ColumnsMadaris

مدارس، علماء اور ہنر مندی

مدارس، علماء اور ہنر مندی

تحریر: امیرجان حقانی

مدارس، علماء اور ہنر مندی

اپنے پیشے سے شہرت پانے والے بڑے اہل علم

ہنر ہر انسان کی ضرورت ہے۔ بحیثیت انسان ہر دور کے علماء امت نے ہنر مندی کو ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کیا ہے اور ایسا کرنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کی ہے۔ اہل علم کی ایک بڑی تعداد اپنے پیشے کی نسبت سے خصاف ،نساج، حلاج، دباغ، حلوائی،حصیری، حریری اور قدوری جیسے ناموں سے مشہور ہوئی اور اس قدر مشہور کہ آج لوگ ان کو انہی پیشے والے ناموں سے جانتے ہیں ان کے اصل نام تک اکثر کو معلوم نہیں ۔
تاریخ میں ایسے ہزاروں کردار ہیں جو حدیث و فقہ کے ماہر تھے، فضل و کمال کی مسند پر تھے مگر کوئی جوتا بناتا تھا، کوئی کوئی کپڑا بننے والا، کوئی بیچنے والا، کوئی تیل بیچنے والا، کوئی نائی تو کوئی موچی کے ہنر سے رزق حلال کمارہا تھا.اور علم و فن میں عروج پارہا تھا اور تاریخ میں اپنے آپ کو امر کررہا تھا.

مدارس، علماء اور ہنر مندی

ماضی قریب اور عصر حاضر کے ہنر مند علماء

دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، مولانا مفتی محمد شفیع کتابوں کی جلد کا کام کرتے تھے. مولانا نور محمد نے طباعت کا کام کیا. شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا مفتی رفیع عثمانی کتابوں کے کاروبار سے منسلک تھے. مولانا اسلم شیخ پوری صاحب تدریس کیساتھ شہد اور مسواک بیچا کرتے تھے. مولانا مترجان بکریاں چراتے تھے. مولانا مفتی تقی عثمانی کتابوں کی تجارت کرتے ہیں۔ ہزاروں مثالیں ہیں.آج بھی بہت سارے سمجھ دار علماء ایسا ہی کررہے ہیں.

غربت انسان کو کفر تک پہنچاتی ہے

مگر مجھ جیسا کوئی مدارس کا پڑھا ہوا سماجی زندگی کا گہرا مشاہدے کے بعد، مدارس و جامعات میں باقاعدہ نظم کے ذریعے “ہنر” کی بات کرتا ہے، جدید اسکلز اور مہارتوں کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے اور اسلاف و اکابر کے حوالے بھی دیتا ہے اور اس کو وقت کی ضرورت اور مقتضائے حال بھی قرار دیتا ہے، تو پتہ نہیں کیوں لوگ بھڑک اٹھتے ہیں بالخصوص مدارس سے وابستہ احباب. کیوں اس کے پیچھے سازش تلاش کرتے ہیں کیوں ان کو رسول اللہ کا فرمان “کادالفقر ان یکون کفرا”(غربت انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے) نظر نہیں آتا.

مدارس، علماء اور ہنر مندی

کیا علم وفضل کے ساتھ ہنر مندی ممکن نہیں ؟

کیا یہ ممکن نہیں کہ آج بھی علم وفضل اور تحقیق و تدریس کیساتھ مدرسے کا کوئی فاضل کمپوزز ، ڈیزائنر، گرافک ڈیزائنر، فوٹو گرافر، پیج میکر، ویبڈیزائنر،ڈسٹری بیوٹر، سپلائر ، سیلز مین، کیپر، شوومیکر، مارکیٹنگ منیجر، ہوٹل منیجر، لیب منیجر، بینکر، فنانشل ایڈوائزر، اکاونٹنٹ، اکانومسٹ، بک سیلر، آٹومکینک، موبائل میکنک، ہیئر ڈیزائنر، کارپینٹر، مسینر
ٹیلر، کنسلٹنٹ (ہرشعبہ کا) گائیڈر، ٹور اپریٹر، ٹرینر
کیریئر کونسلر، ٹرانسلیٹر، ایڈیٹر، رپورٹر، کالمسٹ
نیوز ایڈیٹر، پروپوزل رائٹر، پروفیسر ریسرچر، پبلشر، موٹیویشنل اسپیکر، فیوزوتھراپسٹ ،ایکسرے ٹیکنیشن، ریڈیالوجسٹ، آپٹیشن، ریسپشینسٹ ،پیپرسیٹر،ایویلویٹر، گارڈنر، فارمر، سنگر(حمد، نعت اور نظم) ،ڈریس ڈیزائنر، پلمبر، الیکٹریشن، بیوٹیشن، ،آئیرمین، باکسر، ریسلر،فٹ بالر، کرکٹر ، ایڈوکیٹ، انجینئر ، ڈاکٹر ، ایڈمینسٹریٹر وغیرہ وغیرہ بن جائے.

مدارس، علماء اور ہنر مندی

درس و تدریس کے ساتھ مناسب پیشے اختیار کئے جا سکتے ہیں

غرض آج کے دور میں مذکورہ پیشوں سمیت ہزاروں مناسب پیشے ہیں جن کو اختیار کیا جاسکتا ہے.وقت کیساتھ پیشوں کی ہیئت اور ساخت میں تبدیلی آئی ہے. کچھ کے نام بدل گئے ہیں اور کچھ نئے کام دنیا میں وجود میں آئے ہیں. ان کی مارکیٹ ویلیو کچھ زیادہ ہی ہے.ان میں سے کسی ایک میں مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کو ذریعہ معاش بناکر باقی سارا ٹائم تدریس و مطالعہ کو دیا جائے.
جس پیشہ کے ساتھ بھی دلی لگاؤ ہے اس کو اختیار کرنے، ڈگری حاصل کرنے اور ڈپلومہ و ٹریننگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، ان میں سے ایک بھی پیشہ ایسا نہیں جو آپ کو علم وفضل سے روکے.اپ کو بڑے انسان بننے میں ان میں سے کوئی ایک بھی پیشہ ممد ومعاون بن سکتا ہے. ہمارے اسلاف بھی کسی ایک پیشہ کو ذریعہ معاش بناکر پھر علم و فضل کے کمال کو پہنچے تھے. دو چار کی ہی سوانح عمریاں پڑھی جائیں تو سب عیاں ہوگا.

کیا چند شعبہ ہائے زندگی تک خود کو محدود کرنا دانش مندی ہے؟

مجھے حیرت ہے کہ مدارس و جامعات کے فضلاء صرف مسجد کے امام و خطیب اور مکتب و مدرسہ کے استاد بننے پر کیوں اکتفاء کرتے ہیں.. کیا سالانہ ہزاروں فضلاء کو جگہ اور جاب دینے کے لیے اتنے مدارس، مکاتب اور مساجد ہیں؟
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مدارس و جامعات کے ارباب اپنی روحانی اولاد کو صرف چند قسم کے روایتی شعبوں تک کیوں محدود کر رہے ہیں.کیا ان کی کل ترجیحات یہی ہیں باقی سارے شعبہ ہائے زندگی اور پیشوں کو چھوڑ دینا ہے؟.

یہ بھی پڑھیں

مدارس، علماء اور ہنر مندی

جدید تعلیم یافتہ حضرات کے کچھ اعترضات اور ان کے جوابات

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button