Columns

سردیوں کی آمد اور توانائی کا خوف ناک بحران ہمارا منتظر

سردیوں کی آمد اور توانائی کا خوف ناک بحران ہمارا منتظر

نوید نقوی

پاکستان میں سردیوں نے اپنی آمد کا بگل بجا دیا ہے، بے شک پاکستان میں سردیوں کا دورانیہ بنسبت گرمیوں کے کم ہوتا ہے لیکن اس بار یہ موسم اپنی شدت اس طرح محسوس کروائے گا کہ اس وقت ملک میں انرجی کی شدید قلت ہے۔ پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کافی سال سے معمول بن چکی ہے۔اور اس بار بھی ملک میں گیس کی کمی کی وجہ سے تجارتی اور گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے

ملک کے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے بھی گیس کی کمی کے بارے میں چند ہفتے قبل آگاہ کیا تھا۔ پاکستان میں گیس، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان انرجی بک کے مطابق ملک میں توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد گیس سے پورا کیا جاتا ہے جو ملکی پیداوار اور درآمدی گیس پر مشتمل ہے۔پاکستان میں ایک ایسا بحران متوقع ہے جس نے گذشتہ چند ماہ سے یورپ کے تمام ممالک کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اور جس کے بارے میں اقوام متحدہ سے لے کر دنیا بھر کے معاشی و سیاسی تجزیہ کار بیک زبان ہو کر دہائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ آنے والی سردیوں میں یہ بحران نہ صرف یورپ بلکہ افریقہ اور ایشیا کے بھی لاتعداد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔

اقوام متحدہ نے رواں سال اپریل میں آنے والے انرجی بحران پر متنبہ کیا تھا

ماہرین وارننگ دیتے رہے کہ اگر بروقت اس سے نمٹنے کی کوشش نہ کی گئی تو لاتعداد ملک قحط، وبا اور کسمپرسی کا شکار ہو جائیں گے۔ 13 اپریل 2022ء کو اقوام متحدہ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی جس کا پہلا حصہ “Brief No.1” ان آنے والے حالات کی ہولناکی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا’یوکرین کی جنگ کے دنیا کے خوراک، معیشت اور انرجی کے نظام ہائے کار پر اثرات، یہ رپورٹ نہیں بلکہ ایک وارننگ تھی جس کے منظر عام پر آتے ہی دنیا کے تقریباً تمام ممالک، خصوصاً یورپی ممالک نے اپنے عوام کو خوراک اور انرجی کے ممکنہ بحران سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کوشش شروع کر دیں، یہاں تک افریقہ کے غریب ممالک، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی پیش بندیاں شروع کر دیں۔

پاکستان میں متوقع سنگین بحران سے نمٹنے کے لئے اقدامات ناکافی

اس کے بالکل برعکس پاکستان کے عوام اور حکومت دونوں ہی خواب خرگوش کے مزے لے کر سوئے رہےاور آج ہماری اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ ملک چند دنوں میں ایک ایسے بحران میں داخل ہونے والا ہے جس کا شاید ہمارے پاس فی الحال کوئی حل موجود نہیں ہے۔ہماری آنکھ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس وقت کھلے گی جب پانی سر سے گزر جائے گا۔

عالمی میڈیا میں پاکستان کا خصوصی تذکرہ

اس آنے والے بحران کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات، رسائل اور عسکری جرائد پاکستان کا خصوصی تذکرہ کر رہے ہیں۔ہمیں جگانے کے لیے دنیا بھر کا میڈیا شور کر رہا ہے ، مغربی میڈیا میں سب سے کم متعصب اور غیر جانبدار میڈیا جرمن میڈیا تصور ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی کالونی نہیں رہی ہے اور نہ ہی کبھی اس کے توسیع پسندانہ عزائم تھے۔ سرد جنگ کے زمانے میں بھی وہ بمشکل امریکی چھتری تلے اور نیٹو کا حصہ بن کر اپنی آزادی کا تحفظ کرتا رہا ہے۔جرمنی کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ جرمن عوام نے پاکستانی بھائیوں کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کی ہے اس وقت بھی پاکستان کے حوالے سے انہی غیر جانبدار جرمن تجزیہ کاروں کے تبصرے اور تجزیے امریکی اور برطانوی تجزیہ کاروں سے زیادہ قابل اعتبار ہیں۔

پاکستان کی روشنیاں گل ہونے والی ہیں ، جرمن میڈیا

کے سنجیدہ میگزین جرمن فارن پالیسی میں 24 اگست 2022ء کو جو مضمون شائع ہوا تھا اس کا عنوان ہی چونکا دینے والا تھا، یورپ مائع گیس کا ذخیرہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی روشنیاں گُل ہونے والی ہیں۔ یہ مضمون جرمن زبان میں شائع ہوا، لیکن گوگل کی ترجمہ کی سہولت کی وجہ سے ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس مضمون کی ذیلی سرخی میں لکھا ہے کہ غریب ترین ممالک کو انرجی کے بحران کا خطرہ ہے، کیونکہ یورپ مائع گیس (L.N.G) خرید رہا ہے۔ یعنی اس وقت عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام غریب ممالک بحران کا شکار ہونے والے ہیں، لیکن شہ سرخی میں پاکستان کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔

پیش بندی کا فقدان

پاکستان میں اس بحران کی واضح آمد کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آنے والے بحران کی پیش بندی نہیں کی اور نہ ہی اپنی عوام کو اس ممکنہ مشکل وقت کے مقابلے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا ہے۔

انرجی بحران سے بچنے کے لئے یورپی ممالک کی بہترین پیش بندی

گذشتہ کئی سال سے یورپ کے تمام ممالک اپنی گیس کی ضروریات روس سے پوری کرتے چلے آ رہے ہیں، لیکن جیسے ہی 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو تمام یورپی ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کے مفاد کے لئے دو اہم پالیسی اقدامات کئے۔ ایک یہ کہ امریکہ کے اتحادی ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے امریکہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ روس سے گیس اور پٹرول نہ خریدیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جوبائیڈن افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر گیا اور اس نے افریقی ممالک سے کہا کہ ’آپ روس سے گیس نہ خریدیں‘ تو سب نے اسے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ ’پہلے یورپ کو منع کرو پھر ہم بھی تمہاری بات مان لیں گے‘۔

یورپ نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی مائع گیس نکالی یا بیچی تھی، وہاں زیادہ قیمت دے کر اس گیس کا سودا کر لیا اور اس وقت عالم یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی ایل این جی کے آئل ٹینکر موجود ہیں یورپ ان کا سودا کر چکا ہے۔

پاکستان کے لئے مہنگی گیس خرید کر صارفین کو کم نرخوں پر دینا ممکن نہیں رہا

پاکستان کے لیے اب مہنگی درآمدی گیس خرید کر اسے کم نرخوں پر مقامی صارفین کو بیچنا ممکن نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ مزید بڑھ سکتا ہے، جو ملک کی وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ تین سال میں 350 ارب روپے سے 650 ارب روپے ہو گیا۔پاکستان اب سپاٹ مارکیٹ سے ایل این جی خریدنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ دنیا میں جتنی بھی ایل این جی میسر ہے اس کا ہر مالیکیول یورپی ممالک نے خرید لیا ہے،۔

عالم یہ ہے کہ پاکستان نے ایل این جی خریدنے کے جو معاہدات کئے ہوئے تھے یورپ کے ممالک ان معاہدات کو کینسل کروا رہے ہیں اور کمپنیوں کو معاہدہ کینسل کرنے کا 30 فیصد جرمانہ بھی ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اگر وہ جہاز پاکستان کے ساحل کے قریب آ چکے ہیں تو انہیں کرائے کی رقم دے کر جہاز یورپ منگوا رہے ہیں۔

روس نے سردیاں أتے ہی یورپ کو گیس کی سپلائی بند کر دی

نے سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی یورپ کو گیس کی سپلائی بند کر دی ہے اور روسی رہنما کہتے ہیں روس اس وقت تک سپلائی فراہم نہیں کرے گا جب تک یورپی ممالک، روس کے خلاف معاشی پابندیاں ختم نہیں کرتے۔ پیوٹن کے ترجمان ڈیمرتی پیسکوو (Dmirty Pskove) نے کہا ہے کہ گیس کی بندش دراصل یورپ اور کینیڈا کی انہی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔یورپی ممالک کے عوام ابھی سے سردی میں گیس کے بغیر زندہ رہنے کے تصور سے ہی کانپ رہے ہیں۔

یورپ نے تو مہنگے داموں گیس خرید لی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے دنیا کی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں کو بھی آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ یورپ کو سردیوں کی آمد کا خوف ہے جس کا اس نے بندوبست کر لیا ہے۔ ہمارا کیا ہو گا؟ جن کے پاس 39,772 میگا واٹ کی پاور جنریشن کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن اس میں سے 25,098 میگا واٹ تھرمل اور صرف 9,915 میگا واٹ پانی سے بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔ تقریباً 60 ایسے پاور سٹیشن ہیں جنہیں بجلی پیدا کرنے کے لئے گیس یا ایل این جی کی ضرورت ہے۔

چند ہفتوں بعد خوف ناک بحران ہمارا منتظر

چند ہفتوں بعد یہ کیفیت آنے والی ہے کہ ہمارے ساحلوں پر کوئی ٹینکر ایل این جی لے کر نہیں آئے گا اور ہماری زمینی گیس جو ہمارے چولہے جلاتی ہے، اسے بھی اگر ان سٹیشنوں کو دے دیں تو بھی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی۔ گھروں میں گیس اور بجلی نہیں ہو گی اور ایسے میں سیلاب میں ڈوبا ہوا یہ ملک جب ایک خوفناک بحران سے دوچار ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ سوچ کر ہی خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔پاکستان میں گیس کی طلب درآمدی اور مقامی ذرائع سے پوری کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان قطر اور ای این آئی سے لانگ ٹرم معاہدوں کے تحت گیس لے رہا ہے۔

گیس کی یومیہ ضرورت 1.4 ارب کیوبک فیٹ، سردیوں میں 4.5 ارب ہو جاتا ہے

گیس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے سپاٹ کارگو یعنی عالمی منڈی میں موجودہ قیمت پر دیے جانے والے ٹنیڈرز کے سامنے کوئی بولی اکتوبر کے مہینے میں موصول نہیں ہوئی۔اس ٹینڈر کے تحت پاکستان کو اگلے پورے سال میں 12 ایل این جی کارگو منگوانے تھے، جو جنوری سے لے کر دسمبر تک منگوائے جانے تھے تاہم ان کے سامنے حکومت کو کوئی بولی نہیں ملی۔جبکہ پاکستان کی روزانہ کی بنیادوں پر گیس کی ضرورت 1.4 ارب کیوبک فیٹ ہے جو سردیوں میں طلب بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ارب کیوبک فیٹ روزانہ تک چلی جاتی ہے۔

ملک میں گیس کی مقامی پیداوار 3.1 ارب کیوبک فیٹ

میں مقامی گیس کی پیداوار 3.1 ارب کیوبک فیٹ روزانہ ہے۔ کم مقامی پیداوار کو درآمدی گیس سے پورا کیا جاتا ہے تاہم مہنگی گیس ہونے کی وجہ سے اس سال اب تک 0.2 ارب کیوبک فیٹ روزانہ کم گیس درآمد کی گئی ہے۔اکتوبر کے مہینےمیں پاکستان کی جانب سے جنوری سے لے کر دسمبر 2023 تک ہر مہینے ایک کارگو منگوانے کے لیے دیا جانے والا ٹینڈر بھی کوئی بولی حاصل نہ کرسکا اور اس وقت پاکستان کو صرف لانگ ٹرم معاہدوں کے تحت درآمدی گیس مل رہی ہے جو ملک کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے اور اس سال اب تک درآمدی گیس بھی 0.2 ارب کیوبک فیٹ روزانہ کم درآمد کی گئی ہے۔

ہمیں چاہیئے کہ فوری طور پر اپنے دوست ممالک سے رابطہ کرکے انرجی کے حوالے سے نئے معاہدے کرنے چاہئیں اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیے۔۔ دنیا اور ہمارے ہمسائے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم ابھی تک اپنی انرجی کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے اب بھی وقت ہے ہمیں بحیثیت قوم جاگنا ہوگا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیئے:

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس اور انسان کی بقا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button