Character Building & TarbiyahSelf development

کردار کی اہمیت اور کردار سازی کے رہنما اصول

کردار کی اہمیت اور کردار سازی کے رہنما اصول

ڈاکٹر محمد یونس خالد

تعمیرشخصیت کااہم ترین پہلو کرداری سازی ہے۔ کردار پر سمجھوتہ شخصیت کی تعمیر پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اگرکردار نہیں تو تعمیر شخصیت کا  وجود ہی نہیں۔ اس آرٹیکل میں کردار کی اہمیت اور کردارسازی کے رہنمااصولوں پر بات کی گئی۔

Orologio Fitness Tracking, con funzioni intelligenti | Mondoregali anavar dove comprarlo male fitness nude vintage movies

کردار کیا ہے؟

 سوال یہ ہے کہ کردار کیاچیز ہے؟ “کردار”فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لغوی میں طرزعمل، طریقہ، قاعدہ، کام ، ردعمل، خصلت اور عاد ت کا مفہوم شامل ہے۔ یہ لفظ انسان کی سیرت ، چال چلن اورطور طریقوں کےلئے بھی بولا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ اصطلاح میں کردار انسان میں نشوونماپانے والی ان انفرادی خصوصیات  کو کہتے ہیں۔ جومختلف حالات و واقعات میں ردعمل کے وقت انسان سے ظاہر ہوجاتی ہیں۔

انسان کی عادتوں اور اعمال و اخلاق کو بھی عام طور پر کردارکہاجاتاہے۔ اخلاق اور کردار ملتے جلتے اور قریب المعنی الفاظ ہیں۔ جو بطور متراد ف ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پرکلک کیجئے۔

کردار اور اخلاق میں باریک فرق

کردار اور اخلاق میں باریک سا فرق یہ ہے، کہ کردار کا اظہارعام طور پر انسان کی طرف سے کسی واقعے کے ردعمل کے وقت ہی ہوتا ہے۔ جبکہ اخلاق کا اظہار ردعمل سے قطع نظر کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ انسانی طبیعت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔

انسان کی فضیلت کے دو بنیادی اسباب

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ قابل تکریم قراردیا۔ اور فرمایا: ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا (اسراء ) “ہم نے انسان کوبزرگی دی۔ اسے خشکی اور سمندر میں سواریاں عطاکیں۔ اس کو پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطا کیا۔ اور ہم نے اس کو فضلیت عطا کی اپنی تمام مخلوقات پر۔”

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تمام مخلوقات پر فضلیت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ قراردیا ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ انسان میں وہ کیا خاص بات ہے۔ جس کی وجہ سے خالق کائنات نے اسے یہ عظیم منصب عطا کیا۔ اور اس کو دنیا جہان پر فضلیت عطا کی۔ غور وفکر کرنے سے یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے۔ کہ انسان کی فضیلت کی وجہ بنیادی طور پر دو چیزیں ہیں۔ جو اسے دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہیں۔ اور وہ دوچیزیں انسانی عقل وشعور اوراسکے اخلاق وکردار ہیں۔

عقل وشعور اور اخلاق وکردار وہ دو بنیادی معیارات ہیں۔ جن سے انسانی عظمت دنیا کی تمام مخلوقات پر قائم ہے۔ اگرخود جنس انسان کے افراد کے درمیان عزت واحترام کے حوالے سے تقابل کیا جائے۔ کہ ان میں سے کون زیادہ قابل تکریم ہے؟ تو قرآن کریم کے مطابق جس انسان کے اندر یہ دونوں چیزیں زیادہ مقدار میں ہوں۔ وہ اتنا ہی قابل احترام بن جاتاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (الحجر)

’’بے شک تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے۔ جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار (اللہ سے ڈرنے والا) ہے۔‘‘ اور جن افراد میں ان چیزوں کا تناسب کم ہو۔ وہ اس قرآنی اصول کے مطابق کم رتبے کے مالک ہوتے ہیں۔

وہ صفات جن کو اپنا کر کردار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

یہاں ہم کچھ ایسی خوبیوں اور معیارات کو ذکر رہے ہیں۔ جن کو اپنا کر انسان بہترین اخلاق وکردار کا مالک بن سکتا ہے۔  مثلا ایمان،تقوی۔حیا۔ دیانت داری۔ ایمان داری۔وفاداری۔ جرات۔صبروتحمل۔ ایثاروقربانی ۔ہم دردی۔رحم دلی۔ خودشناسی۔ خوداحتسابی۔ اپنی ذات پر کنٹرول۔دوسروں کو عزت واحترام دینا۔ احساس ذمہ داری۔ عاجزی وانکساری۔شفقت و محبت۔ صداقت وسچائی۔ عفوودرگزر۔احسان ۔ سخاوت۔ استقامت۔نرم مزاجی۔ پرامیدی ۔دوسروں کا خیال رکھنا۔حوصلہ افزائی کرنا۔دوستانہ رویہ رکھنا۔قناعت۔خوش مزاجی۔ شکرگزاری۔ ہردم متحرک رہنا۔مستقل مزاجی۔اعتدال ۔خوداعتمادی۔عفت وپاک دامنی۔دوسروں کا دکھ محسوس کرنا۔ بھائی چارہ۔ انسان دوستی وغیرہ ۔

حسن کردار مقصد تخلیق

قرآن کریم نے موت و حیات کی تخلیق کا اصل مقصد کردار اور حسن عمل کی آزمائش ہی بتایا ہے۔ چنانچہ سورہ ملک میں فرمایا ’’ ھو الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا” اللہ وہ ہے جس نے موت اورزندگی کوبنایا۔ تاکہ تم لوگوں کوآزماکر دیکھے۔ کہ تم میں سے کون بہترعمل کرنےوالا ہے۔
سورۃ نحل کی آیت میں حسن کردار پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اﷲانصاف اور احسان سے کام کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ بے حیائی ، نا پسندیدہ بات اور سر کشی سے روکتا ہے۔ تمہیں وہ نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم نصیحت پا جاؤ۔

قرآن نے صرف احکام و ہدایات دینے پر ہی اکتفاء نہیں کیا۔ بلکہ انسانوں کی کردار سازی کے لئے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اخلاق وکردارکاپیکر بنا کربھیجا۔ اور تمام لوگوں کے لئے نمونۂ عمل قرار دیا اورفرمایا: لقد کان لکم فی رسول اﷲأسوۃحسنۃ(احزاب) . (تم لوگوں کے لئے ﷲ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے)

وہ خامیاں جن سے بچ کر کردار کو نکھارا جا سکتا ہے

اخلاق وکردار کوبہتر اور معیاری بنانے کے لئے کچھ چیزیں اپنی زندگی سے خارج کرنی پڑتی ہیں۔ کہ ان کو نکالے بغیر انسان کا کردار معیاری نہیں بن سکتا۔ قرآن وحدیث کی اصطلاح میں ان کو منہیات یا رزائل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ چیزیں مندرجہ ذیل ہیں: مثلا جھوٹ۔ دھوکہ ۔ وعدہ خلافی۔ بزدلی۔ امانت میں خیانت۔ بغض ،حسد۔ تکبر۔ ریاکاری۔ رشوت ستانی۔ بدکرداری۔ زنا ۔ شراب نوشی، جوا۔ چوری۔ ڈاکہ ۔حرام خوری ، بخل،بے حیائی، بے صبری، خود غرضی، لالچ، غیر ذمہ داری، بدمزاجی ، ناشکری، مزاجی اکھڑپن اور ظلم وتشدد وغیرہ وغیرہ۔

پروفیشنل بد کرداری انفرادی بد کرداری سے بھی خطرناک

ایک اہم نکتہ یہاں سمجھنے کا یہ ہے کہ اعلی کردار اور کیریکٹر کا تعلق انسا ن کی صرف انفرادی اور معاشرتی زندگی سے ہی نہیں۔ بلکہ کردار کا اہم ترین تعلق انسان کی پروفیشنل زندگی سے بھی ہے۔ کہ وہ پیشہ ورانہ طورپر اپنی جاب اور کام کے لئے کتنا فٹ ہے؟ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے کتنی لیاقت اور اہلیت رکھتا ہے؟ اور کتنی محنت، جانفشانی اور جذبے کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔ اگر اس کی ذاتی زندگی تو بہت اچھی ہے۔ وہ عبادت گزار، نیک ومتقی ہے، اور عبادات میں کمی کوتاہی نہیں کرتا۔

لیکن پروفیشنل ذمہ داریاں درست طریقے سے ادا نہیں کررہا ۔ یا پروفیشنل ذمہ داریاں اداکرنے کا وہ اہل ہی نہیں ہے۔ سفارش یا دھوکہ دہی سے کسی منصب پر فائز ہوا ہے۔ تو یقینا یہ بھی کرپشن ہی کی ایک صورت ہے۔  بدکرداری ہے اور حرام خوری ہے۔ بلکہ انفرادی بدکرداری کے مقابلہ پروفیشنل بد کرداری زیادہ خطرناک اور قابل گرفت ہے۔ کیونکہ اس سے پورے معاشرے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایمان و یقین کا کردار سازی میں رول

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اعلی کردار درحقیقیت اللہ پر ایمان ویقین کی ایک جھلک کا نام ہے۔ جس کا ظہور خارج میں اعلی کردار کی شکل میں ہورہا ہوتا ہے۔ اگرانسان میں خدا پر ایمان مضبوط ہو گا، تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا، کہ وہ اچھے اخلاق و کردار کا ازخود مظاہرہ بھی کرے گا۔ اس کے برعکس اگر کسی میں ایمانی کمزوری ہوگی تو اس کا کردار بھی داغ دار ہوگا۔

یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی تیرہ سالوں تک اپنے صحابہ کرام پرصرف ایمان ویقین کی محنت کی ۔ جب ایمان کی پختگی اور یقین کی مضبوطی کے ساتھ یہ فصل تیار ہوگئی۔ توکرداری اوصاف کا ظہور از خود ان میں ہونے لگا ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جن لوگوں کے کردار پر دنیا میں کسی کو بھروسہ نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی محنت کے نتیجے میں وہ دنیا میں اعلی کردار کے حوالے سے خود مثال اور اسٹینڈرڈ بن گئے۔

ہم سب کے لئے انہی ہستیوں کا اسوہ بہترین اور کارآمد ہے۔ کہ ہم اپنے آپ پر اور اپنے بچوں پر پہلے ایمان کی مضبوطی کی محنت کریں۔ کسی عالم سے ، کسی اللہ والے سے، کسی شیخ و مربی سے اورمنٹور سے تعلق قائم کریں۔  تاکہ دل میں ایمان کی کیفیت راسخ ہوجائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے کردار پر گہری نظر رکھیں۔ جو کرداری اوصاف اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔

ان کے بارے میں ہم سنجیدگی سے غورکرنا شروع کریں۔ کہ کیا وہ ہماری زندگی میں موجودبھی ہیں ؟ اگرکسی چیز کی کمی ہے۔ تو ہم اس کے لئے فکر مند ہوں۔ اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

یہ بھی پڑھئیے:

کامیابی میں سوچ ، رویوں اور عادتوں کا کردار

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button