Columns

زندگی سے بھرپور شہر نیویارک اور لیڈی لبرٹی کی شان

زندگی سے بھرپور شہر نیویارک اور لیڈی لبرٹی کی شان

نوید نقوی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ بلاشبہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اور چین روس کے عروج کے باوجود ابھی تک اس کا شمار دنیا کی سپر پاور میں ہوتا ہے۔ ہمارے امریکی حکومتوں کی پالیسیوں سے ہزار اختلاف ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے امریکی عوام انسانیت کی قدر کرتے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔
دنیا میں جہاں بھی قدرتی آفات آتی ہیں امریکی عوام مجموعی طور پر وہاں بڑھ چڑھ کر امدادی کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے انسانی ترقی میں اہم اور قائدانہ کردار ادا کیا ہے جس کو پوری دنیا بھی تسلیم کرتی ہے۔

جب فرانسیسی بادشاہ نپولین بوناپارٹ نے ریاست لوزیانا کو ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں امریکا کو فروخت کیا

یہ ملک دنیا میں ایک وسیع رقبے پر آباد ہے، اس کے رقبے میں 20 لاکھ مربع کلومیٹر کا اضافہ اس وقت ہوا تھا جب فرانس کے بادشاہ نپولین بوناپارٹ نے ریاست لوزیانا کو صرف ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں صدر جیفرسن کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ یہ وسیع وعریض زرعی رقبہ ملنے کے بعد ہی امریکہ حقیقی معنوں میں ایک با وسائل اور طاقت سے بھرپور ملک بن گیا تھا۔

کل 96 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے اور 34 کروڑ آبادی پر مشتمل دنیا کا تیسرا بڑا ملک

اس وقت امریکہ کا کل رقبہ 96 لاکھ مربع کلومیٹر ہے اور دنیا بھر میں 700 سے زائد فوجی اڈے اور چھوٹے چھوٹے جزائرز کی ملکیت الگ ہے۔ جبکہ اس کی آبادی تقریباً 34 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ واشنگٹن ڈی سی اس کا دارالحکومت ہے اور اس خوبصورت شہر کی سیر بھی انشاء اللہ بہت جلد کریں گے۔

امریکی ڈالر کو دنیا کی طاقت ور ترین اور ریزرو کرنسی کی حیثیت کب اور کیوں ملی ؟

 

اس ملک کی کرنسی ڈالر آج بھی دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی ہے اور عالمی تجارت زیادہ تر ڈالر میں ہی ہوتی ہے۔ امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر میں جولائی 1944 میں 44 ممالک کے 730 نمائندے جمع ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد عالمی سطح پر درپیش معاشی چلینجز کا حل نکالنا تھا۔ اس کانفرس میں ایک ایسا معاہدہ طے پایا جس نے ڈالر کو دنیا کی طاقت ور ترین کرنسی بنا دیا۔ اس کانفرنس میں ہونے والے بریٹن وڈز معاہدے کے بعد ڈالر کو دنیا میں ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہو گئی جس کے بعد دنیا میں تجارتی لین دین کے لیے ڈالر کا استعمال شروع ہو گیا۔

امریکہ کی ایک ایسی خوبی جس سے چین اور روس جیسے مخالف ممالک بھی انکار نہیں کر سکتے وہ یہ ہے کہ یہاں میرٹ کی قدر ہے اور ہر ایک کے لئے ترقی کے یکساں مواقع ہیں۔ یہاں اظہار رائے کی آزادی ہے اور امریکی معاشرہ جمہوریت پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ کسی بھی ملک کی تعریف کی جائے یا اس کی خامیوں پر نظر رکھی جائے یہ تو وقت فیصلہ کرتا ہے کہ وہ صحیح سمت میں جا رہا ہے یا اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔

دنیا کا مصروف ترین شہر اور مصروف ترین ہوائی اڈہ

امریکہ کی سیاست ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے بلکہ آج اس ملک کا سب سے بڑا شہر جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ہزار رنگ رکھتا ہے اور جو دنیا میں مصروف ترین شہر کا بھی اعزاز رکھتا ہے اس شہر کا ائیرپورٹ جان ایف کینیڈی دنیا کا سب سے مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ نیویارک شہر جہاں آنا اور اس کی تیز ترین زندگی کا حصہ بننا دور جدید کے ہر نوجوان کا خواب ہے۔
نیو یارک شہر ریاستہائے متحدہ امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس کا شمار دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شہر 830 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کو بگ ایپل big apple بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار براعظم شمالی امریکا اور دنیا کے سب سے گنجان آباد شہروں میں ہوتا ہے۔ ہنگری کا بوڈاپسٹ، ساؤتھ افریقہ کا جوہانسبرگ، فلسطین کا یروشلم، چین کا دارالحکومت بیجنگ، مصر کا دارالحکومت قاہرہ، سپین کا دارالحکومت میڈرڈ اور برطانیہ کا دارالحکومت لندن اس کے جڑواں بھائی قرار دیے گئے ہیں۔
نیویارک کاروبار، تجارت، فیشن، طب، تفریح، ذرائع ابلاغ اور ثقافت کا عالمی مرکز ہے، جہاں کئی اعلیٰ نوعیت کے عجائب گھر، آرٹ گیلریاں، تھیٹر، بین الاقوامی ادارے اور کاروباری مارکیٹیں موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کا صدر دفتر بھی اسی شہر میں ہے، جبکہ دنیا کی کئی معروف بلند عمارات بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔

لیڈی لبرٹی کا مجسمہ جسے فن کا شہ پارہ قرار دیا جاتا ہے

یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش حیثیت کا حامل ہے، جو نیویارک کے اقتصادی مواقع، ثقافت اور طرز زندگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ امریکا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں نیویارک شہر میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔ نیویارک جس کو سبز روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور جسے لیڈی لبرٹی نے اپنی بانہوں میں لے رکھا ہے۔ لیڈی لبرٹی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ یہ مجسمہ فن کا ایک شہ پارہ ہے۔ دنیا کے ہر ایک فرد کے نزدیک اس کی اپنی ایک تشریح ہے۔ ہر ایک اسے اپنی نسبت سے دیکھتا ہے۔ فرانسیسی مجسمہ ساز فریڈرِک آگوسٹ بارتھولڈی نے جب مجسمہ آزادی تراشا تو اس کا باضابطہ نام لبرٹی اینلائٹننگ دا ورلڈ یعنی عالم کو منور کرتی آزادی رکھا۔
انھوں نے پیرس کے آئفل ٹاور کے لیے شہرت رکھنے والے الیکزینڈر گیستاؤ آئفل کے بنائے ہوئے ایک بڑے ڈھانچے کو تانبے کی پتلی چادریں پہنائیں۔ سنہ اٹھارہ سو چھیاسی میں جب یہ مجسمہ نیو یارک کی بندرگاہ میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے بیڈلوئی آئلینڈ پہنچا تو اس کا رنگ و روپ بالکل الگ تھا۔ اس کا سرخی مائل نارنجی نوکیلا تاج اور لہراتی پوشاک اطراف کے نیلگوں پانی کے مقابلے میں چمک رہی تھی۔ مگر یہ نکھار زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔ افتتاح کے بعد چند برس کے اندر نمکین سمندری ہوا کے زیر اثر لیڈی لبرٹی نے بھی نیا روپ دھار لیا۔

نیویارک کی لبرنی

لیڈی لبرٹی کا مجسمہ امریکا کے اعلٰی معیارات کا علمبردار ہے۔ اس کے ہاتھ میں موجود لوح پر چار جولائی 1776 کی تاریخ کندہ ہے، وہ دن جب امریکا نے آزادی حاصل کی، اور اس کے ہاتھ میں پکڑی مشعل روشن خیالی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے پاؤں میں پڑی ٹوٹی ہوئی زنجیریں جبر و استبداد سے نجات کی علامت ہیں بہت سے افراد اس کا تعلق 1865 میں امریکا میں غلامی کے خاتمے سے بھی جوڑتے ہیں اور ان لاکھوں تارکین وطن کے لیے جو ایلس آئلینڈ جاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے، یہ مجسمہ امید اور امکان سے لبریز ایک نئی زندگی کی شروعات تھا۔
سبز رنگ یہاں کی عمارتوں کی چھتوں، چھّجوں، کھڑکیوں کی پٹیوں، چھت کی نالیوں، غرض ہر ہر انگ سے جھکتا ہے۔ اس میں آپ کو رنگ سے زیادہ ایک امید نظر آتی ہے۔ وہ امید جس کے سہارے دنیا بھر سے آنے والے تارکینِ وطن نے نیویارک کو اپنا گھر بنایا۔ سٹیچو آف لبرٹی سب کے لیے آزادی اور عدل کی علامت بن چکا ہے، مگر اس کا نیلگوں سبز رنگ اب نیویارک کی علامت ہے۔
عام طور پر نیویارک سٹی کو دیکھنے کے لیے سیّاح سینٹرل پارک یا ٹائم سکوائر جاتے ہیں، لیکن اس شہر کی روح کو محسوس کرنے اور اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ اس شہر کا آغاز کیسے ہوا، جیکسن ہائیٹس سے بہتر کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اس کے ایک حصے میں، لٹل کولمبیا کہلانے والا ایک علاقہ ہے جو اسے سیدھا لٹل انڈیا کہلانے والے علاقے سے ملاتا ہے۔ جیکسن ہائیٹس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کم از کم 160 زبانیں بولنے والے لاکھوں افراد رہتے ہیں۔

روز ویلٹ ایونیو

نیویارک شہر کی طرح اس کا روزویلٹ ایونیو ایک نشہ آور ہلچل، بین الثقافتی میل جول اور باہمی تجارت کا ایک سنگم نظر آتا ہے۔ نیویارک شہر کے ڈی این اے کو محسوس کرنے کے لیے جیکسن ہائیٹس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ علاقہ شہر کے مرکزی کاروباری علاقے مینہٹن کے قریب ہے اس لیے متنوع ہونے کے باوجود یہ نیویارک کے مہنگے ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ بھی اگر خدا موقع دے تو جب بھی اس شہر روشن یعنی نیویارک جائیں تو اس عظیم اور تاریخی مجسمے کے نیچے کچھ وقت لازمی گزاریں۔

 

بہاولپور کی شان لال سوہانرا پارک اور اسلامیہ یونیورسٹی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button