Columns

شیخ محمد ایوب مسجد نبوی کے عجمی امام

ضیاء چترالی

 

عالم اسلام کے نام ور قاری اور مسجد نبوی کے سابق امام شیخ  ایوب علیہ الرحمة کا آبائی تعلق برما سے تھا، مگر اس کے باوجود وہ عربوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے اور رسول اقدس کے مقدس شہر، مدینہ منورہ کے باسی ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کی رقت آمیز تلاوت سن کر ڈھاریں مار مار کر روتے تھے۔

آبائی تعلق برما سے تھا ،1952 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے

شیخ محمد ایوب بن محمد یوسف 1372ھ (1952ء) کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور حرم پاک میں پرورش پائی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1385ھ میں وزارت اوقاف سعودی عرب کے زیرسرپرستی جاری شعبہ تحفیظ القرآن مسجد بن لادن میں شیخ خلیل بن عبد الرحمن کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد مدینہ منورہ میں واقع معہد المدینہ العلمی میں داخل ہوئے اور سال 1392ھ میں ثانویہ کی تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ سال 1396ھ میں مدینہ منورہ اسلامک یونیورسٹی کے شریعہ کالج میں داخلہ لیا اور بی اے کے بعد تفسیر اور علوم قرآن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ سال 1408ھ میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

شاہ فہد کمپلیکس برائے طباعت قرآن کمیٹی کے رکن تھے

اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد شیخ ایوب نے سال 1397ھ سے 1398ھ تک قرآن کالج میں معاون استاذ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ نیز وہ شعبہ تفسیر میں تدریسی کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات کے علاوہ شیخ ایوب شاہ فہد کمپلیکس برائے طباعت قرآن مجید میں علمی کمیٹی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔

برطانیہ کے شہر برمنگھم کی جامع مسجد میں بھی تراویح پڑھائی

شیخ موصوف کو سرزمین حرمین کی متعدد مساجد میں امامت وخطابت کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے برطانیہ کے شہر برمنگھم کی جامع مسجد میں بھی نماز تراویح کی امامت کی۔1394ھ سے 1403ھ تک وہ مسجد العنابیہ میں امام رہے اور پھر 1403ھ سے مسجد الحسینی میں امامت کے فرائض انجام دیئے۔ جبکہ محلہ شرقیہ میں واقع مسجد احمد بن حنبل میں بھی جمعہ پڑھاتے رہے۔ شیخ ایوب مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور استاذ تھے۔

صرف 12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا

شیخ ایوب رحمہ اللہ نے اپنی خداداد صلاحیت اور ذہانت کی وجہ سے صرف 12 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور پھر مدینہ منورہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1408ھ میں مدینہ یونیورسٹی سے تفسیر قرآن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور مدینہ یونیورسٹی میں استاذ مقرر ہوئے۔ حق تعالیٰ نے آپ کو محبوبیت و مقبولیت سے خوب نوازا۔ اصلاً برمی ہونے کے باوجود اہل عرب ان کی مسحور کن اور روح پرور آواز میں قرآن سنتے تو فرط محبت و عقیدت میں رونے لگتے۔ آپ کے پیچھے مسجد نبوی شریف میں نماز تراویح پڑھنے والے دور دراز سے سفر کر کے بہت ہی شوق و اہتمام سے شرکت کرتے۔

شاہ فہد کی خواہش پر قرآن کی مکمل ریکارڈنگ کروائی

شاہ فہد مرحوم کی خواہش پر انہوں نے قرآن کریم کی مکمل ریکارڈنگ کروائی، جو آج بھی ریڈیو، ٹی وی پر سعودی عرب سمیت پوری دنیا میں عقیدت و محبت سے مسلسل سنی جاتی ہے۔شیخ ایوب مقامات قرآن اور خوش الحانی میں یکتا اور منفرد حیثیت کے مالک تھے۔ شیخ ایوبؒ مسجد قباءاور مسجد قبلتین میں بھی امام رہے۔یہ شیخ ایوب کا خاص اعزاز ہے کہ انہوں 1410ھ کے رمضان المبارک میں تنہا مسجد نبوی میں تراویح کی نماز پڑھائی۔

1990سے 1997 تک مسجد نبوی کے مستقل امام رہے

1990ءمیں انہیں مسجد نبوی میں امام مقرر کیا گیا اور 1997ءتک امامت کے فرائض انجام دئیے، پھر کچھ برسوں کا انقطاع رہا اور رمضان 2015ءمیں شاہ سلمان کے حکم پر انہیں دوبارہ مسجد نبوی میں تراویح کے لئے امام مقرر کیا گیا تو دور دراز سے لوگ ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لئے جوق در جوق مدینہ آئے۔ شیخ محمد ایوبؒ برمی کو قرآن کریم سے محبت اور لگن کی وجہ سے حق تعالیٰ نے دیگر عربوں پر فضیلت بخشی اور مصلی نبوی پر امامت کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔

شیخ مرحوم فرماتے تھے کہ میری دو خواہشیں ہیں، ایک یہ کہ مرنے سے پہلے پہلے مجھے محراب نبوی میں امامت کی سعادت مل جائے اور دوسری یہ کہ میری چھوٹی بیٹی بھی قرآن حفظ کرلے۔ خدا کی شان آپ کی یہ دونوں خواہشیں پوری ہوئیں۔ چنانچہ وفات سے پہلے انہیں محراب نبوی میں امامت کی سعادت بھی ملی اور اپنی وفات سے ایک دن قبل انہوں نے اپنی بیٹی کی حفظِ قرآن کی تقریب میں شرکت بھی فرمائی۔

دو شادیاں کیں، 5 بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ،سب حافظ قرآن ہیں

خدا نے شیخ مرحوم کو دو بیویوں سے 5 بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ساری اولاد قرآن کریم کے حافظ ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں تلامذہ ہیں، جنہوں نے مسجد نبوی اور مدینہ یونیورسٹی میں ان سے پڑھا اور اب دین کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ شیخ ایوب نے قرآن کریم کو سینے سے لگایا اور قرآن کی محبت نے ان کو ایسی بلندی نصیب فرمائی کہ مسجد نبوی شریف میں ان کی تلاوت کی آواز گنبد خضریٰ میں صاف سنائی دیتی تھی۔ گویا وہ اپنے پیارے نبی کو وہ قرآن سناتے رہے، جو آج سے 14 صدیاں قبل نبی پاک کے قلب اطہر پر نازل ہوا تھا۔

2016 کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوا

شیخ ایوب برمی 9 رجب 1437ھ 17 اپریل 2016ءکو نماز فجر کے بعد اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 64 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ظہر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں شیخ علی الحذیفی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ مسجد نبوی شریف میں روزانہ کئی خوش قسمت لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، لیکن قاری شیخ محمد ایوب برمی کی نمازہ جنازہ میں غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا۔ لوگ ان کے جنازے کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے عقیدت و محبت سے پروانہ وار آگے بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ جنت البقیع جیسے مبارک قبرستان میں صحابہ کرامؓ کے پہلو میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔

شیخ محمد ایوب غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے ، شیخ سعود الشریم

مسجد الحرام کے امام فضیلة الشیخ قاری سعود الشریم قرآن کی خدمت اور اشاعت دین کیلئے قاری شیخ محمد ایوب برمیؒ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 1952ءکو بلد حرام مکہ المکرمہ میں ایک بچے نے جنم لیا، جسے بچپن ہی سے قرآن کریم سے بے حد محبت اور لگاﺅ تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 12 سال کی مختصر عمر میں قرآن کریم کو مکمل حفظ کیا۔ یہ بچہ غیر معمولی نوعیت اور صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اس نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔ دنیا اسے امام المسجد النبوی الشریف شیخ محمد ایوب کے نام سے یاد کرت ی ہے۔ ان کا شمار صرف سعودی عرب کے معروف خوش الحان قراءمیں ہی نہیں، بلکہ عالم اسلام کے مشہور قراءمیں ہوتا ہے۔

 

عربوں کی عجمی عالم سے محبت اور عربی عالم سے نفرت

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button