Columns

عرب امارات کا قابل دید نظام

امارات میں ساڑھے سات دن

عالمی گاؤں میں پاکستان ،ترکی،امریکا، جاپان سمیت مختلف ممالک کے بازار

بہر حال، یہ ایک دلچسپ جگہ ہے۔ ہم نے پاکستان، ترکی، کوریا، جاپان، چین، ایران، افریقہ اور امریکا کے کئی ملکوں کے بازار دیکھے۔ کوریا یا یورپ کے کسی ملک کے بازار میں ایک بہت بڑی دکان پر صرف بالوں کی حفاظت اور آرائش کی مصنوعات فروخت ہو رہی تھیں۔ حیرت ہوئی کہ بالوں کی اس قدر اہمیت۔ اسی طرح ہر ملک کے بازار میں وہاں کی موسیقی وغیرہ کا بھی مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔

بھارت کے بازار میں بھی کپڑے، خوشبوؤں اور طبی مصنوعات کی دکانیں بہت تھیں۔ یہاں خالص کشمیری پشمینے کا ایک نمبر رومال صرف 850 درہم، دو نمبر 450 اور تین نمبر رومال 250 درہم کا تھا جبکہ بیچنے والا ایک نمبر کشمیری تھا۔ اس رقم کو ساٹھ سے ضرب دے کر پاکستانی روپے میں قیمت معلوم کر سکتے ہیں۔ عالمی گاؤں میں افریقہ والا حصہ خصوصی طور پر قابل دید ہے کیونکہ یہاں لکڑی کی ایسی ایسی مصنوعات دستیاب ہیں جو دیگر مقامات پر نہیں ملتیں۔

ان بازاروں میں دکانداروں میں مردوں کے علاوہ عورتوں کی بھی تعداد بہت زیادہ ہے اور عورتیں گاہکوں کو جلدی پھانس بھی لیتی ہیں۔ افریقہ کے بازار میں لکڑی کی دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ غلیلیں اور ایک ایسا عصا بھی فروخت ہو رہا تھا جس کی ایک جانب گول سر سا بنا ہوا تھا اور لمبائی کوئی دو فٹ ہوگی۔ مجھے اس کا استعمال تو معلوم نہ ہو سکا لیکن اسے آلہء قتل کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔

کیونکہ گول والا حصہ کسی کے سر میں لگ جائے تو اس کا بچنا مشکل ہے۔ یہاں سے معین خان نے خشک میوہ جات پیش کرنے کے لئے تین خانوں والا ایک چوبی تھال خریدا۔ دکاندار خاتون کا قد کاٹھ ہم دونوں جتنا ہوگا۔ بھاؤ تاؤ کے بعد ہم نے قیمت بتائی تو اس نے دس درہم اور مانگے۔ ہم نے کہا یہ بہت ہیں تو کہنے لگی آپ کے لئے بہت ہیں لیکن میرا بھی کچھ سوچیں۔ سو مزید دس درہم بھی دینے پڑے۔

ہندوستانی بازار میں دراز بالوں والی عورت

ہندوستان کے بازار میں کپڑے کی مصنوعات کے علاوہ خوشبو، عطریات اور یونانی دواؤں کی بھی بڑی بڑی دکانیں ہیں جہاں اعلیٰ اور ادنیٰ ہر قسم کے کی خوشبوئیں اور ادویات دستیاب ہیں۔ ایک جگہ بالوں کی حفاظت اور آرائش وزیبائش سے متعلق چیزیں بک رہی تھیں۔ وہاں ایک خاتون کو ان نسخوں کا جیتا جاگتا اشتہار بنا کر ایک کرسی پر بٹھایا گیا تھا یا بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے بال نہایت سیاہ، بہت گھنے اور اتنے لمبے تھے کہ کرسی سے ہو کر زمین تک پہنچ رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ وہاں فروخت ہونے والے نسخوں کا کمال تھا یا بال نقلی یا اصلی تھے۔

یہاں کی سیر بہت دلچسپ تھی مگر تھوڑی سی پریشانی بھی ہوئی کہ مندوخیل صاحب کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ وہ اس کو تلاش کرنے لگے۔ میں اور معین صاحب ذرا دور تھے۔ ہم بھی سیر چھوڑ کر بچے کو ڈھونڈھنے چل پڑے۔ حسن اتفاق کہ بچہ مسجد کے باہر کھڑا مل گیا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی اور مندوخیل صاحب کو واپس بلا لیا۔

بچے نے بتایا کہ میں وضو خانے سے ادھر آ گیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ابا نماز کے لئے ادھر ہی آئیں گے لیکن وہ باہر نکلے تو بچے کو نہ پا کر تلاش میں دوسری طرف نکل گئے۔ ایسے میں سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ بچوں یا ساتھیوں کو ملن گاہ پہلے سے بتا دی جائے کہ اگر ضرورت کی وجہ سے ذرا آّگے پیچھے ہونا پڑ جائے تو اس جگہ ملیں گے۔ اس سے بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔

دوسری بات یہ ہہ بچوں کو فون نمبر لکھ کر دے دیں تاکہ رابطے میں آسانی ہو۔ حرم شریف میں میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ ناسمجھ بچوں کے ہاتھ میں ایک رسی سی ڈال کر اسے اپنے ہاتھ سے باندھ لیتے ہیں۔

عالمی گاؤں سے نکلتے نکلتے بہت دیر ہو گئی۔ اگلے دن پیر تھا اور یہ دن میرے ہمراہ آج کا دن گزارنے والے دونوں دوستوں کے کام کا دن تھا۔ اس لئے وہ مجھے مردف میں مولانا سیف اللہ حقانی صاحب کے ہاں پہنچا کر خود شارجہ چلے گئے۔

جبل علی کی سیر

ناشتے کے بعد مولانا سیف اللہ حقانی صاحب کہنے لگے کہ آج جبل علی چلتے ہیں۔ جبل علی عرب امارات کی مشہور بندرگاہ ہے۔ وہاں جانے سے قبل رستے میں ایک جگہ فون کی سم تبدیل کرنے کے لئے رکے۔ اس عمارت میں داخلے کے لئے مقامی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کا اندراج ضروری تھا اور وہ بھی کمپیوٹر پر کیونکہ دبئی میں اب اکثر چیزوں میں کاغذ کا استعمال متروک ہو چکا ہے اور تیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ کار پارکنگ اور بازاروں کے پھاٹک بھی خود کار طریقے سے کام کرتے ہیں اور کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں۔

ابن بطوطہ سینٹر

یہاں سے نکلے تو ابن بطوطہ سنٹر چلے گئے۔ یہ ایک عمارت کے اندر واقع بہت بڑا بازار ہے جس کے مختلف حصے مختلف ممالک کے نام سے موسوم ہیں اور ہر حصے میں اس ملک کی تہذیب وثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے اور جیسے ہی آپ وہاں پہنچتے ہیں تو در ودیوار کے رنگ اور طرز تعمیر تک بدل جاتا ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے کہ سچ مچ اس ملک میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں چین، ہندوستان اور مراکش وغیرہ کے الگ الگ گوشے ہیں لیکن بیچ میں عمومی اسلامی تہذیب کو مجسم کر کے پیش کیا گیا ہے۔

مہندس الجزری کی ایجاد ہاتھی گھڑی

ایک جگہ اصطرلاب کے استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ آلہ بحری اسفار اور جہات معلوم کرنے کے لئے کس قدر اہم تھا اور مسلمانوں کی اس ایجاد نے علم جغرافیا میں کیسا انقلاب برپا کیا۔ دوسری جگہ ایک رصدگاہ بنائی گئی ہے جہاں ماہرین فلکیات مختلف دائروں کو دائیں بائیں کر کے علم ہیئت پر غور وفکر کر رہے ہیں۔ ایک اور مقام پر ہاتھی گھڑی کی نمائش کی گئی ہے۔

یہ مہندس الجزری کی ایجاد ہے اور عجیب چیز ہے۔ اس میں سب سے نیچے ایک ہاتھی کا مجسمہ ہے، اس کی گردن پر فیل بان اور پیٹھ پر ایک بادشاہ بیٹھا ہے۔ اس کے اوپر ایک اژدہا بنا ہوا ہے۔ اس کے اوپر ایک لکڑی کے سرے پر ایک پرندہ بنا ہوا ہے۔ ہاتھی اپنی جگہ ساکت کھڑا رہتا ہے اور باقی چیزیں حرکت کرتی ہیں۔ ان کی حرکت کی رفتار گھڑی کی سوئیوں کی طرح مختلف ہے اور اس سے وقت کا پتہ چلتا ہے۔ میں تو اس کو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ جس آدمی نہ یہ آلہ بنایا ہوگا، اس کی عقل اور سوچ کس قدر وسیع ہوگی۔

مراکشی خطاط

ہاتھی گھڑی کے پاس ہی مراکش کے ایک خطاط ایک خوبصورت میز لگا کر بیٹھے ہیں اور آنے جانے والوں کو چابک دستی سے ان کے نام عربی اور انگریزی وغیرہ میں مفت لکھ کر دیتے ہیں لیکن نام کو فریم کرانے کے تیس درہم لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ فریم بھی کراتے ہوں گے لیکن ہمارے جیسے مفت خورے نام لکھوا لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

مجھے انہوں نے خط ثلث، دیوانی اور نستعلیق میں نام لکھ کر دیا تو میں نے خط مغربی میں لکھنے کی فرمائش کی تو وہ بھی پوری کر دی۔ وہ کہنے لگے کہ میں خطاط نہیں ہوں بلکہ شوق سے یہ کام کرتا ہوں اور جبل الصفا کی ایک ویڈیو دکھائی اور بتایا کہ وہاں خطاطی انہوں نے کی ہے۔

گوشئہ چین

بازار میں ذرا اور آگے گئے تو گوشہء چین آگیا۔ اس میں داخل ہوتے ہی ایسا لگا کہ ہم شاہی زمانے کے چین میں داخل ہو گئے ہیں۔ در ودیوار اور چھت پر اسی طرز کے نقش ونگار بنے تھے اور ایک جانب ایک بادبانی کشتی اپنی اصلی حالت میں رکھی تھی۔ اس کے سمندر میں ہونے کا تاثر دینے کے لئے اس کے نیچے پانی بھی چھوڑا گیا ہے۔ بہت دلچسپ منظر ہے۔

اس کے قریب ایک اور گھڑیال ہے جو ایک دیوار پر لگا ہے اور اس پر بارہ برج بنے ہوئے ہیں۔ اس کی عجیب بات یہ ہے کہ یہ وہاں کھڑے اور بیٹھے آدمیوں کی حرکت سے چلتا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے ڈھول بجاتا ہے، ایک دف بجاتا ہے اور ایک دونوں ہاتھوں سے توے سے بجاتا ہے۔ ان کی کہنیوں کے ساتھ پیچھے لکڑیاں لگی ہیں جو اس کل کو حرکت دیتی ہیں جس سے برجوں والا چرخہ جڑا ہے اور اس سارے عمل سے وقت کا پتہ چلتا ہے۔

ابن بطوطہ کا سفرنامہ

اسی دوران ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تو دوسری منزل پر نماز پڑھنے چلے گئے جہاں وضو کا بہترین انتظام اور ایک خوبصورت مصلیٰ بنا ہوا تھا۔ نماز پڑھ کر باہر نکلے تو آگے جانے والی دیوار پر ابن بطوطہ کی زندگی کے مختلف مراحل کی تصاویر آویزاں دیکھیں۔ ابن بطوطہ وہی مشہور سیاح ہیں جنھوں نے برسوں سیاحت کی اور مغرب عربی سے شروع ہونے والا ان کا سفر ہندوستان سے ہوتا ہوا چین تک پہنچا، کئی برس چین میں گزارنے کے بعد سمندر کے رستے واپس آئے۔ ان کا سفر نامہ چہار دانگ عالم میں مشہور ہے۔

اصل سفرنامہ عربی میں ہے اور اس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً سب بڑی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ میں نے سکول کے زمانے میں رئیس احمد جعفری کا ترجمہ کچھ کچھ پڑھا تھا۔ بہت دلچسپ اور اس زمانے کے حالات جاننے کے لئے بہت مفید ہے۔

امارات کا محکمہ اوقاف اور مساجد کے خدائی خدمت گار

میں ظہر اور عصر اول وقت میں پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے ان دونوں نمازوں میں فاصلہ کم ہوتا ہے اور ہمارے دوست اوقاف میں کام کرتے ہیں اس لئے ان کو واپس جانا تھا۔ سو میں بھی ان کے ہمراہ واپس چلا گیا۔ یہاں لوگ مساجد خود بناتے ہیں لیکن ان کا انتظام اوقاف کے حوالے کر دیتے ہیں اور محکمہء اوقاف امام، مؤذن اور خادم وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔

اور امام اور مؤذن باقاعدہ سرکاری ملازم تصور ہوتے ہیں جبکہ دبئی میں مساجد کی صفائی ستھرائی کا کام مختلف کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ امام اور مؤذن کو رہائشگاہ بھی فراہم کی جاتی ہے اور ان کی ساری سرگرمیاں اوقاف کی ترتیب کے مطابق ہوتی ہیں۔ کسی آدمی کو امام اور مؤذن سے کوئی شکایت ہو تو وہ اوقاف سے رجوع کرتا ہے جہاں باقاعدہ ان کو بلا کر مسئلے کی تحقیق کی جاتی ہے۔

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی جگہ ہر مسجد میں کچھ ایسے ’’خدائی خدمتگار‘‘ ضرور پائے جاتے ہیں جو امام اور مؤذن سے کبھی راضی نہیں ہوتے اور ان کی اصلاح کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں۔

اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک مسجد میں نئے امام صاحب آئے۔ پہلے دن نماز پڑھائی تو نماز کے بعد ایک چودھری صاحب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے امام صاحب آپ کی وجہ سے میری نماز خراب ہو گئی۔ امام صاحب نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ میں نے التحیات آدھی پڑھی تھی، آپ نے سلام پھیر دیا۔ امام صاحب کہنے لگے ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھیں گے۔

اگلی نماز کے بعد چودھری صاحب پھر کھڑے ہو گئے کہ نماز خراب کر دی۔ امام صاحب نے پوچھا کہ اب کیا ہوا؟ بولے کہ آپ نے سلام بہت دیر سے پھیرا۔ اس پر امام صاحب کہنے لگے کہ چودھری صاحب اپ جب التحیات پڑھ چکیں تو مجھے بتا دیا کریں، اس کے مطابق سلام پھیرا کروں گا۔ سادہ لوح ائمہ واقعی بڑی مشکل میں رہتے ہیں کیونکہ ان کے چالاک مقتدی ان کو کبھی سکھ کا سانس لینے نہیں دیتے۔

خود کار ٹرانسپورٹ نظام

عصر کے بعد حقانی صاحب نے مجھے سنٹر پوائینٹ اتار دیا اور وہاں سے میں اکیلے سیر کی نیت سے میں میٹرو سٹیشن میں داخل ہوا۔ دبئی میں عوامی نقل وحمل کا بڑا اچھا انتظام ہے۔ ایک طرف میٹرو ہے، دوسری طرف آرام دہ بسوں کا انتظام ہے اور اس کے ساتھ ہی اسی ادارے کے تحت سرکاری ٹیکسی سروس ہے۔ ان سب کے لئے آپ کو ایک ہی کارڈ خریدنا پڑتا ہے۔ اور اس میں ضرورت کے مطابق پیسے ڈالتے جاتے ہیں۔

اور استعمال کرتے ہیں۔ کسی جگہ کوئی کنڈکٹر نہیں، سب کام خود کار طریقے سے انجام پاتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ نئے مسافر کے لئے انجان ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ انجان اور اندھا برابر ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ٹریفک بائیں کی بجائے دائیں چلتی ہے اس لئے بائیں طرف چلنے کے عادی لوگوں کے لئے سفر کا رخ متعین کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

دبئی کی میٹرو سروس

دبئی میں دو میٹرو چلتی ہے۔ ایک ریڈ لائین اور ایک گرین لائین۔ رستے میں دو جگہ جنکشن آتے ہیں جہاں سے آپ میٹرو بدل سکتے ہیں۔ ان دونوں لائینوں کے سٹیشن تقریباً پورے شہر میں ہیں البتہ بھیڑ میں فرق ہوتا ہے کہ شہر کے بیچ کے سٹیشنوں پر بھیڑ زیادہ اور آس پاس والوں پر کم ہوتی ہے۔ میٹرو میں عورت مرد، چھوٹے بڑے، گورے کالے، موٹے پتلے، لمبے بونے، افریقی امریکی، یورپی ایشیائی اور مسلمان غیر مسلم سب ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔

کوئی بھی کسی بھی جگہ کسی کے بھی ساتھ بیٹھ سکتا ہے البتہ بسوں میں ڈرائیور کے پیچھے والی نشستیں خواتین، بوڑھوں اور معذوروں کے لئے مخصوص ہیں جن پر خالی ہونے کی صورت میں بھی کوئی اور نہیں بیٹھتا۔ اسی طرح سٹیشنوں پر عورتوں اور مردوں کے میٹرو میں داخلے کی جگہ مخصوص ہے۔

یہاں کا نظام قابل رشک ہے اور ہر آدمی قانون کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی پابندی کا پرچارک بھی ہے۔ آپ اگر غلطی کر رہے ہیں تو دوسرے آپ کو روکیں اور بتائیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو اپنے ملک میں ہر غلط کام کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ’’پاکستان ہے سب چلتا ہے‘‘ وہ بھی دبئی میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’بھئی خیال رکھنا یہاں قانون بہت سخت ہے۔ جرمانہ ہو جاتا ہے۔‘‘

اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اگر قانون سب کے لئے یکساں ہو تو سب اس کی خوشی خوشی پابندی کرتے ہیں لیکن اس میں چور دروازوں کی گنجائش رکھی جائے گی تو قانون کی بالا دستی کبھی قائم نہیں ہو سکتی۔

قانون کی پاس داری کا قابل رشک نظام

بتایا گیا کہ یہاں ہر چیز کے لئے قانون مقرر ہے اور قانونی کام کے لئے کسی بھی جگہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور جو رکاوٹ ڈالے، اس کے خلاف شکایت ہو سکتی ہے اور اس کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو قانون کی پابندی سکھانے کے لئے دبئی کے شیخ خود بھی کبھی کبھی سڑک پر نکل آتے ہیں اور عام مسافروں کی طرح اشاروں پر رکتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔

ترتیب اور انتظام اس درجے کا ہے کہ میٹرو سٹیشن اور دیگر مقامات پر لگے برقی زینوں پر بھی وضاحت سے درج ہے کہ اگر آپ کھڑے رہنا چاہتے ہیں تو دائیں جانب اور چلنا چاہتے ہیں تو بائیں جانب رہیں۔ میں جتنے دن وہاں رہا، بلا تفریق ملک وجنس سب لوگوں کو اس کی پابندی کرتے دیکھا۔

آج میں پہلی بار اکیلا باہر نکلا تھا۔ اس لئے صورت حال بالکل مختلف تھی۔ نئی جگہ، اجنبی لوگ، دیار غیر، کوئی واقفیت نہیں، کوئی جاننے والا نہیں بلکہ جہاں جا رہا ہوں اس سمت کا بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ مغرب کی جانب جا رہا ہوں یا مشرق کی جانب۔ میرے خیال میں یہ وہ کیفیت تھی جس کو اردو محاورے میں ’’جدھر سینگ سمائے چل دئے‘‘

کہتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ اس بگلے کے بچے کی طرح پہلی چھلانگ تھی جو First Plunge کے عنوان سے شاید ایف اے میں پڑھی تھی۔ یہ کیفیت انسان کو وہ تعلیم دیتی ہے جو کبھی نہیں بھولتی۔ البتہ اس دوران مجھے بار بار خیال آیا کہ وہ جو ’’الرفیق قبل الطریق‘‘ کہا گیا ہے، حکمت سے خالی نہیں کیونکہ دو آدمی ہوں گے تو آپس میں مشورہ کریں گے، کوئی پروگرام بنائیں گے، کوئی ترتیب سوچیں گے مگر اکیلا آدمی کیا کرے گا؟

اس سفر نامے کے گزشتہ اقساط پڑھئیے:

پہلی قسط

دوسری قسط

تیسری قسط

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button