Khyber Pukhtoon

وادی کمراٹ پاکستان کا سویٹزرلینڈ

وادی کمراٹ پاکستان کا سویٹزرلینڈ

تحریر ؛نوید نقوی

رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم کی طاقت سے منور ہو جائے گا اور آپ قدرت کے شاہکاروں کو دیکھ کر سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

آئیے اس بار پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 384 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کی وادی کُمراٹ کو یہاں کے مقامی افراد ’پاکستان کا سوئٹزرلینڈ‘ کہتے ہیں اور شاید سچ کہتے ہیں کیونکہ اس کی گواہی دیتے ہمیں بہت سے ایسے سیاح ملتے ہیں جن کا تعلق سویٹزرلینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک سے ہوتا ہے، یورپین اس وادی کو اور اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے خوب صورتی کے حوالے سے قدرت ہمارے پیارے وطن پر بہت مہربان ہے لیکن اس خوب صورتی کو سنبھال کر رکھنا ہمارا کام اور ہماری زمہ داری ہے۔

برف پوش پہاڑوں سرسبز چراگاہوں، پرشور ندیوں کا جہاں

دنیا کے جھمیلوں سے دور قدرتی ماحول میں چند دن گزارنے کا ارادہ ہو اور آپ کی نگاہِ انتخاب وادی کمراٹ پر جا رکے تو ذہن میں رکھیں کہ آپ کو چند مشکلات کا سامنا تو رہے گا لیکن ان سے گزر کر جب آپ منزل پر پہنچیں گے تو یہ وادی قدرتی نظاروں کے بارے میں آپ کے ذہن میں موجود تصور سے بھی زیادہ حسین نکل سکتی ہے۔بادلوں سے گھرے برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع اس وادی میں کئی سرسبز بانڈے (چراہ گاہیں) ہیں۔
جہاں سے بھی گزریں پتھروں سے ٹکراتا دریائے پنجکوڑہ کا پانی آپ کو ہلکی پھلکی موسیقی کی مانند محظوظ کرتا ہے اور دیودار کے جنگلات سے اٹھنے والی مہک آپ کو اسی قدرتی حسن کی یاد دلاتی ہے جس کا تصور کر کے آپ نے یہاں آنے کا ارادہ کیا تھا۔یہاں کی سب سے مزے کی بات اونچے اونچے پہاڑ اور ساتھ میں پانی کا شور ہے جو عجیب سا سکون دیتا ہے۔ ہے تو یہ شور لیکن آپ کو بہت زیادہ ذہنی سکون دیتا ہے۔

ایک مشکل اور تھکا دینے والا سفر

یہ ایک دشوار گزار سفر ہے اور یہاں تک پہنچنے کی جستجو میں آپ کو کافی تھکن ہو جاتی ہے یہاں کے تھکا دینے والے سفر کے مختلف مشکل مرحلے ہیں جن میں انتہائی پتھریلے راستوں پر سفر سرِفہرست ہے۔
اُس کے بعد باری آتی ہے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی عدم دستیابی کی اور پھر یہاں تک رسائی کے لیے کیا جانے والا پیدل سفر بھی آسان نہیں ہے۔

اسلام آباد سے کمراٹ کا فاصلہ

اسلام آباد سے وادی کُمراٹ کا فاصلہ تو 384 کلومیٹر ہے یعنی اسلام آباد سے لاہور کے فاصلے سے کچھ کم لیکن یہ طے ہوتا ہے کم از کم 11 گھنٹے میں۔دیر بالا تک کا سفر آسان اور پکی سڑک پر ہوتا ہے سو خاصا جلدی طے ہو جاتا ہے لیکن اصل امتحان تو یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ اُس کے بعد آنے والے علاقے شیرینگل میں موبائل سروس ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور مزید آگے چل کر آنے والے گاؤں تھل میں سڑک بھی ختم ہو جاتی ہے۔

قیام کے لیے ہوٹل،جھونپڑوں اور پیڈ کیمپنگ کی سہولت

اس مقام سے کُمراٹ تک کا فاصلہ کہنے کو تو صرف 12 کلومیٹر ہے لیکن اسے طے کرنے میں مزید ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔۔وادی کُمراٹ میں ہوٹل کم ہیں اور یہاں زیادہ تر سیاح کیمپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔وادی کُمراٹ میں داخل ہوں تو پہاڑوں کے دامن میں دریائے پنجکوڑہ کی شاخ دریائے کمراٹ بہتی دکھائی دیتی ہے اور دوسری جانب چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اور پھر وہ قدرتی نظاروں سے مالامال مقامات جہاں صرف وہی سیاح آتے ہیں جنھیں قدرتی حُسن سے حقیقی پیار ہوتا ہے۔یہاں عموماً ہوٹل کے کمرے سہولتوں کے حساب سے دو سے چھ ہزار روپے فی رات پر دستیاب ہیں۔ تاہم یہ اس علاقے میں قیام کا واحد انتظام نہیں۔ ایک سے دو ہزار روپے کی ادائیگی پر کیمپنگ کی سہولت مل جاتی ہے جبکہ لکڑی اور ٹین سے بنی جھونپڑیاں پندرہ سو سے دو ہزار روپے کے عوض مل جاتی ہیں۔

مفت کیمپنگ بھی کر سکتے ہیں

اگر آپ پوری طرح قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور آپ کے پاس کیمپنگ کے لیے اپنا انتظام ہے تو درختوں کے درمیان جہاں جگہ ملے کیمپ لگا لیں اِس کا کوئی معاوضہ نہیں لیکن خیال رہے کہ اس صورت میں رفع حاجت کھلی جگہ پر کرنی ہوگی۔کیمپنگ کے دوران کسی جانور سے سامنا ہونے کے واقعات کم ہیں لیکن اِس کا امکان ضرور ہے لہٰذا احتیاطاً لوگ کلہاڑی ساتھ رکھتے ہیں۔

پسند کی ٹراؤٹ مچھلی کھائیے

ممکن ہے کہ شہروں میں آپ کئی بار ٹراؤٹ مچھلی کے نام پر بےوقوف بن چکے ہوں لیکن یہاں آپ وہ بھی کھا سکتے ہیں اور اس میں بھی آپ کے پاس چوائس ہے کہ وہ ’فش پونڈ‘ کی ہو یا دریا کی۔
ٹراؤٹ کے شکار پر تو پاکستان بھر میں پابندی ہے لیکن یہاں ان مچھلیوں کی فارمنگ ہوتی ہے۔

جیب کے سفر سے ہائکنگ تک

وادی کمراٹ میں اگر آپ کے پاس فور بائی فور جیپ نہیں ہے تو آپ آگے کا سفر کسی بھی قیمت پر طے نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اگر آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہے آپ کو مقامی افراد کی مدد لینی ہو گی جو کہ جیب ہلکی کرنے میں آپ کی مدد کو ہر دم تیار دکھائی دیتے ہیں۔
جیپیں کرائے پر مل جاتی ہیں۔ چشمہ اور دو جنگا تک آپ کو جیپ 7سے 10ہزار تک کرایے میں آرام سے مل جاتی ہے لیکن دوجنگا سے آگے جیپ نہیں جا سکتی اور یہ سفر بھی تین گھنٹے میں طے ہوتا ہے اس سے آگے آپ کو ہائیکنگ یعنی پیدل سفر کرنا پڑتا ہے اور یہاں پر آپ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ کمزور دل حضرات کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے۔۔۔وادی کمراٹ کا سفر شروع کرنے کے بعد سب سے پہلا مقام راؤشی ڈب آتا ہے۔ مقامی افراد اسے ایسا میدان کہتے ہیں جو کبھی پھولوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اب یہاں آلو کاشت ہوتا ہے جس کی دو وجوہات ہیں ایک معیشت اور دوسرا خوف۔

کمراٹ میں پانی کے دو ذرائع

کمراٹ میں پانی کے دو ذرائع ہیں ،ایک چشمے اور دوسرا دریا؛ لوگ پینے کے لیے چشموں کا پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر کاموں کے لیے دریا کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

کُمراٹ آبشار!

راؤشی ڈب سے آگے چلیں تو کُمراٹ آبشار آتا ہے۔ آبشار تک پہنچنے کے لیے جیپ سے اُتر کر 20 منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔
بلند پہاڑ سے گرنے والا یہ آبشار سارا سال جاری رہتا ہے سوائے موسمِ سرما کے ان چند دنوں کے جب یہاں شدید سردی اور برفباری اِسے بھی جما دیتی ہے۔
سردی کی بات تو چھوڑیں گرمی کے موسم میں بھی اِس کا پانی انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے اور جولائی کی گرمی میں بھی اِس سے نہایا نہیں جا سکتا۔

توبوت ڈب!!

کچھ آگے بڑھیں تو ایک اور پیالہ نما میدان آپ کا استقبال کرتا ہے اس کا نام توبوٹ ڈب ہے۔

انتہائی ٹھنڈا کالا چشمہ!!

اس چشمے کا پانی انتہائی صاف شفاف ہے مگر نجانے کیوں کسی نے اِس کا نام کالا چشمہ رکھ دیا ہے۔
غالباً جہاں سے یہ نکلتا ہے وہاں کائی جمع ہوجانے کے باعث لوگ اِسے کالا چشمہ کہنے لگے۔
اِس چشمے کا پانی اتنا یخ ہے کہ ایک منٹ بھی ہاتھ اندر رکھنا محال ہے۔ مقامی افراد اِس پانی کو بطور دوا بھی پیتے ہیں۔ اُن کے بقول اِس سے فرحت اور تازگی ملتی ہے اور جسم میں تراوٹ آتی ہے جو بیماریوں کا راستہ روکتی ہے۔

بچاڑتن کا خوب صورت گاؤں

کالا چشمہ سے آگے چلیں تو آپ کے سفر کا امتحان مزید سخت ہو جاتا ہے۔ پہاڑی پتھروں کی تعداد اور اُن کا حُجم مزید بڑھ جاتا ہے اور آپ تھک کر واپسی کے بارے میں سوچنا بھی شروع کر دیتے ہیں لیکن مقامی لوگ آپ کو یہ کہہ کر آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ‘ابھی تو آپ نے کُمراٹ دیکھا ہی نہیں۔یہاں ایک چھوٹا گاؤں بچاڑتن اور ایک خوبصورت چراہ گاہ یا بانڈہ بھی ہے جہاں اب بھی پھول ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ اس مقام تک جانے کا راستہ صرف پیدل طے کیا جا سکتا ہے اور اس سفر کے لیے بھی بہت کم سیاح ہمت کر پاتے ہیں۔

دو چنگا تین وادیوں کا سنگم

بچاڑتن سے آگے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دوجنگا کا مقام آتا ہے جس کے بعد راستہ بہت زیادہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔دوجنگا دراصل تین مختلف وادیوں کا سنگم ہے اور یہاں سے آگے گاڑیاں نہیں جا سکتیں۔ مشرق کی جانب کونڈل شیئی بانڈہ، مغرب کی جانب کاشکُن بانڈہ اور شازور بانڈہ موجود ہیں جہاں پیدل جایا جا سکتا ہے۔

وادی کمراٹ کے علاقے میں آسانی کے نام پر صرف دو چیزیں آپ کو ملیں گی۔ ایک خالص اور صحت مند خوراک اور دوسرا قدرتی ماحول۔ اِس کے علاوہ مشکلات کے نام پر بازار بھرا پڑا ہوگا۔ لیکن وادی کُمراٹ کے قدرتی حُسن کے آگے یہ مشکلات سہی جا سکتی ہیں۔یہاں سڑک نہیں ہے اسی وجہ سے لوگ یہاں کا رُخ نہیں کرتے۔

پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے پاس جو گاڑیاں ہیں وہ یہاں چل نہیں پاتیں۔ یہاں جیپ لازمی ہے اِس لیے یہاں آنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی۔ راستہ تکلیف دہ ہے اور پھر پیدل سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔

خواتین کے لئے محفوظ ترین علاقہ

یہ علاقہ انتہائی پُرامن ہے اور مقامی افراد سیاحوں بالخصوص خواتین کی عزت اور حفاظت کرتے ہیں۔ جو خطرات عام طور پر شہری زندگی میں خواتین کو لاحق ہوتے ہیں وہ یہاں پر بہت کم ہیں۔یہاں قدرت کے جو حسین نظارے آپ دیکھیں گے وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی آپ ایک وقت میں کہاں کہاں اور کیا کیا دیکھیں۔اس لیے اگر آپ کو بھی اس پاکستانی سویٹزرلینڈ کی سیر کرنی ہے تو پہلی فرصت میں پروگرام بنا لیں کیونکہ یہ علاقہ زمین پر جنت معلوم ہوتا ہے یہاں جگہ جگہ قدرت کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کا نظارہ کر کے ایمان مظبوط اور دل و دماغ سر شار ہوجاتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیئے:

تھر پارکر ،جہاں چوری کا ڈر اور نہ ہی ڈکیتی کا خوف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button