ColumnsFor ChildrenParents Guides

موبائل فون سے ہماری نئی نسل کو درپیش خطرات

موبائل فون سے ہماری نئی نسل کو درپیش خطرات اور سد باب کے لئے چند تجاویز

تحریر ؛۔جاویدایازخان

کہتے ہیں کہ پچھلی صدی کی سب سے بہترین اور بڑی ایجاد موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے ،کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے ،موبائل اور انٹرنیٹ نے جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے اور فاصلوں کو سمیٹا ہے وہیں اس کے بےجا استعمال نے بہت سی مشکلات اور اخلاقی و نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے ۔
بات تب مزید خطرناک ہو جاتی ہے جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لیے مائیں اپنی محبت بھری لوریوں کی بجاے موبائل کی سکرین کا سہارا لے لیتی ہیں۔

والدین خود اپنے بچوں کو ایک خطرناک شکنجے میں کس لیتے ہیں

چھوٹے بچے کا ذہن جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے وہ جلد اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہونا شروع ہوجاتا ہے والدین بھی اس کو اپنے لیے سکون کا باعث سمجھتے ہیں اور بچے کو اس میں مصروف کرکے اپنی دیگر مصروفیات کو سمیٹ لیتے ہیں جس سے بچہ ان کی توجہ سے محروم ہو جاتا ہے ۔یوں وہ خود اپنے بچے کے لیے ایک ایسا شکنجہ تیار کر لیتے ہیں جس سے نکلنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے ۔

بچے ماؤں کی شفقت بھری لوریاں بھولتے جا رہے ہیں

رفتہ رفتہ اب یہ حالت ہو تی جا رہی ہے کہ بچے کو دودھ پلانا ہے یا کھانا کھلانا ہے یا چپ کرانا ہے تو پہلے اسے موبائل دینا پڑتا ہے اور اسکی دلچسپی کے کارٹون دکھا کر اسے فیڈ کیا جاتا ہے۔ روتے بچے کو چپ کرانے کا واحد آسان حل اور علاج والدین کے لیے موبائل ہی رہ گیا ہے جس کے مضر اثرات سے بے خبر مائیں اپنی شفقت بھری لوریاں بھولتی جارہی ہیں یوں باپ بھی اپنی باتوں سے محبت کا اظہار نہیں کر پاتےاور یہ بچے اپنی دادی ،نانی،پھوپھی ،خالہ یہاں تک کے سگے بہن بھائیوں سے بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور سب رشتوں سے بڑھ کر موبائل سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں ، یوں رشتوں کی اہمیت ختم ہو تی چلی جارہی ہے ۔
یوں انہیں ماں کی گود سے زیادہ موبائل میں زیادہ سکون ملنے لگتا ہے ۔

اسکرین کے بے جا استعمال کے بچوں کے مزاج اور صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات

آج کل بچوں میں موبائل اور دیگر اسکرینوں مثلا” کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ ،ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ کا استعمال بڑھتا چلا جارہا ہے جسے سوشل میڈیا بھی کہا جاتا ہے خاص طور پر کرونا وباء کے لاک ڈوان کے دوران اس میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے بچے ٹین ایجرز سے سکرین ایجرز بن چکے ہیں، جس سے ان بچوں کی عممومی زندگی بھی نہ صرف عدم توازن کا شکار ہو چکی ہے بلکہ غصے اور چڑچڑاپن میں اضافہ ہو رہا ہے،وہ ویڈیو گیمز دیکھ دیکھ کر لڑاکو مزاج بنتے جارہے ہیں رات رات بھر جاگنے سے نیند کی کمی کی وجہ سے ان میں سستی اورتھکان بڑھ رہی ہے جو انہیں نہ صرف پڑھائی سے دور کر ہی ہے بلکہ وہ دنیا کے ہر کام سے جی چرانے لگے ہیں، ان میں جسمانی ورزش ختم ہو رہی ہے، میدان اور پارک خالی نظر آتے ہیں ،تعلیم سے بے رغبتی سے ان کے تعلیمی نتائج بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔

انٹرنیٹ کے فحش مواد تک بچوں کی رسائی، نئی نسل کو درپیش اخلاقی اور دینی چیلنجر

انٹرنیٹ سے فحش مواد تک رسائی ان بچوں کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہیں جس سے وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی جنسی ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اسکرین سے بڑھتی ہو ئی دلچسپی انہیں اپنے مذہب اور دین سے دور اور بیزار کر رہی ہے ۔ اسْکرین اور انٹرنیٹ پر موجود مواد غیر محسوس طریقے سے رفتہ رفتہ ہماری مذہبی شناخت اور ساخت ختم کر رہا ہے ۔ اسکرین اور انٹرنیٹ کی یہ لت والدین اور اساتذہ کے لیے لمحہ فکریہ بنتی چلی جارہی ہے اس حوالے سے والدین کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے ۔سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی متاثر کررہا ہے اور اس کا بڑھتا رجحان ایک نشہ بن چکا ہے ۔

مستقبل میں ہمارے معاشرے کو بگڑے والدین ملیں گے

یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا جا رہاہے اسے معمولی یا ہلکا نہ لیں ذرا سوچیں ! ہماری نوجوان نسل سارا وقت موبائل ،لیپ ٹاپ ،ٹی وی کو دے رہی ہے کل کو یہ والدین بنیں گےتو یہ اپنے بچوں کو بھی کھلونوں کی جگہ موبائل میں کارٹون لگا کر دیں گے نہ کوئی تربیت نہ اخلاقیات، آخر ان کا ہوگا کیا ؟ ذرا غور کریں!
المیہ یہ نہیں ہے کہ آج کے نوجوان بگڑ رہے ہیں بلکہ المیہ یہ ہےکہ کل کے بچوں کو بگڑے ہوے والدین ملیں گے۔

بچوں کو اسکرین اور انٹرنیٹ کی لت سے کیسے بچائیں ؟

سوال یہ ہے کہ آج والدین اپنے بچوں کو موبائل اسکرین کی لت سے کیسے نجات دلائیں ؟ بچوں کو ابتدائی عمر میں موبائل اور اسکرین سے دور رکھنا مشکل تو ہے مگر ناممکن بالکل نہیں ہے ۔بچوں سے موبائل چھین لینا یا پابندی لگانا کوئی حل نہیں ہے، ہم بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ دیر دور نہیں رکھ سکتے البتہ ان کے قریب رہ کر ان کی نگرانی، ان میں ڈسپلن اور دوسری دلچسپی پیدا کرنے سے اس کے استعمال میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
والدین رول ماڈل بنیں اور پہلے اپنے اوپر چیک اینڈ بیلنس رکھیں اور غیر ضروری طور پر خود بھی بچوں کے سامنے اس کے استعمال سے پرہیز کریں، بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ گفتگو اور دیگر دلچسپ ہوبیزمیں مشغول رکھیں ، ورزش ،کھیل کے میدان اور پارک میں ان کو اپنے ساتھ شریک کریں، بچوں کو موبائل کے فوائد اور نقصانات پر مکالمے اور تحریروں سے آگاہ کرتے رہیں ۔
گھریلو مصروفیات اور روٹین کے کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل ترتیب دیں اور بچوں کو اپنے ساتھ شامل کریں، خاص طور پر بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ مسجد ضرور لے جائیں ، دینی تعلیم کا اہتمام کریں ۔اسمارٹ فوں اور انٹرنیٹ کی لت میں کمی لانے کے لیے انہیں دیگر مشاغل ،ہوبی یا گیم کی جانب راغب کریں ، پالتو جانور ، گھر کی باغبانی ،ڈرائنگ اور آرٹ ورک میں ان کے ساتھ ملکر مشغول رہیں ۔
گفتگو کا مطلب پیغام رسانی یا خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے گفتگو صرف زبانی ہی نہیں ہوتی آپ کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج بی پیغام رسانی کا ذریعہ ہوتے ہیں ،اپنے رویے اور تاثرات کے ذریعے اس بارے میں بچوں کو پیغام دیں تو یقینا”ہم کافی حد تک اسکرین کے استعمال مین کمی لا سکتے ہیں ۔

اسکرین اور سوشل میڈیا سے دوری کے صحت پر مثبت اثرات کے حوالے سے تازہ تحقیق

پچھلے دنوں چھپنے والی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سوشل میڈیا اور اسکرین کے استعمال کو روزانہ 15 منٹ تک کم کرنے سے صحت عامہ اور قوت مدافعت کو نمایاں طور پر بہتر بنایا جا سکتا ہے اور تنہائی اور ڈپریشن کی سطح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ “جرنل آف ٹیکنالوجی ان بیہیوئیر سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا اور اسکرین کا استعمال کم کیا ان کی قوت مدافعت میں اوسطا 15ً فیصد بہتری آئی ۔ نیند کے معیار میں 50 فیصد بہتری اور افسردگی کی علامات میں 30 فیصد کمی بھی ظاہر ہوئی ہے۔
سوانسیا یونیورسٹی کے سکول آف سائیکالوجی، برطانیہ کے پروفیسر فل ریڈ نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ، جب لوگ سوشل میڈیا اور اسکرین کا استعمال کم کرتے ہیں، تو ان کی زندگی بہت سے طریقوں بشمول ان کی جسمانی صحت اور نفسیاتی بہبود کے فوائد کے اعتبارسے بہتر ہو سکتی ہے ۔
یہ رائے قائم کرنا باقی ہے کہ آیا سوشل میڈیا اور اسکرین کے استعمال اور صحت کے عوامل کے درمیان تعلق براہ راست ہے، یا صحت مندی کے متغیرات میں تبدیلیوں، جیسے ڈپریشن، یا دیگر عوامل بھی شامل ہیں امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے شائع ہونے والی ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جن نوجوانوں اور بالغوں نے صرف چند ہفتوں کے لیے اپنے سوشل میڈیا کے استعمال میں 50 فیصد کمی کی ان میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے ” ۔
دوسری جانب موبائل فون کمپنیز کو کڈز فرینڈلی موبئلز ایپ پر مزید بہتر کام کرنا چاہیے اور معصوم ذہنوں پر اچھے اثرات ڈالنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے وگرنہ یہ کارآمد نعمت معاشرے اور ہماری نئی نسل کے لیے بڑی زحمت بن سکتی ہے ۔

 

یہ بھی پڑھیں

بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button