تاریخ اسلامی

مسلم اندلس کی تاریخ اور علمی میراث

مسلم اندلس کی تاریخ اور علمی میراث
تحریر ؛ جبران عباسی

انگریز مقالہ نگار میریلن لکھتی ہیں ” مسلم اسپین (اندلس) واحد سرزمین ہے جہاں مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں نے مل کر جدید علوم پر تجربات کئے اور ہماری سائنسی دنیا کی بنیاد رکھی”۔
تاریخ دان گلک کہتے ہیں ” مسلم اندلس ہی میں لاطینی علوم کا ترجمہ کیا گیا جو بعد ازاں یورپ کے نشاطِ ثانیہ کی وجہ بنے”۔

اگر مسلمانوں نے دنیا کو پہلی یونیورسٹی جامعہ القرویین دی ہے تو دنیا میں پہلا سکول سسٹم بھی اندلس میں امیر عبدالرحمن نے قائم کیا تھا جہاں بچے دینیات، سائنس، حساب اور گرائمر کی یکساں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
جب نویں صدی میں یورپ میں سب سے بڑی لائبریری سینٹ گال چرچ کی تھی جس میں صرف 36 مسودات تھے تو اسی دور میں قرطبہ کی صرف ایک لائبریری میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔
عیسائی پادری اپنے نوجوان سکالروں سے نالاں رہتے تھے کہ وہ اپنی علم کی پیاس عرب لٹریچر سے بجھاتے ہیں حالانکہ انھیں عیسائی لاطینی علوم کو فروغ دینا چاہیے۔
ہوا سے چلنے والی پن چکیاں ہوں یا انجن کا پسٹن، فلور ملز، کاغذ کا استعمال، انسان کی اڑان بھرنے کی کوششیں، سکول سسٹم، لائبریریاں، دنیا کا پہلا سکائی اسکپر، سرجری اور لاتعداد ایجادات کا سہرا اندلس کے عظیم مسلمان سائنس دانوں کے نام جاتا ہے۔

صلیبی عیسائی کہتے تھے کہ اندلس یورپ کے سینے میں مسلمانوں کا پیوست کردہ ایک خنجر ہے لیکن یورپ کے دانشور اور مصنفین اس بات پر مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ یورپ کے ڈارک ایج سے نکلنے اور نشاط ثانیہ کے ابتدائی دور داخل ہونے میں اندلس کا علمی کردار نمایاں ہے۔

آخر کیسے مسلمانوں نے یورپ کے عین مرکز میں واقع اسپین پر 750 سال تک حکمرانی کی؟ قرطبہ و غرناطہ کو مسلمانوں کا دل کیوں کہا جاتا تھا؟ کہاں گئی اندلس کی علمی میراث؟ اسپین میں مسلمانوں کی یادگاریں مٹانے کے باوجود مسلمانوں کے علمی کارنامے کیوں نہیں بھلائے جا سکے؟ یہ سب اور بہت کچھ جاننے کےلئے اس مضمون کا مطالعہ کیجیے۔

اسپین کی اسلامی تاریخ( 711- 1492 عیسوی)

اسپین کی اسلامی فتوحات
(711 تا 755 عیسوی)

اسپین میں مسلمانوں کی فتوحات کا آغاز 711 عیسوی میں طارق بن زیاد نے کیا تھا۔ وہ سمندر کے راستے جبل الطارق کے پہاڑوں پر سات ہزار لشکر کے ساتھ اسپین میں داخل ہوئے تھے۔
طارق بن زیاد نے یہاں اپنی کشتیاں نذر آتش کرنے کے بعد تاریخی خطاب کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سرزمین کو فتح کریں گے یا جام شہادت نوش کریں گے۔
وہ اسپین کے وزیر جولیان کی دعوت اور شمالی افریقہ کے اموی گورنر موسٰی بن نصیر کے حکم پر یہاں آئے تھے۔ جولیان کی بیٹی اسپین کے نارمن بادشاہ روڈرک کے حرم میں یرغمال تھی۔ تاہم سپین میں لشکر کشی اسلامی فتوحات کے ایک روایتی نظریے کی توسیع تھی۔
طارق بن زیاد نے جنگ لقاط میں روڈرک کو قتل کر دیا اور عیسائی فوج کو شکست فاش ہوئی۔ شکست ذدہ عیسائی فوج وادی تولیدو میں پھر جمع ہوئی تاہم طارق بن زیاد نے ان کو یہاں بھی کچل کر رکھ دیا۔
اگلے سات برس طارق بن زیاد، موسی بن نصیر اور اسلامی لشکروں نے پورے آئبیرین پیننسولا پر قبضہ کر کے موجودہ اسپین اور پرتگال کے ملکوں پر اسلامی دور حکومت کی بنیاد رکھی ۔

اموی خلافت کا عہد زریں
( 755 تا 1013 عیسوی)

جب 750 عیسوی میں عباسیوں نے اموی خلافت کا خاتمہ کر دیا اور اموی شہزادوں کا قتل عام کیا تو صرف ایک شہزادے عبدالرحمان کسی طرح زندہ بچ نکلے اور اسپین میں پناه گزین ہوئے۔
عبدالرحمان اول نے 755 عیسوی میں قرطبہ شہر پر اپنی حکومت قائم کی اور اسپین میں نئی اموی حکومت کا آغاز کر دیا۔
عبدالرحمان اول نے صرف امیر کا لقب اختیار کیا تھا تاہم 929 عیسوی میں عبدالرحمان سوم نے امیر کا لقب ترک کر کے خلیفہ کا خطاب اپنے لئے منتخب کیا۔ اموی خلافت 1013 عیسوی میں بربر قبائل کے ہاتھوں اس وقت ختم ہوئی جب قرطبہ شہر پر حملہ کر کے اموی خلیفہ ہاشم دوم کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ اموی خلافت کے دور کو اندلس کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔

طوائف الملوکی کا دور
(1013 تا 1085 عیسوی)

اموی خلافت کے خاتمے کے بعد اسپین میں تیس خودمختار مسلمان ریاستیں قائم ہو گئی تھیں۔ تاریخ دان اسے طوائف الملوک کا دور کہتے ہیں۔ غرناطہ، قرطبہ، دینیا ، المیرا ، تولیدو ، صقلیہ وغیرہ اہم ریاستیں تھیں۔ یہ ریاستیں آپس میں پرسرپیکار رہتی تھیں۔

یوسف بن تاشفین
( 1085 تا 1232 عیسوی)

اندلس کی طوائف الملوکی سے کسٹائل کے عیسائی بادشاہ الفانسو ششم نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اہم اسلامی ریاست صقلیہ پر قبضہ کر لیا۔ جب اندلس کے امیروں نے دیکھا الفانسو کا مقابلہ ان کی طاقت سے باہر ہے تو انھوں نے شمالی افریقہ کے طاقتور مسلمان جنگجو یوسف بن تاشفین کو اسپین آمد کی دعوت دی اور اپنی اطاعت کا عہد کیا۔
یوسف بن تاشفین نے 1085 میں جنگ “زلاقہ”میں الفانسو ششم کو شکست فاش دی اور وہ خود سپین کے حکمران بن گے۔
یوسف بن تاشفین کے جانشین 1232 تک اسپین کے خودمختار حکمران رہے تاہم 1232 میں ناصریوں کے ہاتھوں ان کے اقتدار کا چراغ گُل ہوا۔

سقوط اندلس وغرناطہ

ابن ناصر نے 1232 میں غرناطہ کی فتح کے بعد اسپین میں عربی نژاد اقتدار اعلی قائم کیا تھا۔ تاہم اس نے یہ اقتدار عیسائیوں سے ساز باز کر کے حاصل کیا تھا۔ ابن ناصر نے عیسائی حکمران فرڈیننڈ سوم سے معائدہ کیا کہ فرڈیننڈ مسلم ریاست صقلیہ پر قبضہ کرے گا اور ناصر غیر جانب دار رہے گا جس کے بدلے میں غرناطہ کو عیسائی طاقتیں کچھ نہی کہیں گی۔
چودہویں صدی میں ناصریوں نے شاندار الحمرا ہال قائم کیا تھا۔ جب عیسائی فوجیں اندلس کی چھوٹی کمزور ریاستوں پر قبضہ کر رہی تھیں ناصری حکمران محض تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔

کاسٹائل جاگیر کی ملکہ ازابیلا جس کے اجداد مسلمانوں سے ہارتے آئے تھے نے 1469 میں آرگون جاگیر کے فرڈیننڈ دوم سے اپنی سیاسی شادی رچائی اور مسلمانوں کو اندلس سے ہمیشہ کےلئے مٹانے کا عہد لیا۔
ناصری جو پہلے محض تماش بین تھے اب خود عیسائیوں کا نشانہ بن گے۔ بالآخر 1492 میں ایک طویل محاصرے کے بعد اندلس میں مسلمانوں کا آخری فصیل بند شہر غرناطہ امیر غرناطہ ابو عبداللہ نے عیسائیوں کے حوالے کر دیا اور اسپین سے مسلمانوں کے اقتدار کا ہمیشہ کےلئے خاتمہ ہو گیا۔
ملکہ ازابیلا نے مسلمان آبادی کا قتل عام کیا، زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروایا، مسلمانوں کی عالیشان مسجدوں کو کلیساؤں میں تبدیل کیا، مور عہد کی ایک ایک نشانی کو مٹا دیا تھا۔ شاعر مشرق نے اسی اندلس کے بارے میں کہا ہے

اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا

اندلس کا علمی ورثہ

جب یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھرا تھا اس وقت صرف غرناطہ شہر میں 20 ہزار کتابوں کی دکانیں تھیں۔ قرطبہ، غرناطہ ، مالقہ ، سرقسطہ ، اشبیلیہ اور جیان کے شہروں میں اعلی تعلیم کے حصول کےلئے یونیورسٹیاں قائم تھیں۔ خلیفہ حاکم ثانی نے صرف قرطبہ شہر میں 27 پرائمری سکول قائم کر رکھے تھے جو مفت تعلیم فراہم کرتے تھے۔

جامع قرطبہ

جامعہ القرویین اور جامعہ الازہر کے بعد اگر اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے کسی تیسرے علمی ادارے کا ذکر کیا جائے تو وہ جامع قرطبہ یونیورسٹی تھی۔ جو آج کیتھولک چرچ ہے۔
قرطبہ شہر اموی خلافت کا دارلخلافہ تھا اور اسے یورپ کا سب سے پہلا جدید ، اربن طرز تعمیر اور نقشہ کے عین مطابق تعمیر کیا جانے والا شہر کہا جاتا ہے۔
امیر عبدالرحمن اول نے 786 عیسوی میں جامع قرطبہ کی تعمیر کا آغاز کیا وہ اسے دمشق کی مرکزی مسجد کی یاد میں بنانا چاہتے تھے جو اس وقت عباسی حکمرانوں کے زیر تسلط تھی۔
جامع مسجد کی تعمیر کے بعد ایک مدرسہ بھی قائم کیا گیا تھا جسے دسویں صدی میں ایک یونیورسٹی کا اعزاز حاصل ہو گیا تھا۔
1238 میں جب قرطبہ کا بےمثال شہر عیسائیوں کے قبضے میں آیا تو شہر میں 10 لاکھ کتابیں تھیں۔ جامع قرطبہ کی عالیشان لائبریری اور یونیورسٹی اپنے عروج پر تھی، قرطبہ اپنی عظمتوں کے عروج پر تھا۔ اقبال نے کہا تھا!

اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت
معجزہء فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

اسلامی اندلس کی تاریخ کے کچھ مناظر
اسلامی اندلس کی تاریخ کے کچھ مناظر

اندلس کے مسلمانوں کی سائنسی ایجادات

یورپ میں سب سے پہلے اسپین سے ہی سائنسی ایجادات کا آغاز ہوا تھا۔ان ایجادات کا اجمالی تذکرہ نذر قارئین ہے۔

پہلی سرجری

انسانی تاریخ میں سب سے پہلا کامیاب انسانی آپریشن اندلس کے مسلمان طبیب ابو القاسم الزہراوی نے کیا تھا۔ انھوں نے سرجیکل آلات تیار کئے جو آج تک فعال ہیں۔

انسان کی پہلی کامیاب اڑان

اندلسی سائنس دان عباس ابن فرناس پہلے انسان تھے جنہوں نے ہوائی پر بنائے اور انسانی تاریخ میں پہلی بار قرطبہ کی ایک پہاڑی سے اڑان بھری۔ لیونارڈو ڈاونچی نے انہی سے متاثر ہو کر ہوائی انسان کی شہرہ آفاق ڈرائنگ تخلیق کی ہے۔

کرینک مشین

آپ نے کرین مشینیں تو دیکھ رکھی ہیں جو وزنی سامان اٹھاتی ہیں، یہ کرینک مشینیں سب سے پہلے بارہویں صدی میں اندلس میں ڈیزائن کی گئی تھیں۔ ان کرینک مشینوں کو چلانے کےلئے پسٹن بھی ایجاد کئے گے۔ پسٹن آج انجن کا اہم ترین حصہ ہیں۔

حساب

ریاضی میں جیومیٹری اور کیلکولس بھی اندلس کے مسلمان ریاضی دانوں کا کارنامہ ہیں۔ یورپ میں سب سے پہلے عربی نظام عدد (1 تا 9) کا استعمال سپین میں ہوا جو بعدازاں وینس کے تاجروں کے ذریعے سارے یورپ میں مقبول ہوا۔

کینڈل کلاک

وہ گھڑی جس میں سب سے پہلے بارہ گھٹنے دکھائے گے بھی اندلس کے سائنس دان ابن کاتب کا کارنامہ تھی۔

فلکیاتی گلوب

یہ گلوب نظام شمسی اور تاروں کی گردش وغیرہ کی رہنمائی کرتا تھا۔

سمندری جہازوں کے قطب نما

یہ قطب نما ناقابل یقین حد تک درست راستہ دکھاتے تھے بلکہ آج بھی چل رہے ہیں۔

بحری جہاز

اندلس کے مسلمان بحری جہاز رانوں نے تین تکونی جہاز تیار کئے تھے۔ ان کی رفتار عام جہازوں سے تیز اور طوفان میں ڈوبنے کے امکانات کم ہوتے تھے۔ یہ جہاز تجارت اور حاجیوں کی آمدورفت کےلئے استعمال ہوتے تھے۔

پانی و زراعت کے شعبوں میں انقلاب

دریاؤں سے پانی کو کھینچنے کےلئے بڑے بڑے پہیے بنائے جاتے تھے جو بیلوں کی مدد سے گھومتے اور پانی نکالتے تھے۔
اس کے علاوہ کرینک میکانزم پر ہوائی پن چکیاں بھی قائم کی گئی تھیں جو ہوا کی مدد سے انرجی پیدا کرتیں ، انرجی سے پہیے یا ٹربائن گھومتے اور آٹا پستا جاتا۔ یہ انرجی آج بجلی کے نام سے جانی جاتی ہے۔
یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسپین میں ایشیائی چاول ، گنا، کاٹن ، تراشیدہ پھل ، کیلے ، پائن ایپل اور کھجوریں اگائیں۔
مشہور ہے کہ جب عبدالرحمن اول نے کھجور کا پہلا پودا عرب سے منگوا کر لگایا تو اپنے وطن کی یاد میں ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ آج سپین کھجور کی پیداوار میں خودکفیل اور امپورٹر ہے۔

اندلس کے عظیم مسلم سکالرز

عظیم مسلم اسکالروں کے بغیر اندلس کے علمی میراث بیان کرنا ایسے ہی جیسے برطانیہ سے شاہی خاندان کو الگ کر دینا۔ اندلس کے چند مشہور عالم اسکالرز اور مفکرین کے نام یہ ہیں ۔

ابن رشد

ابن رشد کو جدید فلسفے کا بانی شمار کیا جاتا ہے۔ آپ نے سو سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر تحریر کی ہیں۔ دنیا آج ارسطو کو سب سے بڑا دانشور مانتی ہے یہ ابن رشد ہی تھے جنہوں نے گم شدہ ارسطو کا علمی کام پھر سے منظر عام پر لایا ۔ لاطینی مسودات کا عربی میں ترجمہ کیا۔ جدید فلسفے کو ریشنلزم کا کنسپٹ دیا۔

ابو القاسم الزاہروی

یہ وہی ابو القاسم ہیں جنہوں نے دنیا کو سرجری کرنا سکھائی ، پہلا کامیاب آپریشن کیا۔ سرجیکل آلات تیار کئے اور خاکوں کے ذریعے سرجری کرنے کی تربیت فراہم کی۔ آپ نے تیرہ جلدوں پر مشتمل طبی انسائیکلوپیڈیا “کتاب التصریف” تحریر کی تھی جو میڈیسن میں عہد ساز مانی جاتی ہے۔

الفاسی

آپ یہودی دانشور تھے۔ تاہم انھیں بھی اسلامی اندلس کی بہترین یادگار مانا جاتا ہے۔ اسلامی اندلس میں یہودیوں کو اس زمانے میں سب سے زیادہ سہولیات تھیں۔ الفاسی نے بائبل کی تفسیر لکھی اور یہودی قوانین پر انسائیکلوپیڈیا تحریر کیا جو آج بھی مقدس سمجھا جاتا ہے۔

محمد الادریسی

آپ جغرافیہ دان اور نقشہ نویس تھے۔ آپ نے دنیا کا سب سے مستند ترین نقشہ تیار کیا تھا۔ آپ نے جغرافیائی نقشوں پر ایک کتاب بھی لکھی تھے جسے عربی زبان سے لاطینی زبان مین ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب کہا جاتا ہے۔ تاریخ دان ادریسی کو وہ پہلا انسان مانتے ہیں جس نے امریکہ کا سفر کولمبس سے چار سو سال پہلے کیا تھا۔

ایاز بن موسیٰ

آپ غرناطہ کے قاضی تھے اور مالکی فقہ کے ممتاز عالم تھے۔ آپ شرعی قوانین کے ماہر تھے۔ آپ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔ آپ کی سب سے زیادہ شہرہ آفاق کتاب الشفا ہے جو حدیث کی بحث پر مبنی ہے۔

مورخین کہتے ہیں آخری سلطان ابو عبداللہ جب شہر غرناطہ سے نکل رہے تھے تو غرناطہ سے چند کوس دور ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر وہ شہر کو آخری دفعہ دیکھنے لگے ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ یہ تاریخی جملہ کہہ کر ان کی ماں نے انھیں ہمیشہ کےلئے چپ کروایا۔
” جب تم مرد بن کر اس شہر کی حفاظت نہ کر سکے تو اب بچے بن کر آنسو نہ بہاؤ” ۔
ابو عبداللہ مراکش میں پناه گزین ہوئے اور آخری زندگی گمنامی میں گزاری اور اسپین سے مسلمانوں کے اقتدار کا ہمیشہ کےلئے خاتمہ ہو گیا۔

جبران عباسی کا یہ مضمون بھی پڑھئیے

جامعہ الازہر،دنیا کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button