Columns

سال نو کی قرار دادیں

سال نو کی قرار دادیں (New Year Resolutions)

یمین الدین احمد

آپ نے اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ نئے سال کی قراردادیں بنانے کی کوشش کی ہے؟اور اگر آپ اس بارے میں سوچتے ہیں تو آپ نے کتنی کامیابی کے ساتھ ان قراردادوں کو پورا کیا ہے یا سال بھر آپ ان پر قائم رہے ہیں؟

قرار دادیں

صرف آٹھ فیصد لوگ نیا سال کی قرار دادوں (منصوبہ بندیوں) پر عمل کر پاتے ہیں

مختلف تحقیقات میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ جتنے لوگ نئے سال کی قراردادیں بناتے ہیں ان میں سے بمشکل آٹھ فیصد سے بھی کم لوگ چھ ماہ سے آگے ان پر قائم رہ پاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف سکرینٹن میں سائیکالوجی کے پروفیسر جان سی نورکراس نے نیو ایر ریسولوشنز پر تحقیق کرنے کے بعد جو اعداد و شمار بتاۓ ہیں ان کے مطابق نئے سال کے پہلے دو ہفتوں کے اختتام پر تقریباً 30 فیصد لوگ اپنی ان قرارددوں سے دستبردار ہو چکے ہوتے ہیں۔مزید دو ہفتوں بعد یعنی فروری کے شروع میں یہ تعداد 38 فیصد ہو چکی ہوتی ہے۔
پہلی سہ ماہی کے اختتام تک 45 فیصد اور جون کے مہینے تک 55 فیصد لوگ اپنی قراردادوں کو بھول چکے ہوتے ہیں۔ جولائی اور اس کے بعد صرف أٹھ فیصد لوگ ایسے رہ جاتے ہیں جو کسی نہ کسی طور اپنی ان قراردادوں کو لےکر چلنے کی کوشش کرتے پاۓ جاتے ہیں۔ گویا کہ چھ ماہ میں 92 فیصد لوگ بڑے جوش اور جذبے سے بنائی گئی ان قراردادوں کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔

قرار دادیں

ہم اپنے طے کردہ اہداف کیوں حاصل نہیں کر پاتے ؟

جب بھی نیا سال آنے والا ہوتا ہے تو نیو ایئر ریزولوشنز پر بات شروع ہو جاتی ہے، مختلف احباب اپنی قراردادیں شئیر کرتے ہوۓ پاۓ جاتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے جوش و خروش کا بھی مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔
نئے سال کے بارے میں انٹرنیٹ پر بہت سارے لوگوں کے مشورے موجود ہیں کہ آپ نئے سال کی قراردادیں کیسے بنائیں، اور یہ کہ آپ اپنے نئے سال کے اہداف کو کس حد تک یقینی بنائیں۔
ہر بار نیا سال شروع ہونے سے پہلے مجھ سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ آپ بھی اس پر کچھ لکھیں، کچھ کہیں، کوئی ورکشاپ کروائیں کیونکہ ہم ہر سال اپنی ریزولوشنز بناتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا سواۓ اس کے کہ ایک سال زندگی کے اکاؤنٹ سے اور کم ہو جاتا ہے۔ بہت سارے خواتین و حضرات کا یہ کہنا ہے کہ یا تو وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں یا جن معاملات پر انہوں نے ریزولوشنز بنائی ہوتی ہیں ان میں بہتری کے بجاۓ مزید نیچے چلے جاتے ہیں یا کچھ لوگ اگر کچھ کر پاتے بھی ہیں تو وہ کچھ خاطر خواہ نہیں ہوتا۔

قرار دادیں

نئے سال کی ریزولوشنز مت بنائیں!

میں اس بات کا قائل ہوں اور پچھلے کئی برسوں سے میں لوگوں کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ آپ کو نئے سال کی ریزولوشنز نہیں بنانی چاہئیں! لوگ حیرت سے مجھے دیکھتے ہیں کہ اکثر ٹرینرز اور موٹیویشنل اسپیکرز تو اس پر motivate کرتے ہیں، آپ بلکل الٹی بات کر رہے ہیں! تو پہلے تو میں یہ عرض کردوں کہ میں موٹیویشنل اسپیکر نہیں ہوں، ہاں البتہ آپ مجھے demotivational speaker کہ سکتے ہیں! کیونکہ میں آپ کو سٹیٹس کو سے بیزار ضرور کر سکتا ہوں اور شاید وہ بات کروں گا جو عمومی طور پہ نہیں کی جاتی ہے۔ تو سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نیو ایئر ریزولوشنز بنانا کیوں ایک اچھا اور قابل عمل آئیڈیا نہیں ہے، پھر ہم کچھ بات کریں گے behavior کی تبدیلی کی سائنس پر اور پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ اگر نیو ایئر ریزولوشنز نہ بنائی جائیں تو پھر کیا کیا جاۓ؟

قرار دادیں

سال نو کے اہداف کے حوالے سے کی جانے والی پانچ بنیادی غلطیاں

سب سے پہلے ان پانچ وجوہات کی بات کرتے ہیں جن کی وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نیو ائیر ریزولوشنز آپ کو نتائج نہیں دیتیں۔

1- یہ قراردادیں غیر واضح اور مبہم ہوتی ہیں جیسے کہ “مجھے وزن کم کرنا ہے”
“مجھے سگریٹ نوشی چھوڑنی ہے”
“مجھے زیادہ پیسے کمانے ہیں”
“مجھے کیریئر میں آگے جانا ہے”
“مجھے منظّم ہونا ہے”
“میں اس سال صحیح روٹین فالو کروں گا” وغیرہ۔

قرار دادیں

زندگی میں بہتری صرف امیدوں سے نہیں آتی

بنیادی طور پہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں گویا کہ آپ ایک امید بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے! امید کوئی واضح ہدف نہیں ہوتا، امید کوئی حکمت عملی نہیں دے رہی ہوتی۔ زندگی میں بہتری امیدوں، آرزؤں، تمناؤں اور حسرتوں سے نہیں آتی۔ ان امیدوں کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے آپ گرجدار ، زوردار تقاریر سن لیں تو آپ کی زندگی میں تبدیلی نہیں آنے والی! ہاں یہ ضرور ہے کہ اچھی اچھی تقاریر سن کر آپ کے جذبے میں اضافہ ہوگا لیکن اگر اس جذبے کو ایک واضح وژن میں تبدیل کرنے اور اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لئے منصوبہ بندی آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ ایک سال نہیں بلکہ کئی سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں مقصدیت سے بھرپور نہیں بنا سکیں گے اور زندگی اس شعر کے مصداق گزر جاۓ گی

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے

قرار دادیں

2- اکثر قراردادیں بھیڑ چال پر مبنی ہوتی ہیں یعنی کہ لوگ اپنی ریزولوشنز لکھنے کے لئے بھی گوگل سے مدد لیتے ہیں اور جیسے اوروں نے اپنے لئے لکھی ہوتی ہیں وہ اسی کو کاپی کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی پر، اس کی حقیقت پر، اس کے مقصد پر غور و فکر نہیں کرتے۔ بس چونکہ ایک فیشن ہے اور سب ایسا کرتے ہیں تو ہم بھی ایسا کر لیتے ہیں اور ویسے بھی لکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے نا!

3- اکثر لوگ قراردادیں تو لکھ لیتے ہیں لیکن ان کے حصول کے لئے ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ چونکہ قرارداد ایک غیر واضح اور مبہم بیانیہ پر مشتمل ہوتی ہے تو اس سے عام طور پہ کوئی روڈ میپ نکالنا اکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنا روڈ میپ کیسے بنانا ہے یہ بھی ہمیں کہیں نہیں سکھایا جاتا۔ اس کا واضح نتیجہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم ایک معاشرے یا قوم کے طور پہ بھی آج تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکے ہیں۔ آپ خود سوچئے کہ ایک مسافر جس کو اپنی سمت کا پتا نہ ہو کہ اس کی منزل کا تعین ہی واضح نہیں ہے اور وہ اگر مگر، ایسے ہوگیا تو یہ اور ویسے ہوگیا تو وہ، کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہو ہو تو اس کا سفر کیسے طے ہوگا؟

4- ان قراردادوں کے پیچھے کوئی واضح “why”, نہیں ہوتا کہ میں یہ کیوں کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل تو ہم میں سے اکثر لوگوں کو واضح طور پر یہی پتہ نہیں ہوتا کہ کیا کرنا ہے تو کیوں کے بارے میں سوچنا تو تقریباً نا ممکنات میں سے ہے۔
آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں،کیوں؟ آپ سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں،کیوں؟ آپ مالی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں، اچھی بات ہے لیکن کیوں؟آپ کسی سے شادی کرنا چاہتے ہیں،کیوں؟ ہم میں سے کتنے لوگ زندگی میں اپنے فیصلوں اور ترجیحات پر کیوں کا سوال کرتے ہیں؟

قرار دادیں

اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ میں کراچی سے لاہور جانا چاہتا ہوں اور آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ آپ لاہور کیوں جانا چاہتے ہیں تو کیا یہ سوال ٹھیک ہے؟ بلکل ٹھیک ہے اور میرے پاس اس کا ایک بہت واضح اور غیر مبہم جواب ہونا چاہئے۔ لیکن میرا تجربہ اس کے بر عکس ہے کہ اکثر لوگوں کے پاس کوئی طاقتور اور ان کی آنکھوں میں چمک پیدا کردینے والا why نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ قرارداد ان کو اندر سے motivate نہیں کر رہی ہوتی۔ یاد رکھئے حقیقی motivation آپ کے اندر سے آتی ہے نہ کہ YouTube پر کوئی اچھی سی ویڈیو دیکھ کر۔ ویڈیو دیکھ کر یا کسی کو سن کر جو motivation آتی ہے وہ تھوڑی دیر کی ہوتی ہے اور پھر آپ واپس وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔

5- اکثر لوگ زندگی کے کسی ایک حصّے سے متعلق کوئی قرارداد بناتے ہیں جبکہ زندگی کسی ایک حصّے سے متعلق نہیں ہے۔ اللہ نے ہمیں ایک مکمل زندگی دی ہے اور اس میں ہمارے مختلف کردار اور ذمہ داریاں ہیں جو ہمیں نبھانی ہوتی ہیں۔ جب ہم کسی ایک یا دو حصّوں پر پورا فوکس کردیتے ہیں تو باقی حصّے نظر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو آگے چل کر ہمارے لئے شدید پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لئے زندگی کو جز میں نہیں بلکہ مجموعی طور پہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ان شا اللہ اس حوالے سے گفتگو ابھی جاری ہے اور اگلی قسط میں ہم بات کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ جب تک کے لئے آپ اس شعر سے لطف اٹھائیں۔

وہ آرہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

یہ بھی پڑھیں

قرار دادیں

بچوں میں پڑھائی کا شوق کیسے پیدا کریں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button