Columns

عرب امارات میں کیا دیکھا؟

عبدالخالق ہمدرد

گزشتہ سے پیوستہ–

فجر کے لئے اٹھا تو طبیعت بحال ہو چکی تھی۔ اس پر شکر ادا کیا اور نماز کے لئے کمرے سے نکلا۔ یہ کمرہ ایک سکول نما لمبی دو منزلہ عمارت میں واقع تھا جہاں مختلف لوگوں کی رہائش تھی۔ یہ لوگ دن کو اپنے اپنے کام پر جاتے ہیں اور رات کے لئے واپس یہاں آتے ہیں۔ مختلف علاقوں کے لوگوں کی الگ الگ ’’ہانڈی والی‘‘ ہے۔ مل جل کر رہتے اور گزارہ کرتے ہیں۔ یہ پردیس کا ایک نمونہ تھا۔

میں بار دگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ لوگ جن کے عزیز باہر جا کر ان کی خاطر مزدوری کرتے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اپنے ملک سے باہر رہنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ لوگ پسینہ بہانے کے ساتھ ساتھ، خون جگر جلا کر پیسہ کماتے ہیں۔

نماز کی جگہ اس عمارت سے باہر سڑک کے قریب تھی۔ وہاں بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا، دریاں اور جائے نمازیں بچھی تھیں اور لوگ اپنی اپنی نماز پڑھتے جاتے تھے۔ کچھ لوگ وہیں بیٹھے ذکر واذکار میں مشغول تھے اور ایک صاحب سڑک والے بلب کی روشنی میں ایک طرف بیٹھ کر تلاوت کر رہے تھے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اللہ کے نیک بندے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور یہ اس زمین کا نمک ہیں۔

فجر کے بعد سونے کی رسم یہاں بھی ’’قضا‘‘ نہیں ہوئی۔ واپس کمرے میں جا کر دوسرے دوست کو نماز کے لئے جگا کر میں خود لیٹ گیا اور آٹھ بجے کے بعد آنکھ کھل گئی تو اٹھ کر باہر نکلا۔ وضو کر رہا تھا کہ ایک نئے پشتون نے پوچھا کہ آپ کے لئے چائے بنا دوں؟ میں حیران ہوا کہ یہ کون ہے، اس لئے پوچھ لیا کہ آپ اس کمرے میں رہتے ہیں؟

اس نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے کہا کہ بنا دو تو مہربانی ہوگی اور دو منٹ میں مزیدار چائے کا پیالہ آ گیا۔ چائے پینے کے بعد کمرے سے واپس ابو ظبی جانے کے لئے نکلا۔ اس وقت کمرے میں ایک آدمی سو رہا تھا اور دوسرا کوئی نہیں تھا۔ باہر نماز کی جگہ پہنچا تو کوئٹہ کے کچھ لوگ قہوے کا تھرماس پاس رکھے بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی دعوت دی لیکن میں نے ’’مروت میں‘‘ شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔

کراچی جیسا علاقہ اور وزیرستانی پختون

رات کو اندھیرے کی وجہ سے درست اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ اب دن کی روشنی میں سب کچھ نظر آ رہا تھا۔ علاقہ کراچی جیسا لگ رہا تھا۔ سڑک کے آس پاس بڑی بڑی دکانیں اور گودام تھے اور کئی جگہ ویلڈنگ کا کام ہو رہا تھا۔ رستے میں ایک وزیرستانی بھائی نسوار کا پورا توڑا منہ میں رکھے ایک سنگی بورڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

میں نے ان سے رستہ پوچھا تو بتایا کہ سامنے ’’رنڈابوٹ‘‘ سے آگے جاؤ گے تو گاڑی مل جائے گی۔ ان سے بات چیت پشتو میں ہی ہوئی۔ ویسے وزیرستان کی پشتو اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ اس میں وزیرستان بھی ’’وزیرستون‘‘ بن جاتا ہے۔ اس لہجے میں الف کو واو اور واو کو ’ے‘ سے بدلتے ہیں۔ مثلا اگر آپ یہ کہنا چاہیں کہ ’’استاد راغلے دے‘‘ (استاد آئے ہیں۔) تو وزیرستان کے لہجے میں جملہ یوں ہوگا: ’’استود روغلے دائے‘‘۔

اس پر باقی باتیں قیاس کر لیں، کور کیر، مور میر، تہ تو، زہ زو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری کہانی یہ بتانے کے لئے لکھنا پڑی ہے کہ ’’رنڈا بوٹ‘‘ کا مطلب ہے ’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘ یعنی سڑک میں گول چکر۔

دبئی کے “راؤنڈ اباوٹ”

گول چکر کے پاس پہنچا تو بڑی سڑک بھی نظر آ گئی۔ دبئی میں گول چکر بہت ہیں۔ اس طریقے سے شاید اشاروں سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے کہ گاڑیاں رک کر انتظار کرنے کی بجائے گھوم کر اپنے مطلوبہ راستے پر ہو لیتی ہیں۔ سیدھے چوراہے کی بنسبت گول چکر زیادہ محفوظ محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہاں ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ گاڑیاں مسلسل چل رہی ہیں، اس لئے وہ چوکنا ہوتا ہے۔

اس علاقے سے گزرتے ہوئے بالکل محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ میں کسی عرب ملک میں ہوں کیونکہ عربی کوئی نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امارات میں انگریزی اور اردو رابطے کی زبانیں ہیں۔

چلتے چلتے بس کی انتظار گاہ پہنچا تو دیکھا کہ بلدیہ کے لوگ رہنمائی کے لئے لگی تختیاں صاف کر رہے ہیں۔ یہ بات بہت اچھی لگی کہ ان تختیوں سے دھواں اور دھبے ہٹیں گے تو لوگوں کو رستہ سوجھے گا۔ یہی حال ہمارے من کا بھی ہے کہ جب ہم اس کو صاف کرتے ہیں تو ہمیں درست رستہ نظر آنے لگتا ہے لیکن جیسے ہی وہ میلا ہو جاتا ہے تو ہم بھٹکنے لگتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جس طرح یہ تختیاں ایک دم میلی اور کالی نہیں ہوتیں، اسی طرح انسان کا دل بھی یکدم کالا نہیں ہوتا بلکہ ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اور

بڑی مشکل سے دل واقف مقام دل سے ہوتا ہے

ذرا سا فاصلہ ہے طے بڑی مشکل سے ہوتا ہے

رہنمائی کے لئے لگائی گئی تختیوں کی صفائی اور پاکستان میں رائج رسم بد

بس آنے میں ذرا دیر تھی۔ میں نے صفائی والوں کو ایک بار پھر دیکھا تو پاکستان میں رہنمائی کے لئے لگے تختے اور تختیاں آنکھوں میں گھوم گئیں کہ کسی پر کسی جلسے، کسی دکان، یا کسی سیاسی شخص کا اشتہار لگا ہے۔ کہیں ان تختیوں کے حروف اکھاڑے اور کاٹے گئے ہیں، جہاں 40 تھا اسے 4 بنا دیا ہے۔ تیر کا سر کاٹ دیا ہے۔ حروف کھرچ ڈالے ہیں اور کچھ نہیں ہو سکا تو کالے رنگ سے اپنا یا کسی اور کا نام لکھ دیا ہے۔

پھر یہ کام صرف ان تختوں اور تختیوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا جو سرکار عوام کے پیسے سے لگاتی ہے، بلکہ لوگ آپ کی رنگ شدہ دیواروں پر لکھے ہوئے اشتہار لگاتے اور اشتہار لکھتے ہیں۔ نہ معلوم ہم کب یہ سیکھیں گے کہ جو تختی کسی نے لگائی ہے، کسی مقصد سے لگائی ہے۔ اس لئے اسے خراب کرنے یا اس پر اپنے اشتہار چپکانے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں۔ اگر کوئی جواز ہے تو بتائیے!

میں ابو ظبی لاری اڈے کی بس پر سوار ہوا تو بھیڑ بہت تھی کیونکہ صبح کا وقت تھا اور لوگ کاموں پر جا رہے تھے یعنی ’’وقت صبح کہ مردم بکاروبار روند، بلا کشان محبت بکوئے یار روند‘‘ کہ صبحدم جب لوگ دنیا کے کام کاج کے لئے نکلتے ہیں تو کشتگان محبت یار کے کوچے کو چل دیتے ہیں۔ لاری اڈے پہنچ کر ناشتہ کیا اور ادھر ہی انتظار گاہ میں بیٹھ کر سفرنامہ لکھنا شروع کیا کیونکہ یہ وقت گزاری کا اچھا طریقہ معلوم ہوا۔ اس کے بعد میں ’’العین‘‘ جانا چاہتا تھا۔

بس کی انتظار گاہ اور دنیاوی زندگی میں مماثلت

یہاں کافی دیر بیٹھ کر میں آنے جانے والوں کا مشاہدہ کرتا رہا۔ جگہ ایک ہے اور لوگوں کے رویے مختلف ہیں۔ ایک آدمی انتظار گاہ کی ایک جانب سے داخل ہوتا ہے اور دوسری جانب سے ہوا کے جھونکے کی طرح نکل جاتا ہے۔ ایک آتا ہے، کرسی پر بیٹھ کر کچھ دیر سستاتا ہے اور پھر اٹھ کر کسی جانب چل پڑتا ہے۔ ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے، دائیں بائیں نگاہ دوڑاتا ہے، جیسے کوئی چیز تلاش کر رہا ہو اور اس کے بعد دوسرے دروازے سے نکل جاتا ہے۔

کچھ لوگ مختلف قطاروں میں کھڑے ٹکٹ خرید رہے ہیں۔ کچھ فون پر مصروف ہیں۔ کوئی اردو بول رہا ہے، کوئی انگریزی، کوئی پنجابی اور پشتو، کوئی نیپالی اور کوئی افریقی۔ الغرض جتنے لوگ اتنی بولیاں۔ میرے خیال میں اس قدر مختصر جغرافئے میں اتنا وسیع لسانی تنوع بہت عجیب بات تھی۔ یہی حال اس دنیا کا بھی ہے کہ ’’یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے ۔۔۔۔ ایک کو آنا ایک کو جانا ہے۔‘‘

مولانا سیف اللہ حقانی صاحب نے یہ معلوم کرنے کے لئے فون کیا کہ میں کہاں ہوں تو میں نے ان کو بتایا کہ ابو ظبی لاری اڈے میں ہوں اور العین جانے کی نیت ہے۔ کہنے لگے کہ وہاں میرے ایک دوست ہیں۔ ان کو بتاتا ہوں، اگر وقت ہوا تو وہ آپ کا العین میں استقبال کریں گے۔ ابھی میں وہاں سے چلنے بھی نہ پایا تھا کہ حقانی صاحب نے اطلاع دی کہ ان شاء اللہ وہ دوست آپ کا انتظار کریں گے۔ اس کے بعد میں ٹیکسی پر العین روانہ ہوا۔

ایتھوپیا کا نو مسلم گاڑی بان

گاڑی بان کا تعلق اس ملک سے تھا جس نے سب سے پہلے مسلمان مہاجرین کا استقبال کیا تھا، یعنی حبشہ جس کو آجکل ایتھوپیا کہتے ہیں۔ چند جملوں کے تبادلے سے اندازہ ہوا کہ آدمی اچھا ہے اس لئے سفر خوب گزرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی برس سعودی عرب میں رہے اور وہیں اسلام قبول کیا مگر تا حال پاسپورٹ میں ان کا پرانا نام چل رہا ہے۔

کہنے لگے یہاں تعلیم بہت مہنگی ہے اس لئے بچوں کو ادیس ابابا چھوڑ آیا ہوں جبکہ پاسپورٹ میں نام کی تبدیلی کا عمل مکمل کرنے کے لئے کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا، اس لئے نام تبدیل نہیں کر سکا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ تو اس کا براہ راست جواب تو نہیں دیا لیکن یہ بتایا کہ سعودی عرب میں ایک عالم تھے، وہ اچھی اچھی باتیں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مذہب تبدیل کرنے کی بات تو نہیں کی لیکن اسلام کا بتاتے تھے۔ اس لئے میں مسلمان ہو گیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ الحمد للہ اسلام میں آج بھی وہی کشش ہے جو اس کی فطرت میں شامل ہے لیکن مسلمانوں کی بے عملی اور بد عملی دعوت کے رستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

ذرا اس بات پر غور کر لیجئے کے سمندر کے اوپر واقع ایشیائی ملکوں میں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا ہے۔ سری لنکا، کیرالہ، اراکان، فطانی، ملائشیا، فلپائین اور انڈونیشیا وغیرہ میں اسلام پہنچانے والے لوگ وہی تھے جو سودا بیچنے آتے تھے۔ کیا ہم اس بات کا ادراک کر سکتے ہیں کہ وہ تاجر کیسے ہوں گے جن کو دیکھ کر لوگ مسلمان ہوتے تھے؟ اب ان کا موازنہ آج کے تاجروں سے کریں تو بات واضح ہو جائے گی۔ یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے ؎

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے

وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

میں نے ایتھوپیا میں تیگرے کے مسئلے پر بات کی تو کہنے لگے کہ اب مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ان کی گفتگو سے مجھے لگا کہ وہ بہت ہنس مکھ اور دلچسپ آدمی ہیں۔ ابو ظبی سے نکل کر العین کی سڑک پر چڑھے تو منظر بدل گیا اور صحرا نظر آنے لگا لیکن یہاں بھی سڑک کی دونوں جانب شجر کاری کی گئی ہے اور جاتے ہوئے رستے کی دائیں جانب بہت سے ’’مزارع‘‘ (فارم ہاؤس یا باغات) ہیں۔ میں نے گاڑی بان سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو کوئی باغ دیکھتے چلیں۔ کہنے لگے کہ ان کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔

لب سڑک کھجور کے پست قد درخت

ابو ظبی سے العین تک سڑک کے نارے لگے کھجور کے درخت پست قد ہیں اور اگر ان پر پھل لگا ہو تو متوسط قد کا آدمی بھی ہاتھ بڑھا کر خوشہ توڑ سکتا ہے۔ اس بارے میں ایک دلچسپ بات کسی نے بتائی تھی۔ دروغ بر گردن راوی، کہتے ہیں کہ ایک بار شیخ زاید العین سے ابو ظبی آ رہے تھے۔ رستے میں انہوں نے دیکھا کہ بچے کھجوریں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو رہے تو حکم دیا کہ یہاں پست قد کھجوریں لگائی جائیں۔ بظاہر یہ بات اس لئے بھی معقول نظر آتی ہے کہ اس سارے رستے میں اونچی کھجوریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک جگہ گاڑی میں گیس بھروانے رکے۔ یہ سرکاری کمپنی ادنوک کا پمپ تھا اور پیسوں کا لین دین برقی طریقے سے تھا۔ گاڑی بان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیا لاؤں تو میں نے انکار کر دیا۔ کہ کچھ نہیں چاہئے۔

لیکن جب اصرار حد سے بڑھ گیا تو کہا کہ ایک قہوہ (سبز چائے) لے آئیں۔ سبز چائے کا ایک پیالہ یہاں مبلغ چھ درہم کا ملا، یعنی کم سے کم ریٹ کے مطابق بھی پاکستانی 360 روپے کا۔ اس پر گاڑی بان بھی حیران تھا کیونکہ ابو ظبی میں یہ ایک درہم کا ہوتا ہے۔ یہ ان کی جانب سے مہمان نوازی تھی۔

تیز رفتاری پر چالان کا خود کار نظام

یہاں جو گاڑیاں سواریاں اٹھانے کے لئے مخصوص ہیں، ان میں میٹر لگا ہوا ہے اور سارا معاملہ اس کے مطابق ہوتا ہے۔ گاڑی کے شیشے پر اس کی ساری تفصیل درج ہوتی ہے اور آخر میں آپ کو رسید بھی ملتی ہے، جس میں فاصلہ اور اجرت وغیرہ کی تفصیل وقت کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ اسی طرح ان گاڑیوں میں ایسا خود کار نظام لگا ہے کہ جیسے ہی رفتار حد سے متجاوز ہوتی ہے، وہ خبردار کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اگر دو بار تنبیہ کو نظر انداز کر دیں اور رفتار قابو نہ کریں تو دو سو درہم کا چالان ہو جاتا ہے اور اس غلطی کے تکرار پر پانچ سو درہم کا چالان ہو جاتا ہے۔ یہ رقم ڈرائیور کو بھرنا پڑتی ہے اور نظام ایسا ہے کہ جرمانہ ادا کئے بغیر آپ گاڑی کی ملکیت منتقل نہیں کر سکتے اور جب تک آپ اپنے ذمے واجب الادا جرمانہ ادا نہیں کرتے ملک بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسے میں بتائیے کہ ہزار درہم ماہوار پہ کام کرنے والا آدمی کتنے چالان برداشت کر لے گا؟

یہ ساری چیزین دیکھتے ہوئے مجھے کراچی کی وہ کھٹارا ٹیکسیاں اور رکشے یاد آگئے جن میں کسی زمانے میں میٹر لگے ہوتے تھے لیکن شاید ہی کوئی آدمی میٹر پر سفر کرتا ہوگا کیونکہ ان میں وہ بے ایمانی ہوتی تھی کہ الامان والحفیظ۔ اس لئے سواریاں پہلے سے کرایہ طے کر لیتی تھیں۔ ایک بار میں نے ناظم آباد سے بنوری ٹاؤن تک رکشہ لیا۔ اس میں میٹر لگا تھا۔

ڈرائیور نے کہا میٹر سے جائیں گے۔ میں نے کہا قسمت کی بات ہے، یوں ہی طے کر لو۔ چھتیس روپے میں بات طے کر کے چل پڑے اور ساتھ ہی میٹر بھی چلا دیا۔ منزل پر پہنچے تو میٹر نے شاید پچاس روپے سے زاید رقم بنا لی تھی۔

دبئی کی ٹیکسی آور ایک ہندوستانی کی چالاکی کا واقعہ

ٹیکسی کے کرائے کے حوالے سے دبئی میں ایک لطیفہ سنا۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ٹیکسی والے ہمارے ملک کی طرح سواریاؓ بٹھایا کرتے تھے اور کرایہ ایک درہم ہوتا تھا۔ ایک ہندوستانی جب بھی ٹیکسی میں بیٹھتا، اترتے وقت معذرت کرتے ہوئے کہتا کہ بھائی میرے پاس سو کا نوٹ ہے کھلے نہیں، تو ٹیکسی والے چلے جاتے۔

شدہ شدہ یہ بات ٹیکسی والوں میں مشہور ہو گئی تو ایک ڈرائیور نے کہا کہ میں اس کو سبق سکھاؤں گا۔ اتفاق سے ایک دن وہ اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اترتے وقت سو کا نوٹ دکھا کر کہا کہ میرے پاس ریزگاری نہیں تو ڈرائیور نے کہا لاؤ، سو دے دو، میں کھلے دیتا ہوں۔ اس نے سو کا نوٹ دے دیا تو ڈرائیور نے اسے ننانوے سکے واپس کر دئے۔

اب یہ آدمی پولیس کے پاس چلا گیا کہ اس نے مجھے اتنے زیادہ سکے دے دئے ہیں۔ ڈرائیور نے پولیس کے سامنے اس کا پول کھولا تو پولیس والے نے کہا کہ جاؤ، جن جن لوگوں کو تم نے کرایہ نہیں دیا ان کو ایک ایک سکہ دے دو۔

گزشتہ قسط

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button