Columns

چین تائیوان کشیدگی اور امریکہ کا کردار

چین تائیوان کشیدگی اور امریکہ کا کردار

نوید نقوی

اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو کم وبیش 300 دن ہو چکے ہیں اور جنگ ختم ہونے کے فی الحال کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں، ایک طرف روس ، چین اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تو دوسری طرف یوکرین کی امریکہ اور یورپی یونین مکمل مدد کر رہے ہیں۔ ان دو ممالک کی جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کو انرجی اور فوڈ کرائسس کا سامنا ہے اور کئی ممالک اس جنگ کی قیمت چکانے پر مجبور ہیں۔

جنگ عظیم سوم کی شروعات ہونے والی ہے ؟

لیکن اب ایک اور نیا تنازعہ تیزی سے سر اٹھا رہا ہے اور اگر یہ تنازعہ بڑھا تو ہمارے جیسے غریب ممالک کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ جنگ عظیم سوم کی بھی عملاً شروعات ہوگی۔ امن کے لیے بدقسمتی ہے کہ اس تنازعے کو ہوا دینے کے پیچھے بھی امریکہ ہے۔چین اور تائیوان کے درمیان یوں تو 1949 سے ہی کشیدگی ہے لیکن دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں اس کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے 25 سال میں کسی سینئر امریکی عہدیدار کی جانب سے پہلی بار تائیوان کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا تھا اور چین نے جزیرہ نما تائیوان کے گرد اپنا حصار سخت کرتے ہوئے بڑی فوجی مشقیں شروع کردی تھیں۔
تائیوان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین تائیوان کی بحری اور فضائی حدود میں بڑے پیمانے پر دراندازی کر رہا ہے۔ تائیوان کے حکام کے مطابق اسے تائیوان کی حدود میں چین کی جانب سے اب تک کی جانے والی سب سے بڑی دراندازی قرار دیا جا رہا ہے۔وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ چینی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں اور ڈرونز سمیت 71 طیارے تائیوان کے ’فضائی دفاعی شناختی زون‘ میں داخل ہوئے۔چین کے جزیرہ پنگٹین کے اوپر چینی جنگی جہازوں کو پرواز کرتے ہوئے دیکھا گیا جو میزائلوں سے لیس تھے۔
پنگٹین چینی سرزمین کا وہ جزیرہ ہے جو تائیوان کے قریب ترین ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کئی چینی بحری جہازوں نے مختصر مدت کے لیے آبنائے تائیوان میں میڈیئن لائن عبور کی۔ یہ وہ لکیر ہے جو اس آبنائے تائیوان کو تائیوان اور چینی سر زمین کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔

تائیوان کا تنازع کیا ہے ؟

تائیوان مشرقی چین کے ساحل پر ایک خود مختار جزیرہ ہے جس کے بارے میں بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ یہ چین کا حصہ ہے۔ چین اسے اپنے سے الگ ہونے والے ایسے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جو بالآخر دوبارہ اس کا حصہ بن جائے گا۔یہ جزیرہ چینی سرزمین (مین لینڈ) کے جنوب مشرقی ساحل سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔چین کے سرکاری ریکارڈ میں اس جزیرے کا ذکر سنہ 239 میں آتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب چین نے خطے کے مطالعے کے لیے ایک تحقیقی ٹیم سمندر میں روانہ کی تھی۔ یہ وہ تاریخی ریکارڈ ہے جس کی بنیاد پر چین تائیوان پر اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔

چین اور تائیوان کی جنگ

جمہوریہ چین جو کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج کا ایک حصہ تھا جمہوریہ چین نے اپنے اتحادیوں، یعنی امریکہ اور برطانیہ کی رضامندی سے تائیوان پر اپنی حکومت قائم کر لی۔لیکن اگلے چند برسوں میں چین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور اس وقت کے رہنما چیانگ کِائی شیک کی فوجوں کو ماؤ زے تنگ کی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔سنہ 1949 میں جنرل چیانگ اور اس کی کوومنتانگ (KMT) حکومت کی باقیات چین کی سرزمین پر شکست کھانے کے بعد جزیرہِ تائیوان فرار ہو گئیں۔ اب تائیوان کا اپنا آئین ہے، جمہوری طور پر منتخب رہنما اور اس کی اپنی مسلح افواج کی تعداد تین لاکھ ہے۔

سنہ 1971 میں اقوام متحدہ نے بیجنگ حکومت کو تسلیم کیا

تائیوان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی نشست پر قابض رہا تھا اور متعدد مغربی ممالک تائیوان کی حکومت کو ہی پورے چین کی اصل حکومت کے طور پر تسلیم کرتے تھے۔لیکن سنہ 1971 میں چین اور امریکہ کے براہ راست تعلقات کی بحالی کے بعد اقوام متحدہ نے بیجنگ کی انتظامیہ کو چین کی اصل نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا۔اس سے خطے کی سفارتی شناخت تبدیل ہو گئی، اور جمہوریہ چین یعنی آر او سی کی حکومت کی اپنی شناخت وہ نہ رہی جو اس سے پہلے تھی۔ اس کے بعد سے، جمہوریہ چین (ROC) یعنی تائیوان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد صرف 15 رہ گئی۔

“ایک ملک دو نظام” کا چینی فارمولا

اگر ان دونوں کے درمیان کشیدگی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سنہ 1980 کی دہائی میں چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے لگی تھی۔ چین نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جو ‘ایک ملک، دو نظام’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت اگر تائیوان نے چینی اتحاد کو قبول کر لیا تو اسے اہم خود مختاری دے دی جائے گی۔یہ نظام ہانگ کانگ میں قائم کیا گیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ تائیوان کے لوگوں کو چین کی اصل سرزمین کے ساتھ الحاق کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اسے (یعنی ہانگ کانگ کو) ایک اچھی مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔تائیوان نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا، لیکن اس نے چین میں آنے اور سرمایہ کاری سے متعلق قوانین میں نرمی کی۔
سنہ 1991 میں اس نے اصل سرزمین پر عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ جنگ ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔فریقین کے غیر سرکاری نمائندوں کے درمیان بھی محدود بات چیت ہوئی تھی۔اور سنہ 2000 میں، جب تائیوان نے چن شوئی-بیان کو صدر منتخب کیا تھا تو بیجنگ کی حکومت پریشان ہو گئی تھی۔ مسٹر چن نے کھل کر ‘آزادی’ کی بات کی تھی۔مسٹر چن کے بعد ما ینگ جیؤ نے کامیابی حاصل کی جنھوں نے سنہ 2008 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی معاہدوں کے ذریعے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔

تائیوان کی موجودہ امریکا نواز حکومت

آٹھ سال بعد، سنہ 2016 میں تائیوان کی موجودہ صدر سوئی اینگ وین منتخب ہوئی تھیں۔ وہ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کی سربراہ ہیں، جو چین سے باضابطہ آزادی حاصل کرنے کے خیال کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ ان کے دور میں چین کے ساتھ کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا کیونکہ وہ امریکہ کے بہت زیادہ قریب ہو گئیں اور یہ بات چین کے لیے ناقابل قبول تھی۔
اگر تائیوان چین کے مکمل طور کنٹرول میں ہو تو کئی مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ چین بحرالکاہل کے علاقے میں اپنی طاقت کو مزید آگے بڑھانے کے لیے آزاد ہوگا اور گوام اور ہوائی جیسے امریکی فوجی اڈے بھی اس کی دسترس میں ہوں گے۔چین کا پہلے ہی بحیرہ جنوبی چین پر بہت زیادہ فوجی اثر و رسوخ ہے، لیکن اگر اس کے پاس تائیوان بھی ہو تو اس سے وہ اپنے بحری اثر و رسوخ کو بڑھا سکتا ہے اور اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکتا ہے جس کے عالمی تجارت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے ۔

عالمی منڈی میں تائیوان کی معیشت کی اہمیت

تائیوان کی معیشت چین کے لیےبہت اہمیت کی حامل ہے۔سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، گھڑیاں اور گیم کنسولز سے لے کر دنیا میں ہم روزانہ کی بنیاد پر جو الیکٹرانک آلات استعمال کرتے ہیں، ان میں سے اکثر میں تائیوان میں بنی چپس استعمال ہوتی ہیں۔
صرف ایک کمپنی تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (ٹی ایس ایم سی) اس صنعت میں آدھی عالمی منڈی کو کنٹرول کرتی ہے۔سنہ 2021 میں ٹی ایس ایم سی کی قدر کا تخمینہ تقریباً 100 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔
اگر تائیوان کا بالفرض چین کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو بیجنگ کو دنیا کی اہم ترین صنعتوں میں سے ایک پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
سنہ 2014 میں ایک متنازع تجارتی معاہدے نے ‘سن فلاور موومنٹ’ کو جنم دیا تھا جس کے دوران طلبا اور انسانی حقوق کے کارکنان نے تائیوان کی پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیا جس میں انھوں نے تائیوان پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ محترمہ سوئی نے سنہ 2020 میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی۔اسی کے ساتھ ہی امریکہ نے تائیوان سے رابطے بڑھانے کی پالیسی پر زور دینا شروع کر دیا اور تائپی (تائیوان کا دارالحکومت) کو اپنی حمایت کا مسلسل یقین دلانا شروع کر دیا۔

امریکی وفد کا دورہ تائیوان اور چین کا ردعمل

گذشتہ ستمبر میں واشنگٹن نے دہائیوں بعد محکمہ خارجہ کے اعلی سطح کے اہلکار کو تائیوان کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔بیجنگ نے اس دورے پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکہ کو خبرادر کیا تھا کہ ‘چین اور امریکہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچنے سے بچانے کے لیے ‘تائیوان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے عناصر کو کوئی غلط اشارہ نہ بھیجیں۔متنازع دورے کے دوران چین نے اپنے اور جزیرہِ تائیوان کے درمیان آبی گزرگاہ میں فوجی مشقیں بھی کی تھیں۔ جواب میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا کہ تائیوان کے ساتھ اس کی دوستی کی ’ٹھوس پالیسی‘ ہے۔

تائیوان کی آزادی ایک بند گلی ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے تائیوان کے معاملے پر چین کو خبردار کرنے کے ہفتوں بعد، بیجنگ نے اب اس بارے میں سخت اور شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تائیوان کی آزادی سے متعلق کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر کچل دے گا۔اس کے ساتھ ہی چین نے موسمیاتی تبدیلی، ملڑی سطح کے مذاکرات اور بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے کی کوششوں سمیت کئی اہم شعبوں میں امریکہ کے ساتھ اپنا تعاون جاری نہ رکھنے کا اعلان کیا اور چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ وہ چین کا حصہ ہیں اور تائیوان چین میں ضم ہو کر رہے گا۔چینی صدر نے کہا کہ دونوں فریقین ایک ہی چینی نسل کا حصہ ہیں اور تائیوان کی آزادی ایک ’بند گلی‘ ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں۔

چین اور تائیوان کی آبادی ، بجٹ اور عسکری قوت کا تناسب

چین کی آبادی لگ بھگ ایک ارب 40 کروڑ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں تائیوان کی آبادی فقط تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ بنتی ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ تائیوان کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہے جبکہ چین فوج کے سائز، فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں میں بھی تائیوان سے بہت آگے ہے۔چین کے فوجیوں کی تعداد تائیوان کے فوجیوں کی تعداد سے 12 گنا زیادہ ہے۔ چین کے پاس 15 لاکھ ریزرو فوجی ہیں۔ اگر تائیوان کی زمین پر قبضہ کرنا ہے تو چین اس ریزرو فوج کو استعمال کر سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ ایک اور جنگ کروانے کا منصوبہ بنا رہا ہے یا ان دو ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے کے پیچھے اس کے درپردہ کچھ اور مقاصد ہیں؟ چاہے امریکہ کے مقاصد جو بھی ہوں اقوام متحدہ اور دیگر امن دوست ممالک، تنظیموں اور رہنماؤں کو چاہیئے کہ وہ دنیا میں ایک اور جنگ کسی صورت بھی نہ ہونے دیں ورنہ تیسری عالمی جنگ چھڑ جانے کا امکان ہے اور انسانیت وہ تباہی دیکھے گی جس کی مثال رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔ پاکستان کو بھی دنیا کے امن کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ پاکستان کے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہیں اور ان کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کروا سکتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھئیے

بنگلہ دیشی وزیراعظم مودی قصاب کے نقش قدم پر

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button