Features

کلیسا مسجد میں تبدیل ، پادری نے بھی جمعہ ادا کیا

کلیسا مسجد میں تبدیل ، پادری نے بھی جمعہ ادا کیا

رپورٹ ، ضیاء چترالی ؛ یہ کینیڈا کے شہر اونٹاریو Ontario کے مشہور کلیسا Saint John the Evangelist Church کے اندرونی مناظر ہیں۔ جہاں نماز جمعہ ادا ہو رہی ہے۔ مساجد میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے کلیسا کے پادری محترم ’’اینڈریو ویلسن‘‘ (Andrew Wilson) صاحب نے خالی پڑے کلیسا کا ایک ہال بتوں اور صیلیبوں سے خالی کرکے مسلمانوں کو نماز جمعہ کیلئے کرائے پر دے دیا۔

کینیڈا کے پادری نے عیسائی عبادت گاہ کا ایک حصہ جمعہ کے لئے مسلمانوں کو دے دیا

پہلا جمعہ تھا۔ پادری صاحب بھی موجود۔ خطیب صاحب نے ’’سیدنا عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کا قرآن میں ذکر‘‘ کے موضوع پر خطبہ دیا۔ اینڈریو ویلسن صاحب حیرت سے سنتے رہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اچھا، سیدنا عیسیٰ اور سیدہ مریم علیہما السلام کے بارے میں یہ سب قرآن میں ہے۔ میں نے پہلی بار سنا۔ نتیجتاً پادری صاحب بھی نماز میں شامل ہوگئے۔

کینیڈا میں یہ کوئی پہلے پادری نہیں ہیں، جنہوں نے مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی اجازت دی ہے، اس سے قبل Woodstock کے پادری کرس ٹراویرز Chris Travers صاحب کے کلیسا کا ایک حصہ بھی مسلمان 10 سال تک نماز کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے وہاں اپنی مسجد بنالی۔

کینیڈا میں 1954 صرف 3 مسلمان تھے اب مسلمان آبادی 18 لاکھ کے قریب ہے

کینیڈا میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اس کی مثال کسی اور مغربی ملک میں نہیں ملتی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ 1854 میں یہاں صرف 3 مسلمان تھے۔ پھر 1871 تک 13 ہو گئے۔ پھر 1901 میں 47، 1911 تک بڑھ کر 797، پھر 1971 میں 33,430 اور 1991 میں مسلمانوں کی تعداد 253,260 تک پہنچ گئی۔ 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد 10 لاکھ 53 ہزار 945 تھی، یعنی کل آبادی کا 7.7% اور 2022 تک ان میں 68 فیصد کا اضافہ ہوا اور مجموعی تعداد 7 لاکھ کے اضافے سے 17 لاکھ 75 ہزار 715 ہوگئی۔ یہ کل آبادی کا 8.7% حصہ بنتا ہے۔

اسلام کینیڈا کا دوسرا بڑا مذہب ، ایک ایک شہر میں درجنوں مساجد ہیں

اب اسلام کینیڈا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ ایک ایک شہر میں ستر، اسّی مساجد بن چکی ہیں۔ اسلامی مراکز و مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ اسلاموفوبیا کی لہر ہر جگہ موجود، لیکن کینیڈا میں مسلمان نسبتاً بڑے پرامن طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئیے:

ویران مساجد کی آبادکاری اور ایک مثالی نوجوان

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button