Character Building & TarbiyahParenting & Tarbiyah challenges

جوائنٹ فیملی سسٹم اور بچوں کی تربیت

جوائنٹ فیملی سسٹم اور بچوں کی تربیت

تحریر: ڈاکٹر محمدیونس خالد

فیملی سسٹم یا خاندانی نظام بنی نوع انسان کا ایک ایسا بہترین ادارہ ہے جہاں انسان پل کر جوان ہوتاہے۔ اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوجاتاہے۔ یہ خاندانی نظام اس وقت سے قائم ہے جب سے انسان اس دنیا میں آباد ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی ایک پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کو پیداکرکے اللہ تعالی نے اس فیملی سسٹم کا آغاز فرمایا۔

اس وقت فیملی سسٹم کے دوماڈلز دنیا میں پائے جاتے ہیں ایک نیوکلیئر فیملی سسٹم (انفرادی خاندان) کہلاتاہے جبکہ دوسرا ماڈل جوائنٹ فیملی سسٹم یا مشترک خاندان۔ انفرادی خاندان کا مطلب یہ ہے کہ میاں، بیوی اور ان کے بچے الگ گھر میں مستقل خاندان بناکر رہنے لگیں۔ جبکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک سے زائدخاندان ایک ہی گھر میں ایک چھت کے نیچے زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔

 جوائنٹ فیملی میں میاں، بیوی اور ان کے بچوں کے علاوہ دادا، دادی، چچا، چچی، تایا،تائی، پھوپھیاں اور کزنز وغیرہ سب ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس سسٹم میں خاندان کا ایک سربراہ ہوتا ہے سب کمانے والے اپنی کمائی اس کے ہاتھ میں دیتے ہیں اور وہ خاندان کے تمام امور کا ذمہ دار اور نگران ہوتا ہے۔

مغربی دنیا او رعرب علاقوں سمیت دنیا کے بندوبستی علاقوں میں زیادہ تر انفرادی خاندان(نیوکلیر فیملی سسٹم) کا نظام پایاجاتاہے۔ جبکہ ہمارے برصغیر پاک وہند میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا تصور قدیم زمانے سے رائج ہے اور اب بھی یہ تصور کافی مضبوط ہے۔

اس آرٹیکل میں ہمیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی تربیت کے مسائل کے حوالے سے معروضات پیش کرنی ہیں۔ لیکن پہلے ہم جوائنٹ فیملی سسٹم کے فوائد اور اس کے عمومی مسائل(چیلنجز) کا جائزہ پیش کریں گے۔ جو ائنٹ فیملی سسٹم کے کئی فوائد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کے فوائد

جوائنٹ فیملی سسٹم کے بے شمار فوائد ہیں۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں رہتے ہوئے انسان اکیلا محسوس نہیں کرتا۔ کسی بھی دکھ درد اور خوشی وغمی میں سارے فیملی ممبرز ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اور سب مل کر معاملات کو نمٹاتے ہیں۔ جس سے حوصلہ ملتاہے اور انسان اکیلا پن محسوس نہیں کرتا۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں سارے فیملی ممبرز باہمی اتحاد واتفاق سے رہتے ہیں۔ ان کی ٹیم ورکنگ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ ہر کام کو سب مل کرانجام دیتے ہیں جس سے کسی ایک فرد پر زیادہ بوجھ نہیں آتا۔ اس سسٹم کی ایک خوبی فیملی اقدار اور ان کی پاسداری کی صورت میں ہوتی ہیں ، ان اقدار کی پاسداری سارے فیملی ممبرز مل کرکرتے ہیں۔ مثلا ان میں ایک دوسرے سے اپنائیت کے ساتھ سلوک کے علاوہ بڑے چھوٹے کی تمیز او ر کچھ دیگرادب آداب ہوتے ہیں جن کو وہ ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس سسٹم میں سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنا سیکھتے ہیں۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں کا خیال رکھنا اس سسٹم کی اچھی قدروں میں شمار کیاجاتا ہے۔

اس سسٹم میں رہنے والوں کو پریٹیکل زندگی کے طورطریقے سیکھنے کا بڑااچھا موقع ملتاہے۔ گھر میں والدین کے علاوہ دادا، دادی، چچا، تایا اور دیگربڑے افراد مینٹور کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا اور دوسروں کے مزاج کا خیال رکھنا اہم گر ہے جو جوائنٹ فیملی کے ممبرز بہت اچھے طریقے سے سیکھتے ہیں۔

جوائنٹ فیملی میں رہنے والے لوگوں کی سوشل اسکلز اچھی ہوتی ہیں کیونکہ ان کو بچپن سے مختلف لوگوں سے معاملات کرنا پڑتاہے۔ نیز جوائنٹ فیملی میں رہنے والے لوگوں میں خوداعتمادی بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔

جوائنٹ فیملی کے مسائل

جوائنٹ فیملی سسٹم کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہاں اس کے چیلنجز بھی کافی زیادہ ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند کی نشاندہی کی جاتی ہے

آزادی کا فقدان

اس فیملی سسٹم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ انسان اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہوتا۔ وہ ہر کام کیلئے دیگرفیملی ممبرز سے رائے لینے پر مجبور ہوتاہے۔ وہ آزادی سے کہیں آناجانا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے مفاد میں وہ کوئی بڑا فیصلہ کرسکتاہے۔

پرائیویسی کی کمی

اس سسٹم میں پرائیویسی کی شدید کمی ہوتی ہے۔ گھر میں ایک آدھ کمرہ اپنے رہنے کیلئے ہوتا ہے، باقی کوئی چیز اپنی نہیں ہوتی۔ سب کچھ مشترک ہوتاہے۔ سارا ختیار گھرکے سربراہ کا ہوتاہے اپنا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا۔ اور ہروقت گھر میں کسی نا کسی کا آناجانا لگا رہتاہے۔

باہمی لڑائی جھگڑے

جوائنٹ فیملی میں لڑائی بھی خوب ہوتی ہے۔ فیملی ممبرز نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک بھائی کی کمائی پر دوسرے بھائیوں کے اخراجات چل رہے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے باہمی اختلافات شروع ہوجاتے ہیں اور با ت لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ گھر میں بچوں کی وجہ سے بھی بسااوقات لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔

احساس ذمہ داری میں کمی

جوائنٹ فیملی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ہر فیملی ممبرمیں برابر ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے ہر ممبرکی پوٹینشل صلاحتیں کھل کر سامنے نہیں آتیں۔ بعض افراد اپنے ذمہ کا چھوٹا ساکام کرکے دیگر کاموں کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ یوں ہر کوئی چل چلاو والا کام کررہاہوتاہے۔

پیرنٹنگ اور تربیہ کے مسائل

جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی تربیت کے بے شمار مسائل ہوتے ہیں۔ گھر میں رہنے والے ہر فرد کو تربیت کا پورا احساس نہیں ہوتا اور جن کو اپنے بچوں کی تربیت کا احساس ہوتا ہے وہ اسے کرنے پر قادر نہیں ہوتا اور کڑھتا رہتاہے۔

اس لیے کہ تربیہ کیلئے پورے گھر کے ماحول کو درست کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے جو اپنے اختیار میں ہوتا ۔ اس وجہ سے والدین جو تربیہ کے حوالے محتاط ہوتے ہیں اور جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں وہ شدید طور پر اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کا شرعی نکتہ نظر

شرعی نکتہ نظر سے عبادات میں اصل حرمت ہے جبکہ کسی عبادت کے جواز یامشروعیت کے لئے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلا فرض نمازوں کی رکعات کل سترہ ہیں اگرکوئی ان رکعات میں کمی بیشی کا خواہاں ہوتو اسےاس کے جواز یا مشروعیت کو دلیل سے ثابت کرنا پڑے گا۔ ورنہ عبادات میں کمی بیشی حرام قرار پائے گی۔

اس کے برعکس معاملات اور معاشرت میں اصل حلت ہے جبکہ حرمت کو ثابت کرنے کیلئے دلیل شرعی کی ضرورت پڑے گی۔ شریعت کے اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فیملی سسٹم جوائنٹ ہونا چاہئے یا سنگل۔ یہ خالص انتظامی معاملہ ہے۔ جو معاملات کے زمرے میں آتاہے۔ اور معاملات میں اصل حلت ہے لہذا فیملی سسٹم آپ جورکھنا چاہیں اس میں بذات خود کوئی برائی نہیں۔ البتہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سسٹم کو اختیار کرنے کے نتیجے میں کیا وہ شرعی احکام کی تنفیذ کیلئے موافق ر ہے یا غیر موافق۔

شریعت کے اس اصول کوسامنے رکھتے ہوئے جوائنٹ فیملی سسٹم کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کئی شرعی احکامات کیلئے بہت زیادہ موافق نہیں۔ مثلا اس میں پرائیویسی بہت زیادہ برقرارنہیں رکھی جاسکتی جو فیملی سسٹم کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں نامحرم ساتھ رہنے کی وجہ سے پردہ کے حکم پرسوفیصد عمل کرنا ممکن نہیں۔ اِس میں تھوڑی سی بے احتیاطی سے بڑے گناہوں کا ارتکاب ہوسکتاہے۔ اس سسٹم میں مالی معاملات بہت زیادہ واضح نہیں ہوتے، کسی پر مالی بوجھ زیادہ پڑتا ہے جبکہ کسی پر کم۔ اِس سسٹم میں رہتے ہوئے بظاہر خوش نظر آنے والے فیملی ممبرز بھی دل میں ایک دوسرے کے لئے بغض وکینہ یا بغض نہ سہی، ایک دوسرے کے خلاف گلے شکوے ضرور رکھتے ہیں۔

اس سسٹم میں رہتے ہوئے ماں باپ کی خواہش کے باوجود بچوں کی اعلی تربیت ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ جوائنٹ فیملی میں سب کچھ اپنے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ نیز اس سسٹم میں رہتے ہوئے سب لوگ اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ بھی نہیں سمجھتے جو شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر علاقوں میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا تصور موجود نہیں۔ عرب معاشرے میں اس کا وجود نہیں پایا جاتا ۔ خود رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگیوں پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کیلئے الگ الگ حجروں کا انتظام کیا تھا۔ اور سب کے کھانے پینے کے معاملات الگ رکھے گئے تھے۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جن کی بناپر یہ سسٹم شریعت کی منشا کو سپورٹ نہیں کرتا۔ لہذا حتی الامکان مشورہ اور تجویز سنگل فیملی ہی کی دی جائے گی۔ تاہم اس کے باوجود یہ فیملی سسٹم شریعت کی نظر میں کوئی ناجائز بھی نہیں۔ اگرفیملی ممبرز مل بیٹھ کران قباحتوں کو دورکرنے پرآمادہ ہوجائیں تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

جوائنٹ فیملی میں تربیہ کے مسائل اور حل

اوپر ہم نے جوائنٹ فیملی سسٹم میں تربیہ کے کئی مسائل کا ذکر کیا۔ مثلا بچوں پر والدین الگ سے توجہ نہیں دے سکتے۔ ان کی تربیہ کا خاطرخواہ انتظام نہیں کرسکتے۔ پورے گھر میں تربیہ کا ماحول بھی نہیں بنایاجاسکتا جو نہایت ضروری ہے۔ سسٹم کی مجبوریوں کی وجہ سے والدین خاص کروالدہ کے شکوے شکایات بچوں کے سامنے آتی رہیں گے جو تربیہ کیلئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ جوائنٹ فیملی میں بچوں کی لڑائی وغیرہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا ان والدین کوکرناپڑتاہے جو جوائنٹ فیملی سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں۔

تاہم والدین جب تک اس سسٹم کا حصہ ہیں ان کو اپنے دیگر مسائل کے علاوہ اپنے بچوں کی تربیت کا درست طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔ اس کیلئے والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے پیرنٹنگ کا پورا کورس سیکھیں اور پورے تربیتی سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

جوائنٹ فیملی میں بچوں کے حوالے سےایک اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ اس سسٹم میں بچے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے جب آپس میں چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں تو والدین بھی اس لڑائی کو مائنڈ کرجاتے ہیں۔ اسے سیریس لینے لگتے ہیں اور بعض اوقات یہ والدین بچوں کی لڑائی میں خود بھی شامل بھی ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے فیملی میں باہمی تعلقات خراب ہونے لگتے ہیں۔

اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ وہ یہ لڑٖائی دل سے نہیں کرتے اور نہ ہی دل میں رکھتے ہیں۔ یہ ان کی عمر کا تقاضا ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپس میں لڑنے لگتے ہیں اور خوب لڑتے ہیں پھرتھوڑی ہی دیر میں آپس میں کھیلنے بھی لگتے ہیں۔ ان کے کھیل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ لڑائی ہوئی ہی نہیں تھی۔

والدین کے لئے یہاں کرنے کا کام یہ ہے کہ بچوں کی لڑائی کو بچوں کی پراپرٹی سمجھ لیں۔ اس لڑائی کی وجوہات کو دور ضرورکردیں تاکہ بچے دوبارہ آپس میں لڑیں لیکن اس کو خود دل میں لے کرنہ بیٹھ جائیں۔ یہ بچوں کی لڑائی ہوتی ہے اوربچے دل کے سچے ہوتے ہیں وہ تھوڑی ہی دیر میں خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم تمام والدین کو اپنی ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دینے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

یہ بھی پڑھیں:

آئیڈیل تربیت اولاد فیملی پلاننگ(پہلی قسط)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button