Columns

مندروں کے شہر جموں میں اولیاء کرام کا راج

مندروں کے شہر جموں میں اولیاء کرام کا راج

نوید نقوی

قارئین! یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پڑوسی ملک بھارت ہمارا ازل سے دشمن ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمان انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شدید ظلم و ستم کا شکار ہیں اور اس نے جموں و کشمیر پر بھی غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اس غاصبانہ قبضے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے ہوئے اس کو بھارتی آئین کے زیر تسلط کر دیا تھا۔

مندروں کے شہر جموں

جموں کشمیر کا محل وقوع

جموں کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر جموں کشمیر اقصائے تبت ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔جموں کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھی شامل ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل کشمیر تین صوبوں پر مشتمل خود مختار ریاست تھی

دو کروڑ سے زائد کشمیری باشندے صدیوں سے غلامی کی زنجیر توڑنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں ۔ 14/ 15 اگست 1947سے پہلے ریاست جموں و کشمیر ایک نیم خود مختار ریاست تھی جس کارقبہ 84471 مربع میل تھا جس کے تین صوبے تھے- صوبہ جموں 12378 مربع میل، صوبہ کشمیر 8539 مربع میل اور سرحدی صوبہ لداخ و گلگت 63554 مربع میل پر مشتمل تھا۔ 1846ء سے ان علاقوں میں کوئی نظام نہیں تھا۔
وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔اس وقت یہ خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور پاکستانی کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اقصائے چین اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

مندروں کے شہر جموں

موجودہ کشمیر کا بڑا حصہ ہندوستان ، دوسرا حصہ پاکستان ،تیسرا حصہ چین کے پاس ہے

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں۔جو کشمیر کو دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ اس وقت بھارت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین کے پاس 37،555 مربع کلومیٹر کا رقبہ موجود ہے۔

جموں کشمیر کو ہںدو اکثریت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ،50 ہزار مندروں کی تعمیر شروع

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں وکشمیر کو جلد ازجلد ہندو علاقے میں تبدیل کرنے کے نریندر مودی کی فسطائی حکومت کے مذموم منصوبے کے تحت بھارت نے مقبوضہ علاقے میں تقریباً 50 ہزار مندر قائم کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت نے خستہ حال مندروں کی تعمیرنو کے نام پر کئی تاریخی مساجد اور درگاہوں کی نشاندہی کی ہے جہاں یہ مندر قائم کیے جارہے ہیں جیسا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی گٹھ جوڑ کا بدنام زمانہ طریقہ واردات رہا ہے۔

مندروں کے شہر جموں

قدیم مساجد کی جگہ مندر بنانے کا آغاز

بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مساجد ہندوؤں کے قدیم مذہبی مقامات پر تعمیر کی گئی تھیں۔ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ اب ملک میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی ہیئت ایک جیسی نہیں ہے۔ وہ ملک میں رہنے والے باقی طبقات سے سماجی ترقی میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔

غیر قانونی مذبح خانوں کی بندش کے نام پر مسلمانوں کی بڑی تعداد کو بے روزگار کیا جا رہا ہے

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ انھیں صرف ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں ہے، حکومت نے غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کے نام پر اور مویشیوں کی خرید وفروخت کے نئے ضابطوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک لمحے میں بے روزگار کر دیا ہے۔ آئے دن مختلف بہانے بنا کر ان کے گھروں کو بلڈوز کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چیلنوں پر قوم پرستی کی لہر جاری ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹ اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ ہے۔ اور اس سب کے پیچھے مودی اور اس کا دہشت گرد ٹولہ ہے۔
حکمراں بی جے پی ایک ہندو نواز پارٹی ہے اور ہندوتوا کے سیاسی اور مذہبی نظریے میں یقین رکھتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے تصور پر عمل پیرا ہے جس میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کےلوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔

ان تمام باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں قدم قدم پر تاریخ بکھری ہوئی ہے اور جگہ جگہ اولیاء اللہ تعالیٰ کے نقش پاک ثبت ہیں ، مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ ہندوستان پر حکومت کی ہے اور ان کی عظمت کے نشان یہاں عام ملتے ہیں۔ اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں درگاہیں موجود ہیں۔ بی جے پی کی انتہا پسندی کے باوجود ایسے لاکھوں کی تعداد میں مقامی ہندو موجود ہیں جو ان اولیاء کرام کی کرامات کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ ان کے عقیدت مند بھی ہیں۔

بھارت ایک بڑا ملک ہے اور شاید اگلی دہائی میں آبادی کے لحاظ سے چین کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی سے بھی آگے نکل جائے گا، یہاں ایک ایسا شہر بھی جو پاکستان کے سیالکوٹ سے صرف چندکلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، اگر تقسیم ہند کے وقت ریڈکلف اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی تو آج یہ شہر بھی اور پورا جموں و کشمیر بھی پاکستان کا حصہ ہوتے۔

مندروں کے شہر جموں

جموں کی 60 فیصد آبادی ہندو ، 30 فیصد مسلمان

جموں ہندوستان کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر پر مشتمل تین علاقوں میں سے ایک ہے۔ شمال میں جموں کی سرحدیں کشمیر، مشرق میں لداخ، جنوب میں ہماچل پردیش اور مغرب میں آزاد کشمیر سے ملتی ہیں۔۔ جموں ریاست جموں و کشمیر کا واحد ہندو اکثریتی علاقہ ہے جہاں ہندو کل آبادی کا 90 فیصد ہیں۔ جموں کی 10 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں کی اور 5 فیصد سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر جموں کو اکثر مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پورے بھارت سے یاتری آتے ہیں اور پھر اس شہر میں قائم مندروں کی زیارت کر کے آگے پہاڑوں کی طرف چلے جاتے ہیں یہاں کئی تاریخی مندر موجود ہیں۔ لیکن مندروں کے اس شہر کی ہر دوسری تیسری گلی میں آپ کو مسلمانوں کے کسی نہ کسی پیر فقیر کی درگاہ ضرور ملتی ہے۔

جموں کے ہندو بھی اسلامی درگاہوں پر جاتے ہیں

ہندو اکثریت والے اس شہر میں درگاہوں کی مقبولیت کافی زیادہ ہے اور یہاں ان درگاہوں سے عقیدت رکھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندو آبادی کی ہے۔یہاں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ درگاہوں پر، مزاروں پر جا کر ان کی منتیں، مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اس لیے بلا لحاظ مذہب، قوم اور فرقہ لوگ یہاں آ تے ہیں، اور اپنی مرادیں پاتے ہیں۔
یہاں آپ درگاہوں پر جتنا نیا کام دیکھیں گے ، یہ سب غیر مسلم افراد نے کرایا ہے، کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی زیادہ تر غیر مسلم کرتے ہیں جن میں سے 99 فیصد کا مذہب ہندو ہے۔

مندروں کے شہر جموں

تقسیمِ کے وقت جموں شہر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی آبادی برابر تھی

سنہ1947 میں برصغیر کی ہونے والی تقسیم سے پہلے جموں شہر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً برابر تھی۔ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر سرحد کی دوسری طرف پاکستان جانے کے لیے مجبور ہو گئے تھے۔ بٹوارے کو 70 سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صرف ایک بار اپنا وہ گھر دیکھنے کی حسرت لیے جی رہے ہیں جہاں یا تو وہ خود یا ان کے خاندان کے بڑے بوڑھے بٹوارے سے پہلے رہا کرتے تھے۔ لیکن اب شہر میں دس فیصد کے قریب مسلمان رہ گئے ہیں۔

اسلامی درگاہوں کے متولی بھی ہندو ہیں

ایسے میں یہ درگاہیں ہندوؤں اور سکھوں کی عقیدت کی وجہ سے ہی آباد ہیں۔ اور ان درگاہوں کے متولی بھی زیادہ تعداد میں غیر مسلم ہیں۔جہاں ایک طرف کچھ مبصرین پورے بھارت میں دائیں بازو کی سخت گیر طاقتوں کی بالخصوص بی جے پی جیسی دہشت گرد پارٹیوں کی کامیابی اور مسلمانوں کے خلاف بظاہر بننے والی فضا پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، وہیں ایک صدیوں پرانی، ملی جلی تہذیب کے تانے بانے آج بھی صاف نظر آتے ہیں۔
1947 کی خوں ریزی نے جموں شہر کو بدل کر رکھ دیا، اور یہاں کی ہندو اور مسلمان برادریوں کے درمیان بظاہر اندھیروں سے بھری ایک خلیج پیدا کر دی۔ مگر جموں کی درگاہوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان اندھیروں میں عقیدت کے دیے اب بھی روشن ہیں۔ جموں شہر اپنی ایک خاص تاریخی حیثیت رکھتا ہےاس شہر نے تقسیم کے وقت خوفناک خونریزی دیکھی اور اس زمانے میں مسلمانوں کے حالات انتہائی دگر گوں ہو گئے تھے۔

مندروں کے شہر جموں

ست گرے ،پیر کا مزار ،بابا ہڈن کا مزار ، پیر میٹھا کا مزار ودیگر غیر مسلموں میں مشہور ہیں

یہاں چند مزارات غیر مسلموں میں کافی مقبول ہیں جن میں ست گزے پیر کا مزار ،ستواری میں بابا بڈن شاہ کا مزار ، پیر مٹھا کا مزار، شاہ ولی درگمولہ کا مزار کافی معروف ہیں۔ ان مزارات پر 24 گھنٹے عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے اور ان عقیدت مندوں میں سے 90 فیصد سے زائد غیر مسلم ہوتے ہیں۔ آج بھی یہ مزارات اپنے اصل وارثوں کے منتظر ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بہت جلد آئے گا جب جموں و کشمیر میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور یہ تمام علاقہ پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

چین تائیوان کشیدگی اور امریکہ کا کردار

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button