ColumnsPanjab

سرائیکی خطے کی پہچان اوچ شریف

سرائیکی خطے کی پہچان بابا جلال الدین سرخ پوش بخآری کا شہر اوچ شریف

نوید نقوی

قارئین! اپنے مستقبل سلسلے” رب کا جہاں” میں آئیے اس بار سرائیکی خطے کی پہچان اور شان برصغیر کے قدیم ترین شہر اچ شریف کا رخ کرتے ہیں۔ میں جتنی بار بھی اوچ شریف گیا ہوں مجھے اس شہر میں دلی راحت محسوس ہوتی ہے اور دل کرتا ہے ان قدیم ترین مزارات پر گھنٹوں بیٹھ کر اپنے دل کو سکون پہنچاؤں۔

قدم قدم پر پھیلی قدیم قبریں جن کے بارے میں تاریخ خاموش ہے

اچ شریف میں قدم قدم پر آپ کو قبریں ملیں گی، نامعلوم قبریں جن کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ یہ شہر بھی سرائیکی خطے کے باقی شہروں کی طرح حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود سستا ترین اور پر امن شہر ہے۔ یہاں آ کر آپ ہیڈ پنجند کی سیر بھی کر سکتے ہیں اور ایک دن میں تمام بڑے مزارات کی زیارت کر سکتے ہیں۔

اوچ شریف
پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع قدیم شہر کسی زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا دارالحکومت تھا

جنوبی پنجاب میں پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع یہ ایک ایسا شہر ہے جو کسی زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا عظیم الشان دارالحکومت تھا اور جہاں سے پھوٹنے والے علم و عرفان کے سوتوں نے سارے برصغیر کو سیراب کیا لیکن آج اسے تحصیل کا درجہ بھی حاصل نہیں۔ یہاں کے منتخب عوامی نمائندوں نے بھی اس مقدس شہر سے وفا نہیں کی اور بہاولپور، لاہور میں اپنے بال بچوں کو شفٹ کر کے صرف الیکشن کے مواقع پر ووٹ لینے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔

سن400 عیسوی میں وسطی ایشیا سے آئی حملہ آور قوم “ہن” نے اسے تباہ و برباد کر ڈالا

بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73 کلومیٹر اور ہیڈ پنجند سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم یہ شہر کسی زمانے میں سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر محیط حدود اربعہ کی وسعتوں کے حامل اس شہر کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب 400 عیسوی میں وسطی ایشیا سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔

قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے لحاظ سے اس شہر کے ڈانڈے ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے ملتے ہیں

امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اپنی قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے سبب اس کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہن جو ڈرو سے جا ملتے ہیں۔ پنجاب کے ضلع بہاولپور کا یہ شہر ماضی میں قدیم تہذیبوں ، تمدنوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے۔ علم و ادب اور رشد و ہدایت کا بھی یہ شہر سرچشمہ رہا ہے۔ اس شہر پر مختلف ادوار میں مختلف قبائل نے حکمرانی کی ہے جن میں سب سے زیادہ عرصہ تک راجپوت قبیلے کی حکمرانی رہی ہے۔

 

سرائیکی خطے کی پہچان بابا جلال الدین سرخ پوش بخآری کا شہر اوچ شریف
سرائیکی خطے کی پہچان شہر اوچ شریف

مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے موسوم رہا

صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔ زمانے نے اس کو مختلف ادوار میں مختلف نام دیے۔ کبھی اسے سپیڈا کے نام سے پکارا گیا تو کبھی اسے اساش کہا گیا، کبھی اس کا نام اوسا رہا تو کبھی دیو گڑھ، کبھی یہ سکلاندا کے نام سے مشہور ہوا تو کبھی اسے سکندریہ کہا گیا اور پھر یہ ہود بھی بنا اور چچ بھی۔

سلطان ناصر الدین قباچہ نے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنا کر شہر کو ترقی کے راستے پر ڈالا

اس شہر کی خوش بختی اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ناصر الدین قباچہ نے اوچ کو اپنی سلطنت کا دار الحکومت اور تخت گاہ بنایا . اس دور میں اس کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا اور اس سے اس شہر کی خوب شہرت ہوٸی اور اس کی یہ شہرت دور دور تک پھیل گئی .

حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش کی آمد نے علاقے کو مزید شہرت دی

اوچ کی شہرت اور ترقی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری بخارا سے بھکر ہوتے ہوئے یہاں تشریف لائے . اس وقت بھی اوچ پر راجپوت قبیلہ ہی یہاں حاکم تھا۔ راجا دیو سنگھ راجپوت یہاں کے بادشاہ تھے اور یہ اسی کی نسبت سے دیو گڑھ کے نام سے منسوب تھا۔ حضرت شیر شاہ سرخ پوش بخاری نے راجا دیو سنگھ کو اسلام کی دعوت دی جو اس نےقبول نہیں کی مگر اس کی بیٹی اوچاں رانی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان ہو گئی .

اوچ نام پڑنے کی وجہ

حضرت سرخ پوش بخاری نے سعادت مند اوچاں رانی کے نام کو دوام بخشنے کی غرض سے دیو گڑھ کو اوچاں رانی کی نسبت سے اوچ کا نام دے دیا جو بعد میں حضرت سرخ پوش بخاری کی وفات کے بعد یہاں مدفن ہونے اور ان کی نسبت سے اوچ شریف کے نام سے مشہور ہو گئی۔ ناموں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد بالآخر یہ شہر اوچ شریف بن گیا، اوچ کے ساتھ شریف کا لاحقہ اس کے تقدس اور احترام کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔

سن 550 قبل مسیح میں آباد ہوا ، پہلے سادھوؤں ،بعد میں اسلامی شخصیات کی توجہ کا مرکز رہا

سن 550 قبل از مسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہر اپنی قدامت، امارت اور روحانیت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم وادب کے گیانی، سادھو اور بعدازاسلام اولیائے کرام نے اس شہر کا رخ کیا جن کے اب یہاں محض تذکرے اور مقبرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اوچ شہر دریائے ہاکڑا کے کنارے تعمیر اور آباد ہوا۔ اس دریا کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔

صحرائے چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کبھی یہاں دریا بہتا تھا اور خطے میں بہت زرخیزی اور خوش حالی تھی۔ برصغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو سلطنت کا حصہ تھا اور اوچ اس کے اہم شہروں میں سے ایک۔ اس عرصے کے دوران علاقے میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر ہوئیں۔ سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہی سے ہمکنار ہوئی اور پھر اس کے بعد اوچ کو صحیح معنوں میں عروج اور ترقی حاصل ہوئی۔

اوچ شریف میں
سرائیکی خطے کی پہچان اوچ شریف میں

اوچ میں علوم اسلامی کی ابتداء اور جامعہ فیروزیہ کی بنیاد

اوچ شریف میں علوم اسلامی کی ابتدا 370 ہجری میں سید صفی الدین گاذرونی کی آمد سے ہوئی۔ وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض 17 سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی جامعہ فیروزیہ کی بنیاد رکھی جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لیے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔
سلطان ناصر الدین قباچہ کے عہد (607 ہجری تا 625 ہجری) میں اس جامعہ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ، قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے جلیل القدر عالم جامعہ فیروزیہ کے صدر مدرس تھے۔ اس مدرسے میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اوچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور اس عرصہ کے دوران اوچ خوشحالی کے عروج پر پہنچا اور منگولوں کے حملوں کے باوجود اوچ نے اپنی اہمیت برقرار رکھی۔

 

سلطان التمش کے ہاتھوں جامعہ فیروزیہ اور کتب خانوں کی بربادی

التمش نے اوچ پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں اور کتب خانوں کو تباہ کر دیا۔ تباہی کے بعد جب وہ حاکم بنا تو اس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنا دیا۔ اس کے بعد اوچ کو کبھی اپنی کھوئی حیثیت واپس نہ مل سکی اور یہاں صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثارہی باقی رہ گئے۔

اوچ شریف میں آسودہ خاک ہونے والے صوفیاء کرام

اوچ شریف کو ہمیشہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، حضرت فضل الدین لاڈلہ، حضرت جمال الدین خنداں رو، حضرت کبیر الدین حسن دریا، حضرت غوث بندگی اور حضرت بہاء الحلیم جیسی عظیم ہستیاں خطہ پاک اوچ میں ہی آسودۂ خاک ہیں۔

 

نوادرات اور تبرکات

اس علاقے میں بہت سے ایسے نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں جو اس علاقے کے تقدس میں بے حد اضافے کا سبب ہیں۔ ہمایوں کے دور میں اوچ پر مرزا کامران کی حکومت تھی۔ جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت مجتمع ہوئی تو اوچ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا۔ مرزا کامران کے دور حکومت میں بہت سارے مقبروں اور مزاروں کی تعمیر و مرمت کی گئی۔ جب بہاولپور میں عباسیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تو اوچ شریف اس نئی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں اوچ پر دو مرتبہ حملے ہوئے اور شہر کو کافی نقصان پہنچا۔

سن 1817 کا سیلاب قیمتی تاریخی آثار کو بہا لے گیا

سن1817 میں آنے والے سیلاب نے اس شہر بے مثال کے قدیم آثار کو بری طرح متاثر کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا، تاہم چند ایک باقیات آج بھی معدومی سے پہلے آخری ہچکی کی صورت موجود ہیں۔ اس شہر کی تاریخی اہمیت کی بنیاد یہاں کے تین مشہور مقبرہ جات ہیں جو اپنی بوسیدگی اور خستہ حالی کے باعث کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتے ہیں۔

 

حضرت بی بی جیوندی کا مقبرہ

ان میں پہلا ادھورا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی کا ہے جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی پوتی اور ایک درویش خاتون تھیں۔ یہ مقبرہ 15ویں صدی کے آخری عشرے میں خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے بنوایا تھا۔ دوسرا مقبرہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے استاد حضرت بہاء الحلیم کا جبکہ تیسرا مقبرہ ان مقابر کے معمار استاد نوریا کا ہے جن کی خوبصورت کاریگری نے عہد گم گشتہ میں ان مقبروں کو شان و شوکت بخشی۔ یہ تینوں نادر و نایاب مقبرے آج اپنے اکھڑے، ٹوٹے پھوٹے در و دیوار لیے کسی قدردان کی نگاہ کو ترستے ہیں۔

آریاؤں کی آمد کے علاقے پر لسانی اثرات

اوچ شہر آریائی دور میں آباد ہوا، آریائی باہر سے آنے والی قوم تھی۔ خوبصورت اور سفید رنگت والی یہ نسل مقامی ہندو آبادی سے کافی ترقی یافتہ تھی۔ آریائی لوگوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہی اس علاقے میں ذات پات کا نظام بھی آیا جو اوچ شہر کی تعمیرات میں نمایاں ہے۔ اوچ میں آریائی لوگوں کے نقوش آج بھی موجود ہیں لیکن اس ورثے کو بچانے والا کوئی نہیں۔ اوچ شریف کی تاریخی عمارتوں کو بچانے کے لیے اوچ مانومنٹ کمپلیکس بھی قائم کیا گیا، تاہم اس کا عملی کردار کہیں نظر نہیں آتا۔

اوچ کے وہ مقامات جو یونیسکو کی فہرستِ شامل ہیں

سن1998 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نے اوچ کے چار مقامات کو اپنی واچ لسٹ میں شامل کیا جبکہ فن تعمیر کے بےبدل شاہکار مقبرہ بی بی جیوندی کی وجہ سے امریکن ایکسپریس کمپنی نے اوچ شریف کو اولڈ بگ سٹی کا خطاب دیا۔
ملتانی فن تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ 2000 میں دنیا بھر کی سو قدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں شامل تھا۔

امریکی قونصلیٹ برائن ڈی ہنٹ نے 2006 میں جبکہ پیٹرسن نے 2008 میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے 50 ہزار ڈالر عطیہ بھی کیا جس کا عشر عشیر بھی اوچ کے آثار قدیمہ پر لگا ہوتا تو آج اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اساطیری عہد سے لے کر موجودہ دور تک اوچ شریف کی تاریخ کئی الم ناک مراحل سے گزری ہے لیکن پُرآشوب ادوار کے سارے جبر کے تناظر میں مثبت اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ علم وعرفان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔

 

 

زندگی سے بھرپور شہر نیویارک اور لیڈی لبرٹی کی شان

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button