Character Building & TarbiyahSelf development

خودشناسی کیا ہے؟

خودشناسی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اپنی پہچان ،خود آگاہی یا اپنی زات کو جاننے کے ہیں خودشناسی  در حقیقت اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے۔جبکہ خودشناسی کی تعریف یہ ہے کہ انسان کا اپنےمقام اپنی صلاحیتوں اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوناہے۔درحقیقت  خودشناسی  ا پنی تلاش کا  نام ہے۔اور اس چیز سے آگاہ ہونے کا نام ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے اس دنیا میں کیوں بھیجا۔میری تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ مجھے کون کون سی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اور میں ان سے کام لے کر کس طرح  کامیابیاں حاصل کر سکتا ہوں۔وہ کون کون سے راستے ہیں جن پر چل کر مجھے منزل تک رسائی ہو سکتی ہے۔

خودشناسی ہی خدا شناسی ہے 

خودشناسی دراصل اپنی پہچان اپنے اندر جھانکنے اور اپنے اندر کے انسان کو سمجھنے کا نام ہے۔رسولﷺ کا ارشاد عالی پاک ہے کہ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ(کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا) خودشناسی کی کیفیت جب کسی انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اسکے رب تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

ہوتا ہے خودشناس ہی فائق خدا شناس

آوارہ جستجو میں عبث کو بہ کو نہ ہو

 

خودشناسی  یا اپنی پہچان کے بعد انسان کی آگے کی منازل کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ جب کوئی انسان  خودشناسی کے زریعے خود کو پہچان لیتا ہے تو اسے اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہو جاتا ہے۔

دنیا وآخرت کی کامیابی کیسے؟

دنیا وآخرت کی کامیابی کا خواہاں آج ہر فرد ہے۔لیکن دنیا وآخرت میں کامیابی کی کلید کیا ہے؟ اس جانب بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔دنیا وآخرت میں کامیابی کی ایک ہی کلید ہے خودشناسی یعنی  اپنی پہچان جو فرد یا قوم خودشناسی کے ذریعےخود کو پہچان لیتی ہے تو کامیابیاں وکامرانیاں ہر نئے قدم پر ان کی منتظررہتی ہیں۔

خودشناسی ہو تو ہر معجزہ امکان میں ہے

اک چھوٹی سی خدائی ہر اک انسان میں ہے

 

اور جو افراد یا اقوام خودشناسی کے  حوالے سے بے فکر رہتی ہیں تباہی وبربادی اور ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ایسیاقوام سدا دوسروں کی محتاج بن کر زندگی کو گزارا کرتیہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا

چین کی مثال

ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہے ۔چین کے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ افیون پینا تھا لیکن جب ماؤزے تنگ جیسا لیڈر انہیں ملا جو نہ صرف ذاتی طور پر خود شناس تھا بلکہ اس نے چینی قوم کو بھی ان کی خودشناسی سے آگاہ کیا نتیجے میں آج چین دنیا کی سپر طاقت بننے جا رہا ہے ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوسکا کہ چین  کے لوگوں نے خودشناسی کے ذریعے اپنے اندر چھپی اس صلاحیت کو پہچان لیا تھا۔جو کہ کامیابی کی کلید تھی۔

کامیابی کی کلید

اس دنیا میں کامیابی کے خواہاں ہر شخص کے پاس کامیابی کی کلید موجود ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سب نے اس کلید کو اپنی جیب میں رکھا ہےاور دوسروں سے پو چھتے پھر رہے ہیں کہ ناکامی کے تالے کیسے کھلیں گے۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کلید کونسی ہے؟ وہ کامیابی کی کلید ہے )خودشناسی  اپنی پہچان آج بحیثیت فردو قوم ہم دونوں حوالوں سے خودشناسی جیسی لذت سے محروم ہیں اور  اسی لئے ذلت اور بربادی ہمارا مقدر کر دی  گئی ہے ۔

خودشناسی اورہم

بحیثیت قوم وافراد کے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی پہچان کو کھو چکے ہیں۔ہم بجائےخودشناسی کےخود فریبی میں مبتلا ہیں اور اسی خود فریبی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ہم نے اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو نہ پہچانان کبھی بھی ہم نے اپنی خودشناسی کی جانب توجہ نہ دی تیجے کے طور پرملک ہمارا ہے حکومت باہر کے لوگ کر رہے ہیں۔تیل کے کنویں ہمارے گاڑیاں دوسروں کی چلتی ہیں۔کانیں ہماری ہیں اورہم سستی کا شکار ایسے کہ باہر والوں کو ٹھیکے دے رکھے ہیں کہ آؤ ہمارے ہاں سےکھود کے سب تم لے جاؤ بس ہمیں جاتے جاتے  کچھ خیرات دیتے جانا۔

ہمارا مزاج اور خودشناسی

بحیثیت قوم ہمارا مزاج کافی بگڑ چکا ہے جسے سدھارنے کے لئے بڑا وقت چاہیئے۔وقت کی ہی مثال لیتے ہیں وقت نام ہے ماضی حال اورمستقبل کا ماضی ہمارے اسلاف حا ل ہم خود اور مستقبل ہمارے نوجواں طالبعلم  ماضی کوہم نے بھلا ڈالاحال سے ہم باخبر نہیں اور مستقبل کی ہمیں فکر نہیں یعنی)خودشناسی تو درکنار ہم تو اپنی پہچان تک کھو بیٹھے۔

وطن کی فکر کر ناداں  مصیبت آنےوالی ہے

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

آج اگر ہم نے  اپنی تلاش نہ کی بالفاظ دیگر)خودشناسی اور اپنی پہچان کو چھوڑ  دیا تو آنے والا وقت ہمں معاف نہیں کرے گا۔علامہ اقبال فرماتے ہیں

ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے

خودی میں ڈوب کر ضرب کلیم پیداکر

خودشناسی اور بچے

بچے عموما خود شناس نہیں ہوا کرتے۔ان کی صلاحیتوں کا علم  بہر حال ماں باپ کو ہوتا ہےماں باپ اگر  صحیح سمت اور درست خطوط پر اولاد کی صلا حیتو ںکو پرکھتے ہوئے ان کی پر ورش جاری رکھیں تو بچہ ترقی کے زینوں کو طے کرتے کرتے بام عروج پر پہنچ جائے گا۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ بچے میں چھپا وہ گوہر عموما ماں باپ کی نظر سے پوشیدہ رہتا ہے  اور گھسے پٹے طریقے سے پرورش کی جاتی ہے۔یوں وہ بچہ وہاں پہنچ جاتا ہے کے جہاں کے لئے وہ موزوں نہیں ہوتا اور جہاں کے لئے وہ موزوں ہوتا ہے وہاں اسے پہنچنے نہیں دیا جاتا۔

والدین بچےاور خودشناسی

خودشناسی سے بسا اوقات والدین آگاہ بھی ہوتے ہیں اور ان کو  بچے کی پوشیدہ صلاحیتوں کا علم بھی ہوتا ہے  لیکن وہ اپنی خواہش اور مرضی کو بچے پر مسلط کردیتے ہیں۔مثال کے طور پر بچہ بننا چاہ رہا ہے وکیل اور وہ وکالت پڑھنا چاہ رہا ہے جبکہ ماں باپ کی یہ ضد ہے کہ ان کا بیٹاڈاکٹر بنے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ  ڈاکٹر بن پاتا ہے  ۔اور نہ ہی وکالت پڑھ پاتاہے اور پھر اسے عملی زندگی میں کوئی تیسری راہ تلاش کرنی پڑتی ہےجو کہ اسے ناکامیوں سے دو چار کر دیتی ہے۔والدین کا یہ رویہ بچےکی حقیقی قابلیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔

گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں ایک بچہ گھر سے نکلتاہے  وہ نہیں جانتا کہ )خودشناسی کیا  ہے؟ اس کے ہاتھ میں گیند بلا ہے۔ اسے نہ دھوپ کی فکر نہ بھوک کا خیال نہ پیاس کا احساس اور نہ ہی کسی دوسرے ساتھی کی کمی کا احساس۔وہ گیند کو ہوا میں اچھالتا ہے  اور بلے سے اس پر ضرب لگاتا ہےاور دور تک آسمان کی طرف جاتی ہوئی گیند  پر نظریں جمائے دیکھتا ہے جب تک کہ وہ زمین پر نہیں آجاتی وہ دوبارہ اور سہ یہی عمل دہراتا ہے۔

مغرب ہو جاتی ہےنہ تھکن کا احساس اور نہ ہی وقت گزرنےکایہ بچہ آنے والے وقت میں کرکٹ کا ایک بڑا کھلاڑی بن سکتا ہے۔لیکن ماں باپ کی کھیلنے سے روک ٹوک اور مار اس بچے کی شخصیت کو بری طرح متاثر کر دیتی ہے۔یہ بچہ اپنے طور پر)خودشناسی سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن اس کے افعال سے یہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ بچے کی دلچسپی کس چیز میں ہے اگر مناسب طریقے سے رہنمائی کی جائے تو بچہ نہ صرف کامیاب ہو گا بلکہ معاشرے کا ایک مفید فرد بھی بنے گا۔

اساتذہ کی زمہ داری

یہ کافی پرانی بات ہے جب میں ایک اسکول میں پڑ ھاتا تھا ایک بچہ جو کہ پڑھائی میں کمزور تھا  لیکن اللہ نےاسے خوبصورت آواز سے نوازا تھا اور وہ نعتیں بھی بہت اچھی پڑھتا تھا میں نے اسے نعت اکیڈمی میں داخلہ لینے کو کہا اس بچے نے میری بات پر عمل کیا آج وہ ایک مشہور نعت خواں ہے۔اساتذہ کا یہ فرض ہے کہ وہ خودشناسی کی اہمیت کو سمجھیں اور  بچے میں پائی جانیوالی صلاحیتوں پر غور کریں۔اور بڑی عمر کے بچوں کوخودشناسی کی اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنی عملی زندگی کے سفر میں  درست سمت میں گامزن ہو سکیں۔

حرف آخر

جس طرح اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف رنگ وروپ قدکاٹھ وغیرہ سے نوازا ہے بالکل اسی طرح ہر انسان میں مختلف صلاحیتیں بھی  رکھ دی ہیں ۔بس آپ ان صلاحیتوں کو پر کھیں اور ان پر اپنی ساری توانائی صرف کردیں۔کامیابیاں آپ کا مقدر ہوں گی ۔ جس طرح ہر چابی سے ہر تالا نہیں کھلتا بالکل اسی طرح (Self Discovery)خودشناسی کی کلید آپ کے اپنے پاس موجود ہےوہ آپ کی کامیابیوں پر لگے تالے کھول سکتی ہے بقول علامہ اقبال

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو

آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں

مزید پڑھیں خود اعتمادی مضبوط شخصیت کی ضمانت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button