میں مصروف ہے، کوئی کمپیوٹر کھولے بیٹھا ہے، کوئی چائے پی رہا ہے، کوئی کھانا کھا رہا ہے اور جس کا کوئی کام نہیں وہ مٹر گشت کر رہا ہے یا خلا میں گھور رہا ہے۔ میرے ساتھ بات چیت کے لئے کوئی نہیں تھا تو خیال آیا کہ کئی دنوں کا روزنامچہ رہتا ہے، وہی لکھ لوں۔ اس کو ہندکو والے کہتے ہیں ’’لوک لوکاں نال تے بڈھی املوکاں نال‘‘۔

روزنامچوں سے فارغ ہوا تو اعلان ہوا کہ مسافر جہاز پر سوار ہونے کے لئے آ جائیں۔ چلتے چلتے رستے میں خود کار برقی فرش آ گیا۔ میں سوچوں میں گم جا رہا تھا کہ جانے والے رخ کی بجائے آنے والے پر چڑھ گیا۔ اب پاؤں آگے جانے کی بجائے پیچھے آنے لگے تو ہوش آیا اور گرتے گرتے بچا۔ اللہ کا کرم ہو گیا ورنہ زخمی بھی ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد چلتے ہوئے بہت محتاط ہونا پڑا۔ دبئی ہوائی اڈے پر دیگر چیزوں کی دکانوں کے علاوہ مالش کی دکانیں بھی ہیں۔

امارات کا سفر

جہاز میں فیس بکی دوست سے ملاقات

جہاز نے سواریاں تو ٹھیک وقت پر بٹھا لیں مگر اڑنے میں پینتیس منٹ کی تاخیر کی۔ میری نشست تھی تو کھڑکی والی لیکن تھی بہت دور دم کے قریب۔ تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو چہرے مہرے سے بڑے وجیہ لگ رہے تھے اور پوری ڈاڑھی بھی رکھی تھی اور پاکستانی لباس میں ملبوس تھے، جہاز کے اگلے حصے سے میرے پاس آئے اور بڑے تپاک سے ملے۔ میں ان کو نہیں جانتا تھا۔

کہنے لگے کہ مولانا میرا آپ سے غائبانہ تعارف ہے اور ’’میں آپ کے مداحوں میں سے ہوں۔ میں آپ کو پڑھتا ہوں‘‘۔ اس طرح کے واقعات میرے ساتھ کئی جگہ پیش آ چکے ہیں جہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے پہچان نہیں پایا، وہاں اس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ ’’آپ ہمیں نہیں جانتے لیکن ہم آپ کے خاموش قاری ہیں۔‘‘

اس سے لکھنے کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں، وہ ہوا میں تحلیل نہیں ہو جاتا بلکہ کوئی نہ کوئی اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھاتا ہے۔

امارات کا سفر

اس پر ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا۔ یہ ایک ’’ماڈرن‘‘ لطیفہ ہے کیونکہ سماجی ذرائع ابلاغ بھی نئے ہیں اور ان سے کام لینے والوں کی سطح بھی اپنی اپنی ہے۔ کہتے ہیں کہ اشارے پر ایک گاڑی رکی۔ گاڑی ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ ایک بھکاری نے شیشہ کھٹکھٹا کر ہاتھ پھیلایا۔ خاتون نے شیشہ نیچے کیا، بھکاری کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ لگتا ہے میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔

اس پر بھکاری جھٹ سے بولا، میڈم میں فیس بک پر آپ کا فرینڈ ہوں۔ سو ہمارے دوستوں کی طرح فیس بک فرینڈ بھی جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو شاد وآباد اور بامراد رکھے۔

وہ صاحب مجھے آگے آنے کا کہنے لگے کیونکہ آگے بہت نشستیں خالی تھیں۔ اتنے میں ایک فضائی یا ہوائی میزبان نے مداخلت کی اور کہا کہ آپ بار بار کیوں آگے پیچھے جا رہے ہیں؟ اس کا جواب ان صاحب نے ذرا کرخت لہجے میں دیا جو مجھے اچھا نہ لگا۔ اس کے بعد میں نے کہا ’’اچھا اب کہئے میرے لئے کیا حکم ہے، آگے چلا جاؤں؟‘‘ تو کہنے لگیں جی چلے جائیں۔

آگے پہنچ کر بیٹھے تو تعارف ہوا۔ یہ دوست مولانا محمد شفیق میر تھے۔ ان کا مظفر آباد میں ایک دینی تعلیمی ادارہ ہے اور شارجہ میں بھی کوئی کام کرتے ہیں۔ مجھے ان سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ کہنے لگے کہ میں نے آپ کی دبئی والی پوسٹ پر کمنٹ کیا تھا لیکن جواب نہیں آیا، ورنہ اگر نمبر مل جاتا تو شارجہ میں آپ کی خدمت کرتے۔ اس کے بعد تلاش کر کے وہ تبصرہ بھی دکھا دیا۔ اس پر مجھے معذرت کرنا پڑی کیونکہ دبئی میں قیام کے دوران مجھے ہر وقت نیٹ کی سہولت حاصل تھی اور نہ فرصت۔

امارات کا سفر

نرمی پر پچھتاوا نہیں ہوتا

اب مجھے ایک ہم زباں اور ہم سفر دستیاب تھا۔ اس لئے بہت باتیں ہوئیں۔ گفتگو کا آغاز فضائی میزبان والی بات سے ہوا۔ مین نے کہا کہ آدمی کو ویسے بھی نرمی سے بات کرنی چاہئے لیکن اگر وہ شکل سے باشرع بھی لگ رہا ہو تو یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ لوگ آدمی کے لباس کو دیکھ کر اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ورنہ ابھی بھی آپ دیکھ لیں، لوگ چل پھر رہے ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔

اس پر میں نے کہا کہ دیکھئے سختی اور غلطی کر کے تو آدمی کو پچھتانا پڑتا ہے لیکن نرمی پر پچھتاوا بہت کم ہوتا ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ جس چیز سے نرمی نکل جاتی ہے، اس کی رونق جاتی رہتی ہے۔

اس کے بعد مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ایک استاد ان سے کہا کرتے تھے کہ تم نے بڑی گاڑی رکھی ہوئی ہے اور لے کر پھرتے رہتے ہو لیکن میرا خیال ہے اس پر بیٹھنے سے آدمی میں تکبر آتا ہے۔ اس وقت تو بات آئی گئی ہو گئی اور کچھ دنوں بعد استاد جی نے کہیں جانے کے لئے گاڑی مانگی تو جیپ دے دی۔

سوئے اتفاق کہ بازار میں اس کا چالان ہو گیا تو استاد جی نے فون کیا کہ ادھر نئی مشکل پیش آ گئی ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں، اس طرح تو ہوتا ہے۔ اس کے بعد بڑی گاڑی میں سفر کیا تو کہنے لگے یہ ٹھیک ہے۔

امارات کا سفر

تکبر اور عاجزی کا تعلق باطن سے ہوتا ہے

اس پر راقم کا تبصرہ یہ ہے کہ تکبر اور عاجزی آدمی کے اندر کی کیفیات ہیں۔ یہ چیزوں سے جڑی نہیں لیکن ہر آدمی کا ظرف اپنا اپنا ہوتا ہے۔ بہت سے کم ظرف جب اچانک مال دار ہو جاتے ہیں تو واقعی ان کا رویہ بدل جاتا ہے اور بہت سے مال دار ایسے مٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ سبحان اللہ۔ اس کا اصول یہ ہے کہ مال کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا کیونکہ وسائل اور اسباب کی دنیا میں زندگی کی کشتی مال کے سمندر میں ہی چل سکتی ہے لیکن اس سمندر کا پانی اس کشتی کے اندر نہیں آنا چاہئے ورنہ کشتی ڈوب جائے گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے حلال دائرے میں مستفید ہونا کوئی غلط بات نہیں لیکن ان نعمتوں کی وجہ سے کسی کی تحقیر اور توہین عین حرام ہے۔ اسی طرح شریعت نے کچھ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ ان سے بچنا بھی ضروری ہے جیسے سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا، چیتے کی کھال پر بیٹھنا اور مردوں کا سونا استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ۔

صحابہء کرام کی زندگی میں اس بارے میں جو توازن نظر آتا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں۔ ذرا اسی کو دیکھ لیجئے کہ مکے کے تاجر اور بڑے بڑے مالدار لوگ مدینہ منورہ اس حال میں پہنچتے ہیں کہ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت ہے، پہننے کو کپڑے ہیں اور نہ کھانے پینے کا انتظام۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کفالت کے لئے مواخاۃ قائم کرتے ہیں۔

امارات کا سفر

لیکن یہ لوگ اس قدر خود دار ہیں کہ جوں ہی ان کا ہاتھ ذرا کھلا، اپنا بوجھ خود اٹھا لیا اور اس کے بعد راہ خدا میں خرچ کرنے کی وہ وہ مثالیں قائم کیں کہ رہتی دینا تک اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ گھر کا پورا مال نبی کے قدموں میں ڈال دینے والا ابو بکر، آدھا مال پیش کرنے والا عمر اور چھے سو اونٹ دینے والا عثمان، یہ سب مہاجر ہی تو تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اسی لئے اقبال نے کہا ہے ؎

فقیری میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

ایک اور بات جو میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ جس آدمی کو مال بدل ڈالے، وہ بہت بودا آدمی ہے کیونکہ جس شے کا اپنا کوئی اعتبار ہے اور نہ اس کے آنے جانے کا کوئی معیار، اس کے زاوئے سے کسی آدمی کو دیکھنا کتنا بڑا ظلم ہے کیونکہ ہمارے اس زمانے میں بھی پرلے درجے کے گھٹیا کاموں سے ایک ایک دن میں اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے جو ایک شریف انسان حلال ذرائع اور محنت سے پوری زندگی میں اکٹھا نہیں کر سکتا۔

امارات کا سفر

اس لئے آدمی کو ’’جیسا ہے‘‘ کی بنیاد پر قبول کرنا چاہئے اور جو آدمی مال کی بنیاد پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے، در حقیقت اس سے چھوٹا کوئی نہیں۔ تقریر بہت لمبی ہو گئی۔ ہم جہاز میں بیٹھے تھے۔ جہاز نے کوئی پینتیس منٹ کی تاخیر سے اڑان بھری تو میں نے تلاوت کے لئے موبائل پر قرآن کریم کھول لیا اور ساتھ شفیق صاحب کو حضرت بنوری رحمہ اللہ کا معمول بھی بتایا تو کہنے لگے۔

 ’’مولانا آپ کی بات درست ہے لیکن ایک مسلمان بھائی سے للہ فی اللہ ملاقات بھی کار ثواب ہے۔‘‘ ان کی یہ بات درست تھی۔ اس لئے کبھی تلاوت اور کبھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ رستے میں ہوا باز نے اعلان کیا کہ ایک مسافر کی وجہ سے ہمیں اڑان بھرنے میں تاخیر ہو گئی تھی لیکن اب ہم معمول کے رستے کی بجائے گوادر سے شمال کی جانب سفر کریں گے اور کوئٹہ کے اوپر سے ہوتے ہوئے اسلام آباد کی جانب پرواز کریں گے۔ یعنی یہاں بھی جوگاڑ اور ’’شارٹ کٹ‘‘ ہمارے کام آ گیا۔

امارات کا سفر

جہاز ڈولنے پر ایک دم موت کا سا سناٹا

رستے میں کچھ دیر کے لئے ہوا ناموافق ہو گئی اور جہاز ڈولنے لگا تو اعلان ہوا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ معمول کا حصہ ہے لیکن لوگ واقعی گھبرا اور اتنے سہم گئے کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ پورے جہاز میں ایک دم موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ ظاہر ہے کہ جب جہاز پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور بے ترتیبی کے ساتھ جھٹکے بھی لگ رہے ہوں تو یہ کیفیت تو پیدا ہوگی۔

کیونکہ انسان کو زندگی بہت عزیز ہے اور زندگی کی اسی قیمت نے اسے جہاز بنانے پر اکسایا ہے۔ ذرا سوچئے کہ ایک طرف یہ جہاز اتنی بڑی نعمت ہے کہ مہینوں کی منزل گھنٹوں میں مار لیتا ہے لیکن دوسری جانب اتنا خطرناک ہے کہ خدا نخواستہ گر جائے تو آدمی کی بوٹی بھی نہ ملے۔ اس سب کے باوجود دنیا جہازوں کو استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی بلکہ وہ مزید برق رفتار اور دیو ہیکل جہاز بنانے میں لگی ہے۔ اس سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی شے سے درست اور جائز طریقے سے مستفید ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔

امارات کا سفر

مختصر رستے کا فائدہ ہوا اور جہاز اپنے مقررہ وقت سے بھی پانچ منٹ پہلے اسلام آباد ہوائی اڈے پر اتر گیا۔ میرا سامان پیچھے تھا۔ اس لئے مسافروں کے اترنے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد جہاز سے اتر کر ہوائی اڈے میں داخل ہوئے تو پاسپورٹ پر ٹھپہ لگانے کے لئے قطار میں کھڑے ہوئے۔ چونکہ ابھی ابھی دبئی سے پہنچے تھے، اس لئے قانون پر عمل اور قطار کی پابندی کا جوش بھی تھا، اس لئے پاکستانی پاسپورٹ کی قطار میں ’’ڈٹ کر‘‘ کھڑے ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں شفیق صاحب بھی آ گئے تو پوچھنے لگے کہ اتنی لمبی قطار میں کیوں کھڑے ہیں جبکہ دوسری قطار میں چند لوگ ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ غیر ملکی پاسپورٹ کی قطار ہے۔ کہنے لگے دیکھیں یہ سب پاکستانی ہیں۔ چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ اس قطار میں چلا گیا تو دو منٹ میں ٹھپہ لگ گیا۔ شفیق صاحب کہنے لگے کہ یہ بورڈ ویسے ہی لگے ہیں۔

اگلے مرحلے میں سامان وصول کر کے باہر نکلے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور سردی بھی بلا کی تھی اگرچہ جہاز والوں نے بتایا تھا کہ باہر درجہ ء حرارت 14 درجے سینٹی گریڈ ہے۔ میں چونکہ سفر کو معمول کا حصہ سمجھتا ہوں، اس لئے اس کی تشہیر غیر ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اسی بنا پر میرے استقبال کے لئے چھوٹا بھائی اور بیٹا ہی وہاں موجود تھے۔ حسن اتفاق کہ ہمیں گاڑی والا ایک ایسا سلجھا ہوا نوجوان ملا جو کسی بھی طرح ڈرائیور نہیں لگتا تھا۔ خوش شکل، خوش اخلاق، سمجھدار اور بات غور سے سن کر مناسب اور نپا تلا جواب دینے والا۔

تعارف سے معلوم ہوا کہ وہ ہوائی مہندس (ایروناٹیکل انجینئر) ہے۔ پونچھ آزاد کشمیر کا رہائشی ہے۔ اس کا سارا خاندان باہر اور وہ اکیلا پنڈی کے ایک پوش علاقے میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی ساری تعلیم باہر کی ہے۔ پہلے شارجہ میں پڑھا، اس کے بعد کینیڈا سے ڈگری لی۔ اس نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا کہ اس نے پی آئی اے میں تین سال کام کیا لیکن وہاں اس کو انجینیئر نہیں بننے دیا گیا تو مجبوراً وہاں سے چھوڑ کر اب ’’الاتحاد‘‘ میں کام کرتا ہے۔ تنخواہ بہت اچھی ہے اور کام بھی انجینئر والا ہے۔

امارات کا سفر

اہل ہنر کی اپنے ملک میں ناقدری اور غیروں کے ہاں قدر دانی

یہ کہانی صرف اس ایک پونچھی نوجوان کی نہیں بلکہ ان ہزاروں بلکہ لاکھوں ہنر مند لوگوں کا درد ہے جو اپنے ملکوں میں ناقدری کی وجہ سے دیار غیر کا رخ کرتے ہیں اور وہاں ان کو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ عالی دماغوں کا کسی بھی ملک سے نکل جانا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکا میں جو ترقی ہے، اس کا ایندھن پسماندہ ملکوں کے عالی دماغ لوگ ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ناسا جیسے خلائی ادارے میں غریب اور پسماندہ مسلمان ممالک کے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ مغرب میں ان غریب ممالک کے کتنے طبیب اور مہندس کام کر رہے ہیں؟ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، برطانیہ کے بارے میں ایک تحقیق چھپی تھی کہ وہاں 18 فیصد ڈاکٹروں کا تعلق عرب ممالک سے ہے۔

اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ان ملکوں نے جو ایک اصول اپنایا تھا کہ ’’وی نیڈ دیئر سکلز ناٹ دیئر سکنز‘‘ (ہمیں ان کی مہارتوں کی ضرورت ہے کھالوں کی نہیں)، اس پر وہ سختی سے کاربند ہیں جبکہ پسماندہ ممالک میں رشوت، سفارش اور اقربا پروری کی وجہ سے آپ کے نظریات سے اختلاف کرنے والے کسی عالی دماغ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ایسے قابل لوگ اپنے ملکوں میں گھٹ گھٹ کے مر جاتے ہیں یا قسمت یاوری کرے تو کہیں اور نکل جاتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

خاندانی نظام کی تباہی اور افرادی قوت کا مسئلہ

دوسری بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا میں باہر سے آنے والے ہنر مند لوگوں کے لئے اس لئے بھی بڑی گنجائش ہے کہ وہاں خاندانی نظام کی تباہی کی وجہ سے آبادی کم ہو رہی ہے۔ عمریں زیادہ ہونے کی وجہ سے پرانے اور بوڑھے لوگ حکومتوں پر بوجھ بن رہے ہیں اور نوجوانوں کی تعداد اس نظام کو چلانے لئے کافی نہیں۔ اس لئے وہ دیگر ممالک سے آنے والے مہاجرین کا استقبال کرتے ہیں۔

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ محرومیوں کے مارے یہ لوگ لوہے کی مشین کی طرح کام کر سکتے ہیں۔ کاش، ہم لوگ اپنے ہاں کوئی ایسا اقدام کر سکیں کہ ہمارے قابل لوگ اپنی محرومیوں کے ازالے کے لئے ملک چھوڑنے کی بجائے ان ممالک کی محرومیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

امارات کا سفر

قدرت کی فراوانی اور ہماری نا اہلی

جن ممالک کو دنیا پسماندہ سمجھتی ہے، قدرت نے ان کو ہر طرح کے وسائل اس فراوانی سے عطا فرمائے ہیں کہ اگر ان کا کچھ حصہ بھی درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ممالک جنت بن سکتے ہیں۔ ذرا پاکستان کو ہی ایک نظر دیکھ لیں کہ یہاں کیا نہیں ہے۔ یہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہیں، وسیع صحرا اور طویل ساحلی پٹی ہے، دنیا کا دوسرا طویل ترین دریا ہے، زرخیز اور سونا اگلتے میدان ہیں اور سرسبز وشاداب جنگلات ہیں۔

قدرت کی بو قلمونیاں دیکھئے کہ یہاں جس وقت ملک کے ایک کونے میں درجہء حرارت 45 درجے کو چھو رہا ہوتا ہے، دوسرے حصے میں 14 اور 15 ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں کے جنگلات جنگلی حیات کے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ اس ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور کئی الگ شناخت کی حامل ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ اس قدر قدرتی اور انسانی تنوع کے باوجود ہمارا کسی ملک سے کوئی مقابلہ نہیں۔

ترکی، سویٹزر لینڈ، تھائی لینڈ، ملائشیا اورویتنام جیسے ملک سیاحت سے کس قدر دولت کما رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی اقتصادی رپورٹ پڑھ لیں۔ امارات جیسا ملک جہاں صحرا اور سمندر کے سوا کچھ نہیں، وہاں کی سیاحت کی صنعت کو دیکھیں کہ صحرا میں برف برسائی جا رہی ہے، پانی کے فواروں سے پانی اڑا کر پیسے کمائے جا رہے ہیں، صحرا میں گاڑیاں چلا کر مال کے انبار اکٹھے کئے جا رہے ہیں اور اسی مال سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو اس قدر مضبوط کر لیا ہے کہ چار دانگ عالم سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔

ایک بار ہم مارگلہ کی پہاڑیوں پر کھڑے اسلام آباد کا نظارہ کر رہے تھے۔ ہم نے کہا کہ اسلام آباد کس قدر خوبصورت شہر ہے، تو ہمارے ایک دوست بولے کہ یہ پہاڑ، یہ سبزہ، یہ پتھر، یہ جنگل اور یہ مخلوق تو سب اللہ کی بنائی ہوئی ہے، ہم نے اسلام آباد کو کیا بنایا؟ اگر اللہ کی بنائی ان چیزوں کو ہٹا دیں تو آپ کے پاس اسلام آباد میں دکھانے کو کیا رہ جائے گا؟

امارات کا سفر

ان کی بات مجھے تو درست معلوم ہوئی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک کے کارپردازان حکومت اسے ترقی دینے اور آگے بڑھانے کی سوچیں۔ بیرونی دوروں سے کچھ سیکھیں۔ اس ملک میں نئے تجربات کریں، کوئی نیا کام کریں اور لوگوں کی محرومیوں کے ازالے کی کوئی سبیل نکالیں ورنہ قوموں کے گراف میں ہم مزید نیچے جاتے رہیں گے۔ اس ملک کے ہنر مند اگر دوسرے ممالک میں جا کر اپنا پسینہ بہا سکتے ہیں تو مناسب موقع ملنے پر یہاں کیوں نہ بہائیں گے؟

یہی کچھ سوچتے، اور اسی پر بات کرتے کرتے رات کے اندھیرے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی میں ہوائی اڈے سے گھر پہنچ گئے اور دبئی کا سفر پورا ہو گیا۔ الحمد للہ، اس سارے سفر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں پیش آیا۔ میرے احباب نے میری توقع سے بڑھ کر آؤ بھگت کی اور پاکستان کی بہ نسبت زمین کے قدرتی تنوع سے محروم مگر انتظام وانصرام سے معمور ایک ملک کو دیکھ کر جہاں ایک طرف دل خوش ہوا ۔

کہ الحمد للہ ایک مسلمان ملک میں بھی لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، وہیں دل میں یہ شدید داعیہ بھی پیدا ہوا کہ کاش ہمارے ملک میں بھی اپنے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ایک چیز بھی اپنائی جائے تو ہم بھی دبئی اور امارات کی طرح ایک مرتب ملک بن سکتے ہیں۔
ختم شد

امارات کا سفر

گزشتہ قسط پڑھئیے

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button