Columns

معمر قذافی کا لیبیا اور اس کا قدیم شہر صحرا کا موتی غدامس

معمر قذافی کا لیبیا اور اس کا قدیم شہر صحرا کا موتی غدامس

نوید نقوی

قذافی اسٹیڈیم لاہور اور معمر قذافی

لاہور کا قذافی اسٹیڈیم لیبیا کے مشہور رہنما معمر قذافی کے نام پر اس وقت رکھا گیا جب 1974 میں وہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے دنیا کے مشہور اسلامی رہنماؤں کے ساتھ لاہور پہنچے تھے اور ان کا مشہور جملہ آج بھی اسلامی دنیا میں زبان زدِ عام ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ پاکستان اس وقت اپنے بنگالی بھائیوں سے جدا ہو چکا تھا اور اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن کو دعوت دے کر بنگلہ دیش کی حقیقت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ نئے رشتے کی بنیاد بھی رکھ دی تھی تاکہ ہمارے بنگالی بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہیں اور وہاں بھارت کا اثر کم کیا جا سکے، یہ علیحدہ بحث ہے کہ ہمارے رشتے آج کیسے ہیں اور بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر کس حد تک ہے۔ مختصر یہ عرض کرتا چلوں کہ اسلامی ممالک کو ایک طاقت بنانے کا خواب دیکھنے پر استعماری طاقتوں نے اس وقت اکٹھے ہونے والے تمام رہنماؤں کو نہ صرف سزا دی بلکہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اسلامی ممالک کا ایک بلاک اور مشترکہ طاقت بننے کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا۔

خوشحال لیبیا کے معمار کرنل قذافی کائامریکا اور اتحادیوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل

لیبیا افریقہ میں ایک خوشحال اور طاقتور ملک تھا اور معمر قذافی نے اپنے طویل اقتدار میں اس کو کافی حد تک ترقی یافتہ بھی بنا لیا تھا لیکن عرب سپرنگ کے نام پر جب انقلاب کی لہر نے تیونس سے شروع ہو کر لیبیا کا رخ کیا جہاں کے حکمران امریکہ کا حکم ماننے سے انکار کر چکے تھے اور اس کو آنکھیں دکھانے لگے تھے تو ان کو اس جرات کی سزا دینے کے لیے باغیوں کی مدد کی گئی اور ایک طویل خونریز جنگ کے بعد 17 اکتوبر 2011 ء کو اسلام کے ایک عظیم رہنما کو سر عام بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اس وقت کے بعد لیبیا میں ایک مشترکہ حکومت نہیں بن سکی ہے اور آج بھی وہاں خانہ جنگی جیسے حالات ہیں۔

لیبیا کے لئے قذافی کے انقلابی اقدامات

معمر قذافی کے زمانے میں وہاں سو فیصد تعلیم تھی ہر فرد کو گھر دیا جاتا تھا پیدائش کے بعد ہی بچے کے نام وظیفہ جاری کردیا جاتاتھا قذافی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے امریکا اور یورپ کے سامنے سر تسلیم خم اور ان کے نظام کو اپنانے کی بجائے اپنا نظام مرتب کیا لیبیا کا معاشرہ ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہے جہاں کے لوگ باقی افریقہ کی نسبت کافی خوشحال ہیں۔

معمر قذافی کا لیبیا ایک منظر
لیبیا کا ایک منظر

لیبیا کا محل وقوع

لیبیا رقبے کے اعتبار سے مغربی افریقہ کا چوتھا بڑا ملک ہے جس کے شمال میں بحیرۂ روم، مشرق میں مصر، جنوب مشرق میں سوڈان، جنوب میں چاڈ اور نائیجیر جبکہ مغرب میں تیونس اور الجیریا واقع ہیں اس خطے کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے، لیبیا میں دو ہزار کلومیٹر وسیع ساحل سمندر ہیں جو بحیرۂ روم کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں آثار قدیمہ کے مراکز بھی موجود ہیں جنھیں رومی سلطنت سے جوڑا جاتا ہے اور یہ اٹلی کے مقامات سے کم نہیں ان میں سے متعدد کو اقوام متحدہ نے ثقافتی ورثہ قرار دیا ہوا ہے۔

رقبہ اور آبادی

لیبیا کا کل رقبہ 1759540 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 7124966 نفوس پر مشتمل ہے۔ لیبیا میں آبادکاری کرنے والوں میں سب سے قدیم قبیلہ بربر شمار کیا جاتا ہے یاد رہے کہ عظیم فاتح اندلس طارق بن زیاد اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور دور جدید کے لیبیا کی آزادی کے ہیرو عمر مختار بھی بربر تھے۔

اقوام متحدہ کی حمایت سے آزادی حاصل کرنے والا پہلا ملک

لیبیا دنیا کا پہلا ملک ہے جس کو اقوام متحدہ کی حمایت اور قرار داد کی رو سے 1951 میں برطانیہ سے آزادی ملی۔ طرابلس اس کا دارالحکومت ہے اور اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے جس پر تفصیل سے روشنی انشاء اللہ پھر کبھی ڈالوں گا۔

لیبیا کا دو ہزار سالہ قدیم شہر جہاں ائیر کنڈیشنر چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی

اس کے ایک قدیم شہر کو آج بھی مغربی دنیا میں صحرا کا موتی کہا جاتا ہے اس شہر میں گرمیوں کے موسم میں بھی ائرکنڈیشنز چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ یہاں کی عمارتیں گرمی کو روکتی ہیں۔
یہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے چھ سو کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے جو کم از کم دو ہزار سال سے موجود ہے تاہم اس شہر کو اس کی حالیہ شکل ساتویں صدی میں عرب مسلمانوں نے دی جس کے بعد یہ پھلتا پھولتا رہا۔ اس شہر کی خصوصیت اس کی تعمیر کا وہ انداز ہے جو اسے افریقہ کے شمالی صحرا کے گرم موسم اور طوفانوں سے بچاتا ہے۔

غدامس کو یونیسکو عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے

اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے اور یہ شہر صحرا کے موتی کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تعمیر کیا ہوتی ہے۔ چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت میں شہر کی آڑھی ترچھی تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں نکلنا اور گھومنا ایک سنہرا خواب محسوس ہوتا ہے۔ کھجور سے بنی چھتوں کے درمیان موجود خلا سے چھنکتی سورج کی کرنیں روشنی اور ہوا کا بہترین انتظام کر رہی ہوتی ہیں۔

تاریخی شہر کی حیرت انگیز تعمیراتی تکنیک

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس طرح درجہ حرارت بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ ان آڑھی ترچھی گلیوں کو بنانے کا مقصد صحرا کی ریت کو روکنا تھا۔ اندرونی دیواریں، جو چونے کی تہہ سے چمک رہی ہوتی ہیں خشک مٹی کی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ ریت، تنکوں اور مٹی کے امتزاج سے پتھروں کو نمی سے محفوظ بنا دیا گیا ہے ان سب مناظر کو دیکھنا آنکھوں کو طراوت بخشتا ہے۔ یہ تکنیک اتنی بہترین کیوں ہے؟ اس کا راز دیوار کی تعمیر میں چھپا ہے۔ مٹی کی موٹی دیواریں سورج کی حدت کو دن میں عمارت کے اندر داخل ہونے سے روکتی ہیں اور رات کے وقت اسی حدت کو سرد آسمان کی جانب لوٹا دیتی ہیں۔ صبح تک یہ دیواریں دوبارہ ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ہیں اور یہ حفاظتی عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

کھجور کے درختوں کی بنی جاذب نظر اور پر اسرار مساجد

دستیاب تعمیراتی مواد کا ماہرانہ استعمال کم تر وسائل سے زیادہ سے زیادہ آرام دہ تعمیر کو ممکن بناتا ہے۔ اس صحرا میں اس سے ایئر کنڈیشنر کے بغیر ٹھنڈک مہیا کرتا ہے اور سردی میں گرم رکھتا ہے۔ یہاں سادہ کھجور کے درختوں سے بنی کئی مساجد موجود ہیں جن میں سے اب کم ہی استعمال میں لائی جاتی ہیں، زیادہ تر صرف جمعے کے دن، تاہم ان کی محرابیں کافی شاندار ہیں جن پر تصاویر اور دیگر دلکش تحریریں بنی ہیں جو ان کی جاذبیت اور پراسراریت میں اضافہ کرتی ہیں۔


شہتوت کے درختوں سے گھرا چوک

غدامس شہر کے وسط میں شہتوت کے درختوں سے گھرا چوک شہر کی خاص پہچان ہے اور یہ کسی زمانے میں بازار ہوا کرتا تھا جہاں غلاموں کی فروخت ہوا کرتی تھی۔ غدامس ایک ایسے اہم مقام پر واقع ہے جہاں تیونس، الجیریا اور لیبیا کی سرحد ملتی ہے۔ یہاں سے اونٹوں پر سامان سے لدے قافلے مغرب میں ٹمبکٹو، جنوب میں گھاٹ اور شمال میں یونانی بندرگاہوں کا رخ کرتے تھے۔

ثقافتوں کے میلاپ کا اہم مقام

یہ ثقافتوں کے ملاپ کا اہم مقام بن گیا اور اس کے شہریوں جن کو غدامسیا کہا جاتا تھا کی عزت اور ربتے میں بہت اضافہ ہوا۔ اس شہر کی ترقی کا سفر انیسویں صدی تک غلامی کی روایت کے خاتمے تک جاری رہا جس کے دوران یہاں سلطنت عثمانیہ کا راج بھی رہا۔ بعد میں بیسویں صدی کے آغاز میں اطالوی اور فرانسیسی نوآبادیاتی نظام نے یہاں کا رخ کیا اور پھر اس کے تمام خزانے ان مغربی لٹیروں نے لوٹ لیے۔
سنہ 1980 میں پانی کی کمی اور جدید سہولیات کے فقدان کی وجہ سے معمر قذافی نے قریب ہی ایک نیا شہر آباد کرنے کا حکم دیا۔آج اس شہر میں کوئی مستقل رہائشی نہیں تاہم موسم گرما کی حدت میں یہاں کی بہتر ماحولیاتی تعمیر کی وجہ سے قریبی شہر کے لوگ کنکریٹ سے بنے اپارٹمنٹ چھوڑ کر یہاں کی مساجد اور چائے خانوں کو آباد کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں موجود ایک سو اکیس خاندانی باغیچوں کی دیکھ بھال بھی کرنے آتے ہیں جن کو ایک زیر زمین چشمے اور چند کنووں کی مدد سے بنائے گئے پیچیدہ نظام سے سیراب کیا جاتا ہے۔ گرم موسم میں یہاں کی خواتین چھتوں پر ہی سو جاتی تھیں۔

قدیم دور سے سیاحوں کا پسندیدہ مقام

قدیم زمانے سے ہی یہ شہر بیرونی سیاحوں کا پسندیدہ مقام بن گیا تھا اور وہ یہاں کی فن تعمیر کا مزہ لیتے تھے اس شہر کی خاص پہچان یہ تھی کہ اسلامی اور افریقی ثقافت کا علمبردار ہونے کے باوجود مرد اور خواتین دونوں اس شہر کی خوبصورتی، ذہانت اور پیچیدگی میں حصے دار تھے جو صحرا کی گہرائیوں میں گم ہو چکا ہے۔ پہاڑوں، ریت کے طوفانوں، اونٹوں اور گاڑیوں کے زنگ آلود ڈھانچوں کے درمیان کئی گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب آپ غدامس پہنچیں تو وہاں کی تاروں بھری راتوں میں افریقی سرزمین کی پراسرار خاموشی آپ کو سکون بھی دے گی اور خوفزدہ بھی کرے گی۔ آج لیبیا میں بے یقینی کی کیفیت برقرار ہے پھر بھی آپ لیبیا جانے کا رسک لیں تو غدامس کی قدیم گلیوں میں چہل قدمی کرنا نہ بھولیں۔

یہ بھی پڑھیں:

استنبول یورپ اور ایشیا کو ملانے والا تاریخی شہر

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button