Columns

پاکستان کی دس بہترین یونیورسٹیاں جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کر سکتی ہیں

پاکستان کی دس بہترین یونیورسٹیاں جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کر سکتی ہیں

جبران عباسی

ایک بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔ اچھی یونیورسٹیوں میں نہ صرف طالب علم کی اکیڈمک ایجوکیشن بہترین انداز میں ہوتی ہے بلکہ اس کے خوشحال مستقبل کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک اچھی یونیورسٹی سے کیا مراد ہے؟ کن معیارات کا جائزہ لے کر ہم ایک یونیورسٹی کی درجہ بندی کر سکتے ہیں؟
عالمی رینکنگ ادارے کے مطابق کسی بھی یونیورسٹی کو رینک کرنے کےلئے درج زیل اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

اکیڈمک

دیکھا جاتا ہے یونیورسٹی کے اکیڈمک کورسسز کتنے ایڈوانسڈ ہیں۔ کیا یہ کورسسز طالب علموں کو ریسرچ اور انوویشن کی طرف متجسس کرتے ہیں۔ کیا یہ کورسسز عصر حاضر کی ضرورتوں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہیں۔ یونیورسٹی کا کریکولم ڈیزائن کرنے والے لوگ کون ہیں۔ اکیڈمک کے باقاعدہ گریڈ ہیں۔

فیکلٹی کا معیار

فیکلٹی کے معیار کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا فیکلٹی کورسسز کو پڑھانے میں کتنی کامیاب ہے ۔ فیکلٹی کی تعداد ، ان کا تعلیمی پس منظر ، ریسرچ جرنلز میں اشاعت اور فیکلٹی کے رحجانات جاننے کےلئے کچھ سروے منعقد کئے جاتے ہیں۔ سب سے اہم یہ دیکھا جاتا ہے فیکلٹی research اینڈ analysis میں کیا خدمات انجام دے رہی ہے۔ کتنے تحقیقی مضامین اور مقالے فیکلٹی کے شائع ہو چکے پیں۔

ریسرچ اور اس کے حوالہ جات

اس مرحلے میں ریسرچ کے معیار ، ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی تعداد اور ان میں دیے جانے والے حوالہ جات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ رینکنگ میں ایک سٹرٹیجک مرحلہ ہے۔ ریسرچ کے ڈیٹا کی دوبارہ تصدیق کی جاتی ہے۔ جس یونیورسٹی کے ہاں ریسرچ کا کلچر جتنا مضبوط ہو گا اس کی رینکنگ اتنی ہی زبردست ہو گی اور اس کی رینکنگ سب سے اوپر ہو گی۔

کوالٹی انڈیکس

کیا ریسرچ صرف پیپروں پر کی گئی یا اس ریسرچ نے انڈسٹری میں بھی کوئی خدمات انجام دی ہیں۔ اس کےلئے H-index کا معیار مقرر ہے۔

انٹرنیشنل ریسرچ نیٹ ورکس

اس اصول میں دیکھا جاتا ہے کہ یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر کتنی وابستگیاں رکھتی ہے بالخصوص ریسرچ کے شعبے میں یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر کتنے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ کیا صنعتیں یونیورسٹی پر بھروسہ کرتی ہیں جیسے ہم نے دیکھا ہے کچھ یونیورسٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے اعلی معیار کی وجہ سے طلبا کو فائنل ائیر میں ہی صنعتی و مالیاتی ادارے ہائر کر لیتے ہیں۔
اب ہم اس مضمون میں دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی دس بہترین یونیورسٹیاں کون سی ہیں جو عالمی رینکنگ ادارے کے ان اصولوں پر پورا اترتی ہیں۔ اگر آپ نے انٹرمیڈیٹ کر لیا ہے تو کون کون سی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے کےلئے آپ کو کوشش کرنی چاہیے تاکہ آپ ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔

10:لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز

لمز یونیورسٹی کی گلوبل رینکنگ 601 نمبرز پر ہے۔ اس کی اکیڈمک ریپوٹیشن 14.9 فیصد ، فیکلٹی ریپوٹیشن 67.6 فیصد اور سب سے اہم ایمپلائمنٹ شرح 92.7 فیصد ہے۔ یعنی لمز یونیورسٹی سے پڑھے گے 100 میں سے 92 طلبا نوکری حاصل کر لیتے ہیں۔
لمز یونیورسٹی سے یقیناً سبھی واقف ہیں ، یہ لاہور کی ایک معتبر یونیورسٹی ہے جو 1984 میں ایک بزنس مین سید بابر علی نے مینجمنٹ کی ضروریات پوری کرنے کےلئے تعمیر کی تھی۔
اس یونیورسٹی میں 18 انڈر گریجویٹس اور 24 گریجویشن پروگرام کروائے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے اندر پانچ سکول ہیں جیسے سلمان داؤد سکول آف بزنس، سکول آف آرٹس اینڈ سائنس، سید بابر علی سکول آف سائنسز اینڈ انجنیرنگ، شیخ احمد حسن سکول آف لا اور لمز ایجوکیشن سکول۔
مینجمنٹ اور انجینئرنگ ڈگری کےلئے لمز یونیورسٹی ایک بہترین انتخاب ہے مگر یاد رہے لمز یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔ لمز کے ایک بی ایس سیمسٹر کی فیس چار سے پانچ لاکھ تک ہے۔ اگر آپ اتنا افورڈ نہیں کر سکتے تو لمز ذہین طالب علموں کو سکالرشپ بھی فراہم کرتا ہے۔

9: آغا خان یونیورسٹی کراچی

آغا خان یونیورسٹی ایک نجی تعلیمی ادارہ ہے جسے ایشیا کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں 251 واں نمبر حاصل ہے۔ آغا خان یونیورسٹی ایک بین الاقوامی ادارہ ہے اس کے کیمپس افغانستان ، کینیا، تنزانیہ ، یوگنڈا اور برطانیہ میں بھی موجود ہیں۔ اس یونیورسٹی میں آغا خان ٹیچنگ ہسپتال بھی موجود ہے جس کا شمار کراچی کے اہم ترین میڈیکل انسٹیوٹ میں ہوتا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی میں نمایاں شعبے صحت کے ہیں جیسے میڈیکل کالج اور نرسنگ اینڈ مڈ وائف۔ اس کے علاؤہ انسٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ ، گریجویٹ سکول آف میڈیا اینڈ ماس کمیونیکیشن، فیکلٹی آف آرٹ اینڈ سائنسز اینڈ انسٹیوٹ فار سٹڈی آف مسلم سولائزیشن کے شعبہ جات بھی موجود ہیں۔
اگر آپ ایم بی بی ایس یا میڈکل کے کسی دوسرے شعبے میں جانا چاہتے ہیں تو آغا خان یونیورسٹی ایک بہترین آپشن ہے۔ مگر آغا خان یونیورسٹی پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹی ہے۔ ایم بی بی ایس کے صرف ایک سال کا خرچہ 17 لاکھ سے زائد کا ہے۔

8: انسٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن

اس ادارے کا آغاز 1955 میں ہوا تھا، یہ پاکستان کی اوائل یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی سبجیکٹ گلوبل رینکنگ میں 301 واں نمبر ہے۔
فنانسنگ کے شعبے میں اگر آپ اپنا کرئیر بنانا چاہتے ہیں تو آنکھ بند کر کے IBA میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ IBA میں انڈر گریجویشن پروگرام میں بزنس ایڈمنسٹریشن، اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس، اکنامکس کے شعبہ جات سب سے نمایاں ہیں۔ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا میں سابق صدر پاکستان ممنون حسین اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر بھی شامل ہیں۔
اس یونیورسٹی میں اگرچہ داخلہ ذرا مشکل ہے تاہم اس کی فیس اخراجات لمز اور آغا خان یونیورسٹی سے کافی کم ہیں۔ اوسطاً ستر ہزار سے ایک لاکھ روپے تک اس کی سمیسٹر فیس ہے۔

7: یونیورسٹی آف کراچی

جامعہ کراچی کی گلوبل رینکنگ اس وقت 700 ویں نمبر پر ہے۔ کم فیس پر ایک بہترین یونیورسٹی کا انتخاب کرنا ہو تو جامعہ کراچی سب سے بہتر ہے۔ جامعہ کے کئی شعبہ جات دوسری مہنگی یونیورسٹیوں سے اگلے رینک پر ہیں جیسے جامعہ کراچی کی فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کی رینکنگ اس وقت پہلے نمبر پر ہے۔
جامعہ کراچی 1951 میں ایک پارلیمانی ایکٹ کی منظوری کے بعد قائم کی گئی تھی۔ یہ ایک سرکاری جامع ہے۔ موجودہ وقت میں یہاں 41 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جامعہ کراچی ریسرچ کے معیار کے حوالے سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ جامعہ کراچی میں 59 ڈیپارٹمنٹس اور 19 ریسرچ انسٹیوٹ ہیں۔
یونیورسٹی آف کراچی کی انجنیرنگ، ہیلتھ اور سوشل سائنسز کی فیکلٹیز کو زیادہ ترجیع دی جاتی ہے۔ ایگریکلچرل اور فارمیسی ڈیپارٹمنٹ بھی اس کے ٹاپ رینک ہیں۔

6: یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی

یہ یونیورسٹی سبجیکٹ رینکنگ میں گلوبلی 101 ویں نمبر اور ایشیا کی رینکنگ میں 351 ویں نمبر پر ہے۔ 1921 میں اس کا آغاز بطور گورنمنٹ انجنیرنگ کالج کے ہوا تھا اور 1977 میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کی قرارداد کے نیتجے میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
یہ یونیورسٹی مختلف انجنیرنگ کے شعبہ جات میں انڈر گریجویٹ ، گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ پروگرام کروا رہی ہے۔ آپ یہاں سول انجنیرنگ ، اربن انفراسٹرکچر انجنیرنگ ، پٹرولیم انجنیرنگ ، میکانیکل انجنیرنگ کے مختلف شعبہ جات ، آرکٹیکٹ اور سوشل سائنسز میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے ، انٹرمیڈیٹ میں اچھے نمبروں کے ساتھ انٹری ٹیسٹ بھی پاس کرنا پڑتا ہے۔ اس یونیورسٹی کی فیس مناسب ہے فی سمسٹر 60 ہزار سے ایک لاکھ تک ہے۔

5: کامسیٹس یونیورسٹی

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کی سبجیکٹ رینکنگ گلوبلی 201 ویں نمبر پر ہے اور یونیورسٹی کی گلوبل رینکنگ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 1001 ویں نمبر پر ہے۔
کامسیٹس یونیورسٹی کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ اس وقت پورے پاکستان میں نمبر 1 پر رینک کر رہا ہے۔ اگر آپ آئی ٹی کے شعبہ میں اپنا کرئیر بنانا چاہتے ہیں تو کامسیٹس یونیورسٹی کا آی ٹی ڈیپارٹمنٹ ایک بہترین انتخاب ہو گا۔
کامسیٹس یونیورسٹی کے سات کیمپس ہیں جو لاہور، اٹک، وہاری، ایبٹ آباد ، واہ اور ساہیوال میں موجود ہیں جن میں 36 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کامسیٹس یونیورسٹی میں داخلہ کےلئے کم سے کم 60 فیصد مارکس اور پری انٹری ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہے۔ اوسطاً سمسٹر فیس 1 سے 1.5 لاکھ روپے تک ہے۔

4: انسٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد

بچپن میں ہم میں سے اکثر بچے ہوائی جہاز کے پائلٹ بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے ، اگر اب بھی آپ خلاؤں میں اڑنے کے شوقین ہیں تو بہترین اکیڈمک تیاری کیجیے اور “ادارہ خلائی ٹیکنالوجی” یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے کی کوشش کریں۔
اس یونیورسٹی کی ایشیا رینکنگ میں 451 واں نمبر ہے اور اسے ان پچاس گلوبل یونیورسٹیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو پچاس برس کی اندر اندر تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔
ادارہ خلائی ٹیکنالوجی ریسرچ اور ایجادات میں سب سے نمایاں ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کی سب سے پہلی cubeset satellite بھی لانچ کی ہے۔
اس یونیورسٹی کے نمایاں شعبے ایرو اسپیس انجنیرنگ، avionics انجینئرنگ اور سپیس سائنس شامل ہے۔ اس یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا آسان نہیں ہے، پری انٹری ٹیسٹ میں نمایاں نمبروں پر ہی ایڈمیشن ممکن ہے۔ یہ انٹری ٹیسٹ NTS جیسے ادارے کرتے ہیں۔

3: غلام اسحاق خان یونیورسٹی

غلام اسحاق خان انسٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقے ٹوپی میں قائم ہے۔ اس یونیورسٹی کی گلوبل رینکنگ 532 ویں نمبر پر ہے جبکہ 2021 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جی ای کے یونیورسٹی کو پاکستان کی نمبر ون نجی یونیورسٹی کا رینک دیا گیا تھا۔
غلام اسحاق خان انسٹیوٹ میں فیلکٹی آف انجینئرنگ سائنسز، فیکلٹی آف کمپیوٹر سائنسز اینڈ الیکٹرک انجنیئرنگ ، فیکلٹی آف میکانیکل انجنیرنگ ، فیکلٹی آف سول انجینرنگ اور فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ ہیومنٹیز شامل ہیں۔ یہاں انڈرگریجویٹ ، گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کے پروگرام کروائے جا رہے ہیں۔
اس یونیورسٹی کے نمایاں ادارے انجینئرنگ کے شعبہ جات ہیں۔ اس یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ داخلہ کے خواہش مند افراد کو ایک سبجیکٹ ٹیسٹ SATII پاس کرنا لازمی ہے۔

2: قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

اب تک جتنی بھی یونیورسٹیوں کے اوپر ہم تحزیہ کر چکے ہیں وہ یا تو انجینئرنگ یونیورسٹیز تھیں یا پھر میڈکل کالجز۔ مگر اگر آپ کو تاریخ ، ادب ، سماج ، سیاست کے مطالعہ کا شوق ہے اور آپ اسی میں اپنا کرئیر بنانا چاہتے ہیں تو قائد اعظم یونیورسٹی کا سوشل سائنسز کی فیکلٹیز آپ کو بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی ایک فیڈرل ادارہ ہے جو چاروں صوبوں کے طلبا و طالبات کو بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔1967 میں بننے والی قائد اعظم یونیورسٹی کی گلوبل رینکنگ 363 ویں نمبر پر ہے اور یہ کئی مرتبہ پاکستان کی نمبر ون یونیورسٹی کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں چار فیکلٹیز ہیں۔ فیکلٹی آف نیچرل سائنسز، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، فیکلٹی آف بائیو لوجیکل سائنسز اور اور فیکلٹی آف میڈیکل سائنسز۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے چھ ریسرچ انسٹیوٹ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں ریسرچ کے شعبہ میں اس کی رینکنگ نمبر 1 ہے۔ اس کے علاؤہ قائد اعظم یونیورسٹی میں تین چیئرز بھی قائم ہیں جن میں قائد اعظم چیئر ، بینظیر بھٹو چیئر اور رومی چیئر شامل ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں ایڈمیشن کےلئے 60 فیصد مارکس اور پری انٹری ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

اسلام آباد میں واقع نسٹ یونیورسٹی کی موجودہ گلوبل رینکنگ 334 ویں نمبر پر ہے ، گلوبل سبجیکٹ رینکنگ 131 ویں اور ایشیا کی رینکنگ 74 ہے۔
نسٹ یونیورسٹی اپنی Innovation & academic strength کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ کمپیوٹر سائنسز ، آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں نسٹ یونیورسٹی کو نمایاں مقام حاصل ہے اور ان شعبہ جات کی اکیڈمک رینکنگ 200 بہترین یونیورسٹیوں میں آتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق نسٹ یونیورسٹی انجینئرنگ کے خواہش مند طلبا و طالبات کی پورے پاکستان میں اولین ترجیح ہے کیونکہ نسٹ کا ایمپلائمنٹ ریٹس بہت زیادہ ہائی ہیں۔ نسٹ اپنے انجینئرنگ کے شعبہ جات سے جاتی ہے۔
نسٹ یونیورسٹی کی غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ کئی اشتراک ہیں جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کو بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔
نسٹ یونیورسٹی کا ایڈمیشن پروسیس کافی مشکل ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں 60 فیصد نمبر درکار ہیں اور پھر GRE کا ٹیسٹ امتیازی نمبروں سے پاس کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال 80 ہزار طالب علم اپلائی کرتے ہیں جن میں سے صرف 2 ہزار سٹوڈنٹس کو داخلہ مل پاتا ہے۔ نسٹ یونیورسٹی کی سمسٹر فیس ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ تک پڑ جاتی ہے۔

 

یہ بھی پڑھئیے:

اسلام اور سائنس، مسلمانوں کے سائنسی زوال کے اسباب

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button