Columns

انسانی دماغ کی مختلف حالتیں اور اس کی پروگرامنگ کی عمر

انسانی دماغ کی مختلف حالتیں اور اس کی پروگرامنگ کی عمر

سید عرفان احمد

آئیے!سائنسی اعتبار سے انسانی دماغ کی مختلف حالتوں یا کیفیات کے بارے میں ہم چند بنیادی باتیں جان لیتے ہیں ہیں۔

انسانی دماغ کی چار حالتیں

انسان کا دماغ ہر لمحہ کسی نہ کسی کیفیت میں ہوتا ہے، یہ کیفیت ہمارے دماغ میں موجود مختلف لہروں کی وجہ سے سے ہوتی ہے ، یہ لہریں چار قسم کی ہوتی ہیں۔

الفا لہریںAlpha Waves
بیٹا لہریں Beta Waves
تھیٹا لہریں Theta Waves
ڈیلٹا لہریں Delta Waves

ان تمام لہروں کا تعدد (فریکوئنسی) مختلف ہوتا ہے جسے ای ای جی (E.E.G)سے ناپا جا سکتا ہے ۔ بیٹا لہر کی فریکوئنسی 21 سائیکل فی سیکنڈ ہوتی ہے ۔الفا لہر کی فریکوئنسی سات سے چودہ سائیکل فی سیکنڈ ہوتی ہے ہے ڈیلٹا لہرکی فریکوئنسی 1.5 سے نصف سائیکل فی سیکنڈ ہوتی ہے ۔

ذہن کی پروگرامنگ کی حالت

الفا کیفیت ہی وہ کیفیت ہے کہ جس میں ذہن کی پروگرامنگ ہوتی ہے چونکہ بچہ وقفے وقفے سے الفا کیفیت میں آرہا ہوتا ہے اس لیے اس عرصے میں بچے کی دماغ کی پروگرامنگ ہو جاتی ہے یعنی ہر بات، ہر آواز، ہر فقرہ، ذہن کی ہارڈ ڈسک پر نقش ہوجاتا ہے اور وہ بچہ لاشعوری طور پر اپنے ذہن میں اس انسٹال شدہ پروگرام پر عمل کرتا ہے اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔

زندگی کے ابتدائی سات برسوں کی اہمیت

جدید سائنسی تحقیق یہ دعوی کرتی ہے کہ کسی بھی فرد کی زندگی کے ابتدائی سات سال بے حد اہم ہوتے ہیں ، انہیں سات برسوں میں اس فرد کی زندگی کی مکمل پروگرامنگ ہو جاتی ہے وہ فرد اپنی بقیہ زندگی اسی پروگرامنگ پر عمل پیرا رہتا ہے۔

سات برس اور بعض ماہرین کے مطابق بارہ برس کی عمر تک کہ اس نے اسے جو عقائد و نظریات ،اوہام، خدشات دئے جاتے ہیں وہ اسی معلومات (Deta)کی روشنی میں آگے بڑھتا ہے اور اپنے نظریات اور خدشات کو مزید ترقی دیتا ہے۔ کسی فرد کی اولین ذہنی پروگرامنگ اس کے والدین، اہل خانہ اور پھر اساتذہ کرتے ہیں۔

یہاں ہم ایک ماہر سی جیمس جینسن کی کتاب Beyond the power of your Subconscious Mind سے کچھ مزید مزید تفصیل فراہم کر رہے ہیں سی جیمس جینسن شعور اور لاشعور کی تشکیل اور تکمیل کے بارے میں لکھتا ہے کہ انسانی دماغ پانچ اقسام کے برقیاتی سطحوں پر ہوتا ہے یہ برقیاتی سطحیں دراصل دماغ کے لہروں کی رفتار پر پر منحصر ہوتی ہیں ۔

دماع کی پانچ برقیاتی سطحیں

1 پیدائش سے لے کر دو سال کی عمر تک) ڈیلتا لیول 1.5 سے 4 ہرٹز تک
2 دو برس سے چھے برس کی عمر تک) تھیٹا لیول 4 سے 8ہرٹز تک
3چھے سے بارہ برس کی عمر تک) الفا لیول 8 سے 12 ہرٹز تک
4بارہ برس کی عمر کے بعد) بیٹا لیول 12 سے 40 ہرٹز تک
5 پانچویں دماغی کیفیت) گاما لیول 40 سے 200 ہرٹز تک

جب ہپناٹسٹ یا ہپنا تھراپسٹ کسی فرد کو ہپناٹائز کرتا ہے ہے تو اس وقت دماغی لہروں کی رفتار 7.4 ہرٹز ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو برس سے بارہ برس تک کی عمر میں میں ایک فرد پروگرام کئے جانے کی بہترین کیفیت میں ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسی عمر میں میں ہمارے جو یقین اور تصورات بن گئے وہی تاعمر چلیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جب کبھی عمر کے کسی بھی حصے میں اس کیفیت میں جاکر اپنے پرانے یقینوں اور تصوروں کو کو بدلنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ہمارے سیکھنے کے دو ذرائع

ہم دو بڑے ذرائع سے سیکھتے اور پھر انہی کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ اول ،ہم اپنے والدین سے سیکھتے ہیں اور بہت زیادہ سیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے والدین ہمارے لئے محبت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ بچپن میں سب سے زیادہ محبت اور رحم کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ہمیں یہ دونوں چیزیں سب سے زیادہ اپنے ماں باپ سے ملتی ہیں، لہذا ہم انہی کی طرف مرکوز ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں ان کی محبت کا انعام دے دیا ہے ۔ دوسرے بے آرامی سے آرام کی طرف بڑھتے ہیں اگر یہ آرام بہت زیادہ ہو جائے تو ہم ہم “خطہ آرام”(کمفرٹ زون) میں پھنس جاتے ہیں۔

پیدائشی طور پر سب کا ذہن خالی ہوتا ہے

گویا جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو ہمارا ذہن بالکل ہی خالی ہوتا ہے خالی برتن کی مانند۔ البتہ ہمارے اندر سیکھنے کے لئے انتہا کا تجسس اور شوق پایا جاتا ہے۔ دو برس کی عمر تک ہم چند بنیادی الفاظ سیکھ چکے ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے ہمیں اپنی مادری زبان کی شد بدھ ہو چکی ہوتی ہے۔ اس عرصے میں ہمارے دماغ میں جو معلومات بھی ذخیرہ ہوتی ہیں وہ زیادہ تر ہمارے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے آتی ہیں ۔اگر اس دوران گھر والے اس کے سامنے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں تو وہ خبیث معلومات بھی اسی عرصے میں دماغ میں ڈیرا ڈال دیتی ہیں ۔چھے برس کی عمر تک ہم اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں اچھی خاصی رائے قائم کر چکے ہوتے ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط، ہمارا برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے، ہمارے والدین اور بہن بھائی کیسے ہیں، اسکول اور محلہ کیسا ہے، وغیرہ۔ اسی طرح ہم یہ بھی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کن کاموں میں، میں بہتر ہوں اور کن میں، میں پیچھے ہوں۔
واضح رہے کہ ہماری تمام آرا یا تجزیوں کا تعلق حقیقت سے نہیں ہوتا بلکہ ہم جیسا سوچتے ہیں کہ ہم کیسے ہیں اور کیسا ہونا چاہیے ویسی ہی رائے قائم کرتے ہیں ہیں۔

باہر کی دنیا سے رابطے کی عمر

یقین اور ہمارے دماغ میں موجود معلومات زیادہ تر ہمارے والدین ،بہن بھائیوں کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں چونکہ کہ ہمارے دماغ میں کسی قسم کا متصادم یا مزاحم مواد نہیں ہوتا لہذا ہمیں جو معلومات بھی ملتی ہیں (اس بحث سے قطع نظر کہ حقیقت کے خلاف ہیں کہ نہیں)ہم انہیں من و عن قبول کر لیتے ہیں ہیں ۔چھ برس کی عمر میں ہم باہر کی دنیا سے رابطہ کرنا شروع کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں جو معلومات ملتی ہیں وہ ہماری چھے برس کی حاصل شدہ معلومات سے مختلف اور متصادم ہوتی ہیں ۔ یوں ہم ان سے اختلاف شروع کرتے ہیں ۔ اس وقت ہم زیادہ بہتر طور پر یہ جاننے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔تاہم نئی معلومات اور مواد کو وصول کرکے اسے ہضم کرنا اور قبول کرنا ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔ اکثریت کے اندر نئے معلومات اور مواد کے بارے میں مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے ،عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزاحمت بڑھتی جاتی ہے۔ آپ نے بھی بعض لوگوں کی زبانی سنا ہوگا کہ وہ کسی معلومات یا تحقیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ بھئی ،ہماری تو زندگی گزر گئی ہم نے تو یہ بات آج تک نہیں سنی۔

یہ بھی پڑھیں ؛

مائنڈ سائنس ، کتنی حقیقت ، کتنا جادو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button