Islamاسلامی معلومات

تقدیر کیا ہے؟

تقدیر، قسمت ، نصیب اور قضاوقدر کیا ہیں یہ الفاظ؟  کیا حقیقت ہے ان کی؟ کیا ہمارے معاملات صرف قسمت سے چلتے ہیں  یا  ان میں ہماری کوشش اور محنت کا بھی عمل دخل ہے؟ آئیے آج ہم تقدیر کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور اس موضوع  کو بہترانداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قارئین! یہ سارے الفاظ ایک ہی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان اسلام کے بلیف سسٹم یا نظام عقائد کا حصہ ہے۔ اس پر ایمان لائے بغیر ہم مومن نہیں بن سکتے ۔ لیکن اس کی حقیقت کو جاننا نہایت ضروری ہے۔ آج اسی کی وضاحت پیش نظر ہے۔

 قضاوقدر ، تقدیر کا ہی دوسرانام ہے۔ اس میں قضا اللہ کے حتمی فیصلوں کو کہتے ہیں جبکہ قدر اللہ کے علم کو کہتے ہیں۔ اوردونوں کو ملاکر تقدیر کہتے ہیں۔   ہم اسے نصیب یا قسمت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔

قضا اللہ کے حتمی فیصلوں کیلئے بولاجاتاہے۔  جبکہ قدر ، اندازہ لگانے  کو کہتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں  تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ کو کہتے ہیں ۔جو اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جاچکا ہے۔

  اب تقدیر کے دوحصے ہوگئے ایک حصہ اللہ کا حتمی  فیصلہ ہوتا  ہے یعنی اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق اور اسکے نظم کو چلانے کیلئے  کچھ اہم فیصلے کئے ۔ خودا نسان کی تخلیق اور دنیا میں اس کے آنے جانے کے بارے میں کچھ  اہم فیصلے کررکھے ہیں یہ سب تقدیر ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ انسان کو عقل  وشعور اور قوت ارادی عطا کرکے اس  کے ذاتی فیصلوں کا علم اپنے پاس محفوظ کرلیا۔  یہ علم بھی تقدیر کا اہم حصہ ہے۔ یوں تقدیر اللہ کے حتمی فیصلوں کے علاوہ اس کے علم کان اور علم یکون کا نام ہے۔

تقدیر کی دو قسمیں ہیں

1۔ تقدیر مبرم ۔

2۔ تقدیر معلق۔

تقدیر مبرم

پہلی قسم “تقدیر مبرم ”  ہے، یہ اللہ کا   حتمی اور آخری فیصلہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھا گیا، اور اس میں تبدیلی بالکل نا ممکن ہوتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے فرمان ’’رفعت الأقلام و جفّت الصحف‘‘ میں   اسی کی طرف اشارہ کیا گیا  ہے کہ تقدیر  جن قلموں سے لکھی گئی وہ قلم اُٹھالیے گئے اور صحیفوں پر جس سیاہی سے تقدیر کا فیصلہ لکھا جاچکا ہے وہ  سیاہی اور صحیفے  خشک ہوچکے ہیں، یعنی اب اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ ﷲِ یَقُولُ کَتَبَ اﷲُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ.

 اسی طرح سورہ ھود میں  اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے۔

یٰٓـاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاج اِنَّـهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ ج وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍo

(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجیے، بے شک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔هود، 11: 76 چونکہ یہ عذاب تقدیر مبرم کا حصہ  تھا اس لیے ٹل نہ سکا۔

تقدیر معلق

دوسری  قسم “تقدیر معلق”   کی ہے ،  تقدیر کی یہ قسم ایک طرح کی لچک والی تقدیر ہے۔   تقدیر معلق ایک طرح کی تدبیر  ہے جو تقدیر کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس میں  خود  اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ  ہو تا ہے کہ اگر اپنی دعا اور اپنی کوشش ، عمل اور تدبیر کے ذریعے چاہے تو ہم ان وہی اس  کی تقدیر بنادیتے ہیں۔

یہ درحقیقت  اللہ کا علم ہوتا ہے جو اپنے بندوں کو اختیار عطاکرنے کے بعد بندوں کے اختیاری عمل کو محیط ہوتا ہے۔ یعنی بندہ  اپنی مرضی سے جب جو عمل چاہے کرلیتا ہے لیکن اس عمل کا علم اللہ کے ہاں لوح محفوظ پر پہلے سے لکھا جاچکا ہوتا ہے۔  یوں بندے کا اختیاری عمل تقدیر کا حصہ ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔    وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍo اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔ یٰسین، 36: 12

سورۃ الرعد کی 39 نمبر آیت میں فرمایا: یَمْحُوا ﷲُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِo

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔الرعد، 13: 39

ترمذی حدیث 2139 میں فرمایا:

عَنْ سَلَیْمَانَ قَالَ، قَالَ رَسُولُ ﷲِ: لَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا یَزِیدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.ترمذي، السنن،

انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے یا کرے گا (خواہ اس کا تعلق تقدیرِ مبرم سے ہو یا تقدیرِ معلق سے) وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر میں ہے، اللہ تعالیٰ سے مخفی کچھ بھی نہیں ہے، اور تقدیر سے مفرّ بھی نہیں ہے، لیکن انسان مجبور اور  بے بس بھی نہیں ہے، اس لیے کوشش اور اچھی تدبیراختیارکرنے کے ہم مکلف ہیں، اللہ تعالی نے اپنی مرضی سے انسان کو عمل کااختیار دیا ہے، اور اس اختیاری عمل کاوہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔

کیا تقدیر پر بحث کرنی چاہیے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اندھیری راہ ہے، اس پر مت چلو، اس شخص نے دوبارہ سوال کیا تو فرمایا: گہرا سمندر ہے اس میں مت داخل ہو، اس نے سہ بارہ سوال کیا تو فرمایا: اللہ کا راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجھ سے مخفی رکھا ہے؛ لہٰذا اس کی تفتیش و جستجو میں مت پڑو۔

“و سأل رجل عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طريق مظلم لاتسلكه، و أعاد السؤال فقال: بحر عميق لاتلجه، فأعاد السؤال فقال: سرّ الله قد خفي عليك فلاتفتشه”. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (1 / 147)

حدیث میں ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے تقدیر کا ذکر فرمایا جس کا خلاصہ یہ  ہے کہ انسان کی تقدیر بالآخر اس پر غالب آتی ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: حضور ﷺ پھر عمل کی حاجت؟ پھر تو ہم تقدیر پر ہی بھروسہ اور تکیہ  نہ کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، عمل کرتے رہو، کیوں کہ ہر ایک کے لیے وہ  (راستہ اور طریقہ) آسان کردیا جاتاہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہو۔ یعنی مسلسل نیک عمل کیے جاؤ، امید ہے کہ اسی حالت میں موت آجائے، اور جب خاتمہ بالخیر ہوگیا تو انسان کا بیڑا پار ہوگیا۔

حضرت عمر اور طاعون کی وبا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ الله”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا:أفِرُّ مِنْ قَضَاء الله إلی قَدْرِ الله”.  (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)

جواموربھی انسان بجالاتاہے، یہ سب تقدیرِالہٰی کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن انسان   جمادات اور پتھروں کی مانند چوں کہ مجبور و بے بس نہیں، اس لیے کوشش اوراچھی تدبیراختیارکرنے کے ہم مکلف ہیں،بہرحال انسان کب کس وقت ، کس جگہ، کیا عمل کرے گا؟  یہ سب کچھ  اللہ تعالی کے علم میں ہے،  مگر انسان اس پر مجبور نہیں اور  کوشش کا وہ مکلف ہے۔فقط واللہ اعلم

تقدیر کی قسمیں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button