Character Building & TarbiyahEmotions & BehaviorParents Guides

بچوں کی تربیت میں سیلف اسٹیم کا کردار

سیلف اسٹیم

سیلف اسٹیم کے معنی توقیرذات یا اپنے آپ کو قابل اعتبار سمجھنا ہے۔ یعنی ایک انسان اپنے  دل ودماغ میں اپنی ہی ذات پریقین پیداکرے۔ کہ میں  اپنے ہم عصر لوگوں میں عزت اور صلاحیتوں کے امکان رکھنے کے اعتبار سے کسی سے بھی کمتر نہیں ہوں۔

اللہ تعالی نے بحیثیت انسان مجھے معزز ومحترم بنایاہے۔  چنانچہ میری ذات بھی قابل احترام اورتمام امکانی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ میں دنیاکے ہر دوسرےانسان کی طرح اہم اور معتبرہوں۔

میری ذات،  میری بات اور میرے فیصلے اتنے ہی اہم ہیں ،جتنے کسی اور انسان کے۔ سیلف اسٹیم درحقیقت انسان کے دل ودماغ میں پیداہونے والا ایک خیال، احساس یا کیفیت  کانام ہے، جوانجن کو چلانے والی اسٹیم جیساکام کرتی ہے۔ یہ متوازن مقدار میں  انسان کے پاس موجود ہو تو اس کے لئے زندگی کاہرفیصلہ کرنا اورپھر اس پر جمنا آسان ہوجاتاہے۔

سیلف اسٹیم اور فلسفہ خودی

علامہ اقبالؒ نے اپنی فلسفیانہ شاعری میں سیلف اسٹیم کوخودی کا عنوان دیا ہے۔ اگر دیکھاجائے تو ان کے فلسفے اور شاعری کا پوراڈھانچہ اسی ایک نکتے پر کھڑانظرآتاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی انسان کو خودی کی دولت مل جائے تو فقیری میں بھی شہنشاہی اس کو مل کررہتی ہے۔

وہ اپنی اس خودی کی صفت کی بدولت دنیا کی ہرچیز سے بے نیازہوکر حق کو پانے اور حق پر ہی جان دینے کو اپنی سعادت سمجھنے لگتاہے۔فرماتے ہیں۔

  خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر 

سیلف اسٹیم کو دوسرے لفظوں میں خوداعتمادی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ یہ دونوں لفظ بالکل قریب قریب مفہوم رکھتے ہیں، لیکن دونوں میں تھوڑاسا فرق ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ سیلف اسٹیم اپنے  وجود یا شخصیت کو عزت  دینے کا نام ہے۔

جبکہ خوداعتمادی اورسیلف کانفیڈینس اپنی صلاحیتوں یا خوبیوں پر اعتماد کا نام ہے۔ تاہم اس فرق کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے لازم وملزوم ہیں۔

سیلف اسٹیم کا لازمی نتیجہ خوداعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب کہ خوداعتمادی سیلف اسٹیم  کی بنیاد پر کھڑی عمارت کا نام ہے۔ اس فرق کے باوجود بعض اوقات یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ سیلف اسٹیم کو عزت نفس، تصورذات، توقیر ذات، خودی اورخوداعتمادی جیسے الفاظ سے بھی تعبیرکیا جاتاہے۔

سیلف اسٹیم  ضروری کیوں ہے؟

سیلف اسٹیم زندگی کے سفر میں انسانی فیصلوں اور پھر ان فیصلوں پر قائم رہنے کی ہمت عطاکرتی ہے۔ خالق ومخلوق سے  خوب صورت تعلقات قائم کرنے میں کامیابی عطاکرنے کے علاوہ، جذباتی صحت اورمجموعی طورپر زندگی کے تمام پہلووں کی بہتری پربھی اثرانداز ہوتی ہے۔

نیز سیلف اسٹیم انسان کو موٹیویشن، امکانی صلاحیتوں میں اضافے کی رغبت اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت اور جذبہ عطا کرتی ہے۔

جن لوگوں کا سیلف اسٹیم لیول متوازن ہو وہ اپنی امکانی صلاحیتوں کو نہ صرف جلد دریافت کرلیتے ہیں۔ بلکہ ان کوجلد  حاصل کرنےکے جذبے سے بھی سرشارہوتے ہیں۔ وہ خالق اور مخلوق سے مضبوط تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

  ان کا اپنے آپ سے بھی تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کا بہ خوبی اندازہ لگا کر احسن انداز سے ان کے اظہار پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ مزید پڑھیے  

:سیلف اسٹیم میں عدم توازن کے نقصانات

سیلف اسٹیم کامتوازن ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی کمی کی وجہ سے جہاں انسانی شخصیت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہیں اس کی  حد سےزیادتی بھی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے۔  اگر سلیف اسٹیم کی کمی ہوتو انسان اپنی قابلیت اور صلاحیتوں پر شک کرنے لگتا ہے۔ جس سے اس کی فیصلہ سازی کی قوت کم یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

وہ کسی نئے چیلنج کا سامنا کرنے سے صرف اس لئے گھبراتا ہے، کیونکہ اس کے دل میں یہ خیال موجود ہوتاہے۔ کہ کہیں وہ اپنے اس  مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام نہ ہوجائے ۔ 

اسی طرح سیلف اسٹیم کی کمی کے شکار افراد میں تعلقات استوار کرنے اور اپنی ضروریات کے اظہار کی صلاحیت  بھی کم ہوتی ہے۔ یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے بارے میں یہ تصور لیے پھرتے ہیں کہ شاید وہ عام انسانوں سے کمترہیں۔ یا وہ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔

سلیف اسٹیم میں زیادتی

اس کے برعکس جولوگ سیلف اسٹیم لیول کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ دوسرے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔ مثلا سیلف اسٹیم کی زیادتی کی  وجہ سے وہ اپنی ذات او رصلاحیتوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ بعض اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ  دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

لہذا وہ محنت کے بغیر ہی کامیاب ہوجائیں گے۔  وہ اس طرح کی غلط فہمی کا شکار ہوکرخالق اور مخلوق سے اپنے تعلقات کو داو پر لگاسکتے ہیں۔

اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ عجب ، تکبر اور انانیت پسندی کا بھی خدانخواستہ شکار ہوسکتے ہیں۔ نیز وہ اپنے آپ کو پرفیکٹ سمجھ کر ذات کی بہتری پر کام کرنا بھی ترک کرسکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ کچھ ہی عرصے بعد زندگی کی دوڑ میں  دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں۔

:سیلف اسٹیم کو خراب کرنے والی چیزیں

سیلف اسٹیم کا تصور بچپن میں بالکل نہیں ہوتا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور اچھی تربیت کے ذریعے سے بچے کے اندریہ تصور پیدا کیا جاسکتا ہے۔  مثلا بچپن کے مقابلے میں ٹین ایج میں آنے کے بعد اس میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور پھر بلوغت کے بعد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں اور بھی اضافہ ہوتا رہتاہے۔

کچھ چیزیں ہیں جو سیلف اسٹیم کو عام طور متاثر کرتی ہیں۔ مثلا کم عمری، جنسی فرق، معذوری، بیماری، خاندان کی معاشی ومعاشرتی حیثیت اور خودانسان کے اپنے سوچنے کا منفی انداز وغیرہ۔

نسلی امتیازی سلوک بھی بعض اوقات اس پر برااثر ڈال دیتاہے۔ بعض اوقات والدین ،اساتذہ یا دوستوں کی طرف سےبہت زیادہ تنقید  یا غلط تربیت بھی انسانی سیلف اسٹیم کو خراب کردیتی ہے۔

اور بعض اوقات موروثی طور پر غیرمتوازن  جسمانی خدوخال اور زندگی کے بعض تلخ تجربات بھی انسان کی سیلف اسٹیم پر نہایت منفی اثرڈال دیتے ہیں۔   

سیلف اسٹیم کو کیسے متوازن اور صحت مند رکھا جائے؟

سیلف اسٹیم کو متوازن رکھنا انسان کی متوازن اور متاثر کن شخصیت کی نشونما کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہم یہاں پر سیلف اسٹیم کو متوازن رکھنے کے لئے کچھ چیزیں شئیر کررہے۔

اس سلسلے میں پہلا کام جوکرنے کا ہے وہ یہ ہے ۔کہ انسان کو پرانے منفی تجربات یا منفی سوچوں سے باہرآنا چاہیے۔ کیونکہ یہی منفی سوچیں ہوتی ہیں ،جوصحت مند سیلف اسٹیم کم کرکے انسانی شخصیت کو اندرسے کھوکھلاکردیتی ہیں۔

دوسراکام یہ ہے کہ اپنے دل ودماغ اور ضمیر کو یہ بات سمجھادینی چاہیے ۔کہ میں بحیثیت انسان ہر دوسرے انسان کے برابر ہوں۔انسانی سطح پر نہ کسی سے کمترہوں اور نہ برتر۔قرآن کریم کی رو سے اللہ کی نظر میں برتری تقوی کی بنیاد ہوتی ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔

دل کی بات کہنا خوداعتمادی ہے

تیسراکام پراعتماد رہنے کی کوشش  اور اپنے دل کی بات کھل کربتانے کا حوصلہ پیداکرنے کا ہے۔ زندگی پر مثبت رجحان اور رائے رکھنی ہوگی۔ جب زندگی میں کسی کام یا بات سے انکار کرنا ہوتواحترام کے ساتھ نا کرنے کی جرات کرنی ہوگی۔ ایک اور کام یہ کرنا ہوگا کہ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کو  ایک ساتھ قبول کرتے ہوئے ان پر نظر رکھنی ہوگی۔

خوبیوں پر نظر رکھنے سے اللہ کا شکراداکرنے کے ساتھ سیلف اسٹیم کومزید بڑھانے کا موقع ملے گا۔جبکہ  خامیوں پرنظررکھنے سے اپنی اصلاح کا موقع ملتا رہے گا۔

صحت مند سیلف اسٹیم کا فائدہ یہ ہوگا ،کہ آپ زندگی  کےاہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے موٹیوٹ ہونگے۔ کیونکہ سیلف اسٹیم میں توازن  کی وجہ سے آپ کو اپنی ذات پر یقین ہوگا ۔کہ میں اپنے مسائل کو  اللہ کی توفیق اور اس کی دی ہوئی امکانی صلاحیتوں  کے ساتھ کامیابی سے حل کرسکتا ہوں۔

اوردوسری بات یہ ہے کہ صحت مند سیلف اسٹیم کی وجہ سے آپ اپنے تعلقات کے لئے مناسب حدود مقررکرسکیں گے۔ جو اپنے ساتھ تعلق اور دوسروں سے تعلق کے حوالے سے آپ کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔

:کمزور سیلف اسٹیم کے نقصانات

کمزورسیلف اسٹیم کے مندرجہ ذیل نقصانات ہیں۔

  • دل کی بات کا اظہارکرنا انسان کے لئے مشکل ترہوجائے گا۔

اپنی خامیاں  ہروقت ذہن پر سوار رہیں گی خوبیاں نظر نہیں آئیں گی۔

انسان ہروقت خوف، فکرمندی اور اپنی ذات وصلاحیتوں پر شک میں مبتلا رہے گا جس سے اس کی کارکردگی متاثر ہوگی۔

اپنی شخصیت کا درست اظہار اور اس پر کنٹرول کم ہوگا۔

کسی بھی کام میں ناکامی سے انسان شدید خوف زدہ ہوگا۔

مثبت فیڈ بیک کو قبول کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوگی۔ کہ لوگ واقعتا میری تعریف کررہے ہیں یا میرے ساتھ مذاق کررہے ہیں۔

کسی بات پر ناکہنے اور معاملات میں حدود مقرر سے بھی گھبراہٹ ہوگی۔

ان کے علاوہ بھی کمزور سیلف اسٹیم انسانی شخصیت میں ذہنی دباو اور گھبراہٹ پیداکرنے کا باعث بنےگی۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا اور اچھے تعلقات بنانا انسان کے لئے مشکل کام ہوگا۔ نیزسیلف اسٹیم کی یہی کمزوری ہوتی ہے جوانسان کے معیارزندگی کو بہتر بنانے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اور بسااوقات اسے خودکشی کے رجحانات تک بھی پہنچادیتی ہے۔

:سیلف اسٹیم حد سے زیادہ ہونے کے نقصانات

سیلف اسٹیم کا لیول حد سے زیادہ بڑھ جائے، تو اس کا سب سے بڑانقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان تکبر، عجب، خودپسندی  اور نرگسیت کا شکارہوجاتاہے۔ وہ اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگتاہے۔ ہرمعاملے میں اپنے آپ کو حتمی طور پر درست اور حق پر سمجھنے لگتاہے۔اور یہ خیال کرنے لگتاہے کہ وہ کسی کام میں فیل نہیں ہوسکتا۔

سیلف اسٹیم کی حد سے زیادتی کا شکار شخص یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ ہنرمندہے۔ اور اس کے پاس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اچھے آئیڈیاز ہیں۔

جب انسان اس طرح کے غیرحقیقت پسندانہ تصورات کا شکارہوجاتا ہے تو لوگوں سے اس کے تعلقات متاثر ہوناشروع ہوجاتے ہیں۔ معاشرتی تعلقات میں  بھی ناہمواری آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور ایسا شخص کسی کی تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت کھودیتا ہے ۔

:سیلف اسٹیم کو متوازن بنانے والی چند ٹپس

یہاں پر سیلف اسٹیم کو متوازن بنانے والے چند اقدامات یا چندٹپس کا ذکرکیا جاتا ہے ۔تاکہ اپنا جائزہ لینے کے بعد اپنی سیلف اسٹیم کو متوازن اور صحت مند بنانے پر کام کیا جاسکے۔ اس حوالے سے پہلاکام کرنے کا یہ ہے کہ انسان اپنے دل ودماغ میں بسنے والی منفی سوچوں کو ختم کرنے پر کام  شروع کرے۔

یعنی جتنی جلدی ممکن ہو ان سے جان چھڑائے اور اپنے دل و دماغ کو منفی سوچوں سے پاک کردے ۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کام بھی کرے۔

غلط سوچنے کا انداز ہی بدل ڈالنے کی کوشش کرے۔ اس کی جگہ مثبت سوچنےکا انداز اپنے اندر پیداکرنے کی کوشش کرے۔اس کے علاوہ مثبت خودکلامی کی کوشش کرے۔ یعنی اپنے دل ودماغ میں ایسے مثبت جملے دہراتارہے جن سے صحت مند سیلف اسٹیم کو پنپنے کا موقع مل سکے۔

پچھلی غلطیوں پرپہلے اللہ سے معافی مانگے اس کے بعد اپنے آپ کوبھی معاف کرےتاکہ معافی تلافی کے بعد ان  غلطیوں کو ذہن میں باربار دہرانے کے بجائے آگے بڑھنے سکے۔

اس کے بعد بھی اگر کمزور سلیف اسٹیم سے جان نہیں چھوٹتی۔ بلکہ نفسیاتی طور پر یہ چیزیں دل وماغ کو آماجگاہ بنا کر ذہنی دباو یا گھبراہٹ کا باعث بنتی ہیں ۔

توایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی  ماہرسائکالوجسٹ سے رجوع کرکے  علاج کروایاجائے۔ سائیکوتھیراپی یا مراقبے کے ذریعے بھی اس نفسیاتی مرض سے  چھٹکاراممکن ہے۔مزیدپڑھیے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button