Character Building & TarbiyahEducational ChallengesEmotions & BehaviorFor Teachers

کیاتشدد کے بغیر تعلیم ممکن ہے؟

تشدد تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور بغیر کسی تشدد کے تعلیم آج کے دور کے اہم چیلنجز میں سے ہے کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بغیر کسی تشدد کے تعلیم فراہم کرسکیں ۔کیا تشدد کے بغیر تعلیم ممکن ہے ؟تعلیم  وہ عمل ہےجو صدیوں سے سینہ بہ سینہ پیار ومحبت   کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل کی جاتی رہی ہے۔اور معاشرے کے افراد  کو بامقصد اور کار آمد بنانے کے لیے  تعلیم کاسہارا لیا جاتا رہا ہے۔آج کل  تعلیم کے عمل کو آسان بنانے کیلئے مختلف  ٹیکنیکس بھی  استعمال کی جارہی ہیں۔اس طرح  مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ تاکہ بچےکچھ سیکھ کراپنےلئے اور معاشرے کے لیے بھی مفید بن سکیں۔

بدقسمتی سے  ہمارے تعلیمی نظام میں تشدد کا عنصر   غالب رہا ہے۔ اساتذہ تعلیم کے لیے بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔جسکی بناء پر بچے تعلیم اور  تعلیمی عمل سے بد ظن ہوکر راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔  حصول تعلیم کے لیے کی جانے والے تشدد کے نقصانات  اب بڑی حد تک سب پر واضح ہو چکے ہیں ۔ مہذب معاشرے تعلیم کے لیے تشدد جیسی لعنت  سے نہ صرف اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ بلکہ  دوسروں کو بھی یہ تلقین کر رہے ہیں ۔  کہ وہ  بھی تعلیم کے نام پر بچوں پر تشدد  کرنے سے باز آجائیں۔ورنہ بچوں کی شخصیت پر اس کےبرے اثرات پڑیں گے۔

بچہ فطرت پرپیداہوتاہے۔

بچوں سے متعلق ایک حدیث میں رسول اللہﷺ فرمایا۔ کہ  ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے  پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی  یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔   اگر اس حدیث پر غور کیا جائے تو   دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں ۔ پہلی بات یہ    کہ بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے  ۔اس میں چیزیں سیکھنے اور سمجھنے کا مادہ قدرت نے اس کے اندر رکھا ہو تا ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ بچے کے والدین کا طرز عمل اسے ویسا ہی بنا ڈالتا ہے  جیسے کہ اسکے والدین ہوتے ہیں ۔

  یعنی اس سلسلے میں بچہ بلکل معذور ہے۔  وہ ماں باپ اور اساتذہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔  اور ان کے رویے ہی  بچے کی ناکامی محرومی  یا پھر بچے  کی جیت کا باعث ہوا کرتے ہیں  ۔ اب جس بچے کو جیتنے کا ہنر ہی نہیں سیکھایا گیا  ۔اس سے بھلا جیت کی امید وابستہ کرنا حماقت نہیں  تو اور کیا ہے۔  اور پھر جب  بچے میں  مطلوبہ کارکردگی  اور صلاحیتیں  پروان نہیں چڑھ رہی ہوتیں  ۔ تو  پھر بچوں پرتشددکیا جاتا ہے۔ انہیں طعنہ دیا جاتا ہے۔  اورتشدد کے ذریعے  اسے تعلیم اور محنت کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔   جو بہت بڑی غلطی ہے۔  بقول شاعر ۔

تو نے چاہا نہیں حالات بدل سکتے تھے

میرے آنسو تیری آنکھوں سے نکل سکتے تھے

تو نے الفاظ کی تاثیر کو پر کھا ہی نہیں

نرم لہجے سے تو پتھر بھی پگھل سکتے تھے

دین اسلام میں تعلیم و تربیت کے لیے  تشدد کی ممانعت

تعلیم و تربیت کے لیے بچے پر تشدد کسی طور پر  مناسب نہیں ۔  اور نہ ہی دین اسلام  اس کی اجازت دیتا ہے۔  دین اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ بچوں کو بغیر تشدد کے تعلیم دینی چاہیے جو لوگ نماز نہ پڑھنے پرسات  سال کی عمر میں پٹائی کا حوالہ دیتے ہیں ۔ ان کے لیے عرض ہے کہ  پہلے اگر  چار سے سات سال کے درمیان  بچے کو مسجد  ساتھ لیکر جایا جائے۔  اور گھر میں باقاعدگی سے صبح اٹھنے اور نماز پڑھنے کی ترتیب بنائی جائے۔

تو زندگی کے ساتویں سال میں نماز کیلئے بھی بچے کی  تشدد کی نوبت پیش نہیں ائے گی۔ لہذا ہم اپنے حصے کا کام اگر ایمانداری اور توجہ کے ساتھ کرینگے تو پھر نتائج بھی اچھے ہونگے ۔اور تعلیم کے لیے مار پیٹ اور تشدد کی بھی نوبت نہیں آئے گی ۔

تعلیم کے لیے تشدد نفسیاتی طور پر نقصان دہ ہے۔

ماہرین نفسیات  کے مطابق جب بچے کو بار بار کسی بات پر ڈانٹا یا پھر مارا جاتا ہے یا اس پر بے جا تشدد کیا جائے  تو اس کے دماغی اسٹرکچر میں فوری طو ر پر چند قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔  اور اس سے بچے میں ایک خطرناک قسم کا مزاج  تشکیل پانا شروع ہوجاتاہے۔ جو کہ انسان کی شخصیت اور کردار میں بڑے بھیانک قسم کی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔

 بچے میں ہڈحرامی  اور ضدی پن آ جاتا ہے۔  اس پر کسی کی بات کا اثر نہیں ہوتا۔  وہ اہم سے اہم بات کو بھی  ہوا میں اڑا دینے کا عادی ہوجاتا ہے ۔ اسے اپنے یا کسی دوسرے کے نقصان کا کوئی ملال نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ہی موج میں گمراہ ہوتا ہے اور اسے کسی بھی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہوا کرتی ۔بچپن کی مار  اور تشدد سے بچہ  میں خود سری، غصہ ، لڑائی جھگڑے اور بات نہ ماننے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔تشدد کے بغیر فراہم کی گئی تعلیم بچے کے ذہم و دماغ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہتی ہے۔

بچپن کی ڈانٹ اور تشدد بچے کے مستقبل اور اس کی پروان چڑھنے والی شخصیت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے ۔ جب بار بار والدین یا اساتذہ کی طرف سے بے جا ڈانٹ اور تشدد والا رویہ اپنایا جاتا ہے تو بڑے ہونے کے بعد بچےکے ذہن کے نہان خانوں میں یہ بات راسخ ہو چکی ہوتی ہے۔ کہ اب والدین یا اساتذہ کچھ بھی کرلیں۔اس کاکوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔  اس  کے لاشعور میں یہ بات نقش ہو جاتی ہے، کہ میں کچھ الٹا سیدھا کرونگا ۔ تو ٹیچر اور والدین  زیادہ سے زیادہ مجھے مارین گے تشدد یا  ڈانت ڈپٹ کرینگے ۔

اس سوچ سے  بچے کی جھجک رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور وہ  بری چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ اور پھر بلا آخر پڑھائی سے بھاگتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بچہ جسے ملک و قوم اور معاشرے کا ایک مفید فرد بننا تھا ،بدقسمتی سے معاشرے کا عادی مجرم  یا معاشرے کیلئے ناسور بن جاتاہے ۔لہٰذا تشدد کے بغیر تعلیم دینے کا معمول بنائیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو معاشرے کا موثر فرد بنائیں۔

والدین اور اساتذہ کے لیے لمحہ فکریہ:

  .والدین اور اساتذہ کو اس بات کا  یقین کرنا چاہیے ،کہ مار پیٹ یا تشدد کسی طور پر بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا   ۔ یہ  بچے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور اسے ایک ذمہ دار شخص بنانے کے بجائے حالات سے فرار کا باعث ہوا کرتا ہے  ہے۔ اور پھر کچھ ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ بقول شاعر۔

حسرت ان غنچوں پر  جو بن کھلے مرجھاگئے

تو آئیےتعلیم دینے کے عمل کو  تشدد کے بغیر ممکن بنائیں اور بغیر کسی تشدد کے تعلیم دے کر ان غنچوں اور کلیوں کو مرجھانے سے بچائیں۔ اور آغوش محبت کی گرمی فراہم کریں ۔انہیں خود سے دور نہ کریں۔ اگر آج ہم نے ان کی حفاظت نہ کی،اور اپنے غلط رویوں کو تبدیل نہ کیا۔ انہیں محبت کی چھاؤں فراہم نہ کی۔ تو پھر وہ اپنے لیے کوئی اور سایہ عافیت تلاش کرنے کی کوشش کرینگے ۔ جس کے باعث پھر وہ ہم سے دور ہوتے چلے جایئنگے  ۔آیئے انہیں اپنی قربت اور محبت کا احساس فراہم کریں۔ انہیں معاشرے کا ایک کارآمد اور مفید شخص بنائیں نہ کہ عادی مجرم ۔شکریہ

یہ بھی پڑہیں

لاہور میں طلبہ پر تشدد کا واقعہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button