Latest

23 مارچ کو کیا ہوا تھا؟

23 مارچ آگیا  سرکاری چھٹی ہوگی سر کیا کل بروز 23 مارچ اسکول کی چھٹی ہے ۔خوب مزا آئے گا ہلا گلا ہوگا ۔موج مستی ہوگی ۔سر کل 23مارچ ہے کیا اسکول آنا ہے؟میں کلاس میں داخل ہوا تو بچوں کا یہ سوال تھا ہاں بیٹا کل اسکول کی چھٹی ہوگی لیکن کیا کوئی بچہ مجھے یہ بتائے گا کہ 23 مارچ کو کیا ہوا تھا ۔ دوسری جانب مکمل خاموشی تھی ۔

شکایت ہے مجھے یارب ان خداوندان مکتب سے

سبق شاہین بچون کو دیتے ہیں خاک بازی کا

آج ہمارے نوجوانوں کو پتا نہیں کہ 23 مارچ کو کیا ہوا تھا زیادہ اگر کسی کو کچھ یاد بھی ہے تو بس اتنا کہ آج یوم پاکستان ہے اس سے آگے کچھ نہیں ۔

23مارچ یوم پاکستان پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے کہ جس دن قرار داد پاکستان جسے قرار داد لاہور بھی کہا جاتا ہے پیش کی گئی تھی یہ وہقرارداد تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مسلما نان برصغیر کے لیے جدا گانہ وطن کے حصول کا مطالبہ کیا اور آگے چل کر یہی قرار داد قیام پاکستان کا سبب بنی ۔

جب اپنی تاریخ کو چھپایا جائے گا  تو پھر اسی طرح ہوگا کہ سوال کیا جائے گا کہ 23 مارچ کو کیا ہوا تھا تو زبانیں گنگ  رہ جائیں گی ۔

غیروں سے کہاں تم نے غیروں سے سنا تم  نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

برصغیر پاک و ہند میں دو قومیں رہتی تھی دونوں کے تہذیب و تمدن ایک دوسرے سے جدا تھے دونوں کے نظریات الگ تھے انگریزوں نے برصغیر کو دو حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ مسلمانان برصغیر کے حوالے کیا اور ایک حصہ ہندوؤ ں کو دے دیا گیا  ۔ایک حصے کو پاکستان اور دوسرے حصے کو ہندوستان کہا جاتا ہے ۔23مارچ کی اہمیت اپنی جگہ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جو کہ ہمارے طالب علموں کو نہیں  بتایا گیا۔ دو قومی نظریئے کا زہر ان کو گھول کر پلایا گیا۔ اور یہ ایسا تاثیری زہر ہے آج تک قوم کے جسموں میں یہ زہر خون کے ساتھ ساتھ  دوڑ رہا ہے۔

دو قومی نظریے کا زہر پلایا گیا اور انہیں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ جسے ہندوستان کہا جاتا ہے یہاںپر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی جب بہادر شاہ ظفر جیسے لوگ برسر اقتدار آئے تو مسلمان درباروں میں راگ و رنگ اور موسیقی کی محفلیں برپاء ہونے لگی جس کے نتیجے میں مسلم اقتدار کمزور سے کمزور  تر ہوتا چلا گیا اور یوں یہاں پر انگریز آکر قابض ہوگئے۔ جب مسلم رہنماؤں نے انہیں یہاں سے نکالا تو وہ جاتے جاتے اس سلطنت کو جس کے مسلمان بلا شرکت غیریں ایک ہزار سال تک حکمران رہیں ہندوں مسلمانوں میں تقسیم کرکے چلے گئے  ہم آج  23 مارچ کو منا رہے ہیں اور آج تک کشمیر جیسے تنازعات ہمارے درمیان اسی وجہ سے موجود ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ مملکت اگر مسلمانوں  سے چھینی گئی تھی تو مسلمانوں کو ہی واپس ملنی چاہئے تھی  دو قومی نطریے کی بحث چھیڑ کر مسلمانوں کے ہاتھ اگر آیا بھی تو آدھا وطن   اور پھر وہ بھی بعد والوں سے سنبھل نہ پایا تو ہمارا ایک اور حصہ سازشوں کا شکار ہوا اور ہم سے الگ ہوگیا  اور آج ہم بھی اسی دوقومی نظریے کا  زہر گھول گھول کر اپنے طلبہ کو  پلا رہے ہیں ۔پھر اپنے بچوں سے  یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ کل  23مارچ ہے اسکول کی چھٹی ہوگی خوب مزہ آئے گا ہلا گلا ہوگا موج مستی ہوگی ۔ ہم کب آزاد ہونگے اور اپنے بچوں کو پڑھائنگے کہ بقول اقبال :

چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا

مسلم ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا

 اجب ہم تاریخ پاکستان اور تاریخ اسلام جیسے   اہم موضوعات کو پس پردہ ڈال کر بچوں کو انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم دینگے اور انہیں 23 مارچ جیسے اہم دن کی اہمیت سے نابلد رکھیں گے تو ایسا ہی ہوگا کہ 23 مارچ کا دن ہوگا ٹیچر یہ سوال کرے گا کہ اس دن 23 مارچ کو ایسا کیا ہوا تھا کہ پورا پاکستان 23 مارچ کو مناتا ہے تو کہیں سے بھی جواب نہ ملے گا یاد دکھیے جو قومیں اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہیں حال اور مستقبل کی کامیابیاں ان کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں آج طالبہ علم  کو اپنی تاریخ سے دور کردیا گیا ان سے ان کی پہچان چھین لی گئی آج کا نوجوان جانتا ہی نہیں کہ ہم کون تھے ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہماری شناخت ہم سے چھین لی گئی  اور ہمیں اپنے مقصد حیات سے کاٹ کا دیگر راہوں پر ڈال دیا گیا 23مارچ کی اہمیت تو کجا ہمارا نوجوان تو یہ تک نہیں جانتا کہ پاکستان کتنی مشکلات کے بعد حاصل کیا گیا ۔دین اسلام کی آبیاری کے لئے کتنے فرزندان اسلام نے جام شہادت نوش کیا

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے

وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

 

آج مسلمان بچوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ دیبل کہ مقام پر ایک مسلمان  بچی   کے سر سے چادر کھینچی گئی تو محمد بن قاسم صرف 17 سال کی عمر میں عرب سے اس نوجوان بچی کی فریاد پر چلا اور اس نے آ کر سندھ پر 17 حملے کیے اس وقت کے راجا اور اس کے پورے خاندان کو بھگاتا بھگاتا  ملتان تک لے گیا بل آخر اس کی دوبیٹیوں کو قید کرکے راجا کو قتل کرکے اسلامی سلطنت کی طرف روانا کردیا گیا اور اس کے خاندان  کو نشان عبرت بنا دیا گیا تاکہ کبھی کوئی دوسرا کسی مسلمان بچی کو میلی  نظر سے نہ دیکھ سکے  آج ہم اپنے بچوں کا رشتہ اپنی تاریخ سے کاٹ کر انہیں ایک ایسی بند گلی میں دکھیل رہے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہماری تو وہ تاریخ تھی کہ بقول اقبال :

دشت تو دشت صحرابھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

آج سلطان ایوبی محمد بن  قاسم محمد غزنوی کہاں سے پیدا ہونگے  ہماری درس گاہوں کی کوکھ بانجھ ہوچکی ہیں ۔ تعلیمی پالیسیاں بنانے والوں کے اپنے مفادات ہیں اور وہ کہیں اور کہ ہی اشاروں پر چل رہے ہیں آج تعلیمی لحاظ سے ہم اتنے پیچھے ہیں کہ ہمارے بچوں کو ہی نہیں معلوم کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا 23 مارچ کو بس اگر دلچسپی ہے تو ان باتوں مین کہ کل چھٹی ہوگی 23 مارچ کا دن ہلہ ہے گلا کرینگے ۔ اپنے سیلیبس سے جہاد والی آیات کو نکال کر عفو و درگزر اور اخلاقیات کے دروس کو شامل نصاب کر رہے ہیں

میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں

دیتے ہیں سرور اول لاتے ہیں شراب آخر

 

یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ حضور ﷺ نے جو غزوہ  لڑیں  ان کا مقصد کیا تھا  کیا اسلام کی سر بلندی کے لیے نبیﷺ نے بفس نفیس جنگوں میں حصہ نہیں لیا آج ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ایک عورت اپنے چھ ماہ کے بچے کو لیے ایک جنگ سے قبل  حضور کے پاس لائی اور کہاں کہ اسے میری طرف سے قبول فرمائیں  حضور نے فرمایا یہ بچہ ہمارے جنگ میں کس کام آئے گا ۔جنگ میں سامان حر ب کی کمی تھی عورت کہنے لگی یارسول اللہ ﷺ میرا یہ بچہ کسی مجاہد کو دےدیے گا وہ اسے جنگ میں بطور ڈھال استعمال کرلے گا ۔آج ہم اپنے ماضی سے کٹ چکے ہیں جس کا نتیجہ ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر ہو چکی ہے ہم بھک منگے ہیں ملک چلانے کے لئے ہمیں قر ضوں کی ضرورت ہے خزانے خالی ہیں  اور ارباب اقتدار  عوام کو لوٹ کر اپنی  جیبیں بھر رہے ہیں قوم کو تعلیم کے نام پر وہ  زہر پلایا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ ظلم سر بازار بچے جن رہا ہے اورعدل ہے کہ اسے اپٌنے بانجھ پن پر شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے ۔آج ہم سے غیرت اور حمیت رخصت ہو چکی ہے۔ 23مارچ کو چھٹی ہو گی ہلا گلا ہو گا موج  مستی ہو گی۔علامہ فرماتے ہیں کہ

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

آج جس نظام تعلیم کو ہم اپنے ہاں رائج کئیے ہوئے ہیں اس سے ہمیں حب الوطنی اخلاص  اور وظن پرستی  جیسے اوصاف نہیں ملنے کے موجودہ نظام تعلیم ہماری ضڑوں کو اور کحوکھلا کر رہا ہے اس انگریزی ماحول اور اس کے پروردہ نظام تعلیم نے ہمارے بچوں کے دلوں سے آزادی حریت جرات جانبازی بہادری حمیت چھین کر انہیں ناکارہ بنا ڈالا ہے ہم  نے انہیں بزدلی بے غیرتی جدت اور روشن خیالی کی وہ گھٹیاں پلائیں کہ آج اگر ان کو اسلاف کے کارنامے سناءے بھی جائیں تو ہنس کر کہتے ہیں یہ کون سے بڑی بات ہے ٖفلاں فلم کے ہیرو کو نہں دیکھا کہ اس کی پرفارمنس کیسی تھی یہ تو کوئی بات ہی نہں جو آپ ہمیں سنا رہے ہو   بقول اقبال

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تیری آنکھ نہ ہو سیر

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا جرم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدہ شیر

سینے میں رہیں راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہےیہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا اک ڈھیر

مزید پڑھیں فلسطین اسرائیل تنازعہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button