Latest

قادیانیت پر عدالتی فیصلہ اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا مؤقف

قادیانیت

صدر وفاق لا مدارس  العربیہ پاکستان سابق چیف جسٹس  شریعہ اپیلٹ بینچ  سپریم کورٹ  مفتی محمد تقی عثمانی نے مبارک احمد قا دیانیت کیس میں کیے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو شرعی اور قانونی اعتبار سے غلط قرار دیا ہے  ۔ذیل میں ہم  اس عدالتی فیصلے اور مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب سے دیے گئے تفصیلی جواب کا جائزہ لیتے ہیں ۔

حقیقیت یہ ہے کہ قادیانیت اپنے ناپاک وجود کے ساتھ آج بھی عالمے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے مسلمہ کذاب کے نسلی جراثیم آج قادیانیت کے روپ میں دین اسلام کے خلاف اور نبی ﷺ کی ذات اقدس میں گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اپنے دجلوں فریب سے سادے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھسا  رہے ہیں حال ہی میں عدات عظمہ نے ملزم مبارک احمد قادیانی کو بری کر دیا ہے ۔ملز م پر تین مختلف دفعات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا پنجاب ہولی قرآن  (پرینٹینگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2011 کے تحت ملزم پر یہ الزام تھا کہ وہ قادیانی “تفیسر صغیر ” کو تقسیم کرنے اور پھیلانے کا مرتکب ہوا جو کہ مسلمانوں نے پاکستان کے عقیدے  کے خلاف ہے اور یہ قرآن کریم کی معانوی طور پر کی گئی ایک تحریف بھی ہے اس کے ساتھ  ملزم پر تعزیرات پاکستان کی دفاع 298 بی اور 295بی  کی خلاف ورزی کرنے کا الزام تھا اس حوالے سے عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی سے ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی  رکن اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے پوچھے گئے استفسار کے تفصیلی جواب نے فرمایا کہ:

          اس عدالتی فیصلے  کے دو حصے ہیں ایک وہ جس میں ملزم کی سزا اور رہائی سے متعلق بحث کی  گئی ہے جب کے دوسرا حصہ وہ ہے جس میں مذہبی آزادی کے موقع پر قرآنی آیات اور دستور کی وفات وغیرہ ذکر کی گئی ہے ۔

اس  سلسلے میں کیس کے پہلے حصے کے بارے میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ عدالت عظمہ نے ملز م کو بری کرنے کے لیے جن بنیادوں کا سہارا لیا وہ انتہائی کمزور ہے ۔عدالت نے پنجاب ہولی قرآن ایکٹ کے تحت ملزم کی سزا پر جرا ح کرتے ہوئے اسے اسایکٹ میں 2021 میں ہو نے والی ترمیم سے جوڑ کر بری کردیا ۔عدالت نے یہاں اس ایکٹ کو جسے 2011 میں منظور کیا گیا تھا اور کیس کی بنیاد بھی اسی قانون پر تھی یکسر نظر انداز کردیا اور اس کی کوئی توجیع فیصلے سےظاہر نہیں ہوتی ۔بتایا گیا ہے کہ جرم 2019 میں ہوا اور قانون 2021 میں منظور ہوا حالہ کہ 2011 کے قانون کے تحت ملزم سزا کا مستحق ٹہرتا ہے ۔

فیصلے کے دوسرے حصے کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب کا فرمانا ہے کہ دوسرے حصے میں مذہبی آزادی سے متعلق بحث کی گئی ہے اس حصے میں اگر چہ قادیانیوں کا ذکر نہیں کیا گیا مگر عدالتی فیصلی کبھی بھی غیر متعلقہ بحثوں پر مشتمل مضمون  نگاری نہیں ہوا کرتا  سیاق و سباق سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بحث قادیانیوں سے متعلق ہے اور عوام نے بھی اسے درست طور پر قادیانیوں سے متعلق کی سمجھا ہے ۔

اسی حصے کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب نے تفصیلی جواب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مذہبی آزادی کی عمومی بحث کو قادیانیوں کے باب میں لانا درست ہی نہیں کیونکہ عدالت عظمہ کے 1993 کے ایک تفصیلی فیصلے میں یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ قادیانیت عیسائیت اور ہندو مت وغیرہ کی طرح کوئی مذہب نہیں ہے (ملاحظہ ہو عدالت عظمہ کے ظہیر الدین بنام سرکار مقدمے کا تفصیلی فیصلہ 1993 )اس لیے قادیانیوں کو مذہبی آزادی کے قوانین کا فائدہ دیتے ہوئے کسی طرح بھی قادیانیت کی ترویج و تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

مفتی تقی عثمانی صاحب کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ پڑھنے اور سمجھنے والوں کا اس میں کوئی قصور نہیں کہ اس فیصلے میں قادیانیوں کو تحریف شدہ  قرآن شائع کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے ۔ لحاظہ اس کی بنا پر جو کچھ بھی  انتشار ہوا وہ کچھ بعید نہیں تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ قادیانی آئین پاکستان کے مطابق غیر مسلم ہیں ۔اور انہیں کسی بھی طور پر مملکت پاکستان میں تبلیغ و ترویج کی اجازت حاصل نہیں ہوسکتی لیکن مملکت پاکستان میں  قادیانی لابی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے جدو جہد  کر رہی ہے  جس سے کروڑوں فرزندان توحید و عاشقا ن رسول ﷺ کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے اور ان کی مذہبی طور پر دل آزاری کی جا رہی ہے جس کی کسی طور پر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اجازت نہیں دی جاسکتی

مملکت پاکستان لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے تحت حاصل کی گئی ہے اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت میں کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور رسول اکرم کی شان اقدس میں گستاخیوں پر ٹھوس مضبوط اور واضح قانون سازی کی جائے اور بے حرمتی اور گستاخی کے مرتکب افراد کو قرار و واقعی سزا دی جائےاور  اس سلسلےمیں کسی بھی قسم کی رعایت نہ کی جائےلہذا اعلیٰ حکام کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کے لیے غیر مبہم اور ٹھوس حکمت   عملی بنائیں اور اس پر سختی سے عمل پیرا بھی ہوں کیونکہ یہ کروڑ ہا مسلمانان پاکستان کے مذہبی تشخص اور دلی جذبات کا معاملہ ہے۔اقبال فرماتے ہیں کہ

وطن کی فکرکر نادان مصیبت آنے والی ہے۔

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔

فلسطین اسرائیل تنازعہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button