Personalitiesاسلامی معلوماتتاریخ اسلامی

خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنه

خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنه

تحریر : محمد راشد رضا

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ، کنیت ابو بکر، صدیق اور عتیق ان کے القابات تھے، والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ اور والدہ کا نام سلمیٰ اور ام الخیر کنیت تھی۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام سے قبل ایک تاجر کی حیثیت سے کام کرتے تھے گویا کہ تجارت آپ کا پیشہ تھا ، اہل مکہ میں ان کو ان کے علم ، تجربے اور حسن خلق کی بناء پر معززین میں شمار کیا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات شریفہ سے بچپن ہی سے انہیں لگاؤ تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ سے بڑی محبت رکھتے تھے،

یہ بھی پڑھیں؛ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ

حضرت ابوبکر کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہونے والے صحابہ

آپ ساری زندگی نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کوشاں رہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کوششوں سے ہی حضرت عثمان بن عفان ،حضرت زبیر ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابي وقاص ،حضرت طلحہ جیسے اہم ترین لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، حضرت ابوسلمہ ، حضرت خالد بن سعید جیسے اکابر صحابہ بھی آپ کی ہی کوششوں کے نتیجے میں دامن اسلام میں آئے۔

 مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ۔

مکے کی زندگی

مکے کی پر آشوب زندگی میں جب کفار آپ علیہ السلام کو تکالیف پہنچایا کرتے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ مشرکین مکہ اور آپ علیہ الصلوۃ وسلام کے درمیاں ڈھال بن جاتے۔ ایک مرتبہ عقبہ بن عامر نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گردن میں چادر ڈال کر پھندہ لگایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے گردن سے پکڑ کر دور ہٹاتے ہوئے کہا کہ اے ناہنجار ! کیا تو اس سے لڑتا ہے جو تیرے پاس خدا کی واضح نشانیاں لے کر آیا ہے اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔

مظلوم غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے والے

 مکے میں جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت توحید پر لبیک کہتے ہوئے دین اسلام کو سینے سے لگایا ان میں ایک کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے ظلم وستم اور طرح طرح کی اذیتوں میں گرفتار رہا کرتے تھے ، جب ان غلاموں اور لونڈیوں نے دین اسلام کو قبول کیا تو مشرکین مکہ نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نے کئی غلاموں کو ان کے مالکان سے خرید کر آزاد کر دیا ۔

ہجرت مدینہ

مکے میں مسلمانوں پر کفار کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ پڑھتا ہی چلا جا رہا تھا ، ہر روز ظلم وستم کے نت نئے حربے آزمائے جا رہے تھے اہل ایمان کی جان ،مال اور عزت و آبرو غیر محفوظ ہو چکی تھیں، ایسے میں رب العالمین نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مکے سے ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ مدینے کی سرزمیں پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب کو اپنے دامن میں پناہ دینے کی خواہشمند تھی کیونکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ کے نتیجے میں مدینہ پہلے ہی اسلام کی کرنوں سے منور ہو چکا تھا.

 

چنانچہ جب آپ علیہ السلام مدینے کی جانب عازم سفر ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق آپ کے ہمراہ تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں ،حضرت ابو بکر سے فرماتے ہیں کہ مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے تم ساتھ چلو گے، حضرت ابوبکر صدیق کی صاحب زادی حضرت اسماء ؓ اور حضرت عائشہؓ نے زاد سفر تیار کیا ، توشہ دان باندھ کر حضرت ابو بکر صدیق کے حوالے کیا اور یہ مختصر سا قافلہ مدینے کی جانب رواں دواں ہوا ۔

غار ثور میں قیام اور مدینہ آمد

ہجرت کی پہلی منزل غار ثور ٹھہری جہاں حضرت ابو بکر صدیق نے غار میں جا کر صفائی کی اور پھر سر کار غار کے اندر تشریف لے گئے اور کچھ دن غار ثور میں قیام فرمایا ، کفار مکہ نے ان دونوں حضرات کو گرفتار کر کے لانے والے کو سو اونٹ بہ طور انعام دینے کا اعلان کیا لیکن یہ مختصر قافلہ سب کی نگاہوں سے اوجھل اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ مدینہ منورہ میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیاں مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کیا تا کہ اجنبیت اور بیگانگی کی دیوار گرائی جا سکے اور حضرت ابو بکرؓ کو حضرت حارثہ بن زہیر کا بھائی بنایا گیا جو کہ مدینے کے ایک معزز آدمی تھے۔

 مسجد نبوی کی تعمیر

مدینے پہنچ کر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے مسجد کی تعمیر کا فیصلہ فرمایا ، مسجد کے لئے منتخب کی جانےوالی زمیں دو یتیم بچوں کی تھی، آپ علیہ السلام نے حضرت ابو بکر صدیق کو قیمت ادا کرنے کو کہا قیمت ادا کی گئی اور صدیق اکبر نے مسجد کی تعمیر میں بھی صحابہ کے شانہ بشانہ کام کیا۔

غزوات میں شرکت

  مدینہ آمد کے بعد بھی مشرکین مکہ کی جانب سے آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام کو ایذا دینے کا سلسلہ جاری رہا ،چنانچہ جنگ بدر ، جنگ احد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اقدس کے ساتھ ساتھ رہے ، غزوہ اُحد کے بعد غزوہ خندق اور دیگر غزوات میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اقدس علیہ الصلوۃ وسلام کے ساتھ ر ہے ،صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کے موقع پر بھی حضرت ابو بکر صدیق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ رہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیاری بیٹی حضرت عائشہ کو نبی اقدس کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔

حضرت ابو بکر صدیق اور فتح مکہ

 8 ہجری میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 10 ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکے میں داخل ہوئے تو صدیق اکبر بھی ہمراہ تھے، اسی سال حضرت ابوبکر صدیق کے والد محترم بھی ایمان لے آئے، 9 ہجری میں افواہ پھیلی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس عسرت اور تنگی کے دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو آپ گھر کا سارا سامان خدمت اقدس میں لے آئے، نبی کریم علیہ السلام نے آپ سے پوچھا کہ اہل و عیال کےلئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ تو آپ نے وہ تاریخی جملہ کہا؛ یا رسول اللہ! ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔

پروانے کو چراغ ، بلبل کو پھول بس

صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

رسول اللہ کا وصال اور خلافت ابوبکرؓ

 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق تخت خلافت پر جلوہ افروز ہوئے توسب سے پہلے جیش اسامہ کو ترتیب دے کر شام بھیجا اور چونکہ یہ ترتیب رسول اللہ کی بتائی ہوئی تھی اسلئے صدیق اکبر بھی تھوڑی دور تک اسامہ کے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلے ، حضرت اسامہ نے کہا کہ اے جانشیں رسول! سواری پر سوار ہو جائیں، اس پر آپ نے کہا “میں چاہتا ہوں میرے پاؤں بھی راہ خدا میں غبار آلود ہوں ” حضرت اسامہ کا لشکر شام کی مہم سے واپس لوٹا تو حضرت ابوبکر صدیق نے مدینے سے باہر آکر ان کا استقبال کیا۔

مرتدین کی سرکوبی

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے کردار ان عرب مرتد ہو گئے جنمیں نعمان بن منذر لقيط بن مالک وغیرہ شامل تھے چنانچہ حضرت ابو بکرؓ نے علاء بن الحضرمی کو بحرین بھیج کر نعمان بن منذر کو اور حذیفہ بن محض کو عمان بھیج کر لقیط بن مالک کو واصل جہنم کرایا ۔

جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ

وصال نیوی کے بعد جا بہ جا جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہو چکے تھے جن میں مسیلمہ بن کذاب ، طلیحہ بن خویلد ، اسود عنسی اور مسلیمہ بن حبیب وغیرہ شامل تھے، مردوں کے ساتھ ساتھ کچھ عورتیں بھی نبوت کی دعویدار ہوئیں اور یہ مرض عرب کے طول و عرض میں پھیلنے لگا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید، حضرت ثابت ابن قیس کی سربراہی میں مہاجریں اور انصار کی ایک بھاری جمعیت کو ان جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی کیلئے روانہ فرمایا یوں اس فتنے کا سر کچل دیا ۔

منکرین زکواۃ سے جنگ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مرتدیں اور مدعیان نبوت کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا طبقہ منکرین زکوۃ کا بھی پیدا ہو چکا تھا یہ وہ لوگ تھے جو خود کو مسلمان کہتے تھے اور خلیفہ وقت کو زکوۃ دینے سے انکاری تھے۔ صحابہ کرام میں بھی اس معاملے میں اختلاف رائے تھا ، حضرت ابو بکر نے اس موقع پر فرمایا ” اگر یہ ایک بکری کا بچہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے اس سے بھی انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا” چنانچہ آپ کے بے لچک موقف اور سخت رد عمل کی وجہ سے مانعین اور منکرین زکوۃ کا فتنہ بھی ختم ہوگیا ۔

 جمع و ترتیب قرآن

فتنہ ارتداد اور جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف لڑی گئی پے درپے جنگوں کی وجہ سے حفاظ صحابہ کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ، حضرت عمر فاروق نے اس اندیشے کے تحت کہ کہیں قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے حضرت ابو بکر صدیق کو جمع و ترتیب قرآن کا مشورہ دیا پہلے پہل آپ نے منع فرمایا اور کہا کہ میں وہ کام کیوں کروں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہیں کیا ، حضرت عمر کی ترغیب اور اصرار پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کام کے لئے تیار ہو گئے اور حضرت زید بن ثابت کو جمع و ترتیب قرآن کا کام سونپا گیا جو دور نبوی میں کاتب وحی تھے ۔

یہ بھی پڑھیں: خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

حضرت ابو بکر نہ صرف یہ کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نبی علیہ الصلوۃ وسلام کے قدم بقدم رہے تو وصال رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ نے خود کو رسول اللہ کا حقیقی جانشیں ثابت کیا اور اسلام کو درپیش ہر قسم کے خطرات کے سامنے سینہ سپر رہے ۔

دور خلافت اور طرزِ زندگی

 حضرت ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا ، اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ، آپ کے زہد اور تقوی کا عالم یہ تھا کہ انتقال سے کچھ دن پہلے حضرت عائشہ سے فرمایا “اے میری بیٹی! عہدہ امارت کے ضمن میں میں نے جو مال لیا تھا وہ ایک اونٹنی ،ایک پیالہ اور ایک غلام تھا یہ میرے بعد عمر کے پاس پہنچا دینا، چنانچہ جب وفات کے بعد حضرت عائشہ یہ تینوں چیزیں لے کر حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئیں تو حضرت عمر رو پڑے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، فرمایا اللہ ابو بکر پر رحم کرے انہوں نے اپنے بعد آنے والے کو تھکا دیا ہے ،آپ کی وفات کے بعد آپ کو حضور کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button