Islam & Muslimsمسلم دنیا

فلسطین اسرائیل تنازعہ

فلسطین اسرائیل تنازعہ۔ ایک جائزہ

تحریر: ڈاکٹرمحمدیونس خالد

فلسطین اسرائیل تنازعہ کا جائزہ لینے سے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں جان لیں۔ تاکہ کیس کو سمجھنا آسان ہوجائے۔ فلسطین مشرق وسطی یا عرب دنیا کا ایک اہم مسلمان ملک ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے فلسطین مشرقی بحیرہ روم کے ساتھ واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں لبنان وشام، مشرق میں اردن اور جنوب مغرب میں مصر سے ملتی ہیں۔ مغرب کی طرف سے یہ  ملک بحیرہ روم کے ساحل سے ملا ہوا ہے۔

 موجودہ  وقت میں فلسطین کے دو حصے ہیںَ ۔ فلسطین کا  ایک حصہ مغربی کنارہ کہلاتا ہے جو لبنا ن کے مغربی حصے اور بحیرہ مردار سے ملاہوا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر فلسطینی عرب آباد ہیں اور یہاں جزوی طورپر  پی ایل او کی  فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم ہے۔  جس کے سربراہ محمود عباس ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کے زیر انتظام اور حکومت کا دوسرا بڑاعلاقہ غزہ کی پٹی ہے، جو بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر مصری سرحد کے قریب واقع  ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ جہاں حماس کی حکومت قائم ہے۔  فلسطینی مسلمانوں کے زیرانتظام ان دو علاقوں کے درمیان تقریبا 90 کلومیٹر سے زائد اسرائیل کا علاقہ حائل ہے۔  بیت المقدس (یروشلم) یہاں کا وہ تاریخی شہرہے جو تینوں آسمانی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے لیے نہایت مقدس مقام ہے۔  اسرائیل اور فلسطینی دونوں اس شہر کو اپنا اپنا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یوں فلسطین تاریخ، ثقافت اورمذہبی طور پرنہایت اہمیت کا حامل خطہ ہے۔

فلسطین چونکہ انبیا کی جائے پیدائش ہے اسے قرآن نے ارض مقدسہ کہا ہے ،  یہ  ابتدائی طورپر کنعانی اور یہود بنی اسرائیل کی جائے پیدائش رہا ہے ، جہاں حضرت  داود علیہ السلام  پر زبور اور حضرت موسی  علیہ السلام پر تورات  نازل   کی گئی ۔ یہ علاقہ  عیسائیت کی جائے پیدائش بھی رہا  ہے۔ جہاں حضر ت عیسی علیہ السلام پیداہوئے اور ان پر انجیل نازل کی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر انبیا بنی اسرائیل بھی یہاں پیداہوئے اور ان پر کئی آسمانی صحیفے نازل ہوئے۔

بعد میں  یہ علاقہ  حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمان کے قبضے میں آیا۔ ڈیڑھ دوسوسال صلیبوں کے قبضے کو نکالا جائے تو تاریخی طور پر  یہ علاقہ زیادہ تر مسلمانوں کے قبضے میں  رہا ہے۔ 1918 میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر یہ علاقہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا ۔  اور پھر 1948 میں یہاں اسرائیل کا قیام عمل میں لایاگیا۔

فلسطین کے علاقہ   میں یہودیت ، سامرییت ، عیسائیت  اور اسلام  سب کے لئے مقدس مقامات موجود ہیں۔ یہ خطہ تاریخ میں مختلف سلطنتوں اور تہذیبوں کے زیر اثر رہا ہے جس کے نتیجے میں ،  اس علاقے نے دنیا کے  مختلف انسانی  نسلوں  ،  تہذیبوں اور مذاہب  کی میزبانی کرتا رہا  ہے۔

اسرائیل کا قیام

اسرائیل دنیا میں یہودیوں کا وہ واحداکثریتی ملک ہے جسے فلسطینی سرزمین پر 1948 میں قائم کیا گیا۔ اسرائیل خود کوجمہوریہ یہودیہ کہلاتاہے یہ وہ  ملک ہے جو یہودی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا اور یہاں دنیا کی یہودی اکثریت رہائش پذیر ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ  605 تا 562 قبل مسیح  بخت نصر کے حملے اور یہودیوں کی اس علاقے سے بے دخلی اور تتربتر ہونے کے بعد تاریخ میں یہودیوں کو کوئی  باقاعدہ ملک حاصل کرنے اور حکومت قائم کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پوری دنیا کے علاوہ  یورپ میں بھی  یہ لوگ تتربترہوکر زندگی گزارتے  رہے اور مختلف علاقوں میں  رہائش پذیر رہے۔

یورپ میں جب قومی اور جمہوری ریاستیں وجود میں آنا شروع ہوگئیں تو یہودیوں کو بھی اپنا ملک حاصل کرنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خیال آنا شروع ہوا۔ اور یہی خیال اسرائیل کے آغاز کا سبب بنا۔

یہ لوگ چونکہ ذہین،  بزنس مین اور سرمایہ دار ہوتے تھے۔ اس لئے  اپنے سرمائے کے بل بوتے پردنیا کی بااثرشخصیات اور ملکوں سے روابط بڑھانا شروع کردئے۔ اس مقصد کیلئے صہیونی تنظیم  بھی قائم کردی۔ اور جنگ عظیم اول کے دوران اپنے سرمائے کے ذریعے اتحادی ملکوں کی خوب مدد کی۔

یوں یہودی اور یہود تنظیمیں اتحادی ملکوں کے قریب  ہوتے  چلےگئے۔ اس دوران طاقت ور ملکوں اور شخصیات سے وہ ایک ہی مطالبہ کرتے کہ ہمیں اپنا  ایک ملک چاہیے اور اپنی حکومت چاہیے۔ اس کیلئے آپ ہماری مدد کریں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمائش کرتے کہ فلسطین میں ہماری حکومت کے قیام کیلئے راستہ اور مدد فراہم کریں۔

پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیاتھا جو ہار گئے اور نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے اتحادی ملکوں نے آپس میں بانٹ دیے۔ یوں فلسطین 1918 میں خلافت عثمانیہ کے قبضے سے نکل کر برطانیہ کے زیر تسلط چلاگیا۔ تب سے یہودیوں کی کوششیں بھی تیز ترہوتی چلی گئیں۔ اور برطانیہ نے بھی حامی بھر لی کہ فلسطین کے کچھ علاقوں میں ایک یہودی ملک بنا کریہودیوں کی حکومت کے قیام کو ممکن بنایا جائے گا۔

اس مقصد کیلئے پس پردہ برطانوی حکومت اور یہودی تنظیموں کے درمیان  ساز باز جاری رہی۔ پھروہی ہوا کہ 29 نومبر، 1947ء کو برطانیہ کے اثرورسوخ  اور دباو کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک یہودی ملک قائم کرنے کی منظور دے دی۔  اور14 مئی، 1948ء کو ڈیوڈ بن گوریان نے  فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے نام سے ایک  یہودی  ملک قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ قیام کے اگلے ہی روز یعنی 15 مئی 1948 کو ہمسایہ عرب ملکوں نے اس ملک کے قیام کو مستردکرتے ہوئے اس پر حملہ کردیا۔ تب سے اسرائیل قائم ہے اورپڑوسی ملکوں سے اس کی کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔

اسرائیل کا مرکزی شہر تل ابیب ہے۔ جو اس کا معاشی حب بھی ہے۔ جبکہ اکثریتی آبادی والا شہر یروشلم ہے۔ اسرائیل کی کل آباد 2014 کی مردم شماری کے مطابق ساڑھے 81 لاکھ  کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 61 لاکھ یہودی   نسل کے لوگ جبکہ باقی  20 لاکھ کے لگ بھگ لوگ عرب نسل کے لوگ ہیں۔

اسرائیل کے لوگ نسلی اعتبار سے اشکنازی یہودی، مزراہی یہودی، فلسطینی، سفاردی یہودی، یمنی یہودی، بدو، دروز اور دیگر بے شمار گروہ موجود ہیں۔

  فلسطین اسرائیل تنازعہ  اور جنگیں

عرب اسرائیل پہلی جنگ 1948

14مئی 1948 کو  اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا  گیا۔ اعلان کے ایک ہی دن بعد 15 مئی 1948 کو عربوں نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مصر، عراق، شام، لبنان اور اردن کی مشترکہ افواج نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ تاہم اس جنگ میں اسرائیل کا پلہ بھاری رہا۔ یہ جنگ 1949 میں ایک امن معاہدے کے تحت ختم ہوگئی۔

عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ

چھ روزہ جنگ جسے عرب اسرائیل 1967 کی جنگ اور عربی میں حرب الایام الستہ بھی کہاجاتاہے۔ یہ جون 1967 میں چھ دن کیلئے لڑی گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کو  کامیابی ملی جبکہ عرب اتحادی ملکوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اور عرب اس جنگ میں شکست کھاگئے۔ اس جنگ کی ابتدا یوں ہوئی کہ مصر  کویمن میں اپنی فوجی مشن کی کامیابی پر غلط فہمی لگ گئی کہ وہ اب ایک طاقت ور ملک  بن چکا ہے۔ اب اسرائیل اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔  اس کے ساتھ ہی اپنے اتحادی ملک روس پر بھی غیرضروری اعتماد کربیٹھا۔ نتیجہ میں اسرائیل کو دھکمیاں دینا شروع کردیں ۔ جبکہ اسرائیل جنگ کیلئے  پوری تیاری کرکے بیٹھا ہوا تھا۔

اس کے علاوہ  مصر نے ابنائے عقبہ کو جہاز رانی کیلئے بندکرکے اسرائیل کی بھی ناکہ بندی کردی۔ جواب میں امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے اقدام کرکے مصرپر اچانک حملہ کردیا۔ اس جنگ کا اختتام مصر کی ناکامی پر ہوا۔

جنگ یوم کپور

عرب اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی یہ چوتھی بڑی لڑائی تھی ۔ جو اکتوبر 1973کو لڑی گئی۔ یہ جنگ عرب اتحادی ممالک مصر، شام، اردن اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔ یوم کپور یہودیوں کی خاص تہوار کا دن ہوتا ہے۔ جب اسرائیلی اس تہوار میں مصروف تھے تب مصر اور شام نے جزیرہ نمائے سینا اور گولان کی پہاڑیوں پر حملہ کردیا۔ جزیرہ نمائے سینا 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مصرسے چھین لیا تھا۔ جبکہ اسی جنگ میں  گولان کی پہاڑیاں شام سے چھین لی تھیں۔ اس جنگ کے ذریعے مصر اور شام خاص کر اپنے علاقے اسرائیل سے چھڑانا چاہ رہے تھے۔

اس جنگ کی ایک اور بڑی وجہ نہرسوئیز کی بندش تھی۔ نہرسوئزاور اس کی آمدنی مصر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر بھی قبضہ کرکے اسے بند کردیا تھا۔ جس سے مصر کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہاتھا۔ ستمبر1975 میں ایک معاہدے کے تحت مصر نے نہرسویز کی کمان سنبھالی اور اسے جہاز رانی کیلئے  دوبارہ کھول دیا۔ یہ جنگ بھی اقوام متحدہ نے صلح معاہدہ کرواکر ختم کرادی۔

لبنان اسرائیل جنگ 1982

اس جنگ میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کردیا تھا۔ جو 6 جون 1982 کو شروع ہوا۔ اسرئیل کی نظر میں اس جنگ کا مقصد لبنان کی ایک عسکری تنظیم ابوندال کے خلاف آپریشن کرنا تھا۔

الفتح اور حماس کون

حماس

حماس فلسطینی مسلح مجاہدین کی ایک تنظیم ہے۔ جو اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں۔ اس تنظیم کی بنیاد 1980 کی دہائی میں تنظیم آزادی فلسطین یا پی ایل او اورمسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس تنظیم کے سابق سربراہ وفلسطینی اتھارٹی کے سابق صدرجناب یاسر عرفات مرحوم کے نظریے کی مخالفت پر رکھی گئی تھی۔ حماس میں کئی اور عسکری دھڑے بھی شامل ہیں۔ مثلا القسام بریگیڈ، الاقصی بریگیڈ اس کی اہم ونگ  ہیں۔ حماس نے اسرائیل پر کئی کامیاب حملے بھی کئے ہیں۔

اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان 1993 میں اوسلو میں ایک امن معاہدہ ہوا تھا۔ جس کے مطابق اسرائیل اور پی ایل او نے ایک دوسرے کی حیثییت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ مخصوص شرائط پر ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طورپر رہنے کا بھی معاہدہ کیا تھا۔ تاہم حماس نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کردیا۔ اور اعلان کیا کہ ہم اسرائیل کوایک انچ زمین بھی دینے کو تیار نہیں۔

حماس اور اس کی ذیلی عسکری ونگز مثلا اسلامی جہاد، الاقصی بریگیڈ  اور القسام بریگیڈ وغیرہ اسرائیل پر وقتا فوقتا حملے کرتی رہتی ہیں۔ جن سے اسرائیل اور فلسطینوں میں کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ حالیہ کشیدگی بھی 8اکتوبر2023کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملے کے نتیجے میں جاری ہے۔

حماس کی غزہ پٹی پر حکومت

حماس غزہ میں بہت مقبول جماعت بن کر ابھری ہے۔ سن 2006 میں فلسطین میں پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میں حماس فاتح جماعت بن کرابھری۔ 2007 میں پی ایل او کی ذیلی تنظیمات مثلا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور فتح تحریک کے خلاف کاروائی کرکے غزہ پر پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب حماس کا غزہ کی پٹی پر پوری طرح کنٹرول ہے۔

چونکہ غزہ کی حکومت اور انتظام پر حماس کا کنٹرول ہے۔ اور حماس اسرائیل کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے۔ ردعمل میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو دشمن علاقہ قراردے رکھا ہے۔ اور یہ علاقہ پوری طرح اسرائیل کے محاصرے اور ظلم وستم کا شکار ہے۔

الفتح تحریک

الفتح تحریک پی ایل او کی عسکری تنظیم ہے۔ چونکہ پی ایل او کی جزوی حکومت مغربی کنارے کے بعض علاقوں پر قائم ہے  جسے عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نمائندہ حکومت تسلیم کی جاتی ہے ۔ لہذا الفتح کے لوگ زیادہ عسکریت کے حامی نہیں ہیں۔ ویسے بھی پی ایل او کے اوسلو معاہدے کے بعد یہ لوگ پرامن رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس حماس اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کی حامی تنظیم ہے۔ یہی ان دونوں تنظیموں کے درمیان فرق ہے۔

  فلسطین اسرائیل تنازعہ  کی وجوہات

اسرائیل اور فلسطین میں تنازعات کی متعدد وجوہات ہیں۔  جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

اسرائیلی ریاست کا قیام

مئی 1948 کو فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک  یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس کے ساتھ ہی فلسطین میں موجود مسلمانوں کو جبرا اوربزورو زبردستی  اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ آج تک یہ لاکھوں فلسطینی اپنے علاقے اور ملک سے دور مہاجرکیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔  یہ   فلسطین اسرائیل تنازعہ   کی بہت بڑی وجہ ے۔

اب فلسطینی مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ بے دخل کئے گئے ان مسلمانوں کو واپس اپنے علاقوں میں بسنے دیا جائے جبکہ دوسری طرف اسرائیل ان مہاجرین کو واپس لانے کا بالکل حامی نہیں۔ فلسطین او راسرائیل کے درمیان یہ ایک بڑا تنازعہ ہے۔

دوریاستی حل کا مطالبہ

فلسطینی چاہتے ہیں کہ ان کیلئے ایک مستقل ریاست قائم کی جائے جو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے تمام علاقوں پر مشتمل ہو ۔ فلسطین کے ان علاقوں میں یہودی بستیاں موجود نہ ہوں۔ اور مشرقی یروشلم ، بیت المقدس اس کا دارالخلافہ ہو۔ لیکن یہ سب باتیں اسرائیل کو تسلیم نہیں۔ مثلا وہ یروشلم شہرپر خود پورا کنٹرول چاہتا ہے۔  اور یہودی بستیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔

مقبوضہ علاقوں کا تنازعہ

فلسطینی مسلمان چاہتے ہیں کہ اسرائیل 1967 کی پوزیشن پر چلا جائے۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ سارے علاقے واپس کئے جائیں۔ لیکن اسرائیل قطعا ایسا کرنے کو تیار نہیں یہ چیز بھی   فلسطین اسرائیل تنازعہ   کی بڑی وجہ سے۔ کیونکہ اسرائیل نے ان علاقوں میں یہودیوں کیلئے بے شمار بستیاں تعمیر کروائی ہیں۔ اب ان علاقوں کو چھوڑنے کا بالکل اراد نہیں رکھتا۔ یہ بھی دونوں  میں  تنازعہ  کی بڑی وجہ ہے۔

  فلسطین اسرائیل تنازعہ- اسرائیلی باڑ

یہ باڑ اسرائیل نے اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے جگہ جگہ لگائے ہیں۔ یہ کنکریٹ کی دیواریں ہیں جو مسلمان بستیوں اور یہودی بستیوں کے درمیان اٹھائی گئی ہیں۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت اذیت کا سامنا  کرنا پڑتاہے۔ مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ یہ باڑ ختم کردئیے جائیں۔ جبکہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔ چنانچہ یہ بھی  ایک تنازعہ ہے۔

بیت المقدس کی آزادی

مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مسلسل کشیدگی کی بہت بڑی وجہ مسجد اقصی ہے۔ کہ مسلمان مسجد اقصی سے کی حفاظت اور آزادی چاہتے ہیں جبکہ یہودی اسے گراکر اس کی جگہ اپنا ٹیمپل بنانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس مسجد میں آزادی سے آنے اور عبادت کرنے نہیں دیتے۔ یوں اس کی وجہ سے بھی فریقین کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔

تاریخی اور تہذیبی اختلافات

  فلسطین اسرائیل تنازعہ   کی ایک بڑی وجہ ظاہر  ہے کہ مسلمان اور یہودی نہ صرف دو الگ الگ مذاہب کے پیروکار ہیں بلکہ یہ دونوں تاریخی تہذیبیں ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی پہچان اور  تاریخ ہے۔ اور کوئی بھی اپنی تہذیب کو چھوڑ نہیں سکتا بلکہ اس پراپنی جان کا نذران پیش کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یوں اس وجہ سے بھی کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔  یوں تہذیبی اور مذہبی اختلاف بھی اس کشیدگی کا سبب ہے۔

فلسطین اسرائیل تنازعہ اور موجودہ جنگ

  فلسطین اسرائیل تنازعہ کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ8اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کردیا۔اسرائیل پر 300 راکٹ فائرکئے اور  پیدل دستے ، موٹر سائیکلوں  پر سوار ہوکر اور پیراگلائیڈنگ سے اسرائیل کے اندر داخل ہوکر کاروائی کی۔ کئی اسرائیلیوں کو ماردیا اور متعد د اہم افسران کو پکڑ کر اپنے علاقے غزہ میں لے گئے۔

بس اس واقعہ کے بعد اسرائیل کو بہانہ مل گیا۔ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور تعاون کی یقین دہائی کرائی۔ جس کے نتیجے میں  اس وقت غزہ کی پٹی میں موت کی رقص کا ساماں ہے۔ معصوم بچوں ، عورتوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق  اب تک کوئی چودہ سو سے زائد  افراد شہید ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ٹن بارود نہتے فلسطینی مسلمانوں پر  گرائے جارہے ہیں۔

  فلسطین اسرائیل کے حالیہ تنازعہ  پر اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی سخت ناکہ بندی کے بعد غزہ کے شہریوں کو خوراک، پانی اور بجلی کی فراہمی بند ہونے کو ہے اور علاقے کی 23 لاکھ آبادی کے لیے کوئی مدد نہیں پہنچ رہی۔

عالمی طاقتیں جنگ کو روکیں۔

اس موقع پر اقوام متحدہ او رد یگر عالمی  طاقتوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے فریقین میں جنگ بندی  کروائیں۔ تاکہ معصوم جانیں اور املاک نقصان سے بچ جائیں۔  اس کے بعد  فلسطین اسرائیل تنازعہ   کے اس دیرینہ  مسئلے کو  ہنگامی بنیادوں پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق   حل کرنے کی ضرورت ہے۔  جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس علاقے میں امن کا قیام بظاہر ممکن نہیں دکھائی دیتا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button