Columns

ایک استاد کامل کی ہم نشینی

ایک استاد کامل کی ہم نشینی

تحریر ؛ عبدالخالق ہمدرد

دو روز قبل میں گاڑی چلا رہا تھا کہ ایک نامعلوم نمبر سے فون آیا۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے بولنے والے صاحب نے اپنا نام ’’محمد قاسم‘‘ بتایا۔ میں ٹھیک سے پہچان نہیں پایا تو تعارف کرایا کہ ’’دار العلوم کراچی والا‘‘۔ اس سے مجھے یاد آ گیا کہ یہ ہمارے استاد محترم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ہیں۔ ان سے میں نے 1991 اور 1992 میں پڑھا تھا جبکہ آخری ملاقات 2011 میں مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی مگر وہ چند منٹ کی تھی۔

ایسا معلم جن کا سبق درس گاہ ہی میں یاد ہوجاتا

استاد جی کا تعلق اراکان سے ہے لیکن پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ان کا خاندان کراچی آ گیا تو آپ وہیں آباد ہو گئے۔ وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی اور دار العلوم کراچی سے فراغت کے بعد وہیں مدرس بھی ہو گئے۔ ما شاء اللہ آپ دار العلوم کے ہونہار طلبہ میں سے ایک رہے ہیں۔ ہم ان کے ابتدائی شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کے اسلوب تدریس پر میں ’’زمیں کے تارے‘‘ میں رائے زنی کر چکا ہوں البتہ اتنا بتانا ضروری ہے کہ ان کا سبق ایسا معتدل ہوتا تھا کہ ذرا سی محنت سے درسگاہ میں ہی یاد ہو جاتا تھا کیونکہ اس میں تکلفات نہیں ہوتے تھے۔

جب انہوں نے بتایا کہ میں اسلام آباد میں ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس میں اس لئے بھی اضافہ ہو گیا کہ یہ میری چھٹی کا دن تھا۔ چنانچہ شام کو انہیں گھر لانے کے لئے گیا تو ہمیں ایک دوسرے کو دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ کیونکہ استاد جی کو لگا کہ میں ویسا ہی ہوں جیسا پہلے تھا اور مجھے بھی یہی لگا کہ ان کی ظاہر ی شکل وصورت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

مشکلات زندگی کو معمول کی بات کی طرح بیان کرنا

تعلیمی اور درسگاہ کے ماحول کے باہر ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ رات کو بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی اور پرانی یادیں تازہ کیں۔ تین دہائیوں بعد یہ تفصیلی ملاقات بہت دلچسپ رہی جس میں زندگی کی مشکلات اور مختلف پہلو بھی زیر غور آئے۔ دلچسپ بات یہ تھی آپ اپنی زندگی کی مشکلات کو بھی ایسے ہی سرسری انداز سے بیان کر رہے تھے کہ جیسے یہ سب کچھ معمول کی بات ہو اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو۔
میں نے اپنی کتاب ’’زمیں کے تارے‘‘ ان کی خدمت میں پیش کی تو فرمانے لگے کہ مولانا مسیح اللہ صاحب نے بتایا تھا کہ اس میں تمہارا بھی تذکرہ ہے۔ آج تذکرہ پڑھ کر فرمانے لگے کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ آدمی ہر استاد کے بارے میں الگ سے اس انداز میں لکھے۔ اگلی صبح میں نے دیکھا کہ کتاب پڑھتے ہوئے کبھی ان کے چہرے پر سنجیدگی چھا جاتی ہے اور کبھی بے اختیار مسکرا دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کراس کتاب پر مجھے مفتی لقمان حکیم صاحب سیشن جج سکردو کا تبصرہ یاد آ گیا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ :

زمانہ طالب علمی کی مجسم یادیں

’’ فاضل مصنف نے ان اساتذہ کے طرز تدریس، رکھ رکھاؤ، برتاؤ، پیش آنے والے واقعات، ان کے تکیہ کلام، ان کی باتیں، ان کا مزاح ومذاق، ان کا رعب وجلال، غصہ اور خفگی، غرض ہر اس ادا وپہلو کو باریک بینی اور سلیس زبان میں ریکارڈ پر لایا ہے جو زمانہ طالب علمی میں ان کے مشاہدے میں آئے . ناچیز نے بڑی بے صبری سے کتاب کے اس حصے کو کھولا جہاں ہماری مادر علمی جامعہ دارالعلوم کراچی کے اساتذہ کرام کے احوال بیان کئے گئے ہیں۔ ایک ہی مجلس میں اس باب کا بیشتر حصہ پڑھ لیا۔ اس دوران زمانہ طالب علمی کی یادیں مجسم ہوکر نظروں کے سامنے سے گزرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ تخیل میں ایک فلم چلنے لگی، کتاب کے مطالعے کے ساتھ اس فلم کے مناظر یکے بعد دیگرے تیزی سے گزرنے لگے، مزاحیہ باتوں پر لگاتار زیر لب مسکراہٹ جاری رہی، ایک دو مواقع پر تو بے ساختہ قہقہے بھی صادر ہوئے۔ اپنی اس احمقانہ صورتحال کو دیکھ کر مزید قہقہے بلند ہوئے تو برابر کے کمرے میں موجود بیٹے نے آکر خیریت پوچھ لی اور اس اطمئنان کے بعد واپس چلے گئے کہ ابا حضور کا دماغی توازن فی الوقت درست ہے۔ میراگمان ہے انہیں اس بات کی الجھن ضرور ہوئی ہوگی کہ آیا ان کے ابا پر کوئی وقتی جنونی کیفیت طاری ہوئی تھی، یاخود انہیں مضحکہ خیز قہقہے سننے میں کوئی وہم لاحق ہوا؟ تنہائی میں مطالعہ کرنے والے شخص کے دل ودماغ پر حاوی ہوکر ایسی بے ساختہ وجدانی کیفیات سے دوچارکرنے والی کتاب یقینا ًانتہائی طاقتور مواد پر مشتمل ہے اور یہ کمال بلاشبہ اس کے مصنف کا ہے۔ اس کی سلیس اوربے تکلف زبان، حالات وواقعات کا باریک جائزہ اس کو منفرد بناتا ہے۔ غیر اہم واقعات کو ڈرامائی رنگ میں پیش کرنے سے اس کے اظہاروبیان کی چاشنی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کتاب کاحقیقی لطف صرف وہ حضرات اٹھا سکتے ہیں جنہوں نے دینی مدارس سے علمی فیض حاصل کیا ہے اور وہاں کے ماحول سے واقف ہیں۔‘‘

استاد جی اپنے مختصر تبصرے میں فرمانے لگے کہ ’’بھئی جزاک اللہ خیر، کہ آپ نے ہمارے سارے عیوب کو چھپا کر صرف خوبیاں بیان کی ہیں‘‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ استاد کا تذکرہ ادب کے بغیر کبھی نہ ہونا چاہئے کیونکہ آپ کی ساخت اور پرداخت میں اس کا حصہ ہے، ورنہ کامل ہونے کا زعم کس کو ہو سکتا ہے؟

پیر سوہاوہ کی سیر

اگلی صبح ہم ’’پیر سوہاوہ‘‘ کی سیر کے لئے نکلے۔ پیر سوہاوہ اسلام آباد میں مارگلہ کے پہاڑی سلسلے کا سب سے اونچا مقام ہے۔ یہاں پہنچنے کے لئے جنگل، جھاڑیوں اور سبزے سے اٹی ہوئی ایک خوب صورت اورپر پیچ سڑک سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سڑک پر سفر بذات خود ایک دلچسپ اور خوبصورت تجربہ ہے لیکن اس سفر میں آپ کو کسی مسیحا وخضر کی صحبت بھی حاصل ہو تو کیا کہنے۔ پیر سوہاوہ سے ضلع ہری پور بھی شروع ہو جاتا ہے۔

پہلے ہم کچھ دیر کے لئے دامن کوہ رکے۔ یہ مقام کوہ کا واقعی دفامن ہے لیکن اسلام آباد شہر کا نظارہ کرنے کے لئے اس سے اچھی جگہ کوئی نہیں۔ یہاں سے آپ کو سارا شہر قدموں میں ایک نقشے کی طرح بچھا نظر آتا ہے جس میں ایک ایک لکیر واضح نظر آتی ہے۔ شام کے وقت یہ منظر اور بھی خوبصورت ہو جاتا ہے جہاں ٹریفک کے چلنے سے کہیں نور کی کا سمندر اور کہیں آگ کے دریا نظر آتے ہیں۔

رنگ بدلنے والے لوگ

دوران سفر کسی بات پر استاد جی نے بتایا کہ لوگ کس طرح رنگ بدلتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ ہمارے ایک بہت اچھے دوست تھے، ان سے طویل عرصے کی رفاقت تھی۔ انہوں نے اپنی ایک مجبوری کا اظہار کیا تو میں نے اپنے مشکل حالات کے باوجود ان کو مطلوبہ رقم فراہم کر دی جو انہوں نے تھوڑی تھوڑی کر کے واپس کر دی لیکن ایک بار مجھے اس رقم سے کم رقم کی ضرورت پڑی تو میں نے ان سے کہا تو کہنے لگے کہ دے دوں گا لیکن جب رقم لینے ان کے گھر پہنچا تو دروازے کی درز سے مجھے دیکھ کر چھپ گئے۔ میں نے کہا کہ استاد جی ہر آدمی کا اپنا اپنا ظرف ہوتا ہے تو کہنے لگے ہاں یہ تو ہے۔

انہوں نے اپنے بچپن کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بہت چھوٹا تھا اور قرآن کریم پڑھنے اپنے ماموں کے پاس جایا کرتا تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے گھر کے سارے کام بھی کر دیا کرتا تھا اور عصر کو ان کے لئے ایک ہوٹل سے چائے اور باقر خانی لے آتا تھا۔ واپسی پر وہ مجھے بھی پیسے دے دیتے تھے کہ تم بھی چائے پی لو اور ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ تم بھی میری طرح بیٹھ کر چائے پیو گے۔

استاد سے قلبی تعلق کا عجیب واقعہ

ایک اور دلچسپ اور عجیب واقعہ یہ سنایا کہ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ایک بہت اچھے بنگالی استاد سے پڑھنے کا موقع ملا مگر وہ چند ماہ بعد ہی کراچی چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک دن سبق پڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ اس درسگاہ میں ایک طالب علم ایسا ہے جس کے سر پر علم کا نور چمک رہا ہے مگر کسی کا نام نہیں لیا۔ میں نے یہ بات اپنی والدہ کو بتائی تو وہ بھی سن کر کچھ نہیں بولیں۔ اس کے بعد ایک طویل عرصہ گزر گیا اور میں پڑھانے لگا اور وہ بات بھول گیا تو ایک دن والدہ نے وہ بات یاد دلائی۔ اب میں استاد کو ٖڈھونڈنے لگا لیکن ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا لیکن میں نے تلاش جاری رکھی اگرچہ مجھے ان کے نام، کراچی میں پڑھانے اور ایک جگہ ان کی شادی کے علاوہ کچھ معلوم نہ تھا۔ ایک طویل عرصے بعد جب میں مکہ مکرمہ منتقل ہو گیا تو کسی نے بتایا کہ اس نام کے ایک صاحب جدہ میں رہتے ہیں۔

میں ان سے ملنے گیا۔ پہلی بار ملاقات نہ ہو سکی تو بتانے والے صاحب سے کہہ دیا کہ میں دوبارہ آؤں گا لیکن اس سے پہلے آپ نے ایک بار فون پر بات کرانی ہے۔ بہر حال کچھ دنوں بعد ان سے فون پر بات ہوئی اور میں نے ان تین نشانیوں سے ان کو پہچان لیا اور ملاقات کے لئے پہنچ گیا۔ اس وقت وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور مجھے پہچان بھی نہیں پائے۔ ان کے حالات اچھے نہیں تھے اس لئے میں نے ان کو واپس بنگلہ دیش جانے کا مشورہ دیا اور ٹکٹ وغیرہ کا بھی انتظام کر دیا تو وہ واپس بنگلہ دیش گئے اور ایک جگہ پڑھانے لگے۔ اس کے بعد بھی ان سے تعاون جاری رکھا لیکن دو سال قبل ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ لگتا ہے کہ شاید دنیا سے اٹھ گئے کیونکہ ان کی بیٹی نے آخری بار رابطہ ہسپتال سے کیا تھا۔ استاد سے دلی تعلق اور قربانی کی یہ داستان سن کر میں ششدر رہ گیا۔ یعنی ابھی تک اسلاف کے کچھ نمونے باقی ہیں۔

استاد جی کی والدہ ان کے دوسرے بھائی کے ساتھ مکہ مکرمہ میں رہتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ آخری عمر میں ان کو میری خدمت کی ضرورت تھی اس لئے مجبوراً مجھے تدریس چھوڑ کر مکہ مکرمہ جانا پڑا کیونکہ وہ کسی بھی صورت واپس کراچی آنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ اس طرح بارہ برس مکہ مکرمہ میں گزارے اور اس دوران گزر بسر کے لئے تجارت شروع کی۔

والدہ کی خدمت کی خاطر تدریس کی قربانی

تجارت کی آغاز کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں دکان تو لے لی مگر سامان کے لئے پیسے بہت کم تھے مگر معلوم ہوا کہ جدہ میں ایک دکاندار ہے جو سب دکانداروں کو ادھار دیتا ہے تو اپنے پاس موجود رقم لے کر اس کے پاس پہنچا۔ دکاندار یمنی سعودی تھا۔ جب اس سے فصیح عربی میں بات کی تو وہ بہت حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ یہ زبان کہاں سیکھی؟ تو میں نے اس کو بتایا کہ مدرسے میں سیکھی ہے اور میں مدرس ہوں لیکن والدہ کی خاطر تدریس چھوڑ کر یہاں آیا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے ادھار سامان دو۔

اس پر وہ دکاندار کہنے لگا کہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے اور میں آپ کو جانتا تک نہیں تو ادھار کس طرح دے دوں؟ میرے ساتھی کہیں گے کہ یہ بیوقوف آدمی ہے۔ اتنے میں ایک اور دکاندار وہاں آ گیا جس کی دکان ہماری دکان کے قریب ہی تھی اور وہ مجھے جانتا تھا تو وہ دکاندار کہنے لگا کہ کیا یہ دکاندار تمھاری ضمانت دے دے گا؟ میں نے کہا کہ تاجر دوسرے تاجر کی کیا ضمانت دے گا؟ تو وہ دکاندار کچھ سوچ کر کہنے لگا ’’بینی وبینک اللہ‘‘ (میرا اور تمہارا گواہ اللہ ہے۔) اور اس کے بعد ایک خطیر رقم کا سامان دے دیا جو میں نے بعد میں اسے ادا کر دی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دکان میں ایک صاحب کو ساتھ رکھا، ان کو کام سکھایا اور ہمارے ہوتے ہوئے اس نے کبھی خیانت بھی نہیں کی لیکن جب میں نے دکان جانا چھوڑ دیا تو اس نے خیانت شروع کر دی۔ اس کے بعد دکان ختم کرنا پڑی۔

میں حیران تھا کہ ان کی والدہ کو خدمت کی ضرورت تھی، مگر وہ ان کے پاس آنے کی بجائے ان کو مکہ مکرمہ بلانے پر ہی کیوں مصر تھیں، حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ اس سے میرے بیٹے کی زندگی کی ساری ترتیب بدل جائے گی اور بیٹے نے بھی کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدہ کا حق نبھایا اور بارہ سال مکہ مکرمہ میں ان کی خاطر گزار دئے۔

یہی باتیں کرتے ہم پیر سوہاوہ پہنچے۔ وہاں کے دو دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ آخر کار مارگلہ ویو ہوٹل میں بیٹھ کر خوبصورت ماحول سے محظوظ ہوتے ہوئے سبز چائے کا ایک ایک پیالہ نوش کر کے واپس روانہ ہو گئے کیونکہ دوپہر کا کھانا استاد جی کے دوست اور ہم سبق مولانا حسین احمد دیشانی کے ہاں طے تھا۔

مولانا دیشانی صاحب کے ہاں وارد ہوئے تو ظہر کا وقت تھا۔ وہیں پر استاد جی کے ایک اور دوست حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بھی تشریف لائے تو ایک بار پھر محفل جم گئی۔ مجھ سے نہ رہا گیا تو استاد جی سے پوچھ ہی لیا کہ استاد جی کیا وجہ تھی کہ آپ کی والدہ آپ سے خدمت تو چاہتی تھیں لیکن وہ آپ کے پاس آنے کو تیار نہیں تھیں؟ فرمانے لگے در اصل ان کو مکہ مکرمہ میں مرنے کا شوق تھا اور یہ خوف لاحق تھا کہ اگر کراچی آ گئی تو مکہ مکرمہ سے باہر مر جاؤں گی۔ میں نے پوچھا پھر ان کی وفات کہاں ہوئی تو فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں انتقال ہوا اور حدود حرم میں مدفون ہوئیں۔ رحمہا اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ وغفر لہا ورفع درجاتہا فی الفردوس۔

استاد جی نے بتایا کہ والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں رہا، اس کے بعد کراچی آ گیا، دو دن گھر میں رہا اور آٹھویں دن پڑھانے کے لئے دار العلوم حاضر ہو گیا۔ یہ ہوتا ہے علم کا شوق۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کا کچھ حصہ نصیب فرمائے۔ اس کو کہتے ہیں’’ساعتے با اولیاء، بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا۔‘‘

استاد کی صحبت روح کو صیقل کرتی ہے

مولانا دیشانی صاحب کے ہاں سے اٹھ کر مولانا عبد الرشید صاحب کے ہاں روانہ ہوئے اور میں استاد جی کو وہاں چھوڑ کر گھر کی جانب چلا تو مجھے لگا کہ جیسے کوئی بہت قیمتی چیز کھو گئی ہے۔ واقعی استاد زندہ اور چلتی پھرتی درسگاہ ہوتے ہیں۔ ان کی صحبت آدمی کی روح کو صیقل کرتی ہے اور میرا خیال ہے کہ تربیت کا یہ سلسلہ کبھی موقوف نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ میرے جملہ اساتذہء کرام کی جان، مال، اولاد اور زندگی میں برکتیں عطا فرمائے اور اس ناہنجار کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مد ظلہ العالی کے ساتھ گزرا ہوا یہ وقت ایک مدت تک یاد رہے گا۔

بچوں کی تربیت میں بڑوں کاکردار

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button